اسلامیاتسیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

انتخابات اوراس کے نتائج :عبرت اور نصیحت کے چند پہلو

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری،ڈائرکٹر القلم فاونڈیشن کریم نگر

ماہ ِ نومبر کے آخر میں ریاست ِ تلنگانہ میں انتخابات ہوئے ،اس کے علاوہ بھی ملک کی دیگر ریاستوںمیںانتخابات کاانعقادہوا۔اوردسمبر کی تین تاریخ کونتائج آئے۔کہیں سابقہ حکومتوں کو بے دخل ہونا پڑااوران کی جگہ دوسروں کوکامیابی حاصل ہوا،کسی کا دورِ حکومت ختم ہواتوکسی کو اقتدار واختیار حاصل ہوا۔انتخابات میں کسی پارٹی کو کامیابی ملتی ہے تو کسی کو ناکامی،کسی کی حکومت زوال پذیر ہوتی ہے تو کسی کو عروج نصیب ہوتا ہے۔اس دنیا میں ایسا ہوتے رہتا ہے اور انتخابات کے بعد ایسی صورت حال پیش آتی رہتی ہے۔کوئی ناانصافی اور زیادتی کرکے،دھوکہ اور خیانت کےذریعہ کامیابی حاصل کرتے ہیں تو کوئی اپنے سابقہ اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنے ہی اقتدار کو باقی رکھنے کی غیر منصفانہ کوشش کرتے ہیں۔ایسے ظالم حکمراں چاہے جتنا عرصہ بھی حکومت کرلے لیکن ایک وقت آئے گا جب ان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوگا،ظلم وناانصافی کا خاتمہ ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس چیز کو اسلامی نقطہ ٔ نظرسے غور وفکر کرنا ہے،دنیا کی ہر چیز انسانوں کو دعوت ِ فکر وعمل دیتی ہے،نصیحت اور عبرت کا پیغام دیتی ہے۔عقل مند اور داناانسان زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے بڑے واقعات اور انقلابات سے سبق حاصل کرتا ہے اور عبرت پکڑتا ہے اور جن کی نظروں میں صرف دنیا ہی ہوگی اور وہ آئندہ کی زندگی سے غافل ہوں گے توان کی نگاہ تغیرات ِ زمانہ سے نصیحت حاصل نہیں کرتی۔اس سلسلہ میں عبرت و نصیحت اورغور وفکر کے چند پہلو ہیں جنہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
ایک مسلمان کا اس بات پر ایمان ویقین ہے کہ اس دنیا کا حقیقی مالک اور بادشاہ اللہ تعالی ہے،دنیا میں جو کچھ ہےوہ سب اللہ تعالی ہی کےاختیار اور قبضہ ٔ قدرت میں ہے ۔اللہ تعالی نے عارضی طور پر انسانوں کو حکومت اور سلطنت عطا کی ہے اور اللہ تعالی جب چاہے انسانوں سے حکومت اور سلطنت کوچھین بھی سکتا ہے۔اس کائنات میں کوئی چیز اللہ تعالے کی اجازت کے بغیر واقع نہیں ہوتی ۔قرآن کریم میں باربار انسانوں کو بتایا گیا کہ دنیا اور آسمان اللہ تعالی کے اختیار میں ہے۔ارشاد ہے: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ۔(البقرۃ:۱۰۷)’’کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ وہ ذات ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت تنہااُسی کی ہے،اور اللہ کے سوا نہ کوئی تمہارا رکھوالا ہے نہ مددگار۔‘‘ اللہ تعالی ہی انسانوں کو حکومتوں سے نوازتا ہے اور وہی حکومتوں سے محروم بھی کرتا ہے،انسان کو اپنی عارضی حکومت پر اترا نااور گھمنڈ کرنا زیب نہیں دیتا ۔قرآن کریم میں فرمایاگیا:قُلِ ٱللَّهُمَّ مَٰلِكَ ٱلْمُلْكِ تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ۔( ال عمران:۲۶)’’کہوکہ :’’اے اللہ !اے اقتدار کے مالک !تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے،اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے،اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہےاور جس کو چاہتا ہے رُسوا کردیتا ہے،تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔یقینا ً تو ہر چیز پرقادر ہے۔‘‘
دنیا میں بڑے بڑے طاقت ور حکمراں آئے اور بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک آئے لیکن جب غرور اور گھمنڈ ان میں آگیااور انہوں نے خود کوہی مالک ومختار سمجھ کر کمزوروں پر ظلم کرنااور رعایا کو پریشان کرنا شروع کیا تو اللہ تعالی نے ان کی حکومتوں کو بھی تہس نہس کردیااور ان کو آنے والے انسانوں کے لئے عبرت کا سامان بنادیا۔قرآن کریم میں بہت سی طاقت ور قوموں کے تذکرے کئے گئے ،جن میں صرف فرعون کی انانیت جو بیان کیا گیا وہ اس طرح ہے۔وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي أَفَلا تُبْصِرُونَ أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلا يَكَادُ يُبِينُ فَلَوْلا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ فَلَمَّا آسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلا لِلْآخِرِينَ۔ (الزخرف:۵۱۔۵۶)’’اور فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکارکرکہا:’’اے میرے قوم !مصر کی سلطنت میرے قبضے میں نہیںہے؟اور(دیکھو) یہ دریا میرے نیچے بہہ رہے ہیں ۔کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا ؟یا پھر مانو کہ میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو بڑا حقیر قسم کا ہے،اور اپنی بات کھل کر کہنا بھی اس کے لئے مشکل ہے۔بھلا( اگر یہ پیغمبر ہے تو ) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے؟یا پھر اس کے ساتھ فرشتے پر باندھے ہوئے کیوں نہ آئے؟‘‘اس طرح اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا،اور انہوں نے اس کا کہنا مان لیا۔حقیقت یہ ہے وہ سب گنہ گار لوگ تھے۔چناں چہ جب انہوں نے ہمیں ناراض کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیااور ان سب کو غرق کردیا۔اور ہم نے اُنہیں ایک گئی گذری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنادیا۔‘‘
دنیا میں انسان اپنے اقتدار اور حکومت کو دائمی اور لافانی نہ سمجھے،ہر صاحب ِ منصب کو مرنا ہے اور اس کے دور ِ حکومت کو ختم ہوناہے،وہ اس عارضی حکومت وسلطنت کے نشے میں اپنی حقیقی منزل کو فراموش نہ کرے اور نہ ہی لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا حکمراں کبھی نہیں بدلے گا،بلکہ وہ بھی چلے جائیں گے اور ان کے پسندیدہ حکمرانوں کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔ اس حقیقت کو وقتی حکومت کے خمار میں حکمراں بھی بھول جاتے ہیں اور ان کے چیلے اور حاشیہ نشین بھی نظر اندازکردیتے ہیں ۔دنیا کے یہ انتخابات اور اس کے نتائج انسانوں کو اس حقیقت پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔اور اپنی فانی زندگی کو ہمیشہ کے لئے برباد ہونے سے بچانے کا پیغام دیتے ہیںاور اس بات کو تسلیم کرنے کی دعوت دیتے ہیں حکومت و بادشاہت ،اختیار اور اقتدار حقیقت میں صرف اللہ تعالی ہی کا ہے۔
انتخابات اور اس کے نتائج کے دوران امیدوار کو اپنی کامیابی اور بہتر نتائج کی بہت زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے۔اس کے لئے امیدوار پیسوں کو بے دریغ خرچ کرتا ہے،تاکہ پیسوں کے ذریعہ صحیح لیکن کامیابی مل جائے ۔دنیا کی عارضی کامیابی کو حاصل کرنے اور اپنے حق میں نتائج کو لانے کے لئے پیسوں کا استعمال بہت ہوتا ہے اور آج کے دور میں یہی کامیابی کا ذریعہ بن گیا ہے،قابلیت اور خدمات اور عوامی فلاح وبہبودی کے بجائے انسان پیسے کے ذریعہ لوگوں کو خریدتا ہے اور اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔قرآن نے انسانوں کو آگاہ کیا کہ دنیا میںجو خدا کی نافرمانی کرکے مرے اگر وہ عذابِ الہی سے بچنے کے لئے زمین بھر بھی سونا دینا چاہے تو وہ عذاب ِ الہی کو دور نہیں کرسکتااور آخرت کی کامیابی کو حاصل نہیں کرسکتا۔قیامت میں انسان کا مال اللہ کی پکڑ سے نہیں بچاپائے گا،بلکہ اس کےاچھے اعمال او ر ایمان ہی جہنم کی ہولناکی سے حفاظت کا ذریعہ ہوں گے۔ارشاد ہے:إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ۔( ال عمران:۹۱)’’جن لوگوں نے کفر اپنایااور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے ،ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا بھی قبول نہیں کیا جائے گا،خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لئے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔ان کو تو دردناک عذاب ہوکر رہے گا،اور ان کو کسی قسم کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔‘‘ ایک جگہ ارشاد ہے:يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (11) وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (12) وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (13) وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ۔(المعارج)’’مجرم یہ چاہے گا کہ اُس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لئے اپنے بیٹےفدیہ میں دیدے،اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی ،اور اپنا وہ خاندان جو اُسے پناہ دیتا تھااور زمین کے سارے کے سارے باشندے ۔پھر(ان سب کوفدیہ میں دے کر) اپنے آپ کو بچالے۔‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہوسکے گا،نہ مال ودولت قبول کیا جائے گااور نہ ہی کوئی کسی کوبچا سکے گا۔قیامت کے دن کی یہ صورت حال بیان کرکے اللہ تعالی نے انسانوں کو باخبر کردیا کہ وہ وہاں کامیاب صرف ایمان اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔
یہ گھڑی محشر کی ہے،تُو عرصہ ٔ محشر میں ہے
پیش کر غافل،عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
انتخابات اور الیکشن کے دور میں مال ودولت کی تقسیم سے دنیا میں ممکن ہے انسان وقتی طور پر عارضی عہدہ اور حکومت حاصل کرلے لیکن یہ مال اس کو قیامت کےد ن کے عذاب سے بچا نہیں پائے گا،جہاں حق اور انصاف کی بنیادپر کامیابی اور ناکامی کے فیصلے ہوتے ہیں۔
انتخابات کے بعد امیدوار اپنے حق میںکامیابی کا فیصلہ دیکھنے کے لئے نہ صرف بے چین وبے قرار رہتا ہے بلکہ اس کے لئے ہر ممکن تگ ودو بھی کرتا ہے۔اگر ناکامی کا فیصلہ آجائے تو پریشان اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔امیدوار تواپنی کامیابی کا فیصلہ سننے کے انتظار میں رہتا ہی ہے لیکن اس کے چاہنے والے اور اس کے لئےدن رات محنت کرنے والے اور اپنے امیدوار کو جتانے کے لئے ہرقسم کے جتن کرنے والے بھی ناکامی کا فیصلہ سننے کے لئےکسی طرح بھی تیار نہیں رہتے ،بلکہ کامیابی کا اعلان سننا چاہتے ہیں۔دنیا کا یہ وقتی کامیابی کا فیصلہ ہوتا ہے جب کہ جیتنے والا بھی ہمیشہ کامیابی کی کرسی پر براجمان نہیں رہتا لیکن اس کے لئے بھی اتنی فکر اور کوشش ہوتی ہے۔آخرت میں ایک انسان کے سامنے جب اس کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ سنایا جاتا ہے تو کیا صورت حال ہوتی ہے قرآن کریم میں جگہ جگہ ذکر کیا گیااور انسانوں کو آگاہ کیا گیا کہ وہ آخرت کی حقیقی اور دائمی کامیابی کے لئے کوشش اور محنت کرنے والا بنے،وہ اُس دن کے نتائج سے غافل نہ رہے۔دنیا کے یہ انتخابات او راس کے نتائج انسانوں کو اس کی میدان ِ قیامت کی یاد تازہ کراتے ہیں اور وہاں کے حالات سے باخبر کرتے ہیں۔ آج ہم اپنوں کی کامیابی کاجشن مناتے ہیں اور ناکامیابی پرغمگین ہوجاتے ہیں ،کل قیامت کے دن ہماری کامیابی اور ناکامی پر اپنے سوا کوئی اور حسرت وملال کرنے والا نہیں ہوگا،ہم خود ہی ذمہ دار ہوں گے اور وہاں سے کوئی راہ ِ فرار بھی نہیں ہوگی۔ارشادخداوندی ہے:فَإِذَا جَآءَتِ ٱلصَّآخَّةُ ٣٣ يَوۡمَ يَفِرُّ ٱلۡمَرۡءُ مِنۡ أَخِيهِ ٣٤ وَأُمِّهِۦ وَأَبِيهِ ٣٥ وَصَٰحِبَتِهِۦ وَبَنِيهِ ٣٦ لِكُلِّ ٱمۡرِيٕٖ مِّنۡهُمۡ يَوۡمَئِذٖ شَأۡنٞ يُغۡنِيهِ ٣٧ وُجُوهٞ يَوۡمَئِذٖ مُّسۡفِرَةٞ ٣٨ ضَاحِكَةٞ مُّسۡتَبۡشِرَةٞ ٣٩ وَوُجُوهٞ يَوۡمَئِذٍ عَلَيۡهَا غَبَرَةٞ ٤٠ تَرۡهَقُهَا قَتَرَةٌ ٤١ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡكَفَرَةُ ٱلۡفَجَرَةُ ٤٢۔ ( عبس)’’آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آہی جائے گی۔(اُس وقت اس ناشکری کی حقیقت کاپتہ چل جائے گا)یہ اُس دن ہوگاجب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔اور اپنے ماں باپ سے بھی۔اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔(کیوںکہ) ان میں سے ہر ایک کو اُس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اُسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔اُس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔ہنستے ،خوشی مناتے ہوئے۔اور کتنے چہرے اُس دن ایسے ہوں گے کہ اُن پر خاک پڑی ہوگی۔سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔یہ وہی ہوں گے جو کافر تھے،بدکا رتھے۔‘‘
انسان قیامت کے دن جب اپنا نتیجہ دیکھے گا تو اس وقت کیا کیفیت ہوگی اس کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایاگیا :يَوۡمَئِذٖ تُعۡرَضُونَ لَا تَخۡفَىٰ مِنكُمۡ خَافِيَة١٨فَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقۡرَءُواْ كِتَٰبِيَهۡ ١٩ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَٰقٍ حِسَابِيَهۡ ٢٠ فَهُوَ فِي عِيشَةٖ رَّاضِيَةٖ ٢١ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٖ ٢٢ قُطُوفُهَا دَانِيَة٢٣ كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ هَنِيٓـَٔۢا بِمَآ أَسۡلَفۡتُمۡ فِي ٱلۡأَيَّامِ ٱلۡخَالِيَةِ ٢٤ وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ ٢٥ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ ٢٦ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ ٢٧ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ ٢٨ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ ٢٩ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ٣٠ ثُمَّ ٱلۡجَحِيمَ صَلُّوهُ ٣١ ثُمَّ فِي سِلۡسِلَةٖ ذَرۡعُهَا سَبۡعُونَ ذِرَاعٗا فَٱسۡلُكُوهُ ٣٢ ۔( الحاقۃ)’’اُس دن تمہاری پیشی اس طرح ہوگی کہ تمہاری کوئی چھپی ہوئی چیزچھپی ہوئی نہیں رہے گی۔پھر جس کسی کو اُس کا اعمال نامہ اُس کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا،وہ کہے گا کہ :’’لوگو!لومیرا اعمال نامہ پڑھو،میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ مجھے اپنے حساب کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘چناں چہ وہ من پسند عیش میں ہوگا،اُس اونچی جنت میں ،جس کے پھل جھکے پڑرہے ہوں گے،(کہاجائے گاکہ 🙂 ’’اپنے اُن اعمال کے صلے میں مزے سے کھاؤپییو،جو تم نے گذرے ہوئے دنوں میں کئے تھے ۔‘‘رہا وہ شخص جس کا اعمال نامہ اُس کے بائیں ہاتھ میں دیاجائے گا،تو وہ کہے گاکہـ’’اے کاش !مجھے میرااعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا،اور مجھےخبر بھی نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے؟اے کاش ! کہ میری موت ہی پر کام تمام ہوجاتا!میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا،میرا سارا زور مجھ سے جاتا رہا۔‘‘(ایسےشخص کے بارے میں حکم ہوگا کہ )پکڑواسے،اور زنجیر میں پرودوجس کی پیمائش ستر ہاتھ کے برابر ہو۔‘‘
بہر حال قرآن وحدیث میں بے شمار مقامات دنیا کی چیزوں کی ناپائیداری اور بے ثباتی کو بیان کیا گیا ہے۔دائمی کامیابی دراصل آخرت کی کامیابی ہے۔دنیا میں انسان ایک نظام کے لئے کوشش اور محنت تو ضرور کرتا ہے لیکن اس کے پس ِ پردہ جو پیغام ہے اس کو بھلا دیتا ہے۔اس کے ذریعہ انسانوں کو یہ دعوت ِ فکر بھی دی جارہی ہے کہ انسان دنیا کی تمام چیزوں ،عہدوں اور حکومتوں سے زیادہ فکر آخرت کی کامیابی کی کرے۔اگر وہ وہاں کامیاب ہوگیا تو اس کی زندگی کا مقصود حاصل ہوجائے گا۔ جب ہم دنیا کی عارضی حکومتوں اور عہدوں کے لئے اتنی محنت اور فکر کرسکتے ہیں ،اپنے خواہش مند لیڈر کے لئے اتنی بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں تو لافانی زندگی کے لئے اور اپنی ابدی کامیابی کے لئے ہمیں کتنی کوشش اور جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔انتخابات ہوتے رہتے ہیں ،حکومتوں کی تبدیلیاں بھی پیش آتی رہتی ہیں،لیڈروں کی کرسیاں بھی بدلتی جاتی ہیں ،یہ اس دنیا کا ایک ضابطہ ہے لیکن اس کے ذریعہ انسان اور صاحب ِ ایمان کو اپنی آخرت بنانے ،سنوارنے اور کامیابی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔مال ودولت کا ڈھیر ،تعلقات اور رشتوں کی بھیڑ،حامی بھرنے اور اشارہ پر ہر چیز لٹانےکے لئے تیار رہنے والے افراد اُس دنیا میں اُس وقت تک کام نہیں آسکتے جب تک کہ یہاں رہ کر وہ ایمان وعمل کی محنت نہیں کریں گے۔دنیا میں کسی کو جتانے کے لئے حدود کو پامال کرنا،کسی کی بے جا تعریف وستائش کرنا،کسی سے ناحق پیسے وصول کرکے جتانااور کامیاب بنانایہ سب انسان کو اُس دنیا میں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔دنیا کے یہ انتخابات اور نتائج نہ صرف حکمرانوں کو پیغام ِ عمل دیتے ہیں بلکہ ان کے ارد گرد رہنے والے افراد کو باخبرکرتے ہیں کہ وہ چند دن کے فائدہ کے لئے ہمیشہ کی زندگی کا نقصان نہ کرلے ۔سچ کے ساتھ،حق کے ساتھ،انصاف کے ساتھ اگر حکومت حاصل ہو اور اس کے ذریعہ بندگان خدا کو فائدہ پہنچایا جائے تو ان کی یہ کوشش کامیاب رہے گی اور ان شاءاللہ آخرت میں بھی کامیابی کا ذریعہ بنے گی،ورنہ چند دنوں کے بعد حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی،زندگی کی قوت وطاقت بھی کمزور پڑجائے گی،جاہ وحشم بھی باقی نہیں رہے گااور خالی ہاتھ دنیا سے انسان جائے گا۔انتخابات اور نتائج کے یہ چند سبق آموز اور عبرت انگیز پہلو ہیں جسے فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×