سیاسی و سماجی

الیکشن سے قبل ہندتوا ایجنڈا "رضا کار فلم”

از : محمد سلمان قاسمی محبوب نگر، خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

انسانی خیالات بننے بگڑنے میں مشاہدہ بڑا اثردار ہے انسان جو چیزیں پڑھتا ہے اس کے بارے میں تردد ہو سکتا ہے کہ یہ امرِ واقعی ہے یا نہیں، اسی طرح سنی ہوئی باتوں کے متعلق خلجان ہو سکتا ہے کہ یہ ہوائی باتیں اور رومرز ہوں، مگر جن چیزوں کو انسان بہ چشم خود دیکھتا ہے اور جو باتیں اس کے پردۂ نظر سے ٹکراتی ہیں وہ اس کا نظریہ اور اعتقاد بن جاتی ہیں،اور ان کے سچ و برحق ہونے کا وہ یقین کرنے لگتا ہے، فلم بینی اس وقت ایک روگ اور فیشن بن چکا ہے، بیشتر لوگ ہفتہ واری تفریح کے لیے مع عائلہ سینما ہال کا رخ کرتے ہیں، تو اہل باطل کے ذہنوں میں یہ خیال پنپا کے انہی فلموں، ڈراموں کے ذریعے لوگوں کی آئیڈیالوجی تبدیل کی جائے،چنانچہ عشق و محبت کی داستانیں، رومانوی فلمیں اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والے ڈرامے وغیرہ بنا بنا کر نسل انسانی اور نوجوانوں کے افکار کو پراگندہ کیا جانے لگا، پھر رفتہ رفتہ اپنے اندرون مخفی اسلام دشمنی کے تناظر میں وہ اپنے فلموں اور ڈراموں میں اسلام مخالف مدعوں کو بڑے شد و مد کے ساتھ پیش کرنے لگے اور ایسی فلموں کو منظر عام پر لانا شروع کیا جس سے عالمی پیمانے پر اسلام کی بدنامی ہو اور لوگوں کے ذہنوں میں عمومی طور پر اسلام کے تعلق سے منفی تاثرات قائم ہو جائیں؛ یہ مرض کئی صدیوں تک ہالی وڈ(یورپی) فلموں تک محدود رہا اور ہندوستانی فلمیں عشق و محبت کی کہانیاں، سیاسی شعور بیداری اور سماجی پیغامات اور باہمی میل ملاپ اور خاندانی تعلقات کی بحالی وغیرہ پر مبنی ہوا کرتی تھیں لیکن تقریبا ایک دہائی قبل سے بلکہ زعفرانی جماعت کی پشت پناہ پارٹی کے وزارت عظمی پر براجمان ہونے کے بعد ملک بھر میں ہندو مسلم کشا کشی زوروں پر ہو گئی تو اس کے زہریلے اثرات فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے اذہان پر بھی حاوی ہو گئے، اور انہوں نے بھی ایسی فلموں کو تشکیل دینا شروع کیا جس سے ملکی امان کی پامالی اور انتشار میں اضافہ ہو،اور اندر ہی اندر ان اسٹوری نگاروں اور ہدایت کاروں کو رائٹ ونگ ذہنیت کے لوگ اور برسر اقتدار پارٹی کے قائدین کی جانب سے خوب ستائش حاصل ہوئی نیز ان کو بیک سپورٹ اور ہمت و تقویت فراہم کی گئی، ان تمام کا مقصد محض ہندوستانیوں کے ذہن میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کا بیج بونا اور مذہبیت کی بنا پر ہندوؤں کو متحد کر کے ہندو راشٹر کی تشکیل ہے،عمومی طور پر آج جو فلمیں بن رہی ہیں ان کے گنے چنے کانسپٹ ہیں، ایک فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، اور امن عالم کا دشمن اور تمام فسادات کا ضامن قرار دیا جائے چنانچہ فلم سازوں نے اس کے لیے پڑوسی ملک اور ہندوستان کے مابین کشیدگی کا سہارا لے کر Uri the surgical strike, Article 15, Kabul express,Baby وغیرہ جیسی متعدد فلمیں بناکر ریلیز کیں جن میں ہند و پاک کے درمیان کی جنگوں جھڑپوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے بابت ہندوؤں کے جذبات کو ابھارا گیا، دوسرے ہندوستان میں ایک طویل عرصے تک مسلم بادشاہوں کا راج رہا، چونکہ وہ اپنے دور حکومت میں اسلامی حدود و قیود کے پابند تھے، ان کو احساسِ منصب کے ساتھ خلق خدا کے متعلق خدا کے حضور جواب دہی کی فکر بھی دامن گیر تھی تو اس لیے انہوں نے بڑی عدل گستری و انصاف پروری کے ساتھ ملک کے زمامِ اقتدار کو سنبھالا اور تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساویانہ رویہ اختیار کیا، لیکن اس تاریخ کو علی حالہ باقی رکھتے ہوئے ہندو راشٹر یا اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہ تھا تو انہوں نے مسلم بادشاہوں کی زندگیوں کو اپنی فلموں کا کانسپٹ بنایا جس میں ان کی حقیقی تاریخ کو مکمل مسخ کر کے من گھڑت قصوں کو وقائع اور حقائق باور کرانے کی کوشش کی گئی،چناچہ Padmavat, Samrath prithvi raj, Shivaji Maharaj Takht, وغیرہ فلمیں سامنے آئیں جن میں ہندوستانی مسلم فرمان رواؤں مثلا سلطان محمود غزنوی، علاء الدین خلجی، اورنگزیب عالمگیر اور دیگر مغل شاہوں کی کردار کشی کی گئی اور ان کو کہیں ظالم کہیں عاشق کہیں بزدل اور کہیں ہندوؤں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنے والا بتایا گیا،تیسرے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے لیے Lipstick under my burqa,72 hooren, Ham 2 Hamare 12 اور اور اس جیسی فلمیں منظر عام پر لائی گئیں تاکہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تمدن سے لوگوں کو چڑھ پیدا ہو جائے، پھر ان فلموں کو سیاسی رنگ دینے اور عین الیکشن کے وقت مسلمانوں کے خلاف غیض و غضب کو برانگیختہ کرنے کے لیے ملک میں پیش آمدہ دنگوں کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، چنانچہ حال ہی میں کچھ واقعات کو اس طرح فلمایا گیا کہ انتہا پسند لوگوں کے علاوہ سنجیدہ ہندو عوام بھی لفظ مسلم سن کر دانت پیسنے لگے چنانچہ مدھیہ پردیش اور بنگال الیکشن کے بالکل قریب The Kashmir Files کو ریلیز کیا گیا جس میں ایک طرفہ کہانی دسیوں جھوٹ شامل کر کے دکھائی گئی کہ مسلمانوں نے کشمیری پنڈتوں کا قتل عام کیا جب کہ جو مظالم کشمیری مسلمانوں نے جھیلے ہیں اور ابھی تک جھیل رہے ہیں اس کی جھلک تک نہیں بتلائی گئی، پھر کرناٹک الیکشن کے عین وقت The Kerala story کے نام سے ایک فلم ریلیز ہوئی جس میں یہ بتایا گیا کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کا برین واش کر رہے ہیں اور ان کو جبراً مسلمان بنا کر تقریباً 40 ہزار کی تعداد میں ہندو لڑکیوں کو عراق و شام اور افغانستان کی جہادی تناظم میں شمولیت پر مجبور کیا گیا حالانکہ حقیقی واقعہ صرف تین یا چار لڑکیوں کا ہے جن میں ہندو لڑکی صرف ایک تھی لیکن اس طرح کے مظالم جھیلنے والی لڑکیوں کی تعداد 40 ہزار بتا کر مسلمانوں کے متعلق غنڈہ گردی، جبری اسلام کی تبلیغ اور دہشت گردانہ ذہنیت کا زہریلا تاثر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی نامشکور سعی کی گئی۔
یہ آج کل کے ہندوستانی فلموں کا مختصر سا پس منظر ہے جس کو سیاسی رنگ دے کر ہندو مسلم کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اقلیتوں اور اکثری طبقے کے بین خلیج کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جنوبی ہندوستان بالخصوص حیدرآباد و تلنگانہ تہذیبی میل ملاپ اور اخوت و بھائی چارگی کا مظہر ہے یہاں کے لوگوں میں مذہبی تعصب اور نسلی امتیاز بہ نسبت شمالی ریاستوں کے کم ہے،تو یہاں پر نفرت کا بازار گرم کرنے اور لوگوں میں تشدد برپا کرنے کے لیے ہندتوا تنظیمیں اور بی جے پی قائدین اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں کے بابت جو تعصب لوگوں کے دلوں میں ڈالنا مقصود تھا اور ہندو ووٹوں کو یکجا کر کے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کا جو ان کا منصوبہ ہے وہ اس درجے کامیاب ہوتا نظر نہیں آیا اور ہندو طبقہ شمال کے بالمقابل کسی حد تک سیکولر ذہنیت پر بدستور باقی ہے تو شاہان ہند کی طرح نظامانِ دکن کو بدنام کرنے اور ان کے عدل و انصاف پر مبنی کریکٹر کو بگاڑ کر ظالم و جابر کے طور پر ان کو روشناس کرانے کے لیے ایک تیلگو فلم "رضاکار” کے نام سے ریلیز ہونے کو ہے جس کا ٹریلر حال ہی میں فلم سازوں کی جانب سے ریلیز کیا گیا، فلم کے خفیہ ایجنڈے کو واشگاف کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم مختصراً رضا کار قوم کی تاریخ جان لیں،نظام دکن جناب میر عثمان علی صاحب کی ایک نہایت باوفا مخلص اور قوم کا درد رکھنے والی شخصیت جناب قاسم رضوی صاحب ہیں انہوں نے باشندگان دکن اور حکومت دکن کے تحفظ کی خاطر بہت کچھ داؤ پر لگا دیا،اور اسی کے تئیں اقدامات کے تحت انہوں نے رضاکار تنظیم کی داغ بیل ڈالی،غرض 1947 کی بات ہے کہ جب اہل ہند برطانوی سامراج کی طویل غلامی سے خلاصی کی جنگ لڑ رہے تھے بالآخر سب کی مشترکہ کوششوں سے ملک آزاد ہوا،پھر بہ مشیت ایزدی تقسیم ہند کا قضیہ نامرضیہ افتاد ہوا اور اہل ہند جو اب تک متحدہ محاذ بنا کر فرنگیوں کے خلاف برسر پیکار تھے باہمی ہاتھا پائی کا شکار ہو گئے، ایسے میں اطراف کی چھوٹی ریاستیں کشمیر و دکن وغیرہ کو ہند یا پاک میں ضم اور منسلک کرنے اور ان کی خود مختاری کو سلب کرنے کے منصوبے بنائے جانے لگے جو پہلے سے ملکی قائیدن کے پلان کا حصہ تھا،سرزمین دکن پر گویا ایک طرح کے مہیب بادل منڈلا رہے تھے، ایسے آڑے وقت میں بل کہ آزادی سے کچھ قبل "1946 ہی میں دکن کی واحد نمائندہ جماعت کے با اعتماد صدر مولوی قاسم رضوی نے ملک(دکن) کو درپیش خطرات سے بچانے کے لئے عظیم جد و جہد شروع کی، 11 جون 1947ء کو فرمانرواءِ سلطنت حضور نظام نے عالم وجود میں آنے والے نو زائد آزاد ممالک ہندستان یا پاکستان میں شمولیت نہ کرنے اور کامل خود مختار و آزاد رہنے کا اعلان کیا ، 15 / اگسٹ 1947 کو ہندوستان کی آزادی کے بعد جب کہ اقطاع ہند میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی، لوٹ مار،اغواء، عصمت ریزی اور قتل وغارت گیری کا بازار گرم تھا، ہند کی فوج اور پولیس بھی اعلانیہ اس میں شریک تھی، حکومت کی مشنری مفلوج قانون کا احترام ختم اور امن و امان تباہ ہو گیا تھا، اس وقت بر صغیر ہند میں صرف اور صرف ایک حیدر آباد کی آزاد اسلامی سلطنت ہی ایسی تھی جہاں امن و امان اور ہند و مسلم اتحاد و بھائی چارگی، مذہبی و شخصی آزادی اور خوش حالی کا دور دورہ تھا، حیدرآباد کی غیر مسلم رعایا چین و سکون کی بانسری بجا رہی تھی ؛ ہند یونین اور اسٹیٹ کانگریس نے حیدرآباد کے مسلم اقتدار کے خاتمہ اور اس کی ہند یونین میں شرکت کے لئے دباؤ ڈالنے اور ملک کے اندرونی امن و امان کو درہم برہم کرنے کے لئے جب اپنے تخریبی منصوبوں پر عمل کرنا شروع کیا تو قائد محترم قاسم رضوی نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر اپنی حکومت کی مدد کرنے اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی حملوں کی مدافعت کرنے اور اندرونی امن و اتحاد کی بر قراری کے لئے رضا کار تنظیم کو نیم فوجی بنیادوں پر مستحکم کرنا شروع کیا، حیدرآباد کا کوئی مسلم نوجوان ایسا نہ تھا جو اس حب الوطن تحریک میں شریک میں نہ ہو، بچے اور پردہ نشین خواتین تک سب ہی اس تنظیم سے وابستہ تھے، عثمانیہ یونیورسٹی، کالجوں و مدارس کے طلبہ اور عام نوجوانوں نے فوجی تربیت کو اپنا مطمح نظر بنالیا تھا،ہر جگہ تجربہ کار ماہر فوجیوں کی نگرانی میں تربیت کے مراکز قائم کئے گئے تھے، مجلس کا ہر رکن اپنا روز مرہ کا لباس ترک کر کے ہمیشہ رضا کار ڈریس ہی میں ملبوس رہتا تھا، کاروبار نماز اور نماز عید کے وقت بھی وردی میں رہتا حتی کہ نوجوان اپنی شادی کے موقع پر بھی دولہا کے روایتی لباس کے بجائے رضا کار یونیفارم ہی زیب تن کرتا تھا ، تنظیم رضا کاران میں ہندو برادران وطن بھی ہزاروں کی تعداد میں جن میں تمام غیر مسلم فرقے، لنگایت ، سکھ، مرہٹے ، راج پوت کا ئستھ اور پست کردہ اقوام کے افراد شامل ہیں، عملاً شریک تھے،ملک کی غیر مسلم اکثریت رضا کار تنظیم اور اس کے قائد کو اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کا محافظ اور اپنے وطن عزیز کی سرحدوں کا نگہ بان سمجھتے تھے،تو حکومت ہند نے حیدرآباد کی آزادی یا ہند یونین میں شرکت کے فیصلہ کے لئے اپنی نئی پیش کردہ استصواب عامہ کی شرط سے انحراف کیا تھا ہے، رضاکار ڈسپلن کے پابند تھے، جب تخریب کاروں کی شرانگیری حد سے بڑھ جاتی اور حیدر آباد کے علاقوں پر ہند کی سرحدوں سے مسلح افواج کے حملے کئے جاتے تو رضا کار دستے ان کی سر کوبی اور مدافعت کا فرض تن دہی سے انجام دیتے۔گویا دکن کی حفاظت ان کا اولین مشن تھا”۔( سقوط حیدرآباد اور پولیس ایکشن)
اس اجمالی تعارف سے پتہ چلا کہ رضاکار تنظیم کن عوامل و اسباب کے پیش نظر وجود میں آئی اور اس کے بنیادی اہداف و مقاصد کیا تھے گویا یہ تنظیم سرزمین دکن کی داخلی امن بحالی اور ہندوستان میں اس کے انضمام سے دفاع کی خاطر قائم کی جانے والی نظامِ حیدرآباد کی ایک آرمی تھی لیکن ان میں کچھ لوگ ذاتی مفادات کے لیے فسادات بھی کیے، اس پر مستزاد بعض شر پسند ہندو رضاکاروں کی وردی اور لباس زیب تن کر کے مہاراشٹر اور دیگر علاقوں میں چوری، دنگا اور لوٹ مار کیا کرتے تھے، جو در پردہ اس تحریک کو بدنام کرنے اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنے کی ایک مذموم سازش تھی، یہ رضاکار قوم کی اختصارًا سرگزشت ہے، مگر جو فلم اس نام سے منظر عام پر آنے والی ہے اس میں حقیقت کو سرے سے بدل کر دن کو رات بنا کر دکھایا گیا ہے اور جھوٹ کو بڑی ملمع سازی کے ساتھ سچ بتانے اور دکن کے مسلمانوں کو حیدرآبادی ہندوؤں کے حق میں ظالم و قاہر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، فلم کا جو ڈیڑھ منٹ کا ٹیزر ریلیز ہوا اس میں یہ بتایا گیا کہ رضاکار قوم سے وابستہ مسلمانوں نے مندروں کو منہدم کیا ہے، ہندو پجاریوں پر جور و جبر کر کے ان کے مذہبی تشخصات کی پامالی کی ہے، ہندو عورتوں اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک اور مار پیٹ کی ہے، ہندوؤں کے املاک کو لوٹا اور نظام دکن کے حکم پر جبرًا ان کو اسلام لانے پر مجبور کیا اور انکار کرنے والوں کو زد و کوب کرکے قتل کے گھاٹ اتاردیا گیا یہ تو اس دو ڈھائی منٹ کی ویڈیو کلپ سے مقتبس تجزیہ ہے باقی فلم کن من گھڑت واقعات پر مبنی ہے یہ تو اس کے ریلیز کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
ظاہر سی بات ہے کہ ہر شخص فطری طور پر اپنے مذہب کے تعلق سے نہایت حساس اور جذباتی واقع ہوا ہے، جب وہ اس طرح کے پروپیگنڈے پر مبنی فلم کا بہ چشمِ خود مشاہدہ کرے گا تو لامحالہ مسلمانوں کے تعلق سے زہریلا اثر اس کے رگوں میں جوش مارنے لگے گا اور الفت کی جگہ نفرت اس کے دل میں افتاد ہوگی اور معاشرتی امور سے لے کر معاملات تک اور اعیاد و تقاریب کے مواقع ہوں یا کچھ اور ہر جگہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کرے گا، اور کسی نہ کسی درجے میں اس کے ذہن پر یہ فکر سوار ہوگی کہ یہاں ریاست میں اور ملک کی وزارت عظمی پر ایسی پارٹی کی حکومت قائم ہونی چاہیے جو ان کے جان و مال کے ساتھ مذہبی اقدار کی محافظ اور ہندو ازم کے شیوع میں معاون ثابت ہو اور جس طرح مسلمانوں نے ماضی میں ان کی قوم اور مذہب پر ظلم ڈھایا ہے(اس کے اپنے گمان کے مطابق) اس طرح ان کے ساتھ بھی انتقامی کاروائی کی جائے، اور ان کے مذہبیات و ملی تشخصات پر پابندیاں عائد کر کے اسلام کی ترقی کو مسدود کردیا جائے، بہر کیف یہ فلم 2024 کے ایم پی الیکشن سے پیشتر مسلمانوں کے بابت ہندؤں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا ایک ایجنڈا ہے، اب اس فلم کے ریلیز ہونے سے قبل مسلم عوام و خواص کی ذمہ داری کیا ہے ملاحظہ فرمائیں کہ اولاً تو اپنے قوم کے تابناک ماضی اور شاہکار کردار سے خود واقف ہو جائیں، غلط خیالات میں مبتلا ہونے کے بجائے حق کے سانچے میں اپنے افکار کو ڈھالیں، نیز علماء کرام بھی اپنی تقریروں، تحریروں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر لوگوں کی صحیح تاریخ کی جانب راہنمائی کریں اور ان کو اس سے واقف کرا‌ئیں اور اس طرح کے باطل ایجنڈوں سے پیشگی اپنی قوم کو آگاہ کر دیں اور ارباب اقتدار و صاحبِ منصب مسلمان سیکولر ذہنیت والے غیر مسلم لیڈران کی معیت و معاونت میں اس طرح کے فلموں پر امتناع عائد کرنے اور اس کے ریلیز کو روکنے کی زائد از مقدور کوشش کریں اور عدالت سے اس کے بایکاٹ کا مطالبہ کریں،یہ دنیا دارالاسباب ہے، بظاہر کامیابی کے آثار موجود نہ ہوں ہم اسباب اختیار کرنے کے مکلف ہیں باقی اسباب و مساعی کے مطابق نتائج پر آمد کرنا اور ہماری کوششوں کو بامراد بنانا اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے۔
کیے جاؤ کچھ لے کر نام خدا
کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے
کام یابی کچھ اور نہیں
کام کرنا ہی کام یابی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×