سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

قضیۂ فلسطین اور عالم اسلام کی مردہ ضمیری و بے حسی

عبدالرشید طلحہ نعمانی

قضیۂ فلسطین عالم اسلام کے لیے ایسا رستا ہوا ناسور اور نہ بھرنے والا زخم بن چکا ہے،جس نے آج تک ہزاروں زندگیوں کے چراغ گُل کردیے، لاکھوں انسانوں کو در بدری پر مجبور کردیا اور کئی نسلوں کو تباہی و بربادی کے دَلدل میں دھکیل دیا۔
فلسطین کے سلگتے ہوئے موضوع پر مختلف زاویوں سے بہت کچھ لکھا اور بولا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ امتداد وقت کے باوجود تیزگامی اور تازہ کاری کے ساتھ جاری ہے،باضمیر اہل قلم اپنا غم لکھ رہے ہیں،زندہ دل سخن ور داستانِ الم سنارہے ہیں، غیرت مند صحافی موضوعِ گفتگو بنارہے ہیں،بابصیرت مفکرین گرہ کشائی کررہے ہیں،باقی جو رہ گئے ہیں،وہ تابہ امکان فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کررہے ہیں، تڑپ کر آنسو بہارہے ہیں،فریاد و فغاں اور نالہ و شیون کررہے ہیں؛بل کہ جگر مرادآبادی کے بہ قول بے بسی کے ایسے دور سے گزر رہے ہیں،جس میں:آنسو خشک ہوجاتے ہیں،طغیانی نہیں جاتی
تن ہمہ داغ داغ شد:
غزہ کے حالات دِل فگار ہیں،عالم اسلام کا اجتماعی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،معدودے چند افراد کے سوا جو لاچاری کے عالم میں امت کی ڈوبتی ناؤ بچانے کی فکر کررہے ہیں، بہت بڑی اکثریت صرف اپنے مفادات کی سوداگر ہے،دانش وروں کی زبانیں گنگ اور فکر مردہ ہوچکی ہے،حکم ران کاسہ لیسی،عیاری اور مکاری میں پیش پیش ہیں،عدالتیں انصاف بیچتی اور حقوق انسانی کی تنظیمیں انسانی حرمت کا سودا کرتی جارہی ہیں۔
پچھلے ایک ماہ کے عرصے میں متعدد ملکوں اور تنظیموں کی جانب سے غزہ کو لے کر کئی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں، مختلف تجویزیں پاس کی جاچکی ہیں اور اسرائیل کو دھمکی آمیز بیانات دینے کا سلسلہ تو ہنوز جاری ہے؛مگر افسوس کہ صورت حال جوں کی توں برقرار ہے،حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللّٰہ کے بہ قول: قضیۂ فلسطین کے حوالے سے عرب اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ قرار داد پاس کردیں،کانفرنس منعقد کرلیں اور ایسے بیانات جاری کردیں،جن کے اندر جھاگ کی بھی طاقت نہیں رہی۔اُن کے بس میں اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ وہ آہ وبکا اور گریہ وزاری کرتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں۔ اس قسم کے لوگوں کی تعداد بھی انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے اور ایسا بھی وہی لوگ کرتے ہیں،جنہیں رنج و الم اور مصیبت کی شدت کا احساس ہوتا ہے عربوں میں اب احساسِ الم بھی معدود ہوتا جارہا ہے؛لیکن گریہ وزاری کی تدبیریں بھی دن گزرنے کے ساتھ اپنا اثر کھو چکی ہیں، یہاں تک کہ مشرق و مغرب کے مسلمانوں نے اپنے پلّے یہ بات باندھ لی ہے کہ اگر وہ کوئی کام بہتر طریقے پر انجام دے سکتے ہیں تو وہ صرف چیخ و پکار اور رونا دھونا ہے کہ یہ بھی ایسا معمول کا کام ہو گیا ہے کہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔(فلسطین صلاح الدین کے انتظار میں)
اسے زندہ کر دوبارہ:
انسان کا وجود اس کے زندہ ضمیر سے عبارت ہے، مردہ ضمیر انسان جیتے جی مر جاتا ہے،ضمیر ہی وہ روشنی ہے جو اسے برے اور بھلے میں امتیاز کرنا سکھاتی ہے،اس کے نیک عمل پر اطمینان کا اظہار کرتی نیز ہر طرح کی برائی و بے حسی سے روکتی ہے اور دل میں ایک ایسی خلش پیدا کرتی ہے جو اسے کسی کروٹ چین سے نہیں بیٹھنے دیتی،گویا یہ ایک عدالت ہے جو انسان کا محاسبہ کرتی ہے جب تک یہ عدالت اپنا کام کرتی رہتی ہے انسان نیکی و عرفان کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے اور جب یہ اپنا کام چھوڑ دیتی ہے تو وہ جرم وگناہ کی گہرائیوں میں ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے اور کبھی کنارے پر نہیں آتا ۔
ضمیر کی عدالت کے محاسبے کی قوت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ جس مجرم سے اس کے جرم کا اعتراف دنیا کی بڑی سے بڑی عدالت بھی نہیں کروا سکتی یہ اس سے ’’اقبال جرم ‘‘ کروا کر اسے خود کو قانون کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
قضیۂ فلسطین کے حوالے سے اسی ضمیر کے بیدار ہونے کی ضرورت ہے،مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی کے بہ قول:
اس وقت عرب قوم اپنی تاریخ کے انتہائی نازک اور اہم مرحلہ سے گزر رہی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ شکست کا مرحلہ ہے، یا مصیبت کا مقام ہے اور میں اس مصیبت سے خوف زدہ نہیں ہوں، دعوت اور پیغام کی حامل قومیں،طویل تاریخ رکھنے والی قومیں، زندہ ضمیر اور روشن اور زندگی سے بھرپور قلب رکھنے والی قومیں ان مراحل سے گزرتی ہی رہتی ہیں، ہم خود اس طرح کے بے شمار مراحل سے گزر چکے ہیں، ہمارے اوپر صلیبیوں نے یلغار کی، تاتاریوں کا طوفان ہمارے سروں پر سے گزر گیا، جب کہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں مسلمان کی آخری سانس بھی نہ رک جائے، پھر بھی وہ مایوسی اور بدشگونی کا مقام نہیں تھا؛ کیوں کہ مومن کا ضمیر زندہ تھا، مومن کی عقل باشعور تھی اور وہ خیر وشر، دوست و دشمن اور مفید و مضر کی تمیز کرسکتا تھا اور اس وقت مسلمان جری، صاف گو اور بہادر تھا۔
میں ان جیسے المیوں سے کوئی خطرہ نہیں محسوس کرتا؛ بلکہ مجھے اصل خطرہ اس ضمیر سے ہے، جس نے اپنا کام کرنا چھوڑدیا ہے، ضمیر کا کام ہے احتساب اور غلطیوں کی گرفت، خواہ وہ اپنے باپ اور بھائی سے سرزد ہوئی ہو، یا کسی ذی وقار پیشوا اور رہنما سے، اگر یہ ضمیر مردہ ہوجائے، اپنا فطری عمل چھوڑدے، اپنی افادیت کھو بیٹھے اور اس میں حقائق کے اعتراف کی صلاحیت باقی نہ رہ جائے، تو یہی سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ انسانیت کی موت ہے، ایک انسان مرتا ہے تو ہزاروں انسان پیدا ہوجاتے ہیں؛ لیکن جب ضمیر مردہ ہوجائے، اجتماعی اور قومی ضمیر سے زندگی کے آثار ناپید ہوجائیں، جب قوم سے محاسبہ کی صلاحیت اور جرأت ختم ہوجائے، جب تنقید و احتساب کی جگہ شاباشی اور دادِ تحسین کے پھول برسنے لگیں تو یہ ایسا المیہ ہوگا جس کے بعد کسی المیہ کا تصور ہی ممکن نہیں۔(عالم عربی کا المیہ)
دل مردہ دل نہيں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ
کہ يہي ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
ترا بحر پر سکوں ہے، يہ سکوں ہے يا فسوں ہے؟
نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابي کنارہ!
خلاصۂ کلام:
مختلف ذرائع سے منظر عام پر آنے والی نشریات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی حکمران فلسطین میں صرف ایسا امن چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کے اب تک کے تمام اقدامات اور اس کے موجودہ کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے اور اس کی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے فلسطینی عوام خود کو اس کے رحمت و کرم پر چھوڑ دیں،اور اسرائیل جو کچھ بھی کرے، فلسطینی عوام اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت سے ہمیشہ کے لیے دست برداری کا اعلان کر دیں۔ظاہر بات ہے کہ یہ تجویز کسی صورت میں منظور نہیں ہوسکتی،مزاحمت کار فلسطینی ہر قیامت برداشت کرسکتے ہیں ؛مگر ایسی مصالحت قبول نہیں کرسکتے جس کی بنا پر اپنی زمین کے کسی بھی حصے سے دست بردار ہونا پڑے۔قضیہ فلسطین کے حل کو لے کر ہندوستانی مسلمان کیا موقف رکھتے ہیں ،اس سلسلے میں عرض ہے کہ جب مصر میں 1938 میں دفاع فلسطین کے لیے ایک موتمر منعقد ہوئی تھی ، مفتی کفایت اللہ صاحب علیہ الرحمہ نے جمعیۃ علمائے ہند کے وفد کی نمائندگی فرمائی، مفتی صاحب نے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان تقسیم فلسطین کے برطانوی فارمولہ کو یکسر مسترد کرتے ہیں، اعلان بالفور کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے ، فلسطین کے جہاد حریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور فلسطین میں یہود کے داخلے پر پابندی ، تقسیم فلسطین کے فارمولہ سے دست برادری ، آزاد جمہوری پارلیمنٹ کا قیام جسمیں وہاں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی ہو ، وطنی و قومی اصولوں پر حکومت کا قیام اور مہاجرین کی واپسی کو قضیہ فلسطین کا حل سمجھتے ہیں، یہ سب باتیں موتمر کی تجاویز میں بھی آئی تھیں ۔
آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کا یہی موقف ہے اور ہم اسی کو قضیے کا واحد حل سمجھتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×