فقہ و فتاویمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

کیا جھینگا کھانا حلال ہے؟ (ایک تحقیق)

جھینگہ دریائی جانور ہے، اور دریائی جانوروں میں سے مچھلی اپنی تمام اقسام کے ساتھ احناف کے نزدیک بالاتفاق حلال ہے۔ اب غور طلب مسئلہ صرف اتنا ہے جھینگا اقسام سمک میں داخل ہے یانہیںاور جھینگے کے مچھلی ہونے کے لئے اس کے خواص اور صفات لازمہ کے تعین کے بارے میں شریعت اسلامی میں کوئی منصوص دلیل نہیں ہے، اس لئے اس کی معرفت کا مدار مبصرین و ماہر حیوانات اور اہل لغت کی تحقیق پر ہوگا اور اگر ان میں اختلاف ہے، تو اس کے حکم میں بھی اختلاف ہوگا اوراگر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو حکم میں بھی اختلاف نہ ہوگا ۔
اس لئے جھینگا کے سلسلے میں شروع دور سے ہی علماء کی رائے میں اختلاف ہوتارہا ہے ، بعض نے حلال کہا، بعض اس کو احتیاطا ناجائز کہتے ہیں، البتہ اس مسئلہ میں چونکہ کوئی صریح اور منصوص دلیل نہیں ہے، مسئلہ کا مدار مبصرین ،ماہرین حیوانات کی تحقیق اور آراء پر موقوف ہے ، اس لئے جن کو یہ نظر آیا کہ یہ کیڑا ہے تو انہوں نے اس کے کھانے سے احتیاطا منع کیا بلکہ ناجائز کہا؛ البتہ جن لوگوں نے علمائے لغات اور خصوصا ماہرین حیوانات کی آراء کی روشنی میں اس کو مچھلی تصور کیااور اس کے خصائص اور امتیازات اس میں پائے انہوں نے اس کو صراحتا حلال بھی کہا ، البتہ احوط، اولی اوربہتر یہ ہے کہ اسکو کھانے سے پرہیز ہی کیاجائے ، جو تقوی کا درجہ ہے ،البتہ فتوی اس کی حلت ہی کا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل وآراء کی روشنی میں حرمت وحلت کے قائلین اوراس کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
ناجائز کہنے والوں کے دلائل
ناجائز کہنے والوں نے اسے ایک کیڑا ور حشرات الأرض شمار کیا ہے اور اس طرح اس میں انہوں نے کیڑے کی خصوصیات کا تذکرہ اس میں کیا ہے اور ائمہ سلف وخلف کی اس حوالہ سے بعض آراء پیش کی ہیں، جس کی بناء پر اس کو وہ کیڑے میں شمار کر کے اس کو حرام یا مکروہ تحریمی، یا مکروہ کہتے ہیں:
اس کی وجوہات میں چند ایک وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ یہ کیڑا ہے مچھلی نہیں۔
(۱) اس کی ٹانگیں ہوتی ہیں ، جن سے خشکی میں عام کیڑوں کی طرح چلتا پھرتا ہے، مچھلی کبھی چلتی نہیں کودتی ہے پھدکتی ہے۔
(۲)یہ خشکی میں ایک مدت تک زندہ رہ سکتا ہے، مچھلی چند ساعت کے بعد مرجاتی ہے۔
(۳) یہ کھانے میں قطعی طور پر مچھلی جیسا نہیں ہوتا ہے، اس کے اوپر گوشت قطعی نہیں ہوتا؛ بلکہ پکنے کے بعد اس کو توڑ کر کھاتے ہیں ،صرف خول ہوتا ہے؛ جبکہ مچھلی کو لحما طریا فرمایاگیا ہے، مچھلی کی بہت اقسام مثلا مار ماہی جو کہ سانپ جیسی ہوتی ہے، گنیڈ مچھلی مذکورہ چیزوں میں مچھلی سے متبائن نہیں ۔
(۴)ماہی گیر لوگ بتلاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں انڈے ہوتے ہیں ، اس کے انڈے باہر پروں کے اندر جھیل کے اندر ہوتے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ مچھلی کے انڈے نکالنے کے وقت مچھلی مرے گی؛ کیونکہ پیٹ توڑنا پڑے گا اور جھینگے کے ا نڈے نکالنے کے لئے پیٹ توڑ نے کی ضرورت نہیں ہے، انڈے نکال کر بھی وہ زندہ رہے گا۔
(۵) اجنبی آدمی اسی جھینگا کو دیکھ کر کبھی اس کو مچھلی نہیں کہے گا؛ بلکہ اس کو کیڑا کہے گا، اس کے علاوہ پانی میں کوئی جھینگا ایسا نہیں جو مچھلی کے جنس کا ہو، حضرت مولانا فخر الدین سابق شیخ الحدیث دارالعلوم نے درس بخاری میں فرمایا تھا کہ جس جھینگاکو علامہ دمیری نے حیاۃ الحیوان میں انواع سمک میں شمار کیا ہے، یہ وہ جھینگا نہیں اس جھینگا کو میری آنکھوں نے دیکھا ہے ، خاص طور سے اس کو دیکھ کر اور اس کو کھا کر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غالبا انواع سمک میں سے نہیں ، ممکن ہے وہ دمیری کا جھینگا کوئی اور ہو جیسا کہ شیخ نے فرمایا تھا کہ یہ وہ جھینگا نہیں ، اس کے علاوہ بعض کتب میں تو اختلاف کی تصریح موجود ہے، جیساکہ غالبا مجموعۃ الفتاوی مولانا عبد الحیء پر دونوں قول نقل کئے ہیں ۔
’’الدود الذی یقال لہ جھینگہ حرام عند بعض العلماء؛ لأنہ لا یشبہ السمک، فنما یباح عندنا من صید البحر انواع السمک، وہذا لا یکون کذلک، وقال بعضہم: حلال لأـنہ یسمی باسم السمک(۳؍۱۰۴، ۲؍۱۰۷)اور تذکرۃ االخلیل( ، ص: ۲۰۰مولانا خلیل احمد سہانپوری ) پر تو عدم جواز کا فتوی ہے، صاحب حیاۃ الحیوان نے’’ اریب ‘‘کو جھینگا فرمایاہے؛ جبکہ بعض لغات میں اس کا ترجمہ’’ مار ماہی ‘‘(سانپ کی جیسی مچھلی ) جو متفق علیہ مچھلی ہے لکھا ہے۔ (مصباح اللغات)بہر حال جس میں بعض علما ء حرمت کے قائل ہیں جیساکہ تذکرۃ الخلیل اور مجموعۃ الفتاوی مولانا عبد الحئمیں اول قول تو اگر ایسی چیز سے مذکورہ حدیث ’’دع ما یریبک الخ‘‘( شک میں ڈال والے چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک چیز اختیار کرلیا جائے ) کے تحت اجنتاب واحتراز کا فتوی ہو تو کیاخوب ہے، جھینگا اگر حلال ہوا اور نہ کھایا تو خدا تعالی گرفت نہیں کریں گے کہ جھینگا کو میں نے حلال کیا، تو کیوں نہ کھایا، اگر حرام ہوا اور کھالیا جیساکہ فتوی دیا جارہا ہے پھر تو خیر نہیں ؟
حلال کہنے والوں کے دلائل:
سمندری جانوروں میں حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دیگر جانور حلال نہیں ہیں اورجوبھی جانور مچھلی کی تعریف میں شامل ہے، وہ امام صاحب کے نزدیک حلال ہے اورمچھلی کی تعریف میں داخل ہونے اور نہ ہونے کامدار ماہرین حیوانات اور مبصرین کی آرا ء پر موقوف ہے اور ماہرین حیوانات اور مبصرین کی تحقیق اور رائے یہی ہے کہ دریائی جھینگہ مچھلی ہی ہے؛اس لئے اسے حلال کہتے ہیں اور اس مسئلہ پر ایک زمانہ سے بعض لوگوں کواشکال ہوتا رہا۔(مفتی شبیر صاحب فتاوی قاسمیہ: ج: ۲۴)
تحقیق و تفتیش کے باوجود کسی مبصر اور ماہر اور اہل لغات کا اختلاف اس ناکارہ کی نظر سے نہیں گذرا اور نہ ہی اہل لغات نے جھینگہ کو اقسام سمک سے خارج کیاہے اور تذکرۃ الخلیل کی اصل عبارت دیکھ لی گئی ہے کہ حضرت قدس سرہ کو عام سمک کی طرح اس میں گلپھڑے نہ ہونے کی وجہ سے جھینگا کے اقسام سمک میں شامل ہو نے میں تردد ہوگیا تھا اور تردد کی بنا پر حلت کا فتوی نہ دینا حضرت قدس سرہ کا تقوی تھا اور اس سے عدم جواز پر فتوی دینا لازم نہیں آتا اور اقسام سمک میں داخل ہونے کے لئے تین صفتوں میں سے صرف ایک کا پایا جانا کافی ہے۔
(۱) خشکی میں آکر تڑپنا اور پھدکنا۔
(۲) گلپھڑے کا ہونا اور اسی سے سانس لینا۔
(۲)کانٹے دار اور لائن دار پر یا دم کا ہونا اور بعض سمک میں تینوں صفتیں جمع ہوجاتی ہیں ، جیساکہ بام مچھلی میں ہے اور بعض میں صرف ایک یادوصفتیں ہوتی ہیں ، جیسے کہ’’ مار ماہی‘‘ کہ اس میں کانٹے دار پر نہیں ہوتے۔ نیز خشکی میں آکر کودتی بھی نہیں ؛ بلکہ سانپ کی طرح رینگتی ہے؛ البتہ اس کے صرف گلپھڑے ہوتے ہیں اور جھینگہ میں کانٹے دار دم ہوتی ہے اورخشکی میں آکر پھدکتا اور کودتا ہے؛ البتہ اس کے گلپھڑے نہیں ہوتے اور گلپھڑے ہر ایک سمک کے لئے جز لا ینفک بھی نہیں ہے۔ نیز خشکی میں آکرزیادہ دیر زندہ بھی نہیں رہتا ہے، اس کی زندگی کے بارے میں جو کہا گیا ہے، وہ مسلم نہیں ؛ اس لئے کہ تجربہ کر کے دیکھا گیا ہے کہ بعض سمک ’’جھینگہ‘‘ سے زیادہ دیر تک زندہ رہتی ہے اور سمک کے صفات کے بارے میں فتاوی عبد الحئمیں منقول ہے۔
’’إحدیہا إسقاط، وثانیہا انفتاح لحییہ، وثالثہا جناح ذو شواک بینہن ستور، وکذا الذنب، وبعض انواع السمک العلامات کلہا ولبعضہابعضہاکما شاہدنا‘‘۔ (فتاوی عبد الحئ قدیم : ۲؍۱۹۲)
اوراس کے علاوہ ناجائز کہنے والوں نے حضرت مولانا عبد الحئی لکھنو ی کا فتوی نقل نہیں فرمایا ہے؛ بلکہ صرف وہ عربی عبارت نقل کردی ہے کہ جس سے منکرین جواز کا قو ل بھی ثابت ہوتا ہے اور حضرت علامہ موصوف کا اصل فتوی جھینگہ کی حلت پر ہے اور ساتھ ساتھ حلت کے منکرین پر تردید بھی فرمائی ہے۔ علامہ موصوف کا اصل فتوی جو فارسی میں ہے ، وہ اس طرح ہے ۔
’’وجھینگہ کہ آں را ار بیان بکسر ہمزہ میگویند چنانچہ از صحاح وغیرہ مفہوم میشود حلال است چہ آں نوعیت از انواع سمک والسمک لجمیع انواعہ حلال‘‘ بالاتفاق یہی علامہ موصوف کے فتوی کی عبارت ہے، جس کو انہوں نے جھینگہ کی حلت میں تحریر فرمایاہے، پھر اس کے بعدناجائز کہنے والوں پر ان الفاظ کے ساتھ تردید فرمائی ہے کہ و ’’آنکہ قائل حرمتش شدہ اند منشا آں فہمیدن جھینگہ را خارج از اقسام سمک است ولیس کذالک‘‘ پھر اس کے بعد حمادیہ کی وہ عبارت نقل فرمائی ہے، جو اوپر نقل کی گئی ہے اور حمادیہ کی عبارت صرف منکرین حلت کی تردید کر کے ان کی دلیل کے ضعف کو ظاہر کرنے کے لئے لائے ہیں ، یہ پوری تفصیل فتاوی قدیم میں موجود ہے۔
اس لئے مبصرین حیوانات اور اہل لغات اور اہل فتاوی کی سولہ کتابوں کے حوالے حلت جھینگہ مچھلی کے حوالہ سے اس کی حلت نقل کی جاتی ہے تاکہ ان پر غور کر کے شبہات کا ازالہ کیاجائے۔
(۱) القاموس المحیط جو لغت کی مشہور اورمستند کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں ۔ الاربیان بالکسر سمک کالدود کہ جھینگہ کیڑے کی شکل میں ایک مچھلی ہے۔
(۲)منتہی الارب فی لغت العرب فارسی کی مشہور لغت ہے، اس میں لکھتے ہیں اربیان نوعی از ماہی است کہ آں را بہندی جھینگہ گویند کہ جھینگہ اقسام سمک میں سے ایک ہے، جس کو ہندوستان میں جھینگہ کہا جاتاہے۔
(۳)شمس اللغات ایک مستند کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں اربیان بفتح الف و با تازی ملخ آب و آں نوعی از ماہی خود است بہندی جھینگہ گویند کہ اربیان ایک مچھلی ہے، جس کو ہندوستان میں جھینگہ کہتے ہیں ۔
(۴) صراح لغت کی ایک مشہور کتا ب ہے، اس میں ہے کہ اربیان نوعے از ماہی (صراح : ۵۶۰)کہ جھینگہ از قسم مچھلی ہے۔
(۵)عرب و عجم کی مشہور کتاب تاج العروس میں ہے، والاربیان بالکسر سمک کالدود (تاج العروس : ۱؍۱۴۴)کہ جھینگہ کیڑے کی طرح ایک مچھلی ہے۔
(۶) المنجد اردو میں ہے کہ الاربیان جھینگہ مچھلی ہے (المنجد:ص: ۵۲)
(۷) المنجد عربی میں ہے بر غوث البحر نوع من صغر السمک تشبہ ہیئتہ البر غوث(المنجد عربی: ۳۲)کہ جھینگہ پسو کے مشابہ ایک چھوٹی مچھلی کی قسم ہے اور ا س کی دم میں مچھلی کی طرح کانٹے دار لائن دار پر ہے
(۸)فیروز اللغات(۳۹۷) میں ہے کہ جھینگہ ایک قسم کی چھوٹی مچھلی ہے ص:۔
(۹) علامہ دمیری منجملہ ماہرین حیوانات میں سے ہیں وہ اپنی کتاب حیا الحیوان میں نقل فرماتے ہیں کہ’’ الروبیان ہو السمک‘‘ کہ جھینگہ مچھلی ہی ہے۔
(۱۰)مخزن المفردات طب کی مشہور کتا ب ہے، اس میں یہ عبارت ہے کہ مچھلی جھینگہ ماہی روبیان حلال مچھلی ہے، اس کی مونچھیں لمبی ہوتی ہیں ، رنگ سفید ذائقہ شیریں بساندہ۔(مخزن المفردات)
(۱۱)تذکرہ داود الطائی میں ہے، روبیان اسم مضرب من السمک کہ جھینگہ مچھلی کی ایک قسم کا نام ہے۔
(۱۲) مشہور محقق علامہ امیر علی نے عین الہدایہ(عین الہدایہ : ۴؍۱۷۳) میں جھینگہ کو اقسام سمک میں شمار فرماکر مباح قرار دیا ہے۔
(۱۳)حضرت مولانا مفتی عبدالسلام صاحب جواہر الفتاوی میں لکھتے ہیں کہ علما مصر و علما عرب نے جھینگہ کے بارے میں لکھا ہے کہ دنیا میں اقسام سمک میں سب سے زیادہ ذائقہ دارجھینگہ مچھلی ہے۔’’الذالا سماک فی الدنیا و اغلاہا فیہا ‘‘الخ۔ (جواہر الفتاوی: ۲؍۵۹۷)
(۱۴)حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری دامت برکاتہم نے فتاوی رحیمیہ قدیم(۶؍۲۹۷) ، جدید زکریا (۱۰؍۷۷)میں بہت مفصل اورمدلل فتاوی جھینگہ کے اقسام سمک میں سے ہونے اور حلال ہونے پر تحریر فرمایا ہے ۔
(۱۵)حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے امداد الفتاوی (۴؍۱۰۴) میںعلامہ دمیری کا حوالہ دے کر بہت انشراح کے ساتھ جھینگہ کے دریائی مچھلی اور حلال ہونے پر اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلی فتوی صادر فرمایا ہے، جس کا ندائے شاہی میں شائع شدہ فتوی میں حوالہ دیا گیا ہے۔
(۱۶) حضرت علامہ ابو الحسنات، مولانا عبد الحء لکھنو ی نے اپنے فتوی میں جھینگہ کو مچھلی ثابت فرماکر حلال لکھاہے، اور ساتھ میں ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے، جو ایسے صفات کی بنا پر جھینگہ کو دائرہ حلت سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے علاوہا کابر میں سے کسی نے بھی جھینگہ کے بالا نشراح بالکل کھول کر ناجائز یاحرام ہونے پر فتوی نہیں دیا ہے اور جن اکابر نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے، انہوں نے صاف حلال ہونے کا فتوی دیا ہے، جیسا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی، حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری مدظلہم اور صاحب عین الہدای وغیرہم ہیں ۔
حضرت مفتی مہدی حسن صاحب اور حضرت تھانوی اور ہر زمانہ میں دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام تحقیقات کی روشنی میں اس کو مچھلی لکھتے آئے ہیں اور جو اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ہیں ، ان کے پاس ایسی مضبوط دلیل نہیں ہے، جو تسلیم کی جائے اسی موضوع پر فروری کے ماہنامہ ندائے شاہی میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ شاہی کے تمام مفتیان کرام کی اتفاق رائے سے سولہ کتابوں کے حوالہ کے ساتھ اس کے مچھلی ہونے پر ایک فتوی لکھا گیا تھا، موقع ہو تو اسے بھی معائنہ فرمائیں ۔
نیز اسی شمارے میں دارالعلوم دیوبند کا بھی ایک مفصل فتوی اس کے مچھلی ہونے پر جاری ہوا ہے؛ اس لئے ہم اس کو مچھلی سمجھ کر حلال کہتے ہیں ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نہیں کھاتے تھے، مگر ان کا نہ کھانا امت کے لئے عدم حلت کی دلیل نہیں ہے۔ جب ان سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا، توان کا یہ جواب تھا کہ میں نہ حلال کہتا ہوں اورنہ حرام کہتا ہوں ، مکروہ کہنا صحیح نہیں ، میں خود نہیں کھاتا اس سے بات صاف ہوجاتی ہے کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں ان کی رائے کسی ایک جانب مضبوط نہیں ہے؛ ا سلئے ان کے نہ کھانے کو حجت شرعی قرار نہیں دیا جاسکتا اور آپ کے مسائل اور ان کا حل نامی کتاب میں علما کے اختلاف کو ظاہر کر کے جانب کراہت کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے اور اس پر جودلیل پیش کی ہے، وہ ناتمام ہے،جو ماہرین حیوانات اور مبصرین کی تحقیق کے مقابلہ میں کوئی حیقیقت نہیں رکھتی اور جو عربی عبارت لکھی ہے، اس سے دریائی جھینگا کے بارے میں کوئی حکم صاف نہیں ان کی عبارت ہے۔’’السمک الصغار کلہا مکروہ التحریم‘‘ترجمہ: چھوٹی مچھلیاں سب مکروہ تحریمی ہیں ۔خود مچھلی کہہ رہے ہیں ، پھر کراہت کاحکم بھی ، مچھلی ہو تو کراہت ہی نہیں ہوئی۔ بہرحال وہ عبارت دریائی جھینگا کی کراہت یاحرمت پر مستدل نہیں(فتاوی قاسمیہ: ۲۴؍۱۳۲، مفتی شبیر صاحب ،مدرسہ شاہی مراد آباد،فتاوی رحمیہ : ۱۰؍۷۸)
معتدل رائے :
جھینگا مچھلی کی قسم میں سے ہے یا دریائی کیڑے کی قسم میں سے ہے ، اس کی تحقیق ضروری ہے، چند تحریروں کے مطابق جھینگا مچھلی کی قسم میں سے نہیں ہے بلکہ دریائی کیڑوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور حنفی مسلک کے اعتبار سے دریائی اشیا میں سے صرف مچھلی ہی کو اپنی تمام قسموں کے ساتھ کھانا جائز ہے، لہذا حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ جھینگا کھانے سے منع کرتے تھے اور مچھلی کی قسموں میں سے شمار نہ کرتے ہوئے حرام بتاتے تھے جیسے کہ فتاوی رشیدیہ (۴۵۴) ص: پر اس کی وضاحت موجود ہے، اور حضرت اقدس تھانویؒ’’ حیاۃ الحیوان ‘‘کے قول کے مطابق جھینگے کو مچھلی کی قسم میں شمار کرتے تھے جس کی بنا پر وہ جھینگا کھانے کو جائز اور حلال کہتے تھے جیسے کہ امداد الفتاوی : (ج:۴،ص:۱۰۱، اور مجموعۃ الفتاوی: ص:۴۹۷) پر اس کی تفصیل موجود ہے۔
اس لئے اکثر علما کے نزدیک دریائی جھینگے کی سبھی اقسام حلال ہیں: ( امدا د الفتاوی : کھانے کے حلال وحرام ومکروہ مباح چیزوں کا بیان : ۴؍۱۰۳، ۱۰۴، زکریا) تاہم اختلاف علما ء کی وجہ سے کوئی شخص اسے کھانے سے پرہیز کرے تو بات الگ ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ تکمہ فتح الملہم میں ائمہ ثلاثہ کے یہاں جھینگے کے حلال ہونے کا تذکرہ فرمانے ااور مذکورہ بالا علماء کے حلت کے حوالہ سے دلائل پیش کرنے کے بعد موجودہ تحقیق کا تذکرہ کرتے ہیں: موجودہ ماہرین حیوانات اس کو کیکڑے کی قسم قرار دیتے ہیں، پھر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ان جیسے مسائل میں زیادہ کھود کرید ، تحقیق وتدقیق نہیں کرنا چاہئے، جب کہ یہ مسئلہ سراسر مجتہدفیہ ہے ، خود ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس کی حلت اس کے حکم میں تخفیف کی باعث ہے ، لہٰذا اس کے حوالہ سے فتوی میں دینے میں شدت نہیں اختیار کرنا چاہئئے لیکن کھانے سے بچنا زیادہ احوط ، اولی اور بہتر ہے ۔’’ فلا ینبغی التشدید فی مسئلۃ الأریبان عند الافتاء۔۔۔۔۔۔۔ غیر أن الاجتناب عن أکلہ أحوط وأولی واأحری ‘‘( تکمۃ فتح الملہم : کتاب الصید والذبائح؍باب إباحۃ میتات البحر : ۳؍۵۱۳، ۵۱۴، دار العلوم کراچی)
مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری ؒ کی رائے نہایت معتدل ہے ، جو در اصل تمام تحقیق کا خلاصہ بھی ہے :
’’جھینگا دریائی جانور ہے اور دریائی جانوروں میں مچھلی حلال ہے اور جو مچھلی نہیں ہے وہ حرام ہے ، جھینگا میں اختلاف ہے ، بعض علما نے مچھلی سمجھ کر حلال کہا اور بعض نے کیڑا خیال کر کے منع کیا تو یہ جانور مشکوک ہوا اور مشکوک اپنی اصل پر محمول ہے ، جھینگا میں اصل مچھلی ہونا ہے ، کیڑا ہونے کا شبہ ہے؛ لہٰذا بنا بر اصل کے حلال ہے حرام قراردینا صحیح نہیں اور یہ بھی صحیح نہیں کہ جھینگا کیڑا ہے اس لئے کہ کیڑا پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور جھینگا مچھلی کی طرح انڈے سے پیدا ہوتا ہے نیز مچھلی کی دیگر علامتیں بھی جھینگے میں پائی جاتی ہیں اس لئے جھینگا حرام اور واجب الترک نہ ہوگا ،یہ فتوی ہے اوربچنے میں تقوی ہے ، اور تقوی مرتبہ کمال ہے ۔ کتب لغات وطب میں بالا تفاق ا س کی تصریح ہے کہ جھینگا مچھلی ہے‘‘(فتاوی رحمیہ: ۱۰؍۷۸) (فتوی کی تفصیل کے لئے دیکھئے ، امداد الفتاوی، فتاوی قاسمیہ، فتاوی دینیہ، تکمہ فتح الملہم ، کتاب النوازل ، فتاوی رحمیہ )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×