سیاسی و سماجیفقہ و فتاوی

ووٹ کی شرعی حیثیت اور ہماری ذمہ داری

مولانا محمدمجیب الدین قاسمی

جوں جوں انتخابات کے ایام قریب ہوتے جاتے ہیں ذرائع ابلاغ اس پر تبصرے وآراء شائع کرتے ہیں، تمام پارٹیاں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر عوام سے وعدے ومعاہدے کرتے نظر آتے ہیں، یہ صورتِ حال کوئی نئی نہیں؛ بلکہ ہرالیکشن کے موقعہ پر یہی ہوتا ہے، انتخابات کے موقع پر ووٹ کے متعلق جو افراط وتفریط ہوتی ہے اس میں جو دھاندلیاں ہوتی ہیں اور جو مجرمانہ کھیل کھیلا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں فاسد ومفسد عناصر بھر پور فائدہ اٹھاتے اور مفیدِ ملک وملت عناصر کودھکا پہونچاتے ہیں اس کی وجہ سے خلقِ خدا کو جن پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ملک وقوم کے مفادات کو جو خطرات پیش آتے ہیں اور زمین میں ظلم وجور، فتنہ فساد اور جنگ وجدال کی جو فضا قائم ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹ اپنے صحیح مصرف میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے اور یہ کوتاہی دراصل ووٹ کی قانونی حقیقت وحیثیت کو نہ جاننے کا نتیجہ ہے؛ اگر لوگ ووٹ کی حقیقت وحیثیت سے واقف ہوجائیں تو انہیں اپنے ووٹ کی قیمت بھی معلوم ہوگی اور پھر وہ اس کوصحیح طور پر استعمال میں لانے کی فکر بھی کریں گے، ایک ووٹر جب کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تواس کی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ وہ امیدوار کے حق میں اس بات کی گواہی وشہادت دے رہا ہے کہ امیدوار اس کام کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے، جس کے لئے یہ امیدوار بن کر کھڑا ہے، اس حیثیت سے ووٹ کی حقیقت شہادت وگواہی کی ہے، دوسری حیثیت یہ ہے کہ ووٹر امیدوار کے حق میں سفارش کرتا ہے کے اس کو نمائندہ مقرر کردیا جائے، اس حیثیت سے ووٹ کی حقیقت شفاعت وسفارش کی ہے، ووٹ کی تیسری حیثیت یہ ہے کہ ووٹر امیدوار کو قوم وملک کے مشترکہ حقوق میں اپنی اور قوم کی طرف سے وکیل بناتا ہے، اس لحاظ سے ووٹ دراصل وکالت کا نام ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ نے لکھا ہے کہ: ’’ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے، ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت‘‘ (جواہرالفقہ:۲/۲۹۳)۔
ووٹ بحیثیتِ شہادت: ووٹ کی پہلی حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر گواہی اور شہادت دیتا ہے کہ فلاں امیدوار جس کے حق میں میںنے ووٹ دیا ہے وہ اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور امانت دار ہونے کی وجہ سے کام کو صحیح طور پر انجام دینے کا جذبہ بھی رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ گواہی کا سچا ہونا ضروری ہے اور جھوٹی گواہی بدترین قسم کا جرم ہے، جس پر شدید وعیدوار ہوئی ہے اور مذمت کی گئی ہے، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ :رسول اللہؐ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا: (کبیرہ گناہ یہ ہیں) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، قتل کرنا اورجھوٹی گواہی دینا (بخاری:۱/۳۶۲۔ مسلم:۱/۲۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والے قیامت کے دن اس وقت تک ہل نہیں سکتے جب تک کہ اس کے حق میں جہنم واجب نہ ہوجائے (الکبائر للذہبیؒ:۷۹) معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی پر جہنم کی سخت وعید آئی ہے، حضـرت خریم بن فاتکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، دومرتبہ فرمایا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (الحج:۳۰) ترجمہ: ’’بتوں کی گندگی سے اور جھوٹی بات سے بچ کر رہو‘‘ ان تمام احادیث میں جھوٹی گواہی کو کبیرہ بلکہ اکبر لکبائر گناہوں میں شمار کیا گیا ہے اور شرک کے برابر بتایا گیا ہے اسی لئے ا س بات پر نظر کرنا چاہیے کہ جب ووٹر کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو اس کے حق میں قابلیت ودیانت کی شہادت دے رہا ہے؛ لہٰذا اس میں جھوٹ و غلط بیانی سے بچنا لازم ہے؛ اسی لیے ہم کسی نااہل وناقابل انسان کو کسی طور پر بھی ہرگز ووٹ نہ دیں؛ ورنہ سخت مجرم قرار پائیں گے اور دنیا کے وبال کے علاوہ اخروی پھٹکارکے بھی مستحق بن جائیں گے۔
ووٹ بحیثیتِ شفاعت: ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش وشفاعت کی ہے کہ ووٹ دینے والا امیدوار کے حق میں سفارش کرتا ہے کہ اس امیدوار کو نمائندگی دی جائے، سفارش کے متعلق اسلامی اصول یہ ہے کہ اچھے کام میں اور اچھے آدمی کے لئے سفارش کی جائے اور کسی برے کام کی اور برے آدمی کی سفارش نہ کی جائے؛ چنانچہ قرآن نے اس اصول کو بیان کیا ہے: مَّن یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَکُن لَّہُ نَصِیْبٌ مِّنْہَا وَمَن یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہَا وَکَانَ اللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْئٍ مُّقِیْتاً (النساء:۸۵) ترجمہ: ’’جوشخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے، اس کواس میں سے حصہ ملتا ہے اور جو کوئی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں سے حصہ ملتا ہے اور اللہ ہرچیز پر نظر رکھنے والا ہے‘‘ اس آیت میں شفاعت حسنہ اور شفاعت سیئہ کی متعدد تفسیریں علماء تفسیرنے بیان فرمائی ہیں؛ مگر حضرت حسن بصریؒ کی تفسیر جامع ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: شفاعت حسنہ وہ ہے جو دین میں جائز ہے اور شفاعتِ سیئہ وہ ہے جس کی اجازت نہیں (بحوالہ قرطبی:۵/۲۹۵) مطلب یہ ہے کہ جائز کاموں میں کسی کی سفارش کرنا شفاعت حسنہ ہے اور ناجائز کاموں میں کسی کی سفارش کرنا شفاعتِ سیئہ ہے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ اسی آیت کے تحت رقم طراز ہیں: ’’خلاصہ یہ ہوگیا کہ جو آدمی کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام میں جائز طریقہ پر سفارش کرے تواس کو ثواب ملے گا اور اسی طرح جو کسی ناجائز کام کے لئے یا ناجائز طور پر سفارش کریگا تو اس کو اس کا حصۂ عذاب ملے گا (معارف القرآن ۲/۴۹۸) آیت کریمہ اورا س کی تفسیر سے یہ معلوم ہوا کہ کسی ناجائز کام کے لئے سفارش کرنا ناجائز وحرام ہے اور اچھے کام کے لیے سفارش کرنا جائز وثواب کا کام ہے؛ لہٰذا جب کسی امیدوار کو ووٹ دینا چاہے تو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ ووٹ دینا ثواب کا باعث بنے نہ کہ غذاب کا؛ اگر قابلِ اعتماد آدمی کو ووٹ دیا جائیگا تو ثواب ملے گا اور کسی غلط وناقابل آدمی کوووٹ دیا جائیگا تو عذاب ملے گا؛ لہٰذا پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جو شخص امیدوار بنا ہوا ہے وہ ملک وملت کے لئے خطرہ تو نہیں؟ کیریکٹر ومزاج صالح ہے یافاسد؟ جب تک امیدوار کی صلاحیت وقابلیت ودیانت کو نہ دیکھ لیا جائے اس وقت تک ووٹ نہ دیا جائے؛ ورنہ عذاب میں گرفتار ہونا پڑیگا اور کوئی ــضروری نہیں کہ عذاب آخرت کا ہی ہو؛ بلکہ دنیوی عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور یہ تجربہ بھی ہے کہ ہمارے ووٹ جب غلط آدمی کو جاتے ہیں تو وہ جیتنے کے بعد اپنی غلط کاریوں اور مجرمانہ ذہنیت سے ملک وملت کے لئے خطرہ وعذاب بن جاتا ہے۔
ووٹ بحیثیتِ وکالت: ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹر امیدوار کوپورے حلقہ کا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے؛ ا س صورت میں ظاہر ہے کہ جس کو وکیل بنایا جاتا ہے وہ قابل وامانت دار ہونا چاہیے؛ چنانچہ جب ہم ذاتی معاملات میں کسی کو وکیل بناتے ہیں تو ان دونوں باتوں کو دیکھ لیتے ہیں، ایک یہ کہ وہ کام کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے یانہیں؟ دوسرے یہ کہ وہ امانت دار بھی ہے یا نہیں؟ صاحبِ ہدایہ نے وکالت کے باب میں شرائط بیان ہوئے قدوری کے یہ الفاظ نقل فرماتے ہیں: وَیُشْتَرَطُ أَنْ یَکُوْنَ الْوَکِیْلُ مِمَّنْ یَعْقِلُ الْعَقْدَ وَیَقْصِدُہُ (ہدایہ:۳/۱۶۳) ’’اور شرط یہ ہے کہ وکیل ان لوگوں میں سے ہو جو معاملہ کو سمجھتا اور اس کا ارادہ کرتا ہو‘‘ اس میں وکیل کی دوشرطیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ معاملہ کو سمجھتا ہو، اس میں قابلیت وصلاحیت کی طرف اشارہ ہے، دوسرے یہ کہ وہ معاملہ متعلقہ کا ارادہ کرتا ہو، اس کا مطلب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ معاملہ اس طرح کرے جس سے نتیجہ برآمد ہوتا ہو محض کھیل تماشہ بناکر گذارنے والا نہ ہو (بحرالرائق:۷/۱۴۲) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ معاملہ کو نتیجہ تک پہونچانے کا ارادہ رکھتا ہو، اس میں وکیل کی دیانت وامانت کی طرف اشارہ ہے؛ ویسے بھی یہ دوشرطیں ایسی ہیں جن کا وکیل میں ہونا عقلاً بھی ضروری ہے اور لوگ عام طور پر اسی کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں، جب ذاتی معاملات میں اس کوپیش نظر رکھنا ضروری ہے تو ملی وقومی مسائل میں اس کی طرف توجہ دینا کس قدر ضروری ہوگا؟ جب کہ ذاتی معاملات کی اچھائی وبرائی ذات تک محدود ہوتی ہے اور ملی وقومی مسائل کی اچھائی وبرائی کا اثر پوری قوم وملت پر پڑتا ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ جس امیدوار کے حق میں ووٹ دینا ہو اس کے بارے میں پہلے معلوم کرلیا جائے کہ وہ سیاسی سمجھ اور معاملہ فہمی کی صلاحیت اور ملی مسائل کے حل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یانہیں؟ اور یہ کہ نیت وارادہ محض سیاسی کھیل کھیلنے کا ہے یاامانت ودیانت داری کے ساتھ ملی مسائل کوحل کرنے کا بھی ہے؟ تاکہ قوم وملت کے حقوق کی پامالی کے ہم ذمہ دار نہ بنیں۔
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ نے اسی کو ذکر فرمایا ہے کہ: ’’اگر یہ وکالت اس (ووٹر) کے کسی شخص کے حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسی کی ذات کو پہونچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا؛ مگریہاں ایسا نہیں؛ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے؛ اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دیکر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس ووٹر کی گردن پر رہا۔
ووٹ کی ایک اور حیثیت: ووٹ کی ایک چوتھی حیثیت بھی ہے اور وہ امداد وتعاون کی حیثیت ہے کہ ووٹر امیدوار کوووٹ دیکر گویا اپنا تعاون اور سپورٹ پیش کرتا ہے اور تعاون کے سلسلے میں قرآنی اصول یہ ہے وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَتَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ:۲) ترجمہ: ’’اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو‘‘ معلوم ہوا کہ امیدوار ملک وملت کے حق میں فلاح وبہبودی کے لئے کام کرنے والا ہو تو اس کو ووٹ دیکر اس کا تعاون کرنا چاہیے؛ لیکن ظلم وفساد کرنے والا یاکرانے والا ہو یالوگوں کے حقوق پامال کرنے والا ہو اورملک و ملت کے لئے خطرہ ہو تو اس کو وٹ دینا ناجائز وحرام ہے؛ کیونکہ ایسوں کو ووٹ دینا ظلم پر تعاون کرنا ہے اور ظالم امراء کے مددگاروں پر سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایا: کہ عنقریب ایسے امراء ہوں گے کہ بہت سے لوگ ان کی حاشیہ برداری کریں گے جو ظلم کریں گے اور جھوٹ بولیں گے پس جو شخص ان کے پاس جائیگا اور ان کی تصدیق کریگا اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کریگا وہ مچھ سے نہیں، میں اس سے نہیں (الکبائرللذہبی:۱۱۱ تا ۱۱۲) اس سے معلوم ہوا کہ ظالموں کی مدد اور ان کا تعاون اور ان کی تصدیق یہ سب سخت حرام امور ہیں، ان کا مرتکب وعید کا مستحق ہے؛ ووٹ دینا بھی ایک قسم کا تعاون ہے؛ لہٰذا جس کو ووٹ دیا جائے اس کے متعلق غور کرلیا جائے۔
ووٹ ڈالنے کا شرعی حکم: اب تک کی تفصیلات سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ووٹ کی مختلف حیثیتیں ہیں وہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ووٹ ڈالنے کا کیا حکم ہے؟ چونکہ ووٹ میں ایک حیثیت شہادت کی ہے تو جس طرح جھوٹی شہادت حرام ہے اسی طرح سچی شہادت وگواہی دینا واجب ہے، قرآن میں متعدد جگہ اس کا ذکر آیا ہے اور سچی شہادت دینے کا حکم ہے، ایک جگہ ہے: کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ (المائدۃ:۸) کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّہِ (النساء:۱۳۵) ان دونوں آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے لئے انصاف وحق کے ساتھ گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوجاؤ؛ نیز ایک دوسری جگہ حکم ہے وَأَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلَّہِ (الطلاق:۲) یعنی اللہ کے واسطے شہادت قائم کرو، ان سب آیات سے سچی شہادت کے اظہار کا حکم ظاہر ہوتا ہے؛ اسی طرح بعض آیات میں سچی گواہی کو چھپانے کی مذمت کی گئی ہے؛ چناچہ فرمایا: وَلاَتَکْتُمُواْ الشَّہَادَۃَ وَمَن یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ (البقرۃ:۲۸۳) ترجمہ: ’’اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے‘‘ معلوم ہوا کہ سچی شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے اس سے معلوم ہوا کہ ووٹ اس امیدوار کو دینا جو لائق وقابل ہو اور امانتدار ہو ضروری ہے اور شرعی فریضہ بھی ہے؛ اسی طرح ووٹ کی ایک حیثیت تعاون کی بھی ہے؛ لہٰذا اچھے اور امانتدار آدمی کا استعمال کرتے ہوئے اس کو ووٹ دینا ضروری ہے؛ کیونکہ نیکی کے کام پر تعاون کاحکم دیا گیا ہے، حاصل یہ ہے کہ ووٹ ایسے امیدوار کو دینا جس کو ہم ناقابل سمجھتے ہیں؛ ناجائز ہے اور قابلِ انسان کوووٹ دینا نہ صرف جائز بلکہ فریضۂ شرعیہ ہے؛ البتہ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام امیدوار ناقابل ہوں اور کوئی بھی قابلِ اعتماد نہ ہو تو کیا کریں؟ یہ سوال ہمارے زمانے کے لحاظ سے نہایت ہی اہم ہے؛ کیونکہ آج اکثر جگہ یہی بات نظر آتی ہے کہ امیدوار کسی جگہ بھی قابلِ اعتماد واطمینان نہیں ہوتے حتی کہ مسلم امیدواروں کی حالت بھی دوسروں سے کچھ مختلف نظر نہیں آتی تو کیا ایسی صورتِ حال کا تقاضہ یہ ہے کہ ووٹ سے دست کش ہوجائیں یاکچھ اور؟ اس سوال کا جواب حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے یہ دیا ہے کہ اگرکسی جگہ کوئی بھی امیدوار صحیح معنی میں قابل ودیانتدارنہ ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کار وخدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی بنسبت غنیمت ہو تو تقلیل شر وتقلیل ظلم کی نیت سے اس کوبھی ووٹ دیدینا جائز بلکہ مستحسن ہے (جواہرالفقہ:۲/۲۹۴) یعنی امیدواروں میں غور کریں کے کون ملک وملت کے لئے کم خطرہ ہے؛ اگرایک بڑاظالم ہے اور دوسرا اس سے کم ظالم تواس کو ووٹ دیدینا جائز ہے؛ اس کی تائید علامہ ابن تیمیہؒ کی ایک عبارت سے بھی ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں: مَعْ أَنَّہُ تَوْلِیَۃُ غَیْرِالْأَھْلِ لِلضَّرُوْرَۃِ إِذَا کَانَ أَصْلَحَ الْمَوْجُوْدَ فَیَجِبُ مَعَ ذَلِکَ الْعُلَی فِی إِصْلَاحِ الْأَحْوَالِ حَتَّی یَکْمُلَ فِی النَّاسِ مَالَابُدَّلَھُمْ مِنْہُ مِنْ اُمُوْرِ الْوِلَایَاتِ وَالْإِمَارَاتِ وَنَحْوِھَا (فتاوی ابن تیمیہ:۲۸/۲۵۹) باوجود یکہ نااہل کو حاکم ووالی بنانا بہ ضرورت جائز ہے؛ جبکہ وہ موجودہ لوگوں میں سے غنیمت ہو مگر اسی کے ساتھ اصلاح حالات کی کوشش کرنا ضروری ہے؛ تاکہ ولایت وامارت وغیرہ کے معاملات جن کا ہونا ضروری ہے وہ لوگوں میں مکمل ہوجائیں، اس عبارت سے دوباتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ نااہل کو بھی حاکم بنانے کی اجازت ہے؛ جبکہ موجودہ اشخاص میں سے وہی غنیمت ہو، دوسرے یہ کہ نااہل کو حاکم بنانے کے بعد اس بات کی کوشش کرنا ضروری ہے کہ ولایت وامارت کے معاملات کو سنبھالنے کے لئے جن صفات وضروریات کی ضرورت ہے وہ لوگوں میں تکمیل پائیں؛ تاکہ آئندہ قابل انسان اس کام کو سنبھال سکیں۔
ووٹ نہ دینے کا نقصان: انتخابات میں کسی ایسے شخص کو جو دوسروں کی نسبت غنیمت ہو ووٹ دینا چاہیے اور ایسا نہ کرنا نقصاندہ ہے؛ کیونکہ جب صالح طبقہ ووٹ دینے سے گریز کریگا تو جو لوگ دنیا دار ہوتے ہیں وہ اپنا ووٹ یاتوغلط استعمال کرتے ہیں یاغلط لوگوں کے ہاتھ بیچ ڈالتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایسے نمائندے مقرر ہوکر آتے ہیں جو نہ قابلیت رکھتے ہیں نہ دیانت وامانت کے قابل ہوتے ہیں؛ لہٰذا صالح طبقہ کو چاہیے کو وہ صالح لوگوں کے حق میں ووٹ ضرور دیں، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں ان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عموماً نیک صالح حضرات ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیںاور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے کہ کس قماش وکس کردار کے ہوں گے (جواہرالفقہ:۲/۲۹۴)۔
ووٹ بیچنا سخت حرام ہے: یہاں یہ فقہی مسئلہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ ووٹ چونکہ شفاعت کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور شہادت کی بھی اور دونوں پر کوئی معاوضہ لینا ودینا حرام ہے اور داخل رشوت ہے؛ اس لئے ووٹ پر بھی معاوضہ لینا اور دینا حرام ہے اور رشوت میں داخل ہے، حضرت ابوامامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ: ’’جس نے کسی شخص کی سفارش کی اور اس نے اس پر اس کو ہدیہ دیا اور اس نے وہ قبول بھی کرلیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا،، (ابوداؤد:۲/۴۹۹) معلوم ہوا کہ سفارش پر ہدیہ سود کے حکم میں ہے؛ بلکہ سود کی انتہائی قبیح صورت اسی طرح شہادت وگواہی کو بیچنا بھی حرام ہے اور رشوت میں داخل ہے؛ جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ نے جواہرالفقہ کے اسی مضمون میں نشاندہی فرمائی ہے (جواہرالفقہ:۲/۴۹۵) رشوت کا لین دین شریعت کی نظر میں نہایت ہی قبیح وشنیع فعل ہے جس پر سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے (ابوداود:۲/۵۰۵۔ ترمذی:۱/۲۴۸) لہٰذا کسی بھی مسلمان کو اپنا ووٹ نہیں بیچنا چاہیے؛ اس سے ہوسکتا ہے کہ کسی کی دنیا توبن جائے مگر بیچنے والے کی آخرت تباہ ہو جائے گی، یہ کونسی عقلمندی ہے کہ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنی آخرت برباد کرنے کے لیے تیار ہوجائے اور وہ بھی چند معمولی وحقیر ٹکوں کے عوض میں، ظاہر ہے کہ یہ عقلمندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے؛ الغرض ووٹ اسلامی نقطۂ نظر سے کئی حیثیتیں رکھتا ہے اور ہرحیثیت کے اعتبار سے ایک مسلمان پر ضروری ہے کہ اسے خدا سے ڈرکر استعمال کرے اور صحیح مصرف میں استعمال کرے، ضائع نہ کرے، اس کو محض ہارجیت کا ایک کھیل سمجھ کر غلط وبے جا استعمال نہ کرے، یہ نہ صرف اپنی آخرت کی بربادی ہے بلکہ دنیا میں اپنی قوم اور ملک وملت کی بربادی کا باعث بھی ہے، اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کس پارٹی کو ووٹ دیں یہ ایسا سوال ہے کہ موجودہ حالات میں دوٹوک جواب دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ دودھ کا پانی سے الگ کرنا؛ کیونکہ آج تک کا پورا ریکارڈ کھلے طور پر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہرپارٹی نے محض اپنے مفادات کی خاطر قوم وملک سے بڑے بڑے وعدے کئے؛ مگر جب ایفاء وعدہ کا وقت آیا تو کسی نے بھی اس کا پاس ولحاظ نہ رکھا بی جے پی تو شروع دن ہی سے مسلمانوں سے بغض وعناد وعداوت رکھتی چلی آرہی ہے اور اس میں وہ بے باک طور پر سامنے آتی رہی ہے؛ لہٰذا اس کے حق میں تو ووٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہاں مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ آج کل ووٹ کی خاطر بی جے پی کچھ نر م گوشہ دکھا رہی ہے؛ مگر یہ سب سیاسی چالیں ہیں، بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ بی جے پی نے اپنا نظریہ بدل دیا ہے؛ لہٰذا اس کو ووٹ دیکر دیکھ لینا چاہیے؛ مگر یہ صحیح نہیں؛ کیونکہ یہ محض ایک سیاسی چال ہے جس کو سمجھنا مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے، اب رہی دوسری پارٹیاں، ان میں سے کانگریس کی نیت بھی صاف نہیں ہے، اس نے ہمیشہ مسلمانوں سے وعدہ کر کے ان کو دھوکا ہی دیا ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کے کانگریس کی کوکھ سے ایسے سپوتوں نے بھی جنم لیا ہے جو مسلم دشمنی میں پیش پیش رہیں؛ اس لئے کلیتہً یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ کانگریس کے حق میں ووٹ دیا جائے، اب رہی دیگر جماعتیں اور پارٹیاں ان کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے؛ اس صورتِ حال میں کیسے کہا جائے کہ کس کے حق میں ووٹ دیا جائے؟ بس! اتنا توکہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کو ہرگز ووٹ نہ دیا جائے اور دوسری پارٹیوں کے متعلق اہلِ رائے حضرات میں سے بعض حضرات نے یہ رائے پیش کی ہے کہ جس علاقہ میں جس امیدوار کی اچھی پوزیشن ہو اور وہ سیکولر طریقہ سے ملی قیادت کرتے ہوئے عوامی خدمات کے لیے ہروقت تیار رہتا ہو؛ اس کو ووٹ دیا جائے اور جس کی پوزیشن اچھی نہ ہو اور جوفرقہ پرستی کوہوا دینے والا متعصب اور عوامی خدمات سے عدم دلچسپی رکھنے والا ہو تواس کو ووٹ دیکر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں؛ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ہرجگہ کے لوگ اپنے اپنے علاقہ کے اہلِ رائے حضرات سے مشورہ کر کے اس سلسلہ میں قدم اٹھائیں اور ہرجگہ کے اہلِ رائے حضرات بھی دوسروں کی رہنمائی کا کام پوری تندہی ودلچسپی کے ساتھ کریں تو ہمارا ووٹ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×