اسلامیاتسیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

سنکرانتی؛ایک ہندوانہ رسم

عبدالرشیدطلحہ نعمانی

”اسلام“ ایک مکمل دین اور جامع دستور زندگی کا نام ہے؛جس کی اپنی تہذیب،اپنی ثقافت، اپنے رہنے سہنےکے طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے بالکل جدا اور یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتا ہے اور اس کے مخصوص رسوم و اعمال ایک قوم کو دوسری اقوام سے جدا کردیتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے ،جس کی جمع شعائر ہے ،اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے ؛اسی لیے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے ۔اس لحاظ سے مسلمانوں کے لیے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے ۔

مذہبی تہواروں کو روایتی شان وشوکت سے منانا کسی بھی قوم سے وابستہ افراد میں اعتماد پیدا کرتا ہے اور ان میں دوسری قوموں سے برتر ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے ۔ ایک قوم کے افراد کا آپس میں تفاخر اور برتری کا اظہار توکوئی پسندیدہ امر نہیں؛ لیکن قومی سطح پر بہر حال یہ ایک مطلوب امر ہے، اپنے تہواروں سے وابستگی اور دیگر قوم کے تہواروں سے لاتعلقی ہمارے دین وایمان کی بقا اور تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے ؛یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے مدینہ تشریف آوری کے بعد وہاں کے علاقائی تہواروں کو منانے کے بجائے مسلمانوں سے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے تمہیں (جاہلیت کے تہواروں سے کہیں بہتر)عید الفطر اور عید الاضحی کے دو دن عطا فرمائے ہیں۔”(ابو داؤد)

بسنت (سنکرانتی)کی حقیقت:
برادران وطن کے مرکزی تہواروں میں جہاں دیوالی اور ہولی وغیرہ قابل ذکر ہیں، وہیں بسنت جسے”مکر سنکرانتی“ بھی کہاجاتاہے، جنوری کے درمیانی حصے میں چودہ تاریخ کو منایا جانے والاتہوارہے ؛جس کو منانے کی تیاری بھی بہت پہلے سے شروع کردی جاتی ہے اوربرصغیر سمیت مختلف خطوں میں نت نئے اندازسے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں ۔ عمومی طورپر بسنت کے سلسلہ میں دو طرح کے نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں :

۱)بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں ؛بل کہ محض ایک تفریح و دل چسپی کا سامان ہے،چوں کہ سردیوں کا موسم ختم ہو رہا ہوتا ہے،جو لوگ موسم کی شدت کی وجہ سے گھروں میں بند تھے ، درجہ حرارت مناسب ہونے پر گھروں سے باہر آتے ہیں اور خزاں اور سرما کی بے رنگی اور بدمزگی جو ان کے مزاج اور آنکھوں پر چھائی ہوئی تھی پتنگ بازی کے ذریعہ اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح بسنت کو موسمی تہوار سمجھ کر وہ مسلمان بھی شریک ہوجاتے ہیں، جنہیں حقیقت سے مکمل واقفیت نہیں اورسوائے سرسوتی پوجا کے اس میں وہ تمام کام انجام دیتے ہیں جو اہل ہنود میں رائج ہیں۔

۲)اس کے برعکس دوسرانظریہ یہ ہے کہ اس تہوار کاتعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک شخص سے ہے ؛جس کا ذکر ایک ہندو مورخ نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔اس حساب سے بسنت ایک موسمی تہوار نہیں بلکہ مذہبی جشن ہے،جیساکہ اس کا ذکر ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے؛جس کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسری شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ہیں۔وغیرہ

بہرحال اس اختلاف سے قطع نظر کہ یہ موسمی رسم ہے یا مذہبی تہوا ر؟ بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ درج ذیل گناہوں اورخامیوں کی بنا پر اس میں حصہ لینے اور غیر مسلموں کے شانہ بشانہ اسے منانے سے مکمل اجتناب کریں !

کفار کی مشابہت :
پتنگ بازی ایک غیر اسلامی رسم ہے ؛جسے مسلمان کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرسکتے ،اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ کوئی تفریح اور دل لگی کا سامان ہے تب بھی کفار کے ساتھ مشابہت کی بناءپر اس کی ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔چناں چہ صحیح بخاری شریف کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اُس کا حشر اُسی قوم کے ساتھ ہوگا،نیز صحیح بخاری شریف ہی کی ایک دوسری روایت ہے جس میں حضرت نبی اکرم ﷺ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ اِن کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاﺅ اور مونچھیں چھوٹی کرو، جب یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا گیا تو اِس میں یہی حکمت کار فرما تھی کہ مسلمان اِن کے ساتھ مشابہت نہ رکھیں بلکہ مسلمان کو اِن سے ممتاز اور علیحدہ رہنا چاہیے ، یہود کی طرح ہنود کی رسم بد کو بھی بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے ۔

اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت میں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ معمولی سی مشابہت رکھنے سے بھی روک دیا گیا ہے ، عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے ، اہل کتاب دن رات کا روزہ رکھتے ہیں، سحری نہیں کھاتے ، اس لیے فرمایا گیا کہ تم سحری کھایا کرو۔ یہ اور ان جیسی بہت سی ا حادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ سنکرانتی کی اس ہندو وانہ رسم کو نہ صرف خود چھوڑیں بلکہ اِس کی ڈٹ کر مخالفت بھی کریں۔

فرائض اور یادِ خدا سے غفلت:
عموما ًپتنگ بازی میں نہ وقت کا خیال رہتاہے نہ فرائض کا دھیان ۔بس ایک ہی دھن سر پر سوار رہتی ہے ،یہی وہ بات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شراب اور جوئے کے حرام ہونے کی علت بتلائی ہے ۔( سورہ مائدہ )نیز وقت کا ضیاع بھی اس کا جزولاینفک ہے؛جب کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو فقیری سے پہلے ، فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے ۔ (مشکوٰة شریف)اس مقام پر فراغت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنے کا حکم دیا گیا۔ اس فراغت کو غنیمت سمجھنے کا مطلب اپنے کو ہر دم یادِ خدا میں مشغول رکھنا ہے ، لہو و لعب اور پتنگ بازی میں اس فراغت کا استعمال وقت کا زیاں ہے ۔ اگر انسان یونہی فضول کاموں میں وقت ضائع کریگا تو بارگاہ رب العالمین میں اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

جان و مال کا اتلاف:
جانی نقصان : پتنگ بازی کے دوران چھت سے گرکر مرنے یا ہاتھ پیر ٹوٹنے کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، اسی طرح پتنگ یا ڈورلُوٹنے کے دوران ٹریفک کے حادثات بھی اب بکثرت ہونے لگے ہیں۔ جس کھیل میں انسانی جان ضائع ہونے لگے اُسے کھیل کہنا عقل کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ تو ہم پر اس قدر مہربان ہیں کہ جس چھت پر منڈیر نہ ہو اُس چھت پر سونے سے منع فرمایا کہ مبادا اَچانک اُٹھ کر چلنے سے نیچے گرپڑے اور جانی نقصان ہوجائے تو اِس کھیل کی کیوں ممانعت نہ ہوگی جس میں اب آئے دن جانی نقصان ہوتا رہتا ہے ۔

مالی نقصان : پتنگ بازی میں قوم کا کروڑوں روپیہ بلاوجہ ضائع ہوجاتا ہے ۔ پتنگ ڈور تو مہنگی ہوتی ہی ہے اب اِس کے ساتھ لائٹنگ، لاﺅڈ اسپیکر، دعوت وغیرہ کے التزامات مستزاد ہونے لگے ہیں۔ لاکھوں روپے کی پتنگ اور ڈوریں استعمال کی جاتی ہیں، جن کا دنیوی فائدہ ہے اور نہ اُخروی، سوائے فضول خرچی کے اِسے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا اور فضول خرچی کرنے والے کو رب العالمین نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔ اس لیے برادر شیطان کہلوانے سے بہتر ہے کہ مسلمان اس کام کو ترک کردیں اور جان ومال کی اس خدائی امانت کا بھرپور تحفظ کریں۔

پتنگ بازی کے دیگر مضرات:
(۱) پتنگ کے پیچھے دوڑنا : اس کا وہی حکم ہے جو کبوتر کے پیچھے دوڑنے کا ہے ،جس میں رسول اللہ ﷺنے دوڑنے والے کو شیطان فرمایا ہے۔(مسند احمد، ابوداو د )

(۲)دوسرے کو نقصان پہنچانے کی نیت : اس پتنگ بازی میں ہر شخص کی یہ نیت اور کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کی پتنگ کاٹ دوں اور اُس کا نقصان کردوں، حالانکہ مسلمان کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اس حرام فعل کی نیت سے دونوں (یعنی کاٹنے والا اور کٹوانے والا)گناہ گار ہوتے ہیں۔

(۳)بے حجابی و بے پردگی : بالعموم پتنگ بازی چھتوں پر چڑھ کر کی جاتی ہے جس سے قرب و جوار کے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور بے پردگی بھی بہت ہوتی ہے ۔

(۴) دیگر گناہ : ان سابقہ خرابیوں کے علاوہ اب ہمارے دور میں پتنگ بازی کے موقع پر ڈی جے، لاﺅڈ اسپیکر پر نعرہ بازی، گانا بجانا، مرد عورتوں کا مخلوط اجتماع بھی بکثرت ہونے لگا ہے ۔ ان میں ہر کام بذات ِخود ناجائز ہے اور جو کھیل ان سب گناہوں پر مشتمل ہو اُس کے جائز ہونے کا کیا سوال ہے ؟

سابقہ وجوہات کی بناءپر فقہاءکرام رحمہم اللہ پتنگ بازی کو ناجائز قرار دیتے ہیں یعنی موجودہ صورت میں پتنگ اُڑانا، پتنگ لُوٹنا، ڈور لُوٹنا، پتنگ بیچنا، خریدنا سب ناجائز ہے حتی کہ اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کو کوئی دوسرا جائز پیشہ اختیار کرنا ضروری ہے ؛جسکی آمدنی شرعاً حلال ہو۔ (کھیل و تفریح کا شرعی حکم)

نسل نو کی حالت زار:
نئی نسل ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے ، دیگر مسلم معاشروں کی طرح ہماری نوجوان نسل بھی لہو و لعب اور اغیار کی مشابہت کے سیلاب میں بہنے لگے تو پھر نئی سحر طلوع ہونے سے پہلے شب ِتاریک کو ظلمت ِ دوام عطا ہوگا اور امت مقصد حیات سے دور چلی جائے گی ۔ نئی نسل کی دلچسپیاں اور اس پر مستزاد کیبل وانٹرنیٹ کی تاریکیاں ہمیں قومی سطح پر بہت کچھ سوچنے کا پیغام دیتی ہیں !!

اولاد کو پڑھانے ، لکھانے کا شوق سبھی والدین کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ؛ لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کی رعایت کرنا اسلامی فریضہ ہے : مثلاً اگر آپ اپنی اولاد کو دینی علوم کے علاوہ دنیاوی اور عصری علوم میں ڈگریاں دلانا چاہتے ہیں تو دین ومذہب آپ کو روکتا نہیں، بس اتنا تقاضا رکھتا ہے کہ آپ بچوں کو ایسے ادارے میں داخل کریں، جس میں اسلام اور شریعت محمدیہ کے خلاف مضامین شاملِ درس اور داخلِ نصاب نہ ہوں، اسی طرح اس ادارے میں کوئی عمل ایسا ضروری نہ ہو جو اسلامی روح اور دینی مزاج کے منافی ہو ۔ بچوں کے کھیل، کود، سیر و تفریح، رہنے سہنے میں والدین اس بات پر ضرور توجہ رکھیں کہ دس سال عمر ہونے کے بعد بچوں اور بچیوں کو مخلوط نہ رہنے دیں، کھیل ہوتو بھی بچے اور لڑکے علیحدہ کھیل کھیلیں اور بچیاں بالکل الگ اپنا کھیل اختیار کریںاسی طرح غیر اسلامی کھیلوں اور ہندوانہ رسومات سے بھی اپنی اولاد کو دور رکھیں اور انہیں مفید صحت افزاکھیل کھیلنے کا موقع فراہم کریں۔

اجتماعی سطح پر ہم غور کریں کہ اگر خوشی کے لمحات بھی ہمارے اپنے نہیں بلکہ غیروں کے عطا کردہ ہیں۔ عیدیں ہمیں وہ مسرت نہیں دیتیں جو بسنت اور ویلنٹائن ڈے جیسے بیہودہ دنوں میں نوجوانوں میں نظر آتی ہے ، عیدوں میں گرم جوش شرکت کو بیک ورڈ اور رجعت پسندی سمجھا جاتاہے اور غیروں کے تہواروں میں پرجوش شرکت کو جدت پسندی اور ماڈرن ہونے کی ضمانت اور علامت بتایا جاتا ہے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے جسد ِقومی کو خطرناک سرطان لاحق ہے جس سے پیچھا چھڑانے کی ہمیں جلد از جلد تدبیر کرنا ہوگی!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×