اسلامیاتسیاسی و سماجی

دینی مدارس سے فراغت کے بعد کیا؟  (۱)

مولانا ابوحسان پوترک

یہ سوال دراصل ہر اس طالب علم کے ذہن میں پیدا ہونے لگتا ہے جب مدرسہ نظام تعلیم میں وہ مشکوۃ یا دورہ حدیث میں پہنچتا ہے ۔ تعلیمی عرصے میں یہ لمحات طالب علمی کے دور میں سب زیادہ تشویش واضطراب کے گزرتے ہیں ۔

مسقبل کے سلسلے میں ابہام و تشویش کا ایسا عالم ہوتا ہے کہ بہت سے طلبہ یہ تمنا کرنے لگتے ہیں کہ ” کاش یہ دور طالب علمی دراز ہوتا ” ۔مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ کی طرح اس حسرت کا بھی یہی انجام مقدرہوتا ہے ۔

دیکھتے دیکھتے شسماہی اور پھر ختم بخاری کا یوم فرحت آپہنچتا ہے۔ ایک طرف تکمیل بخاری پر مسرت وشادمانی سے دل بلیلوں اچھل رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب مستقبل کے اندیشوں کی ایک برقی لہر قلب ودماغ کو نامعلوم خوف میں مبتلا کردیتی ہے ۔

اور پھر چند دنوں بعد امتحان اور دستار فضیلت کی رسم بھی ادا ہوجاتی ہے ۔ یقین اور اعتماد کے خوشگوار احساس سے اکثر دل کی دنیا نا آشنا ۔۔۔۔

ایسے طلبہ بھی یقینا اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں جنھوں نے  کسی فن یا کتاب میں جدوجہد کرکے اپنی علمی استعداد بنائی ہوتی ہے اور اساتذہ کے ساتھ  مسلسل رابطے میں  رہ کر ان کی ہدایت کو قول فیصل قرار دیتے ہیں ۔نیز اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار اساتذہ کو سونپ کر ایک گنا راحت کا سانس لیتے  ہیں ۔مگر اکثر ایسے نہیں ہوتے ۔۔۔۔

عملی میدان میں پیش آمدہ مسائل اور اپنے سابقین کی کارگزارئیاں ، معاشرتی اور معاشی میدانوں ان کی زندگی کے الجھتے بال وپرجدید فضلاءکی تشویش میں مزید اضافے کا باعث ہوتے ہیں ۔ بلکہ بسااوقات شدید مایوسی اور نفسیاتی دباو کا سامان بنتے ہیں ۔

عام طورپر اس اضطرابی کیفیت میں پہلے جماعت تبلیغ کا میدان امید اور سہارے کا عنوان ہوا کرتا تھا ۔۔۔ مگر موجودہ حالات اس حوالے سے بھی زیادہ حوصلہ بخش نہیں رہے ۔ سال لگانے اور چار ماہ گزارنے کے بعد بھی شخصیت سازی کے  مطلوبہ پہلووں میں بے پناہ تشنگی رہ جاتی ہے اور چندمہینوں میں وہ نشہ بھی اتر جاتا ہے پھر ہمارے فضلائے مدارس نامعلوم منزل کے مسافروں کی طرح ایک ڈال سے دوسری اور پھر شاخوں اور ٹہنیوں کا غیر مختتم سلسلہ تاعمر جاری رہتا ہے ۔ مگر کشکول طلب ثمرات ونتائج سے خالی۔۔۔۔۔

دارالعلوم ،جامعات اور جدید مدارس کے قیام کی سورت میں تدریس کے مواقع اور دیگر ذمہ دایوں کی ادائیگی کے عنوانات پیدا ہوجاتے تھے مگر کوڈ کے بعد اور کچھ میدانی حالات و حقائق کی وجہ سے قدیم اداروں کے موقوف ہوجانے کے ناگوار اور انتہائی تشویشناک سانحات کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں ۔نیز عوام الناس میں دینی تعلیم کے رجحان کے میں واقع ہونے والی غیر معمولی تخفیف و گراوٹ نے اس طرف رخ کرنے والے فضلاء کے لئے مسائل پیدا کردئے ہیں ۔

مساجد اور مکاتب میں پہلے سے انتظار میں کھڑے علماء کی بڑی تعداد ہے ۔ وہاں بھی اب سابقہ روایات میں کافی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔ تعلیم وتربیت کے جدید تقاضوں نے استعداد ، محنت اور فنی مہارتوں کے بلند مطالبات اور مختلف علمی وعملی معیارات و اہداف پیدا کردئے ہیں  ۔ جو جدید فضلاء اور نو آموز عملے کے اضطراب کا باعث ہیں  ۔

چنانچہ جدید فضلاء میں تخصصات کا رجحان فروغ پاگیا اس طرح  عالمیت کی تکمیل کے بعد دو تین سال مزید مدرسے میں گزارنے کی شکل پیداہوجاتی ہے ۔
یہ رجحان قابل قدر تو ہے مگر  علی الاطلاق نہیں ، کیونکہ یہ تخصصات کسی علمی رجحان ، فکری میلان یا غیر معمولی علمی وتحقیقی ذوق وشوق یا باقاعدہ کریر کانسلنگ کے مراحل سے گزر کرنہیں ہوتا ۔اس لئے عام طورپر اس کی منزل افتاء ۔ادب عربی یاتکمیل فنون ۔ جیسے قراءت وتجوید ، حدیث وتفسیر پر جاکر تمام ہوجاتی ہے ۔ یعنی عالمیت کے دورانیے میں جن مضامین کو اجمالا پڑھا ہے اس کو مزید تفصیل سے پڑھا اور سمجھا جاتا ہے ۔ مذکورہ میدانوں میں زندگی لگادینے یا اس فن میں کوئی تحقیق و تصنیف کا ارادہ نہیں ہوتا الا ما شاءاللہ

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کام کے میدان تنگ ہوگئے ہیں یا علماء وفضلاء کی اتنی کثرت ہوگئی ہے کہ بے کاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کام کے میدان بہت ہیں اور دینی اور ملی کاموں  کے نئے آسمان وزمین پیدا ہوگیے ہیں ۔ مگر ان کاموں میں ادائے واجبات کے لئے جس طرح کی ابتدائی لیاقتوں اور مہارتوں کی ضرورت ہے جدید فضلاء اس کی تربیت سے اکثر بے توجہی یا بلند نصب العین کی کمی کی وجہ محروم ہیں ۔

تعلیم وتربیت ، اصلاح معاشرہ، خدمت ورفاہ عامہ ، امت کی معاشی تنگی اورغربت و افلاس کاحل ، نوجوانوں کی بے سمتی وبیکاری، کاروبای تنازعات ، انسداد جرائم ، معاشرتی اور خاندانی تصادم ، الحاد وارتداد، خواتین کے فکری اور اعتقادی مسائل ، باہمی مسلکی تفرقے ، قومی منافرت و فرقہ پرستی جیسے بے پناہ مسائل اور ان کے حل کے لئے علاقائی ، ضلعی اور راستی سطح پر  کھڑی ہونے والی ملی و رفاہی تنظیمیں وتحریکات میں کارکنوں اور رضاکاروں کی بے پناہ ضرورت ہے ۔مگر علماء ان کاموں کے لئے نہ تو فکری وعلمی طورپر تربیت یافتہ ہیں نہ عملی اور تحریکی تجربات سے گزرے ہوئے

سوال یہ ہے کیا اوپر ذکرکئے گئے میدانوں میں منظم ،منصوبہ بند،ہدف مرکوز اور معیاری کاموں کی ضرورت نہیں ہے ؟ بلکہ ہمارا یہ احساس ہے کہ ان میدانوں میں ہنگامی طورپر  صالح ، قابل اور ذہین علماء کی سب سے زیادہ احتیاج ہے ۔اور یہ ضرورتیں  علماء و جدید فضلاء کے عملی اشتراک وتوجہ کی سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔

مدارس کے اساتذہ اور ذمہ داروں کو یا تو احاطہ مدرسہ میں طلبہ کو ان میدانوں مطلوبہ  علمی ،فکری ، فنی ،عملی اور رحانی صلاحیتوں کی تربیت کا لازمی اہتمام کرنا چاہئے یا ایسے اداروں کی فہرست اور وہاں کے طریقہ کار کے سلسلہ میں مکمل معلومات فراہم کرنی چاہئے جو ہمارے فضلاء کی تربیت کا کام کررہے ہیں ۔ تاکہ مختلف ذوق صلاحیت کے حامل فضلاء کو مختلف ذمہ داریوں کے لئے تیار کیا جاسکے ۔

یقینا اساتذہ اپنے روحانی سلسلہ کو ان میادین میں سرخرو ہوتا دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں  اور پورے ملت اور انسانیت کو  اپنی تربیت یافتہ نسل کے ہاتھوں سجتا ،سنورتا اورکامیاب ہوتا دیکھ  کر روحانی طورپر سرشار ہونا چاہتے ہیں ۔
امید ہے یہ تحریر اس وقت جبکہ مدارس میں طلبہ کے فراغت کا دور شروع ہونے والا ہے ایک مثبت تحریک کا باعث بنے گی ۔

ابوحسان پوترک
رابطہ: sadiqpotrick36@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×