اسلامیاتسیاسی و سماجی

باہمی تنازعات کی بڑھتی خلیج

عبدالرشید طلحہ نعمانی

فطری طور پر ہر انسان دوسرے انسان سے رنگ و نسل،مزاج و مذاق،فکر و تخیل،اطوار و عادات، شعور و احساس اور دیگر بہت سے امور میں مختلف ہوتاہے؛یہی وجہ ہے کہ ایک باشعور انسان دوسرے انسان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھلنے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا،کسی بھی رائے سے اظہار اتفاق کرنے میں تامل سے کام لیتا ہے اور کوئی بھی نقطۂ نظر فورا قبول کرنے میں عار محسوس کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہر چیز کو اپنی نگاہ سے دیکھے، اپنے دماغ سے سوچے، اپنے دل سے سمجھے پھر حال و استقبال، انجام وعواقب کو پیش نظر رکھ کر اپنا نظریہ قائم کرے؛اسی لیے اختلاف کو زندہ قوموں کی علامت بتلایا جاتاہے، مگراختلاف کے ساتھ وسعت ظرفی،تحمل وبرداشت اور احترام انسانیت بھی نہایت ضروری ہے؛جس کے فقدان سے نفرتیں پنپتی ہیں، پگڑیاں اچھلتی ہیں،سرعام رسوائیاں ہوتی ہیں اور طوفان بدتمیزی عام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔کسی کہنے والے نے سچ کہا ہے:ہم دنیا میں دو ہی چیزیں دیکھنا پسند کرتے ہیں،اپنا ہنر اور دوسروں کا عیب!
اختلاف کی دو قسمیں:
اختلاف 2 طرح کا ہوتا ہے:اختلافِ ممدوح اور اختلافِ مذموم۔
اختلاف ممدوح کو اسلام پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس اختلاف کے تحت سنجیدہ عقلی کاوشوں کے ذریعے مسائل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے، مختلف زاویوں سے نظر ڈالی جاتی ہے، مختلف دلائل کا موازنہ ہوتا ہے تاکہ کوئی ایسی شکل دریافت ہوجائے جو مسئلہ کی اصل حقیقت دوسروں کے سامنے واضح کرسکے اور زیر بحث مسئلہ کے تمام گوشے وپہلو دوسروں کے سامنے آجائیں اس میں اس بات کا خاص اہتمام ہوتا ہے کہ کوئی نقطۂ نظر آخری و قطعی حل کے طور پرلوگوں پر تھوپا نہ جائے بلکہ بحث وگفتگو، غوروفکر اور تبادلۂ خیال کے بعد بھی دوسری رائے رکھنے کی پوری اجازت ہوتی ہے۔
اس کے برخلاف، اختلاف مذموم وہ ہے جو امت میں تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں اجتہاد کو فکری ونظری حد سے آگے بڑھ کر عملی شکل دیدی جاتی ہے اور دوسروں پراسی مسلک و رائے کو لازم وضروری قرار دے دیا جاتا ہے۔اس طرح سے اختلاف رائے ،اختلاف عمل کی صورت اختیار کرکے امت کے اتحادکے لئے ایک بڑا خطرہ و چیلنج بن جاتا ہے۔
مخالفت و عناد کے اسباب:
رائے کا اختلاف مخالفت و تنازع میں اس وقت تبدیل ہوتا ہے،جب کوئی فریق اپنی رائے پر بے جا اصرار کرنے لگتا ہے،اپنے کہے کی پچ،ضد اور ہٹ دھرمی،خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی بات کو حرفِ آخر گرداننا، اپنی ذات کا اسیر ہوجانا نہ صرف اس کی ذات کے لیے؛بل کہ پورے سماج کے امن وامان کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔اسی کو خود بینی،خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر و استکبار کہا جاتا ہے۔ اس میں مبتلا ہو کر انسان خود کو معیارِ حق سمجھ بیٹھتا ہے، آنکھوں پر غیر مَرئی پردہ پڑ جاتا ہے اور حقائق سے انکار یا چشم پوشی شعار بن جاتا ہے۔
اختلافات کی خلیج کو وسیع کرنے والےاسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے پڑوس ملک کے نامور مفکر حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ ارقام فرماتے:ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈمڈ کر رکھا ہے۔ بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے جبکہ ہم کفر و اسلام کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، بات خطا و صواب کی ہوتی ہے؛مگر ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔(اختلاف رائے کے دائرے)
اختلافات اس وقت بھی سنگین صورت اختیار کر جاتے ہیں،جب تعصب و تنگ نظری کا ماحول گرم ہوتا ہے، تعصب خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو،امت کے شیرازہ کو منتشر کردیتا، ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیتا، ان میں بغض وعداوت اور نفرت وکراہیت اور حسد وعناد کا زہر گھول دیتا ہے جس کے بعد انسان اندھا ہوجاتا ہے، پھر انہیں باہم قتل وقتال اور لڑائی جھگڑے کرنے در پے آزار ہونے اور کسی بھی حال میں دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کرتے رہنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا ۔
مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے،جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی،جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑے گئے جس کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے مغلوب ومحکوم بن گئے ، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی۔
مختلف ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے جہاں خانہ جنگی ہوئی، وہاں ابتدا ایسے ہی حالات سے ہوتی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بونے میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر لوگ ان کے خلاف اسلحہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نتیجتاً پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ پھر یا تو وہ ریاست تباہ ہوجاتی ہے یا اس میں مارشل لاء لگ جاتا ہے اور اس صورت میں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں عصبیت ایک اہم موضوع ہے جس سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے قوموں اور قبیلوں کے تعصب کو مٹانے کےلیے فرمایا، ترجمہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہاری قومیں اور قبیلے بنا دیے تاکہ تم پہچان کرسکو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو متقی ہے‘‘ (الحجرات)۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کےلیے لڑائی کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے‘‘ (ابن ماجہ)
الغرض :یہ دور خود غرضی اور مفاد پرستی کا دور ہے،جس کو جس راستے میں اپنا مفاد نظر آتا ہے،اُسی رخ پر وہ گام زن ہوجاتا ہے،جہاں کسی کو کوئی سبز باغ دکھایاجاتا ہے،اسی کی رہنمائی کو وہ فرض عین تصور کرتا ہے،شخصی مفادات پر ملی مفادات کو قربان کرنا اب اس قدر عام ہوگیا ہے کہ خواص تو خواص عوام بھی اب سارے داؤ پیچ سمجھنے لگی ہے؛اس لئے کب کون کس کے ساتھ کھڑا ہوجائے، اور کب کون کس سے علاحدہ ہوجائے، کب کون کس کی تائید کرے اور کب کسی کی مذمت میں بیان جاری کردے،کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔نیتیں مشتبہ ہیں، سامنے کچھ ،پیچھے کچھ ،ظاہر کچھ ، باطن کچھ۔پہلے زمانے میں اختلافات ہوتے تھے ،اور سلیقے کے ساتھ ہوتے تھے،چھوٹے بڑوں کی رائے کا احترام کرتے تھے اور بڑے شفقت کے ساتھ سب کی بات سنتے تھے مگر اب صورت حال بالکل مختلف ہوچکی ہے۔
خلاصۂ کلام:
اختلاف ہونا چاہیے،حد ادب میں ہونا چاہیے،سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے اور بغیر کسی اصرار و استکبار کے ہونا چاہیے۔سوشل میڈیائی مفکرین کی رائے دہی میں عجلت پسندی،اختلاف میں میں بے راہ روی اور عدم تحمل و بے برداشتی کے حوالے سے مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب کے اس چشم کشا اقتباس پر ہم گفتگو ختم کرتے ہیں:سوشل میڈیا نے فکر واظہار کی آزادی کو بڑھایا ہے،جو ایک مثبت چیز ہے؛ لیکن ساتھ ہی برداشت کو بھی ختم کردیا ہے۔ کل ہی ایک تحریر پڑھی کہ غصہ انسان میں کیمیکل ری ایکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ ری ایکشن 12 منٹ تک رہتا ہے۔ چند سال پہلے تک جب ہمیں کسی تحریر سے اختلاف ہوتا تھا تو اس کے اظہار کے لیے ایک عدد مراسلہ لکھنا پڑتا تھا، پھر ڈاک کے ذریعے وہ پہنچتا تھا اور مناسب ہوتا تو شائع بھی ہوتا تھا۔ آج ہمارا ردعمل غصے کے اسی 12 منٹ والے دورانیے میں شائع بھی ہوجاتا ہے۔ اسی لیے عدم برداشت اور شدت پسندی اس طبقے میں فروغ پارہی ہے جس کو ہم دین دار کہتے ہیں اور جس کی نسبت علم سے کرتے ہیں۔
ہم اپنے مدارس میں شروع سے لیکر آخر تک اختلاف ہی تو پڑھتے ہیں، نحو میں کوفیین وبصریین کا، فقہ میں صاحبین و امام اعظم کا نیز حنفیہ اور شافعیہ کا، اصول فقہ میں اہل عراق اور علمائے ماوراء النہر کا، حدیث میں محدثین وفقہا کا۔ ہمارے اساتذہ جب بھی ان مختلف شخصیات کا ذکر کرتے ہیں تو عظمت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، دورہ حدیث میں اس عظمت کا اظہار خوب ہوتا ہے، جس سے ایک عام انسان بھی یہ سمجھ جاتا ہے کہ اختلاف رائے ترقی اور توسع کا ضامن ہے، اس کو یقین ہوجاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں علما نے ہمیشہ قوت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، امام شافعی نے جب نئے فقہی دبستان کی بنیاد رکھی تو ان کے استاذ امام محمد نے یہ نہیں کہا کہ خبردار تم کیسے اپنے دادا استاذ امام اعظم کے خلاف جاسکتے ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×