اسلامیات

برقعوں میں فیشن اور بناتِ حوا

از قلم :مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی، خادم تدریس :ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد امام و خطیب مسجد محی الدین ونستھلی پورم

ہم تاریخ کے اس خطرناک دور سے گزر رہے ہیں جہاں اسلام بمقابلہ مغربیت ایک سخت کشمکش جاری ہے، مغربی فکر و فلسفہ کے حامی اور گلوبلائزیشن کے علم برادر مستشرقین اور یورپی متجددین پوری شدت کے ساتھ اسلامی اقدار و روایات اور ثقافت و کلچر کو ختم کر دینے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔
جی ہاں!
ایک طوفان برپا ہے اور ایک اشو ہر قسم کے میڈیا کے ذریعہ سارے عالم میں پھیلایا جارہا ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت انتہائی قدامت پسند ہے، جو ماڈرن کلچر کو قبول نہیں کرتی، ترقی اور جدت کو سراہنا تو دور بلکہ اسکی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے؛ حتیٰ کہ یہ کہا جارہا ہے اسلامی قوانین و ضوابط تو موجودہ زمانہ کے ہم آہنگ نہیں ہیں؛ لہٰذا ماڈرن کلچر کو فروغ دینا چاہیے اور عورت کو آزادی دلانا چاہیے، افسوس کہ اس سوچ کے حاملین ایسے ایشوز پر مبنی تعلیم ماڈرن کلچر کے نام سےپرائمری سے لے کر گریجویشن تک ہر اسکول ہر کالج ہر یونیورسٹی میں نوخیز بچوں اور عنفوان شباب پر پہنچنے والی لڑکیوں اور نئی نسل کو دے رہے ہیں
جس کے نتیجے میں گریجویٹ مسلم بیٹیاں اور انگریزی پڑھی لکھی بناتِ اسلام حجاب(برقعہ) کو دقیانوسیت خیال کرکے اسلامی تہذیب سے بغاوت کرتے ہوئے یا تو مکمل ترک کررہی ہیں یا پھر برائے نام، برائے فیشن برقعہ کو استعمال کررہی ہیں۔

اکیسویں صدی کی عورت
اکیسویں صدی کے اس مادی دور میں مسلم لڑکیاں بھی چہرہ اور جسم کے چھپانے کو قدامت پسندی اور دقیانوسی کی علامت سمجھ رہی ہیں، مغربی تہذیب و ثقافت کا اثر ان پر اس قدر زرو افزوں ہوچکا ہے کہ وہ بے دین، بے لباس و بر ہنہ عورتوں کے شانہ سے شانہ ملانے کے جنون میں کھلے چہرہ کا برقع پہننے ، پینٹ شرٹ ، فل یا ہاف اسکاٹ اور ٹی شرٹ وغیرہ میں کسی قسم کا عار محسوس نہیں کررہی ہیں ۔

بنات اسلام!ذرا غور کرکے بتائیں
کیا پردہ ایک ظلم ہے؟
کیا حجاب ایک جبر ہے؟
کیا برقعہ ایک قید خانہ ہے؟
کیا اسکارف ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
کیا پردہ روشن خیالی کیلئے خطرہ ہے؟
کیا حجاب وسعت فکر کیلئے زنجیر ہے؟
آخر برقعہ و حجاب کیا ہے؟
کیوں پہنا جاتا ہے؟
کیا برقعہ زیب و زینت کو چھپانے کے لیے اسلام نے مومنہ عورت پر عائد کیا ہے یا پھر فیشن کے نام پر زیب و زینت کی نمائش کے لیے؟
اس مادی اور ترقی یافتہ دور میں ہر عورت کو نہ سہی مسلمان عورت کو ان سوالات پر غور کرنا چاہیے!

اگر حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سوالات کا جواب تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ
برقعہ در اصل اسلامی تہذیب و ثقافت کی دین اور عورت کی حفاظت کا سامان ہے،پردہ عورت پر نہ ہی ظلم و جبر ہے اور نہ ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور خطرہ بلکہ اسلام نے نگاہ اور زنا کے فتنے سے بچنے کے لئے پردے کی پابندی لگائی ہےاور عورت کو عفت و عصمت کی پیکر بناکر حیا کی چادر اسے عطا فرمائی ہے۔
برقعہ شریعت کی نظر میں وہ ہوتا ہے جو ڈھیلا ڈھالا اور سیدھا سادھا جسم کے نشیب و فراز کو چھپانے والا ہو لیکن آج کے اس مادی دور میں برقعہ کے نام پر نت نئے فیشن متعارف کرائے جارہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک اسٹائلش، نت نئے ڈیزائن، کڑھائی، کٹ ورک، موتی، نگینے، رنگوں سے بھرپور برقعے ہماری خواتین استعمال کررہی ہیں؛ کیوں کہ مغربی تہذیب و ثقافت کا اثر ہماری خواتین کے حجاب اور پردہ میں بھی داخل ہوچکا ہے بلکہ حد تو یہ ہوگئی کہ اس طرح کے فیشنی پردے کے رواج کو دیہات و شہر کی عوام ہی نہیں شریف و معزز گھرانے ، خاندان ، دینی وضع دار کنبے بھی بڑی سرعت سے قبول کر رہے ہیں۔
ذرا غور کیجئے!!
عورت جس کے سر پر دین فطرت نے غیرت و آبروکا تاج رکھا تھا جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے، جس کو حجاب اور برقعہ کی شکل میں اپنا علیحدہ تشخص عطا کرکے اپنے مستقل وجود کا احساس دلایا تھا ، مردوں کی ہوس کا اسیر ہونے سے بچایا تھا بلکہ وہ ہتھیار عطا فرمایا کہ جو ان کے تحفظ کا ضامن تھا افسوس صد افسوس کہ آج وہ تجارتی اداروں کے لئے ایک شوپیس اور مرد کی تھکن دُور کرنے کے لئے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔
یہی تجھ کو دھن ہے، رہوں سب سے بالا
ہو زینت انوکھی، ہو فیشن نرالا
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جیا کرتا ہے کیا ، یونہی مرنے والا؟
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں

مغربی کلچر کے بھیانک نتائج
ذرا مغربی دنیا کی طرف نظر دوڑائیے!!
اور دیکھیے کہ جن ممالک نے بے پردگی کو عام کیا، اور آزادی نسواں کے خوبصورت نعرے تلے اس مادر پدر آزادی کو روا رکھا ہے، ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کریے ، اگر اس آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہماری بات غلط اور ہمارا موازنہ درست نہیں ہے لیکن یہ حقیقت مسلم ہے کہ آج یورپی معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ان کی تہذیب کا طلسماتی مینار جس طرح زمین بوس ہو رہا ہے اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں بے حیائی، فحاشی اور عورت کا مادر پدر آزاد ہونا ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف اتنا ہی بلکہ آپ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے جب جب بھی معاشرے میں بے پردگی کا رواج بڑھا ہے اسی وقت سے اغواء زنا اور دوسرے جرائم کی شرح کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس دور کی عورت کے نزدیک بے پردگی اور برقعوں کا فیشن سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں ہے؛ جبکہ بے پردگی حرام ہے۔ قرآن مجید میں پردے کی خاص تاکید کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔‘‘ (الاحزاب پ ۲۲
ایک حدیث میں آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ان عورتوں پر خدا کی لعنت ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔‘‘
اس حدیث پاک کا مطلب صاف ہے کہ آج کل مسلم عورتوں میں جو مغربی جدید طریقے پائے جاتے ہیں عریاں لباس کا پسند کرنا اور بدن کا اکثر حصہ چھوڑ کر کپڑا پہننا جو پہن کر ننگی رہیں اور ایسے جدید طریقے پر کپڑا بنانا جسے پہننے کے بعد بدن کے نیچے کا حصہ اور بالائی حصہ بالکل کپڑے سے خالی رہے اور بعض پوشاکوں میں تو آستین اور بازو کا حصہ بھی غائب رہتا ہے۔ غرض اس طرح کی جتنے پوشاکیں ہیں جو نئے نئے ڈیزائن اور نئی نئی کٹنگ سے مسلمان خواتین میں رائج ہیں یہ سب از روئے حدیث حرام ہیں اور اس جدید طرز اور عریاں چال ڈھال سے پہننے اور چلنے والوں پر خدا کی لعنت ہے
شریعت نے عورتوں کیلیے جو حجاب مقرر کیا ہے اس میں درج ذیل صفات ہونی چاہئیں:
(1) وہ برقعہ جسم کے سارے حصے کو ڈھانکنے والا ہو۔
(2) برقعہ اتنا تنگ و چست نہ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز یعنی جسمانی اتار چڑھاؤ نمایاں ہوں۔
(3)برقعہ یا چادر ایسی باریک نہ ہو جس سے اندر کے اعضاء ظاہر ہونے لگیں او رجسم کی ساخت واضح ہو، ،کیونکہ ایسا لباس ساتر نہیں ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ بعض جہنمی عورتیں ایسی ہوں گی جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی؛ یعنی ان کا لباس اتنا باریک اور پتلا ہوتا ہے کہ سارا جسم جھلکتا ہے۔ورنہ ایسا برقعہ،برقعہ کہلانے کا حق دار نہیں، بلکہ یہ برقعہ لوگوں کو اور زیادہ برائی کی دعوت دینے کا ذریعہ اور سبب بنے گا جس کو پہن کر باہر نکلنا ناجائز ہے
(4)کسی بھی قسم کی زیب و زینت اور مہکنے والی خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے سے پوری طرح بچنے کا اہتمام کیا جائے
(5) ایسا برقعہ جو مزین مختلف ڈیزائنوں سے آراستہ ہو اسے پہننے سے احتراز کیا جائے

اگر قوم مسلم اپنی لڑکیوں و عورتوں میں بڑھتی ہوئی بے قید آزادی و بے پردگی کے فتنوں کو معمولی تصور کرتی رہی، اور خواب غفلت کی شکار رہی، تو اس قوم کا عائلی اصول و دستور ، حسب و نسب ، خون وشرافت ، تہذیب و تمدن کی تباہی کا سبب یقینی ہے ،
اس لیے اگر مسلمان اپنی نسلوں کو صحیح النسب ، پاکیزہ اخلاق و اعلیٰ اقدار کا پیکر دیکھنا چاہتے ہیں، جس پر امت مسلمہ کی ہمہ جہتی ترقی و تشخص موقوف ہے ، تو ہر گھر کے ذمہ دار افراد والدین، سرپرست مسلم لڑکیوں و عورتوں کو پردۂ شرعی کے فوائد کی جانکاری دیں ، بے حجابانہ گلی کوچوں ، پارکوں ہوٹلوں اور ساحلوں پر گھومنے سے پیدا ہونے والی معاشرتی بیماریوں کی ہلاکت خیزیوں سے ڈرائیں،
اپنے گھروں میں ، ٹی ، وی ، انٹر نیٹ اور موبائل سے پیدا ہونے والے تباہ کن بیماریوں سے آگاہ کریں!!

آج پوری دُنیا میں خصوصاً اسلامی ممالک میں بے پردگی اور عریانیت کا سیلاب برپا ہے اور بے پردگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے عورت کو بے پردہ کرکے بطور ہتھیار استعمال کرنا یہود ونصاریٰ کا خاص مشن ہے،آج مغرب نے کمر باندھ لی ہے کہ ممالک اسلامیہ کو نیست و نابود کردے ان کی تہذیب و تمدن کے سوتے خشک کردے ان کو ان کی اسلامی اقدار سے دور کرکے ان کو اپنے جیسا وحشی بنا دیں
مغرب کو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اسلام عالمی مذہب نہ بن جائے اور وہ نیو ورلڈ آرڈر کا خواب جو یہودی دیکھ رہے چکنا چور نہ ہوجائے، اس لئے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کی یہ مہم جاری و ساری ہے۔
بنات اسلام! یہ حجاب کے خلاف تہذیبی و ثقافتی دہشت گردی اس لئے ہے کہ تم سے تمہاری قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔
دختران ملت!
اس جنگ میں تمہارا کردار بہت اہم ہے تمہیں اپنی پاک تہذیب و ثقافت میں نقب لگانے والوں کو بے نقاب کرنا ہے،خود بھی اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنا اور دیگر مسلمان دوشیزائوں کو بھی اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ کرنا ہے، تمہارے سر سے چادریں اور تمہارے چہروں سے نقاب کھینچنے کیلئے اگر مغرب اپنی پوری طاقت و قوت استعمال کررہا ہے تو تمہیں یقین محکم اور غیر متزلزل ایمان کے ذریعے اسکا مقابلہ کرنا ہے ۔
کیوں کہ
تمہاری گود سے ہی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی صورت میں فلاح امت کی صبحیں پھوٹ سکتیں ہیں۔
تمہاری غیرت ارتقاء و بقا کی تاریخ رقم کرسکتی ہے۔
تمہاری حیا‘ زندگی کے چمن میں بہار کے شگوفے کھلا سکتی ہے۔
تمہارے قربانی ملت کا مقدر جگا سکتی ہے

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×