اسلامیاتفقہ و فتاوی

زیروفائننس کے ذریعہ سامان خریدنے کی شرعی حیثیت

محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی خادم تدریس:دارالعلوم حیدرآباد و سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند

 پہلے زمانے میں ادھار خرید وفروخت کی سادہ شکل تھی، جس کے پاس نقد رقم ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی وہ بائع سے ادھار معاملہ کرلیتا تھا، اور مدت کی تعیین ہو جاتی تھی، لیکن اس مدت کا کوئی عوض نہیں ہوا کرتا تھا۔
     آج کل خریدوفروخت میں کافی تنوع ہو گیا ہے، اس میں سے ایک شکل زیرو فائنانس یا نوکاسٹ(no cost) اداروں کے واسطے سے EMI( ماہانہ مساوی اقساط) کی شکل میں قیمت کی ادائیگی کا رواج چل پڑا ہے، ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی شخص شوروم سے کوئی سامان خریدنا چاہتا ہے اور شوروم والوں کے سامنے یہ ارادہ ظاہر کرتا ہے کہ میں  ادھار خریدنا چاہتا ہوں تو شوروم والے اس گاہک کو ایک ایسے ادارہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، جس سے شوروم والے کا پہلے سے معاہدہ ہوتا ہے، یا وہ ادارہ اسی شوروم کا ہوتا ہے؛لیکن قانونی مجبوری کی وجہ سے اسے نام کی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ قائم کیے ہوتا ہے ہے، اس طرح کے کئی ادارے مختلف ناموں سے مارکٹ میں متعارف ہیں؛ لیکن ان سب کا کام زیرو فائنانس یانو کاسٹ( no cost) پر قرض فراہم کرنا ہوتا ہے، ان اداروں کا بنیادی کام گاہک کو اپنے اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں قرض فراہم کرنا ہوتاہے، یہ ادارے گاہک سے پہلے درج ذیل معاہدہ کرتے ہیں:
     (١) رقم کی ادائیگی کے لئے مدت اور قسط متعین کرنی پڑے گی
     (٢) قسطوں کی ادائیگی کے لیے جو وقت ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو جائے گا اس میں ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے دو میں سے ایک ضمانت دینی ہوگی:
     (٣) اگر آپ کریڈٹ کارڈ ہولڈر ہیں تو میرے لئے یہ اچھی بات ہے، بس اس کی بنیاد پر ہم آپ کو قرض فراہم کر دیں گے، پھر وہ ادارہ حسب معاہدہ گاہک کے بینک سے قسطیں وصول کرتا رہتا ہے، جیسا کہ کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے والے بینک کا اصول ہے۔
     (٤) اگر آپ کریڈٹ کارڈ ہولڈر نہیں ہیں تو پھر تمام قسطوں کا چیک یک بارگی آپ کو جمع کر دینا ہوگا، اور مستقبل میں اگر چیک فیل ہو تو اس کا جرمانہ بینک بھی اپنے اصول کے مطابق آپ سے وصول کرے گا، اور مجھے جو چیک دے رہے ہیں، اس کے فیل ہونے کی صورت میں جو مجھے دقت کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں بھی آپ سے جرمانہ وصول کروں گا، اس طرح چیک کے فیل ہونے کی صورت میں دو جرمانے آپ کو ادا کرنے پڑیں گے، اس طرح طے شدہ وقت پر قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں جرمانے کا ادا کرنا صُلب عقد میں داخل ہوتا ہے، اور جرمانہ قسطوں کی مقدار کے لحاظ سے کم و بیش ہوتا ہے۔
     (۵)اسی طرح صلب عقد میں یہ بھی داخل ہوتا ہے کہ اگر کئ قسطیں ادا نہ کی جائیں گی تو سامان بھی ضبط کرلیا جائے گا، اور اداکردہ قسطیں بھی واپس نہیں کی جائیگی۔
جب گاہک ان معاہدوں پر دستخط کر دیتا ہے تب زیرو فائنانس ادارہ شوروم کو یک مشت سامان کی رقم ادا کر دیتا ہے، اب ادا کردہ رقم کی وصولیابی وہ ادارہ گاہک سے حسب معاہدہ کرتا ہے، اس میں زیرو فائنانس ادارہ کا دوطرفہ فائدہ ہے، ایک فائدہ تو اسے شوروم سے ملنے والا کمیشن ہے، جو دونوں کے درمیان طے ہوتا ہے، اور دوسرا فائدہ اسے قسطوں کے وقت پر عدم ادائیگی کی صورت میں ( جیسا کہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے) یا مسلسل کئ قسطیں ادا نہ کرنے کی صورت میں سامان کی ضبطی اور جمع شدہ قسطوں کی عدم واپسی کی صورت میں ہوتا ہے۔
      یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ سامان پر جو گارنٹی یا وارنٹی سال یا دو سال وغیرہ کے لیے ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری زیرو فائنانس والے نہیں لیتے؛ بلکہ اس کا تعلق براہ راست شوروم سے ہوتا ہے، وہیں سے یہ سارے امور طے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ کوئی فائنانس ادارہ فائنانسنگ کے ساتھ تجارت کرنے یا تجارتی امور کی ذمہ داری قبول کرنے کا مجاز نہیں ہوتا ہے، ایسا کرنا اس کے لئے قانوناً جرم ہے۔
   *شرعی حیثیت*
   چوںکہ زیرو فائننس نو کاسٹ کی  مذکور بالا تفصیلات بیع و شراء کے اسلامی اصول و ضابطے سے متصادم ہیں اس لیے ایسے اداروں سے  سامان خریدنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
(1) اس معاملہ میں قسطوں پر خریداری کی صورت میں جو  اضافی رقم  دی جاتی ہے، وہ اصل قیمت میں اضافہ نہیں ہے، وہ  ”سود “ کے نام پر  دی جاتی ہے، اور مدّت  کے بدلے میں جو قیمت میں اضافہ ہو شرعاً وہ سود ہے ، جو ناجائز اور حرام ہے،پس انجام کے اعتبار سے یہ سود کی شکل بن جاتی ہے۔
(2)ماہانہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط ہوتی ہے،اور جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے،بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کے سود إما ان تقضی وإما تربی(یا ادا کرو یا اضافہ کرو) (موطا امام مالک ) کا مصداق ہے۔
    قال فی البحر: والحاصل أن المذھب عدم التعزير بأخذ المال (5/ 41، فصل فی التعزیر، ط:  سعید)
   نیز مسلسل قسطیں ادا نہ کرنے کی صورت میں سامان کی ضبطی اور جمع شدہ قسطوں کی عدم واپسی کی شرط بھی اسلامی احکام کے خلاف ہے جو ظلم ہے۔(لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه. أخرجه أحمد والبيهقي والدارقطني وغيرهم)
(3)جس وقت یہ معاملہ یا معاہدہ طیے پاتا ہے اسی وقت اس میں انٹرسٹ کی شرط ہوتی ہے جو زیرو فائننس کے بنیادی مقاصد میں سے ہے ورنہ اس کی ہم سے کوئی رشتہ داری یا ہمدردی نہیں ہے کہ وہ ہمیں مفت قرض فراہم کرے،اور سود کی شرط کے ساتھ قرض کی لین دین درست نہیں ہے۔وفي البزازية: وتعلیق القرض حرام (شامي ج: ۷  ص: ۵۰۹ زکریا)
(4)اگر یہ معاملہ چیک کے بجاۓ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ کیا جاے تو اگرچہ بعض علماء نے کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی مشروط اجازت دی ہے لیکن بعض اہل افتاء اب بھی اسے ناجائز کہتے ہیں،اس دوسرے قول کے اعتبار سے بھی یہ معاملہ ناجائز ہے۔
    فتاوی دارالعلوم دیوبند آن لائن میں ہے:
    "کسی فائنانس کمپنی کے توسط سے قسطوں پر کوئی سامان خریدنے میں فائنانس کمپنی خریدار کی جانب سے فروخت کنندہ کمپنی کو نقد جو رقم ادا کرتی ہے ، وہ در حقیقت خریدار کے حق میں قرض ہوتی ہے، یعنی: فائنانس کمپنی نے خریدار کی جانب سے وہ رقم ادا کرکے خریدار کو قرض دیا، پس اب اگر فائنانس کمپنی خریدار سے صرف ادا کردہ رقم وصول کرے تو یہ قرضہ حسنہ (غیر سودی قرض) ہے۔ اور اگر اس پر اضافہ بھی وصول کرے تو یہ سودی قرض ہے اگرچہ خریدار کے حق میں وہ سامان مارکیٹ ویلیو سے زائد کا نہ پڑے۔ اور صورت مسئولہ میں فائنانس کمپنیاں خریداروں کی جانب سے جو رقم فروخت کنندہ کمپنی کو ادا کرتی ہیں، وہ خریداروں سے اصل رقم کے ساتھ اضافہ بھی وصول کرتی ہیں؛ ورنہ فائنانس کرنے پر انھیں کیا فائدہ ہوگا؛ بلکہ بلاوجہ ان کا پیسہ لوگوں کے قرض میں پھنسے گا ؛اس لیے یہ معاملہ بھی سودی قرض کی بنا پر ناجائز ہے۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔”
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند    (جواب نمبر: 166572)   (Fatwa:220-281/N=4/1440)
*حکم میں تخفیف کی ایک خاص صورت*
    اگر کسی گاہک کو وقت پر قسط ادا کرنے کا یقین ہو تو اسے متعلقہ ادارے سے خریداری کی اجازت ہوگی یا نہیں؟
      اس سلسلے میں پہلی راے یہ ہے کہ اس کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اس حکم میں کوئی تخفیف ہوگی،اکثر اہل افتاء کی یہی راے ہے۔اس کی بنیادی وجہ سودی معاملہ کے معاہدہ پر رضامندی کا اظہار ہے کہ جیسے سود دینا جائز نہیں ہے ویسے ہی سودی معاہدہ کرنا بھی درست نہیں ہے چنانچہ مفتی احمد خان پوری زید مجدہ لکھتے ہیں:
  "مذکورہ طریقہ پر ادھار خرید وفروخت بہر صورت ناجائز ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں ادھار خرید وفروخت کے دوسرے جائز طریقے موجود و رائج ہیں جس سے لوگوں کی یہ ضرورت اور حاجت پوری ہو سکتی ہے اس لیے ادھار خرید و فروخت کے مذکورہ طریقہ کار کو ابتلاء عام کہہ کر جائز نہیں قرار دیا جا سکتا”(ماہنامہ صوت القرآن ربیع الاول 1439 ص: 45)
  اس کی دوسری بڑی وجہ تعامل اور مشاہدہ ہے کہ عموما اس طرح  خریداری میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی نوبت آہی جاتی ہے؛ لہذا مذکورہ معاملہ میں سود ادا کرنے کا اندیشہ اور خدشہ بہر حال موجود رہتا ہے،اس لیے یہ درست نہیں ہے۔
    *دوسری راۓ*
مختلف فتاوی کی روشنی میں اس بارے میں دوسری راۓ یہ ہے کہ اگر کسی کو بروقت تمام قسطیں ادا کرنے کا یقین ہے تو اسے زیرو فائننس کے ذریعہ سامان خریدنے کی مشروط اجازت ہوگی،اس راۓ کی کلیدی وجہ یہ ہے کہ انجام کے اعتبار سے یہ معاملہ مذکورہ شخص کے حق میں سودی نہیں رہا،کیوں کہ اس نے وقت پر تمام قسطیں جمع کرکے خود کو سود اور اس کی لعنت سے محفوظ رکھا،ہاں اس نے ابتداء میں سودی معاہدہ پر رضامندی کا اظہار کیا ہے جو گناہ ہے لیکن جب اس نے سود دیا نہیں تو ان شاءاللہ سودی معاہدہ پر رضامندی کا گناہ بھی نہیں ہوگا تاہم اسے اس کے بعد توبہ و استغفار کر لینا چاہیے۔
    اس راۓ کی دوسری وجہ اسے کریڈٹ کارڈ کے حکم پر قیاس کرنا ہے،کیوں کہ زیروفائننس اور کریڈٹ کارڈ دونوں ہم مثل ہیں کہ دونوں میں ادارہ خریدار کو قرض فراہم کرتا ہے،چونکہ بعض اہل افتاء نے کریڈٹ کارڈ کی مخصوص صورت(جسے وقت پر قرض ادا کرنے کا یقین ہو) کو جائز قرار دیا ہے؛ اس لیے زیرو فائننس کے خاص مسئلہ کو کریڈٹ کارڈ کے خاص مسئلہ پر قیاس کرنا درست ہے۔کریڈٹ کارڈ کی مخصوص صورت سے متعلق فتوی آئندہ لکھا جاۓ گا۔
   اس سلسلے میں راقم الحروف عرض گزار ہے کہ دوسری راۓ گو خلاف احتیاط ہو لیکن موجودہ ماحول اور عرفی ضرورت  کے پیشِ نظر دوسری راۓ زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جس کی متعدد وجوہات اور نکات درج ذیل ہیں:
(1)جو چیزیں معلق بالشرط ہوتی ہیں وہ وجودِ شرط سے پہلے موجود کے حکم میں نہیں ہوتی ہیں،لہذا مذکورہ صورت میں صرف سود کا ذکر ہوا ہے حسی سود عملی طور پر نہیں دیا گیا ہے،جیسے خیار شرط میں مدت آنے سے پہلے،شرط عقد کے ساتھ لاحق نہیں ہوتی ہے۔
(2) فقہ کا ایک ضابطہ ہے کہ العبرة لخصوص الغرض لا لعموم اللفظ(حاشیہ الاشباہ والنظائر ص: 158 زکریا دیوبند ) یعنی کبھی الفاظ کے بجاۓ مقصود پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے؛اس اعتبار سے دیکھا جاۓ تو مذکورہ خریدار کا مقصد سود سے بچنا ہے،اگر اس کا مقصد سودی معاملہ میں ملوث ہونا ہوتا تو وہ ہم سے مسئلہ دریافت نہیں کرتا،لہذا اس کے بارے میں یہ کہنا غیر مناسب ہوگا کہ وہ سود دینا چاہتا ہے کیونکہ اسے وقت پر تمام قسطیں ادا کرنے کا یقین ہے۔لہذا اسے مشروط اجازت دینا درست ہے۔
(3)اسے تقابلی انداز میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ زید اور عمر دونوں نے زیرو فائننس کے ذریعہ سامان خریدنے کا ارادہ کیا اور دونوں نے ایسا سودی معاملہ کر لیا،لیکن زید نے تمام قسطیں بروقت ادا کر دی جبکہ عمر نے تاخیر کی وجہ سے سود بھی دیا،ظاہر ہے دونوں ایک درجہ کے مجرم نہیں ہوں گے:زید نے سود بالکل نہیں دیا البتہ اس نے بس سودی معاملہ پر رضامندی ظاہر کی ہے ؛لیکن سود نہ دے کر اس نے اس رضامندی کو غلط ثابت کردیا؛بلکہ بعض اہل افتاء کے نزدیک اس صورت میں اسے کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا،لیکن عمر نے نہ صرف یہ کہ اس معاملہ پر رضامندی ظاہر کی؛بلکہ اس نے عملی طور پر حسی سود بھی ادا کیا،لہذا دونوں ایک درجہ کے مجرم نہیں ہوں گے،جنہیں ایک ہی کٹگھرے میں کھڑا کیا جاۓ اور ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاۓ۔
(4)مذکورہ شخص سود نہ دینے کا عزم کیے ہوے ہے کہ وہ وقت مقررہ پر قسط ادا کرنے کا یقین رکھتا ہے لہذا اس کے اس عزم و یقین کے اظہار کے باوجود اسے مستقبل کے موہوم اندیشے(سود دینے کا اندیشہ)کی وجہ سے خریداری سے منع کرنے کی کوئی معقول وجہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
(5)مختلف مسائل میں احتیاط پر عمل کرنا اگرچہ مذاق شریعت کے مطابق ہے لیکن معاملات خاص طور پر بیع و شراء میں اباحت اور توسع کا پہلو اختیار کرنا بھی مزاج شریعت کا حصہ ہے لہذا جہاں تخفیف کی وجہ سے کسی نص یا ظاہر مذہب کی مخالفت نہ ہوتی ہو وہاں  توسع اور سہولت کا پہلو اختیار کرنا اسی شرعی توسع کا حصہ ہے جو بندوں کی اہم ضرورت ہے،علاوہ ازیں ہم اسے تخفیف ہی کا فتوی دے رہے ہیں نہ یہ کہ ایسی خریداری کی اسے ترغیب دے رہے ہیں۔
(6)یہ مسئلہ کریڈٹ کارڈ کے مشابہ ہے اور کریڈت کارڈ کے سلسلے میں بعض اہل افتاء نے مخصوص شخص کو جو اجازت دی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی لکھی جاتی ہے کہ زیروفائننس ادارہ اور گاہک کے درمیان جو معاملہ ہوتا ہے وہ قرض کا معاملہ ہے جو عقود معاوضہ کے بجاۓ،عقود تبرع کے دائرے میں آتا ہے اور عقود تبرعات میں شرط فاسد خود لغو ہوجاتی ہے لہذا اس عقد میں سود لیے جانے کی شرط،شرط فاسد ہے اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
نظائر و قرائن
اب ہم ذیل میں کچھ ایسے فتاوی نقل کرتے ہیں جن میں مذکورہ نکات کو ملحوظ رکھا گیا ہے،جو اگر براہ راست مسئلہ سے متعلق نہیں ہیں لیکن مسئلہ کو سمجھنے میں معاون ہیں:
  فتاوی دارالعلوم دیوبند آن لائن میں ہے:
”چند اہم عصری مسائل“ (کتاب) ج۲ص۲۸۷میں ہے ”کاروباری ضرورت یا مالی تحفظ کی غرض سے کریڈٹ کارڈ لینے اور اس کے استعمال کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ پہلے اکاوٴنٹ کھلوالیا جائے تاکہ کارڈ جاری کرنے والا ادارہ اپنا قرض وہاں سے وصول کرلے اور اگر اکاوٴنٹ سے فی الحال قرضہ منہا کرنے کا انتظام نہ ہو تو اس کی انتہائی احتیاط برتی جائے کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا ء کردی جائے تاکہ ان پر سود لاگو نہ ہوسکے کیونکہ سود کا اداء کرنا حرام ہے یہ کارڈ غیر اسلامی بینک سے بھی لے سکتے ہیں“ اور کچھ علماء کا یہ خیال کہ سود اداء نہ کرنے کی مدت میں اداء کردینے کے باوجود یہ معاملہ ٹھیک نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر شرعی معاہدہ اور شرط جو لگائی جاتی ہے وہ شرعاً باطل اور لغو ہے اس کی وجہ سے سود لاگو ہونے سے پہلے تک کا معاملہ باطل نہ ہوگا بلکہ وہ درست رہے گا۔”
واللہ تعالیٰ اعلم،دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند۔ (جواب نمبر: 161083)  (Fatwa:1016-963/H=9/1439)
  فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:
"الجواب: گراج کارڈ کا عام طریقہ کار یہ ہے کہ اس کے ذریعہ پٹرول ڈالتے رہو اور ہر مہینے کے آخر میں پورا اسٹیٹ منٹ آپ کو مل جاۓ گا اور جتنا آپ نے پٹرول ڈالا تھا اسی کے مطابق رقم ادا کرنا ہے مزید ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ طریقہ تو ٹھیک ہے کیونکہ کوئی سود وغیرہ مزید عائد نہیں ہوا جتنا قرض لیا اتنا ادا کردیا لیکن صورت مسئولہ میں چونکہ ۱۵ فیصد مزید لینے کا ذکر ہے اگر یہ صورت حال ہو تو اس کی گنجائش نہیں ہے یہ صریح سود ہے۔ ہاں اگر کمپنی کی طرف سے یہ مہلت مل جائے کہ مثلاً ایک ماہ کے اندر ادا کردیا تو کوئی اضافی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر مہینے کے بعد ادا کرے تو ۱۵ فیصد مزید ادا کرنا ہوگا تو اس کی گنجائش ہوگی اس طرح کہ سود تک پہنچنے کی نوبت نہ آنے دے اور متعینہ مدت میں ادا کرتا رہے
ملاحظہ ہوفتاویٰ عثمانی میں ہے:
جب کارڈ کو استعمال کیا جاۓ تو مقررہ مدت کے اندر اندر بل کی ادائیگی کا اہتمام ضروری ہے، تاکہ سود نہ لگے، اور اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہdirect debit کا طریقہ اختیار کیا جائے، یعنی کارڈ والے براہ راست آپ کے بینک سے بل کی رقم وصول کرلیں، تاکہ غیر ارادی طور پر بھی تاخیر کی وجہ سود عائد نہ ہو۔ (  فتاویٰ عثمانی:۳/۳۵۳)
در مختار میں ہے:
وما يصح ولا يبطل بالشرط الفاسد لعدم المعاوضة المالية… القرض والهبة. وفى الشامية:(قوله القرض) كأقرضتك هذه المأة بشرط أن تخدمني سنة، وفى البزازية: وتعليق القرض حرام والشرط لا يلزم. ( الدر المختار مع رد المحتار: ٥/٢٤٩ باب ما يبطل بالشرط الفاسد، سعيد) والله تعالى اعلم” (فتاوی دارالعلوم زکریا ج: 5 ص :403)
دوسری جگہ ہے:
    "الجواب(٤): سود لاگو ہونا: واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ ہولڈر کے ساتھ بینک کا عقد قرضہ کا ہوتا ہے، کہ بینک کی طرف سے دی ہوئی رقم کارڈ ہولڈر کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے سود کی یہ شرط فاسد لگی ہوتی ہے،(کہ اگر متعین مدت میں رقم ادا نہ کی تو سود ادا کرنا ہوگا) لیکن قرض عقود تبرع میں سے ہے عقد معاوضہ نہیں، اور حنفیہ کے نزدیک اصول یہ ہے کہ عقود معاوضہ میں شرط فاسد لگانا عقد کو فاسد کردیتا ہے، عقود تبرع میں شرط فاسد خود لغو ہوجاتی ہے اور عقد فاسد نہیں ہوتا، البتہ شرط فاسد لگانے کی خرابی لازم آتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس بات کا مکمل عہدوپیمان کرلے کہ اس شرط فاسد پر کبھی بہی عمل نہ ہوگا، اور وہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردے گا اور سود کی ادائیگی کی نوبت نہیں آنے دیگا، تو ان شاءاللہ تعالی اس شرط فاسد کا گناہ نہیں ہوگا۔” (فتاوی دارالعلوم زکریا ج: 5 ص:400)
کتاب النوازل میں ہے:
  "۔۔۔کاروبار گاڑی خریدنے کے لیے قرض لینا بھی ممنوع ہے؛البتہ اگر بینک ہی کو بائع بنا کر قسط وار گاڑی یا کاروباری مشینری خریدی جاۓ اور کوئی قسط اپنے وقت سے موخر نہ ہو، تو انجام کے اعتبار سے یہ معاملہ درست ہو سکتا ہے” (کتاب النوازل ج: 11 ص: 314 المرکز العلمی للنشر مراد آباد )
جامعہ عثمانیہ پشاور کے مفتیان کرام لکھتے ہیں:
  "۔۔۔کریڈٹ کارڈ کے اجرا کے وقت بینک اورحامل کارڈ(card holder) کےدرمیان یہ معاہدہ طے پاتاہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے خریداری یانقدرقم نکالنے کے بعد ایک متعینہ مدت سےادائیگی کی تاخیرکی صورت میں حامل کارڈبینک کو اضافی سود دینے کا پابند ہوگا۔ازروئےشرع یہ ایک ناجائزاورحرام معاہدہ ہے اس لیے کریڈٹ کارڈ کااجرااور اس کااستعمال ناجائز ہے،لہٰذااگر کسی شخص کو ڈیبٹ کارڈ یاچارج کارڈ کی سہولت میسر ہو تواس کے لیے کریڈٹ بنوانا جائزنہیں۔لیکن اگرکسی نےکریڈٹ کارڈ بنوالیا ہو یاکسی وجہ سے بنوانا ضروری ہو،تواس کااستعمال(اس کے ذریعے خریداری وغیرہ)درجہ ذیل شرائط کے ساتھ درست ہے:
(1)حامل کارڈ اس بات کاپورااہتمام کرے کہ متعین وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کردی جائےاورسود نہ چڑھے۔
(2)حامل کارڈ اگرچہ سود لازم ہونے سے پہلے ادائیگی کرے؛مگر کریڈٹ کارڈ کامعاہدہ چونکہ سود کی بنیاد پرہوتاہےاس لیے  اس پرلازم ہے کہ اس سودی معاہدہ پر توبہ اوراستغفارکرے اور کوشش کرے کہ کریڈٹ کارڈ کی بجائے اپنی ضرورت ڈیبٹ کارڈسے پوری کرے۔۔۔۔”  دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور (فتویٰ نمبر : 272/297/322)
*ضرورت اور بلا ضرورت کی تفریق*
     اس سلسلے میں گذشتہ تفصیل کی روشنی میں عرض یہ ہے کہ چونکہ یہ معاملہ سو فیصد غیر سودی نہیں ہے اس لیے جہاں تک ہو سکے زیرو فائننس یا نو کاسٹ ادارے کے واسطے سے خریداری سے بچا جاۓ،ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ جائز اور واضح راستے یا واسطے سے خریدوفروخت کرے،تخفیف والی راۓ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ زیروفائننس کےذریعہ سامان خریدنا کوئی استحبابی عمل ہے بلکہ اس ادارے سے خریداری نہ کرنا احتیاط، تقوی اور تنزہ کی بات ہے،جیسا کہ بعض مفتیان کرام نے مذکورہ طریقہ پر خرید وفروخت کو بہر صورت ناجائز کہا ہے؛لیکن اگر کسی کے پاس متبادل راستہ نہیں ہے یا متبادل راستہ ہے؛ لیکن اس میں کچھ معاشی، خاندانی یا قانونی دقت ہے تو وہ وقت مقررہ پر تمام قسطیں ادا کرنے کی شرط کے ساتھ متعلقہ ادارے سے اپنی ضرورت کا سامان خرید سکتا ہے،اس سلسلے میں ضرورت اور بلا ضرورت کی بحث بلاضرورت ہے،آدمی عموما بلا وجہ قرض نہیں لیتا ہے؛ بلکہ قرض لینے کی کوئی نہ کوئی وجہ اور ضرورت ہوتی ہے،ضرورت شرعیہ یا اصطلاحیہ نہ سہی،ضرورتِ عرفیہ ضرور ہوتی ہے اور ضرورتِ عرفیہ سے صرفِ نظر مناسب بات نہیں ہے۔
   رہ گیا یہ نکتہ کہ اس طرح خریداری سے فضول خرچی کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور فضول خرچی حرام ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ یہ بات اس معاملہ کے عدم جواز کی بنیاد نہیں بن سکتی،کیوں کہ ہر آدمی کا فضول خرچ واقع ہونا ضروری نہیں ہے،کیوں کہ یہ اجازت مشروط ہے یعنی جسے وقت پر تمام قسطیں ادا کرنے کا یقین ہے وہی خرید کا معاملہ کر سکتا ہے،ورنہ تو آج فضول خرچی کا اثر مسلمانوں کے تقریبا تمام شعبہ ہاۓ زندگی میں نظر آرہا ہے،اگر کوئی نقد اور غیر سودی طریقے سے خریداری میں فضول خرچی سے کام لے تو کیا ہم اسے بھی ناجائز کہیں گے؟ہرگز نہیں! بلکہ فضول خرچی پر نکیر کریں گے۔
*ابتلاءِ عام کا حکم*
    مذکور بالا تفصیل کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس میں ابتلاء عام کے بجاۓ شرعی اصول کو پیشِ نظر رکھا جاۓ کہ جسے وقت پر تمام قسطیں ادا کرنے کا یقین ہے وہ اس طرح خریداری کر سکتا ہے،جیسا کہ گذشتہ صفحات میں یہ بات تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے،اور جسے یقین نہیں ہے یا وہ سود دینے پر آمادہ ہے تو اولا ابتلاء عام کی بات ہی قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ ادھار خریداری کے دوسرے دروازے بلکل بند نہیں ہوے ہیں،ثانیا اگر ابتلاء تسلیم کر لیا جاۓ تو بھی اسے مذکورہ ابتلاءِ عام کے باوجود اس کی اجازت نہیں ہوگی،کیوں کہ سود دینے کی حرمت منصوص ہے اور ابتلاء عام سے نص میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے کا اقتباس درج ذیل ہے:
    "اور کچھ علماء کا یہ خیال کہ سود اداء نہ کرنے کی مدت میں اداء کردینے کے باوجود یہ معاملہ ٹھیک نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر شرعی معاہدہ اور شرط جو لگائی جاتی ہے وہ شرعاً باطل اور لغو ہے اس کی وجہ سے سود لاگو ہونے سے پہلے تک کا معاملہ باطل نہ ہوگا بلکہ وہ درست رہے گا۔”(دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند،Fatwa:1016-963/H=9/1439 ۔جواب نمبر: 161083)
   در مختار میں ہے:
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء أخر ( الدر مع الرد ج: 7 ص :394 زکریا دیوبند)
      عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ” كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا”.
(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×