سیاسی و سماجی

تمام طبقات کا یکجا ہونا ضروری ہے!

ہندوستان کے حالات آج جن انتہائی مخدوش و تشویش ناک صورتحال اختیار کئے ہوئے ہیں، ان سے کوئی بھی صاحب رائے اور حساس مند شخص ناواقف و بےخبر نہیں ہے۔ ہر سمت جرائم کا بول بالا اور انسانیت سوز مظالم کا قہر برپا ہے، جس سے عوام تو عوام خواص بھی حیران و پریشان اور اپنے اہل و عیال کے جانی مالی تحفظ اور عزت و ناموس کے تئیں فکر مند ہیں جو شام ڈھلے ہی اپنے بچوں کی نگرانی کرنے اور گھر سے دور گئے کو اپنے قریب کرنے کی فکر و جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانوں کے روپ ڈھالے حیوان اور وحشی درندے تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب کوئی کم سن و نو عمر ان کے چنگل میں آئے اور وہ اس کی عزت و عصمت کو تار تار کر اپنی درندگی کا مظاہرہ کریں۔
مگر ان تمام معاملات کے درمیان افسوسناک و شرمناک بلکہ قابل مذمت پہلو یہ ہے کہ جن باتوں کو لےکر حزب اقتدار کانگریس حکومت کے دور میں ملک کا پہیا جام کر دیا کرتی تھی اور سڑک سے لےکر ایوان تک احتجاج و مظاہرہ کر ہر بات کا جواب وزیراعظم اور اسپیکر سے کیا کرتی تھی، وہ عوام کی خیر خواہ جماعت آج پیش آنے والے شرمناک واقعات و حوادثات پر مون اور خاموش ہے۔ یہاں تک کہ اسی حکمراں جماعت سے وابستہ بعض خواتین سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو عار دلانے کے واسطے چوڑیاں روانہ کر خواتین کی سب سے بڑی ہمدرد و خیر خواہ خود کو ثابت کرتے نہیں تھکتی تھیں، مگر وہ سب بھی نہ جانے آج کس گوشہ میں پردہ نشیں ہیں اور اچھے دن کی فراق میں بیٹھی ہیں۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی عوام کو گزشتہ چند سالوں سے ہمارے علماء کرام، مسلم دانشوران اور قوم و ملت کے حقیقی بہی خواہ مسلسل بشمول تمام ہندوستانی فرقوں، طبقوں اور جماعتوں اپنی قوم کو مخاطب کرکے عوام کی توجہ نہ صرف مبذول کرانے میں سرگرداں تھے بلکہ اجتماعی طور پر بڑے بڑے میدانوں میں عالی شان پروگرام منعقد کر چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے اور موجودہ صورت حال سے دوچار ملک کی عظمت و رفعت اور عالمی سطح پر بگڑتی شبیہ اور منفی خیالات کے تئیں فکر مندی اس معنی کر جتا رہے تھے کہ:
"ہمارے اس پیارے ملک کی آزادی،  اس میں رائج جمہوری اقدار کی سلامتی، عوام و خواص کا تحفظ اور اس کے بےنظیر و بےمثال آئین و دستور کی پاسداری و رعایت کرنا تمام طبقات کے افراد کے ذمہ ہے اور یہ تمام کام آپس میں ملنے اور میدان میں نکلنے سے ہوں گے۔ اور اگر کوئی ایک طبقہ اور فرقہ دوسرے مظلوم فرقے کی مدد و حمایت میں کھڑا نہیں ہوتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہر ایک برادری اور طبقہ کے لوگوں کو اپنے پیاروں یا اپنی برادری کے لوگوں کے اوپر ظلم و ستم کی لاٹھیاں برسنے کا نظارہ کرتے دیکھنا ہوگا، مگر اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہوگا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ اور ملک کس سمت اور رخ پر چلا جا رہا ہے؟ اس وقت ہمارا پورا معاشرہ بحیثیت ہندوستانی ایک دوسرے کا منھ تک رہا ہوگا۔ اس لئے کہ اہل اقتدار کا ظلم، پولیس کا قہر، سیاست دانوں کی منافقت، بااثر اور صاحب ثروت افراد کا اپنا جذبۂ مفادات بام عروج پر ہوگا”۔
ان حضرات کا ایسا کہنا کسی پیشن گوئی کی بنیاد یا عقلی تجاویز اور سیاسی مفادات کے حصول کے تناظر میں نہیں تھا بلکہ وہ حضرات اپنی دور بینی، دور اندیشی، بالغ نظری اور حکمراں جماعت کی طرف سے آئین و دستور میں کی جانے والی ترامیم کو بچشم خود دیکھ رہے تھے، اسی کی روشنی میں وہ ہندوستانی سماج کو بیدار کرنے میں لگے تھے؛ اور ان کا ایسا کرنا آج کے موجودہ حالات کےلئے بجا تھا۔
چنانچہ دیکھ لیجئے ! جن ایام پریشاں کے آنے سے قبل از وقت چوکنا اور بیدار کیا جا رہا تھا، تحفظ جمہوریت، آئین و دستور کی پاسداری اور شخصی آزادی کے برقرار و استحکام کےلئے جو وقفہ وقفہ سے مختلف عنوانات کے تحت اجلاس عام اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جا رہا تھا، ان سب کی تاریخ اور جاری کردہ منشور کا مطالعہ کر لیجئے، خود بخود اندازہ ہو جائےگا کہ تپتی دھوپ اور سرد راتوں میں یہ جو دیوانے قوم کو جگانے اور ہوش کے ناخن لینے کی باتیں کیا کرتے تھے، وہ ٹھیک ہی کیا کرتے تھے۔ کیونکہ آج انہیں سب جرائم و معاصی کا معاشرہ میں بول بالا ہے، جن کے خاتمے کےلئے منظم و مؤثر طریقے سے تحریکیں وجود میں لانے کی ترغیب دی جاتی تھی اور سماج کا ایک بڑا طبقہ ان کو دیگر طبقے یا کمیونٹی سے مربوط کر خود کو علیحدہ کرنے میں عافیت محسوس کرتا تھا مگر آج جب خود پر بیت رہی ہے انہیں مسائل و مشکلات سے خود کو لاحقہ اور واسطہ پڑا ہوا ہے تو سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ تو "اسی بیج کی کاشت ہے جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بویا تھا” اور اب یہ بھی خوب اچھے سے سمجھ میں آنے لگی ہے کہ عوام کو در پیش مسائل کو لےکر اگر تمام طبقات یکجا اور وقت رہتے متفق نہ ہوئے تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہر فرقے اور طبقہ سے منسلک لوگوں کے ساتھ یہی ہونے والا ہے، جو اب سے کچھ پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا تھا اور اب دلت کے ساتھ ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ حکومت و سیاست میں شامل برہمن افراد نے ہندوستانی سماج کو یرغمال کر ہندوراشٹر کی بنیاد رکھ دی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×