فقہ و فتاوی

تراویح میں دیکھ کرقرآن پڑھنے کا حکم

واٹس ایپ ایک منڈی ہے جس میں دن بھر میں نہ جانے کتنی رطب و یابس چیزیں آتی رہتی ہیں، ہر چیزکو دیکھنے اور پڑھنے لگ جائیے تو پھر کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں ملے گی، تاہم بہت سی اچھی، مفید اور کام کی چیزیں بھی آجاتی ہیں؛

اس لیے میرا معمول یہ ہے کہ واٹس ایپ کی منڈی سے اپنی پسند اور ضرورت کی چیز یں لے کر اپنے مطالعہ کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہوں تاکہ فرصت کے وقت پڑھ سکوں اور ضرورت کے وقت برت سکوں۔
اس وقت رمضان اور تراویح سے متعلق متعدد تحریریں گردش کررہی ہیں،جن میں سے بعض کومنتخب کرکے اپنی اسی ٹوکری میں ڈال رہا تھا فرصت کی وجہ سے پڑھ نہیں پارہا تھا، انہی تحریروں میں ہمارے قابل احترام مولانا رضی الاسلام صاحب ندوی کی بھی ایک تحریر”موجودہ حالات میں تراویح کیسے پڑھیں“ کے عنوان سے محترم کے ہی واسطہ سے موصول ہوئی، حسب عادت اسے بھی محفوظ کرلیا تھا کہ موقع ملتے ہی پڑھوں گا، اس کے مشمولات کا بھی علم نہیں تھالیکن جیسے ہی موصوف کی تحریر واٹس ایپ پر وائرل ہوئی لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی،بعض احباب نے گروپ میں اور بعض نے پرسنل پر رابطہ کیا کہ تراویح میں قرآن شریف دیکھ کر پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں نے اپنے انداز میں جواب بھی دیا۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ مولانا محترم کی تحریر پڑھوں، میں ان کی تحریریں شوق سے پڑھتا ہوں اور استفادہ کرتا ہوں ماشاء اللہ عام طورپر تحقیق کرکے لکھتے ہیں؛ لیکن اس تحریر کو پڑھ کر تھوڑی بے چینی سی ہوئی، اس لیے کہ فقہی مسائل میں ایک ضابطہ یہ ہے کہ جس ماحول میں وہ مسئلہ اور فتوی لکھا جارہا ہے اس کی رعایت ضروری ہے تاکہ لوگوں میں تشویش پیدا نہ ہو،اس لیے کہ فقیہ او رمفتی کا کام لوگوں کو مطمئن کرنا ہے نہ کہ تشویش میں مبتلا کرنا۔علامہ وہبہ زحیلی جو کہ تقلیدی مزاج نہیں رکھتے ہیں پھر بھی انہوں نے اپنے مقدمہ میں اس اصول کی وضاحت کی ہے۔حدیث سے بھی ہمیں اسی کی تعلیم ملتی ہے کہ لوگوں میں بے چینی پیدا نہیں کرنی چاہیے، حطیم پہلے خانہ کعبہ میں شامل تھا اور قریش نے وسائل کی کمی کی وجہ سے اسے خانہ کعبہ سے الگ کردیاتھا، آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا اگر تمہاری قوم کے لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے تو میں حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کردیتا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اس لیے کہ مکہ کے لوگ ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں وہ تشویش میں مبتلاء ہووجائیں گے۔
میں نے اس تحریر کو پڑھا تو محسوس ہوا کہ لوگوں کی تشویش بجا ہے۔ اس لیے کہ اس مضمون میں جن مسائل کو چھیڑا گیا ہے وہ سب نئے نہیں ہیں اور نہ ہی موجودہ حالات کی وجہ سے ان میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، محترم نے اپنے مضمون میں آٹھ رکعت اور بیس رکعت کا مسئلہ بھی ذکر کیا ہے،اور آٹھ رکعت کی دلیل نقل کرنے کے بعد موجودہ حالات میں مشورہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”گھروں میں تراویح کیسے پڑھی جائے اس کی کئی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں؛ایک یہ کہ ہر فرد کورات میں جتنی رکعتیں پڑھنے کی توفیق ہو تنہا پڑھے“ معلوم نہیں مولانا محترم نے کیا مشورہ دیا کہ گھر میں جتنی رکعتیں پڑھنے کی توفیق ہو پڑھے چار رکعت پڑھ لے یا آٹھ رکعت پڑ ھ لے اس کی مرضی ہے، اس عبارت کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب ہے نہیں معلوم، جب کہ یہ بات طے ہے اور تقریبا ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعت ہے،علامہ نووی لکھتے ہیں:صلاۃ التراویح سنۃ باجماع العلماء و مذہبنا انہا عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات و تجوز منفردا و جماعۃ(المجموع ۴/۳۱) حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں اس پر اجماع ہوگیا تھا،اس کے بعد سے آج تک حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ صحابہؓ کا اجماع، خلفاء راشدین ؓکا عمل، اور چودہ سو سالہ تعامل و توارث کے مقابلہ میں آٹھ رکعت کے لیے ایک ایسی حدیث پیش کرنا جس کا محمل فقہاء و محدثین نے قرینے سے طے کررکھا ہے، کیا امت کو خلفاء راشدینؓ اور اجماع صحابہؓ سے دور کرنا اور چودہ سوسالہ تعامل و توارث کو ردی کے ٹوکری میں ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟جب کہ واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ آٹھ رکعت نماز رمضان اور غیر رمضان ہمیشہ پڑھتے تھے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ تہجد کی نماز تھی،اور آپ ﷺ سے تین دن تراویح پڑھنا ثابت ہے اور وہ بھی بیس رکعت ہے اگر چہ اس حدیث پر کلام ہے لیکن حضرات خلفاء راشدین ؓکے عمل اور صحابہؓ کے اجماع کے بعد یہ ضعف کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ پھر موجودہ حالات میں اس کا مشورہ دینا کیا معنی رکھتا ہے،؟کیا یہ کہا جارہا ہے کہ گھر میں پڑھ رہے ہیں اس لیے آٹھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ جس کے لیے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کیاتراویح میں قرآن شریف دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں؟ مولانا محترم نے یہاں پر ائمہ کے مذاہب اور دلائل کو ذکر کرکے اور احناف کے دلائل کو کمزور کرکے اس کو ترجیح دی ہے کہ قرآن دیکھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔
یہاں میرے ذہن میں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے؛ بلکہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ ہے،اور ہر ایک امام نے دلائل کی روشنی میں اپنا موقف قائم کیا ہے، اور ہر جگہ لوگ اپنے اپنے مذہب کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں، جہاں پر حنابلہ اور شوافع ہیں وہاں پر ا س پر عمل ہوتا ہے۔میں نے رمضان میں حرم شریف میں بعض نوجوانوں کو دیکھاکہ قرآن دیکھ کر تراویح سن رہے ہیں ان کی ہیئت سے ہمیں شبہ بھی ہوا کہ یہ نماز میں ہے یا نہیں؟ اس لیے کہ رکوع میں جاتے وقت قرآن کو بازو سے دبا لیا پھر سجدہ میں جاتے وقت قرآن کو زمین پر رکھ دیا پھر سجدہ سے اٹھتے وقت قرآن کو لے کھڑا ہو گیالیکن یہ سب ان کے اپنے امام کے نقطہ نظر سے صحیح تھااس لیے، ہمیں یہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ ہم یہ لکھیں کہ ان کا یہ عمل غلط ہے؛ اس لیے کہ وہ اپنے مسلک پر عمل کررہے ہیں، ہندوستان اور برصغیر میں زیادہ تر لوگ فقہ حنفی پر عمل کرنے والے ہیں؛اس لیے یہاں پر اسی پر عمل ہوتا آرہا ہے کہ لوگ قرآن دیکھ کر نہ تو تراویح پڑھتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں، موجودہ حالات میں اس کی کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ فتوی دیا جائے کہ دیکھ کر تراویح پڑھ سکتے ہیں؟ بظاہر ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ جہاں پر حافظ میسر نہ ہو وہاں حکم یہ ہے کہ سورہ تراویح الم ترکیف سے پڑھ لیں، اور اگر ایسے لوگ ہوں جن کو ایک سورت بھی یادد نہیں ہے تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ جس طرح عام نماز وہ پڑھتے ہیں اسی طرح تراویح کی نماز بھی پڑھ لیں۔
دوسری بات یہ ہے اس مضمون میں فقہ حنفی کا جائز ہ صحیح طور پر نہیں لیا گیا ہے؛ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انٹر نیٹ پر بوابۃ الشروق کی ویب سائٹ پر موجود دارالافتاء المصریہ کے ایک فتوی کا ترجمہ کردیا گیا ہے اور فقہ حنفی کی کتابوں کا جائز ہ نہیں لیا گیا ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک قرآن دیکھ کر نماز پڑھنا مفسد نماز ہے؛اس کی احناف کے یہاں دو علتیں ہیں؛ ایک علت جس کا تذکرہ مولانا محترم کے فتوی میں کیا ہے کہ قرآن میں دیکھنا،اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدہ میں جاتے وقت قرآن کو رکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے، اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں اپنی نواسی حضرت زینب بنت ابی ا لعاص کو اٹھا کر کندھے پر بٹھالیتے تھے او رجب سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے تھے، اور کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیتے تھے (بخاری حدیث نمبر: ۶۱۵) ظاہر ہے کہ کسی بچی کو اٹھانا پھر رکوع میں جاتے وقت اس کو اتارنا یہ قرآن اٹھانے اور رکھنے سے کم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قیاس ہے، اس طرح ایک دو مثال کے ذریعہ عمل کثیر کے مفسد نماز ہونے کا جو ضابطہ ہے اس پورے ضابطہ کو ہی نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی بھی عمل کثیر مفسد نماز نہیں ہے، اس لیے کہ آپ ﷺ سے نماز میں عمل کثیرثابت ہے، جب کہ عمل کثیر کا مفسد نماز ہونا ائمہ کا متفقہ موقف ہے اور روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے اس لیے کہ آپ ﷺ نے نمازمیں کپڑا سے کھیلنے سے منع کیا جب کہ کپڑے سے کھیلنا،بچوں کو اٹھانے اوررکھنے سے ہلکا عمل ہے پھر بھی آپ نے اس سے منع کیا ہے۔دوسری بات یہ کہ آپ ﷺ کے واقعہ میں نسخ اور اختصاص کا احتما ل ہے۔ ابتداء میں نماز میں بات چیت کی بھی گنجائش تھی پھر بعد میں نماز میں بات چیت کی ممانعت ہوگئی، بہت سے ایسے اعمال ہیں جو آپ ﷺ کی خصوصیات پر محمول ہیں، بعض شراح حدیث نے لکھا ہے کہ یہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے اس لیے اس طرح کے جزئی واقعہ سے استدلال کرنا درست نہیں ہے علامہ عینی نے یہ دونوں توجیہ اس واقعہ کے سلسلے میں کی ہے (بنایہ شرح ہدایہ ۲/۲۴۰)۔
اسی طرح جواز میں ایک دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ حضرت عائشہ ؓرمضان میں اپنے غلام ذکوان کی اقتداء میں تراویح پڑھتی تھیں اور وہ قرآن دیکھ کر قراء ت کرتے تھے۔اس حدیث سے حضرات شوافع نے استدلال کیا ہے حالاں کہ اس سے استدلال کرنا بہت سی وجوہات کی بناپر درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ ؓکے اس عمل کی تائید آپ ﷺ کے عمل سے نہیں ہوتی ہے، بلکہ آپ کا قول ان کے عمل کے خلاف ہے؛ اس لیے کہ بعض ایسے لوگ جن کو آپ نے نماز کی تعلیم دی ان کو آپ ﷺنے فرمایا اگر تمہیں قرآن یاد ہے تو پڑھو ورنہ تسبیح پڑھ لو یہ نہیں کہا کہ قرآن دیکھ کر پڑھ لو، پھر ذکوان کے عمل کی مختلف توجیہ کی جاتی ہے،علامہ عینی نے بنایہ میں لکھا ہے کہ ذکوان حافظ قرآن تھے اور وہ تراویح کی نماز شروع کرنے سے پہلے قرآن دیکھ کر پڑھتے اور یاد کرتے تھے پھر تراویح پڑھاتے تھے، یا یہ کہ ہر دو رکعت پر بیٹھ کر قرآن دیکھتے تھے پھر تراویح پڑھاتے تھے (البنایہ شرح الہدیہ ۲/۲۴۰)ظاہر ہے کہ اس طرح کے احتمال کے ساتھ اس سے ا ستدلال کس طرح درست ہوسکتا ہے، جب کہ یہ حضرت عائشہ ؓ کا ایک تنہا واقعہ ہے اگر اس طرح کی گنجائش ہوتی تو ذخیرہ احادیث میں اس کی بہت سی مثالیں ملتیں۔
احناف کے یہاں عدم جواز کی جو مضبوط علت ہے جس کا مذکورہ مضمون میں تذکرہ نہیں ہے جب کہ فقہ حنفی کی تقریباتمام کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے اور دونوں علتوں میں زیادہ صحیح علت احناف کے یہاں یہی ہے تبیین الحقائق میں سرخسی کا قول نقل کیا ہے کہ یہ تعلیل زیادہ صحیح ہے (تبیین الحقائق ۱/ ۱۵۸) وہ یہ کہ قرآن دیکھ کرپڑھنا یہ درحقیقت تعلیم حاصل کرنا ہے،جس طرح نماز میں کسی زندہ آدمی سے اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اسی طرح مردہ معلم کے ذریعہ بھی اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو نماز فاسد ہوجائے گی، علامہ ابن ہمام نے اس کی صراحت کی ہے وہ لکھتے ہیں: و تحقیقہ انہ قیاس قرأۃ ما تعلمہ فی الصلاۃ من غیر معلم حی علیہا من معلم حی بجامع انہ تلقن من خارج وہو المناط فی الاصل فقط (فتح القدیر ۱/۴۰۲)۔
بہر حال اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو دلائل دونو ں طرف ہیں، اور یہ مسئلہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ ہے اور ہر مجتہد امام نے دلائل کی روشنی میں اپنا موقف قائم کیا ہے۔ اور ہر امام کے متبعین کو اپنے فقہ کی روشنی میں اس پر عمل کرنے کا حق ہے۔ لیکن مولانا موصوف نے اپنی تحریر کے ذریعہ لوگوں کوالجھن اور تشویش میں ڈالا ہے اس لیے کہ ہندوستا ن کی اکثر آبادی فقہ حنفی پر عامل ہے اور مولانا محترم نے اس کی صراحت نہیں کی ہے کہ یہ مسئلہ احناف کے مطابق نہیں ہے؛ بلکہ انہوں نے اپنی تحریر سے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ فقہ حنفی کا مسئلہ یہاں پر بہت کمزور ہے؛ اس لیے اسے چھوڑ کر فقہ شافعی پر اس باب میں عمل کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ مولانا کو اس کا اختیار نہیں ہے،وہ اپنی حد تک فقہ شافعی پر عمل کرنا چاہیں تو وہ کرلیں؛ لیکن عام مقلدین کواپنے امام کے مسئلہ سے انحراف کا مشورہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے اور یہ متعدد مضر ا ثرات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
فقہ حنفی کے مطابق تراویح کی نماز بیس رکعت ہے جماعت سے پڑھے یاتنہا پڑھے، مسجد میں پڑھے یا گھر میں پڑھے،حافظ قرآن ہو تو بیس رکعت کے ذریعہ پورے رمضان میں ایک ختم قرآن کرے اور اگر حافظ میسر نہ ہو تو الم ترکیف کے ذریعہ بیس رکعت تراویح پڑھے،اور نماز میں قرآن دیکھ کر تلاوت کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے چاہے فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو اور یہ مسئلہ بہت مضبوط دلائل کے ساتھ بہت سی حکمتوں و مصلحتوں پر مبنی ہے، اختصار کے پیش نظر دلائل کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے، فقہ حنفی پر عمل کرنے والوں کو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×