آئینۂ دکنفقہ و فتاوی

موجودہ حالات کے پس منظر میں واجب اور نفل قربانی کے احکام: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

حیدرآباد: 15؍جولائی (پریس ریلیز) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد نے قربانی کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ قربانی ایک اہم عبادت ہے، جس کا ثبوت قرآن سے بھی ہے حدیث سے بھی، اور اس عبادت کی اہمیت وفضیلت پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ بھی نہ آئے، اور اس لئے کہ یہ اسلامی شعائر میں سے ہے؛ چنانچہ قربانی ہر ایسے عاقل، بالغ ، مقیم مسلمان مردو عورت پر واجب ہے، جس کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کے علاوہ اتنے پیسے یا کوئی سامان ہو جو نصاب زکوٰۃ کی مقدار کو پہنچ جائے، قربانی ایک ایسی عبادت ہے، جس میں ایک چھوٹے جانور کو ذبح کرنا یا بڑے جانور میں حصہ لینا ضروری ہے، کوئی دوسرا عمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں ہوگا؛ اس لئے:
 ۰  جن لوگوں پر قربانی واجب ہو اور وہاں قربانی کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہو، وہاں جانور کی قربانی کرنا ہی واجب ہے۔
۰ اگر وہ اپنے مقام پر قربانی نہیں کر سکتا؛ لیکن دیہات یا کسی اور مقام پر قربانی کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں قربانی کر لے۔
۰  ہاں اگر جانور خرید لیا اور قربانی کے ایام میں قربانی نہیں کر سکا تو اب اس زندہ جانور کو صدقہ کر دینا واجب ہے، اور اگر ناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کر دیا تو دو باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، اول یہ کہ اس کا گوشت اور چمڑا یعنی سارا سامان غریبوں پر صدقہ کر دیا جائے ، نہ اس میں سے خود کھانا جائز ہے اور نہ مستطیع لوگوں کو کھلانا جائز ہے، دوسرے: زندہ جانور کی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہو جاتی ہو تو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرنا ضروری ہے۔
۰  اور اگر جانور خرید نہیں کیا تھااور قربانی کے ایام گزر گئے تو اب جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
۰  اور اگر نفل قربانی کا ارادہ ہو، یعنی قربانی واجب نہ ہو اور قربانی کرنا چاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں؛ حالاں کہ ان پر قربانی واجب نہیں ہے، یا ایصال ثواب کے لئے قربانی کر رہے ہوں تو یہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں، ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کر دی جائے، جیسا کہ امام ابو حنیفہؒ کے یہاں حج نفل کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کر دینا نہ صرف جائز؛ بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے؛ اس لئے دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہئے، جو واجب قربانی ہے، اس کو قربانی ہی کے ذریعہ ادا کیا جائے اور نفلی قربانی کے بجائے صدقہ کر دیا جائے۔
۰  یہی حکم اس صورت میں بھی ہے، جب واجب قربانی کے ادا کرنے میں قانونی رکاوٹ ہو، اور اس رکاوٹ کو دور کرنا ممکن نہ ہوتو ۱۲؍ ذوالحجہ کے بعد اس کی قیمت صدقہ کر دی جائے۔
چرم قربانی دینی مدارس کے لئے آمدنی کا اہم ذریعہ ہوتا تھا، اس بار رمضان المبارک میں مدارس کو آمدنی بہت معمولی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تمام دینی مدارس سخت دشواری کی حالت میں ہیں، اساتذہ کو نصف تنخواہیں دی جا رہی ہیں؛ اس لئے نفل قربانی اور واجب قربانی میں رکاوٹ کی وجہ سے جو صدقہ کیا جائے، اس میں ترجیحی بنیاد پر دینی مدارس کا خیال رکھا جائے، یہ ہماری ملی ذمہ داری ہے۔
قربانی کرنے کی صورت میں پوری احتیاطی تدابیر کا لحاظ رکھنا چاہئے، جو لوگ مویشی پالتے ہیں، ان میں حفظان صحت کا شعور بہت کم ہوتا ہے، جانور شہر پہنچنے تک بہت سے ہاتھوں سے گزرتا ہے، قصاب حضرات سے بھی بے احتیاطی ہو سکتی ہے، اور گوشت کی تقسیم میں بھی اس کا خطرہ ہے؛ اس لئے ہر پہلو سے احتیاط برتتے ہوئے اور حفاظتی تدبیروں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے قربانی کرنی چاہئے؛ کیوں کہ جیسے قربانی ایک شرعی عمل ہے، اسی طرح اپنی اور دوسروں کی صحت اور زندگی کی حفاظت بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×