سیاسی و سماجی

آر ٹی ای ایکٹ ٢٠٠٩ء؛ مدارس کے وجود پر لٹکتی تلوار

مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ ڈائریکٹر العدل لیگل سرویسس کریم نگر، تلنگانہ

سن ۲۰۰۲ء میں چھیاسیویں 86ویں ترمیم ایکٹ کے ذریعہ دستور ہند میں تین بڑی تبدیلیاں کی گئی تھیں،پہلی تبدیلی:شق 21 کے بعد شق 21 (A) کا اضافہ کیا گیا، اس اضافہ کو”حق تعلیم”کا نام دیا گیا،آپ بخوبی  واقف ہوں گے کہ ہمارے دستور میں شق 12 تا 35 بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے کہ دستور کی روشنی میں ہر شہری کو کیا حقوق حاصل رہیں گے، انہی شقوں میں شق 21(A) کو لازمی حق تعلیم کے عنوان سے شامل کیا گیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے سبھی بچوں کو بلا لحاظ مذہب، رنگ و نسل مفت بنیادی تعلیم فراہم کرے، دوسری تبدیلی شق 45 میں کی گئی، یہاں اس سطر کا اضافہ کیا گیا کہ "ریاست چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو ابتدائی دیکھ بھال اور تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کرے گی یہاں تک کہ وہ چھ سال کے ہو جائیں”، تیسری تبدیلی؛ شق 51(A) کے تحت شق (K) کا اضافہ کیا گیا، اس اضافہ میں بچوں کے سرپرستوں کو بھی ذمہ داری دی گئی کہ وہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم کے مواقع فراہم کرے، شق 51(A)کو دستور کی زبان میں بنیاد ی فرائض کہا جاتا ہے…
دستور میں ترمیمات ہوتی رہی ہیں، تادم تحریر ایک سو چھ ترامیم ہوچکی ہیں، تازہ ترین ترمیم میں ملک کی پارلیمنٹ اور تمام ریاستی اسمبلیوں میں ایک تہائی تعداد خواتین کے لئے مختص کی گئی ہیں، دستوری ترمیم کا طریقہ کار عام قوانین و بلوں کے منظور کروانے سے مختلف ہوتا ہے، عام بل کے منظور ہونے کے لئے صرف اکثریت کی حمایت کافی ہے جبکہ دستوری ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کے مکمل ممبران کی نصف تعداد اور ووٹنگ کے وقت موجود اراکین کی دو تہائی تعداد کی حمایت ترمیم کے پاس ہونے کے لئے ضروری ہوتی ہے، اس تفصیل سے دستوری ترمیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ملک میں خواندگی کی شرح بڑھانے بلکہ اسے سو فیصد تک لے جانے کے لئے جہاں کئی اقدامات کئے گئے وہیں لازمی حق تعلیم کو باضابطہ دستور میں شامل کیا گیا…
اس ترمیم کے پاس ہونے کے بعد حکومت تعلیم کو عام کرنے کے ذرائع میں لگ گئی تا آنکہ سات سال بعد اگست ۲۰۰۹ء میں آر ٹی ای ایکٹ (رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ) لایا گیا جس کے ذریعہ ملک میں چھ سے چودہ سال کے بچوں کے لئے تعلیم کو لازمی قرار دے دیا گیا، اس قانون کے نفاذ کی تاریخ یکم اپریل ۲۰۱۰ء تھی، اس قانون میں کل انتالیس دفعات ہیں، دفعہ ۲ میں متعلقہ امور کی تعریفات رقم ہیں، اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (ف) میں”بنیادی تعلیم” کی تعریف میں لکھا ہے کہ "بنیادی تعلیم کا مطلب کلاس اول سے کلاس آٹھ تک کی تعلیم” اور اسی کے آگے ذیلی دفعہ (ن) میں اسکول کی تعریف میں مسطور ہے "اسکول یعنی وہ ادارہ جو (حکومت سے) منظور شدہ ہو اور بنیادی تعلیم فراہم کرتا ہو، چاہے وہ کلی یا جزئی حکومتی امداد سے چلے یا چاہے کسی قسم کی امداد نہ لے” ، ان دونوں تعریفات کا حاصل مدارس پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ضرب کی شکل میں نکل رہا تھا، کیونکہ مدارس نہ منظور شدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں کلاس ایک تا کلاس آٹھ کی بنیادی تعلیم ہوتی ہے لیکن چھ سے چودہ سال کے بچے خاصی تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ملک گیر سطح پر ملی تنظیموں نے احتجاج کیا، حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، تفصیلات کا یہاں موقعہ نہیں، کانگریس کا دور حکومت تھا اور کپل سبل وزیر تعلیم تھے، جون ۲۰۱۲ء میں اس قانون میں ترمیم کی گئی اور سیکشن نمبر ایک کے تحت دو شقوں کا اضافہ کیا گیا ایک یہ کہ اس قانون یعنی لازمی حق تعلیم کے نفاذ میں دستور کے آرٹیکل ۲۹ اور ۳۰ کو ملحوظ رکھا جائے گا اور دوسری شق یہ کہ اس قانون کا اطلاق مدارس اور ویدک پاٹھ شالاؤں و نیز کسی بھی مذہبی تعلیم دینے والے ادارے پر نہیں ہوگا، یعنی مدارس کواس قانون سے استثناء دے دیا گیا…
دسمبر ۲۰۲۱ء میں آر ٹی ایکٹ کے مذکورہ سیکشن اور اس سیکشن کے ذریعہ مدارس اور مذہبی اداروں کے استثناء کے خلاف سپریم کورٹ میں دو عرضیاں دائر کی گئیں، ایک جاوید ملک نامی بزنس مین کے ذریعہ سے اور دوسری عرضی بی جے پی لیڈر اور سپریم کورٹ وکیل اشونی اُپادھیائے نے، دونوں عرضیوں کا خلاصہ اور لب لباب یہی تھا کہ مدراس کا استثناء دستور کے خلاف ہے کہ اس سے ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں سے لازمی حق تعلیم چھینا جارہا ہے، اس استثناء کو من مانی اور غیر معقولیت سے پر بتایا گیا، مطالبہ کیا گیا کہ اس دستوری ترمیم اور قانون کا مقصد صرف تعلیم کے حق کو لازم کرنا ہی نہیں بلکہ سب کو یکساں تعلیم دینا ہےاوراس استثناء سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو پا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
۲۹ جولائی ۲۰۲۲ء سپریم کورٹ نے جاوید ملک کی عرضی خارج کردی ، اس سے پہلے گیارہ فروری ۲۰۲۲ء کو اشونی اپادھیائے کی عرضی بھی یہ کہہ کر خارج کردی گئی کہ وہ انہی سارے مواد کے ساتھ ہائیکورٹ رجوع کریں اور وہاں درخواست داخل کریں، نیز سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر کسی قسم کے تبصرے سے منع کردیا، وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر دہلی ہائی کورٹ میں یہ عرضی فروری ۲۰۲۲ء میں داخل کی، دہلی ہائی کورٹ کے اس درخواست کو سنجیدہ لیتے ہوئے دہلی حکومت، قومی تنظیم حقوق انسانی(نیشنل ہیومن رائٹس)، قومی تنظیم برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) اور دوسرے اداروں کو جواب دہی کی نوٹس جاری کی ہے، فی الحال یہ مقدمہ دہلی ہائی کورٹ میں چل رہا ہے، عدالت نے عرضی خارج نہیں کی ہے…
مذکورہ بالا تفصیل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں مدارس کا قانونی وجود بس اس ذیلی شق کے سہارے قائم ہے جو ۲۰۱۲ء میں کانگریس حکومت نے بل پاس کرکے آرٹی ای ایکٹ کے سیکشن نمبر ۱ کے تحت شامل کی تھی، جس طرح کوئی شق داخل کی جاتی ہے اسے نکالنے کا راستہ بھی وہی ہوتا ہے اور موجودہ حکومت کے لئے بظاہر یہ کوئی مشکل بھی نہیں ہے، مدارس؛ ملک میں مسلمانوں اور اسلام کے قومی وجود اور مذہبی تشخص و شناخت کی حفاظت میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور یہی اپنے فرض کی ادائیگی ایک لمبے عرصے سے کھٹک رہی ہے، مدارس کے وجود کو متہم کرنے کی سازشیں ماقبل میں بھی رچی گئی ہیں، عوام کی ایک معتد بہ تعداد جو مدارس کو بیکار سمجھ رہی ہے اس میں ان سازشوں کا بھی گہرا ہاتھ ہے، مدارس سے جڑے لوگوں کی حقارت، ان کی ذمہ داریوں کی بے وقعتی اور اس مخصوص حلیہ والوں کی نفرت دل میں بٹھانے کی عرصہ سے کوشش کی گئی اور اس میں ایک حد تک کامیابی ضرور ملی ہے، مقصد یہی تھا اور ہے بھی کہ اگر کبھی مدارس پر بالراست ہاتھ ڈالا جائے تو جوابی کاروائی میں وہ شدت نہ رہے جس کے آثار نمایاں ہیں..
اس آنے والے طوفان کو کیسے روکا جاسکتا ہے یا اس کے بالمقابل کیا تدبیر کارگر ہوسکتی ہے؟ یہ کسی ایک ذہن کا کام نہیں اور نہ ہی ایک تحریر میں ان تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے، یہ کام مدارس کے کاغذات کی درستگی و حساب وکتاب کی شفافیت سے کہیں بڑھ کر ہے، جب مدراس ہی غیر قانونی ہوجائیں یا یہ کہا جائے کہ ان میں چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کا باضابطہ داخلہ ہی مجاز نہ رہے تو مدارس بس عمارتوں کا نام بن کر رہ جائیں گے، سر دست جو کام کئے جاسکتے ہیں یا دور رس نگاہ والے اکابر اپنے حلقہ اثر میں اسے انجام دے رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ
1) اپنے مدارس میں مدرسہ کے نظام کی روح باقی رکھتے ہوئے انگریزی نصاب داخل کروایا جائے، یہ اس معنی میں نہیں کہ کسی بھی انگلش ٹیچر کو رکھ کر ایک دو مضامین پڑھا لئے جائیں، اس سے مسئلہ حل تو نہیں ہوگا لیکن مزید مشکل میں ضرور پڑجائے گا، یہ تدبیر کارگر بھی اس وقت ہوسکتی ہے جب حکومت کے ارادے نیک نہ سہی بد بھی نہ ہوں اور وہ کسی درجہ میں ہی سہی آپ کے وجود کو باقی رکھنا چاہتا ہو، کیونکہ اصل اعتراض یہی ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے عام تعلیم سے دور رہتے ہیں اور عوامی دھارے سے جُڑ نہیں پاتے، مزید بر آں مدرسہ کوئی منظور شدہ اسکول تو ہوگا نہیں تو اعتراض بہر حال باقی رہے گا کیونکہ اس مخصوص عمر کے بچوں کا کسی منظور شدہ ادارے میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے…
2)دوسری شکل یہ کہ مدرسہ میں زیر تعلیم چھ سے چودہ سال کی عمر کے طلبہ کا کسی قریبی اسکول میں باضابطہ داخلہ کروایا جائے اور وہاں کے امتحانات میں شرکت بھی کروائی جائے، یہ تدبیر ؛ شکلِ اول سے بہتر ہے کہ اس صورت میں یہ جواب ممکن ہے کہ ہمارے بچے مارڈن ایجوکیشن بھی حاصل کرتے ہیں جو کہ آر ٹی ای میں مطلوب ہے لیکن اس میں خرابی اس اسکول والے کی ہوگی جو اس سہولت میں آپ کا ساتھ دے گا کیونکہ حاضری وغیرہ کے مسائل وہاں اس کو پیش آئیں گے، جب طلبہ کل وقت مدرسہ میں گذاریں گے تو اسکول کی غیر حاضری لازمی رہے گی، علاوہ ازیں دوسرے قانونی مسائل پیش آسکتے ہیں جیسے آر ٹی ای کے تحت طلبہ کی ایک مخصوص تعداد پر ایک استاد کا تعین ضروری ہے، جب وہ مدرسہ کے بچوں کو اپنے ہاں گنتی میں دکھائے گا لیکن اس سے ملتی جلتی تعداد ٹیچرس کی نہ ہو تو وہ قانونی پکڑ میں آسکتا ہے…
3) اعلی ترین طریقہ تو یہ ہے کہ مدرسہ کے ساتھ اسکول کا قیام بھی اپنے عزائم میں شامل کیا جائے اور مدرسہ سے متصل ایک اسکول بھی قائم کیا جائے تاکہ اپنے ہاں زیر تعلیم طلبہ کی قانون کی رو سے”بنیادی تعلیم” کا نظم بھی ہوتا رہے اور ملت کے نونہالوں کے لئے بہترین دینی ماحول میں عصری تعلیم کا نظام بھی چلتا رہے…
4) اس سے بھی شاندار راہ جو اپنائی جاسکتی ہے وہ یہ کہ مدرسہ کے نام پر ہی اسکول کی منظوری لی جائے، جن کے ہاں ہاسٹل کا نظم ہے وہ کامیابی کے ساتھ اس طریقہ کار کو اپنا سکتے ہیں…
اس کے علاوہ بھی کچھ اور شکلیں ممکن ہیں کہ نکل سکیں، صاف بات یہی ہے کہ کسی بھی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ آپ کو پلان بی بھی بنانا پڑے گا، راقم کی سوچ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ کہ احتجاجات و مظاہرے اپنی جگہ درست لیکن کوئی بلا آہی جائے تو بچنے کی سبیل بھی ہونی چاہئے، بڑے بڑے سمندری جہازوں میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں رکھی جاتی ہیں جنہیں لائف بوٹس کہتے ہیں، جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کبھی طوفان میں یہ جہاز پھنس جائے تو ان کشتیوں سے جان بچائی جاسکے، بعینہ یہی طریقہ ہوائی جہاز کے سفر میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ اڑان بھرنے سے پہلے ممکنہ حادثات سے بچاؤ کی تدبیریں عملا کرکے بتائی جاتی ہیں، یہی عقلمندوں کا طریق رہا ہے، ہندوستان اب ایک شطرنج کی بازی بن چکا ہے اور شطرنج میں کامیاب وہی ہوتا ہے جو مخالف کی اگلی دو چالوں کا بھانپ چکا ہو نہ کہ وہ مخالف کی چال سے اپنے مہروں کے پِٹنے پر شکوہ شکایت کر رہا ہو…
برائے رابطہ:-
9966870275 muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×