اسلامیات

شریعت میں اچھے نام مطلوب بھی ہے اور محمود بھی

آج کے روشن خیال اور فیشن سے متاثر معاشرہ میں دینی حقائق کو اجاگر کرنا اور دین کی بالکل واضح‘ بدیہی اور موٹی موٹی باتوں کا سمجھنا بھی بے حد مشکل ہوچکا ہے، وہ قوم جو اپنے شعائر سے نا واقف ہو، مرضی خدا اور منشاء نبی پر من مانی زندگی کو ترجیح دیتی ہو،دینی جہالت و ناخواندگی، جہل وعناد، ظلم و سرکشی کی اس تاریک فضا میں کس کو کیا کہا جائے؟ اور کیا بتلایا جائے؟ من جملہ انہیں فیشن کے نام پر پائی جانے والی خرابیوں میں سے ایک اہم خرابی اچھے ناموں کا نہ رکھنا ہے،عصر حاضر میں لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے نام پر اپنی اولاد کا نام رکھنے کو دقیانوسیت اور قدامت پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں مولانا صاحب! نام میں کیا رکھا ہے؟ دنیا کہاں سے کہاں پہونچ گئی، مولوی اور خطیب تو اسی محدود نظریات کے ارد گرد گھوم رہے ہیں حالانکہ جدید ترقی یافتہ دور کے ماڈرن کم علم اور وسعت نظر کا نعرہ لگانے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ اس عالمگیر مذہب کے ایک ایک حکم پرعمل کرنے میں دنیا و آخرت میں فوز و نجات کے وہ بے شمار راز و فوائد پوشیدہ ہیں جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی دوسرا مذہب اور دین نہ کیا ہے نہ کرسکتا ہے.
نام رکھائی اور موجودہ صورت حال
آج قوم مسلم کے وہ افراد جو جدید ترقی یافتہ دور کے خرافات کو بھرپور اور مکمل طور سے استفادہ کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ لوگ اپنی جدیدیت اور تجدد پسندی کے چلتے اپنی اولاد اور زیر نگیں اطفال کے ایسے نام رکھنا پسند کررہے ہیں جو بے معنی ہونے کے ساتھ غلط معانی پر بھی مشتمل ہے، انہیں اس بات سے کوئی حرج ہی نہیں ہوتا کہ آیا یہ ماڈرن نام اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ از روئے شریعت محمود و مطلوب بھی ہے یا نہیں؟ حتی کہ نام سن کر یہ فرق بھی نہیں ہوپاتا کہ یہ نام والا مسلم ہے یا غیر مسلم؟ مرد ہے یا عورت؟
عمدہ، معنی دار، اسلامی، اور شرعی نام رکھنے پر موجودہ دور میں عام طور پر یہی کہا جارہا ہے کہ مولوی صاحب! یہ نام تو کافی پرانا ہے، یہ نام تو گھسا پیٹا ہے، نام ہو تو کچھ نیا، سب سے الگ، ایسا جو اب تک کسی سے نا سنا ہو وہ بتائیں، ظاہر ہے افرادِ  خاندان کے ناموں سے الگ نام کے حد تک تو ان کا تقاضہ ٹھیک ہے مگر غیر اسلامی نام کا تقاضہ جدیدیت کے نام پر درست نہیں ہے، افسوس تو یہ ہے کہ آج ہم یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس پس منظر میں کیا تعلیمات ہیں؟اور کیا ارشادات ہیں؟ جبکہ اس سلسلے میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے عمدہ اور بہترین تعلیمات موجود ہیں؛ آپ علیہ السلام نے والدین کی ذمہ داری اور حسنِ ادب کی تلقین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:وعن ایوب بن موسیٰ عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ ﷺ قا ل مانحل والد ولدہ من نحل افضل من ادب حسن (رواہ الترمذی والبیہقی)
ترجمہ: حضرت ایوب ؒ اپنے  والد سے اور وہ اپنے دادا (ابن سعیدؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کسی باپ نے اپنی اولاد کو اچھی تعلیم وتربیت سے بہتر کوئی عطیہ نہیں ہے۔

کیسے نام شریعت کی نظر میں مستحسن ہیں؟.
نو مولود بچوں کے نام ایسے رکھنے چاہیے جو اللہ اور ا سکے پیغمبر ؑ کے بتلائے ہوئے محبوب نام ہوں، جن میں ایسے معانی پر جس میں اسلام و ایمان کی پختگی، سلامتی طبع اور بہترین تہذیب و اخلاق کی جھلک موجود ہو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا
عن ابی وھب الجثمی قال قال رسول اللہ ﷺ تسموا باسمآء الانبیاء واحب الاسماء الی اللہ عبداللہ وعبدالرحمان واصدقھا حارث و ھمام واقبحھا حرب ومرہ ( رواہ ابودائود)
ترجمہ ’’حضرت ابو وھب جشمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انبیاء کے نام پر اپنے نام رکھو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں نیز زیادہ صحیح اور حق پر مبنی نام حارث اور ھمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرۃ ہیں۔ ‘‘
یہاں اس حدیث شریف سے مقصود یہ ہے کہ ہر وہ نام رکھنا باعث برکت و رحمت ہے جس میں اللہ کے کسی صفت کے ساتھ بندہ کی عبدیت اور بندگی و تابعداری کا اظہار ہورہا ہو جیسے عبدالخالق‘ عند الملک‘ عبدالرزاق ‘ عبد العلیم ‘ عبدالخبیر‘ اور عبد الرافع ۔طاہر، طیب
اور لڑکیوں میں أمة الله، أمة الرحمن، أمة المتين، یا خدیجہ، فاطمہ سمیہ، طاہرہ، ذاکرہ، شاکرہ، صابرہ رکھنے چاہیے

غلط معنی پر مشتمل نام رکھنا ممنوع ہے*
ہم اپنی اولاد کا ایسا نام ہرگز نہ رکھیں جن کے معنی و مفہوم میں فحاشی‘ بداخلاقی‘ سنگ دلی اور بے دینی وغیرہ پائی جارہی ہو، شریعت مطہرہ جو انسان کو اس کے نفس کو غرور و تکبر، ریاء نام و نمود، اپنی ستائش وتعریف اور خودنمائی سے محفوظ رکھنے کی جس شدت سے قرآن و حدیث میں بار بار تلقین فرمایا ہے اس کی مثال دنیا کے اور مذاهب میں کہیں نہیں ملتی۔
اسلام میں اچھے نام رکھنے کی جہاں بہت اہمیت ہے تو وہیں غلط معانی پر مشتمل نام رکھنے کی ممانعت بھی ہے اور اس سے بچنے کی تاکید بھی،
قرآن مجید کے مقدس آیات میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا: ولا تنا بزوا بالألقاب  (سورۃ الحجرات آیت نمبر ۱۱)
ترجمہ: ایک دوسرے کو برے ناموں اور القاب سے نہ چڑایا  کرو‘‘
اور معلم اعظم ﷺ نے ایسے نام رکھنے سے منع فرمایا جس میں اپنی تعریف کا پہلو نمایاں ہورہا ہو ارشاد گرامی ہے: وعن زینب بنت ابی سلمہ قالت سمیت برہ فقال رسول اللہ لاتزکوا انفسکم اللہ اعلم باھل البرمنکم ستموھا زینب (رواہ مسلم)
ترجمہ: ’’حضرت زینب بنت ابی سلمہ فرماتی ہیں کہ میرا نام برّہ (نیکو کار) رکھا گیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اپنے نفس کی تعریف نہ کرو تم میں جو شخص نیکو کار ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے۔‘‘
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا نام رکھنے سے بھی منع فرمایا جس کے معنی سے انسان کی اپنی ذات کی تعریف ظاہر ہورہی ہو کیونکہ کہ نام کا اپنے مسمی میں تاثیر اکثر و بیشتر پائی جاتی ہے، ایسے نام رکھنے سے نفس میں بڑائی اور تکبر کے اثرات پیدا ہونے کے خطرات زیادہ موجود ہیں۔ اور اللہ رب العزت خود جس فرد میں عجز وانکساری اور تواضع ہو اسے اپنا محبوب گردانتا ہے اورجہاں غرورو و تکبر ہو اللہ پاک اسے ذلیل وخوار کردیتا ہے،
برے نام کی تبدیلی نبی کریم ﷺسے ثابت ہے*
ناموں کے سلسلہ میں ہمارے معاشرے میں اپنے عقل و تصور کے مطابق بے حد افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے اگر بعض لوگ رعب و دبدبہ کے اظہار کیلئے اپنے بچوں کے عجیب و غریب نام رکھ رہے ہیں تو بعض سادہ لوح مسلمان ایسے بھی ہیں جو اپنی سادگی، کم فہمی یا کم علمی کی وجہ سے اپنے بچوں کے ایسے نام رکھ دیتے ہیں جو خدا کی نافرمانی اور دین کی مخالفت پر مبنی ہوتے جیسے عاصی، آثم ، عاصیہ ایسے ناموں کو بھی آنحضرت ﷺ نے برا قرار دیکر تبدیل کرنے کی ترغیب فرمائی۔
نبوی اکرم  ارشاد ہے: وعن ابن عمر ان بنتا کانت لعمر یقال لھا عاصیۃ فسمھا رسول اللہ جمیلۃ (رواہ مسلم)
ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کی ایک بیٹی تھی جس کو عاصیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔(عاصیہ کا معنی گناہ گار ہے) چنانچہ حضورﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ گویا جب نام ہی عاصیہ نافرمان اور گناہ گار رکھ دیا۔ تو انسان کے نام کا اس کی زندگی پر اثرانداز ہونے کی وجہ ایسے نام رکھنے کو بھی سرکار دو عالم نے عاصیہ یعنی نافرمان کے بجائے جمیلہ جس کا معنی خوبصورت ہے رکھ دیا۔

والدین پر اولاد کا پہلا حق
والدین پراولاد کا یہ سب سے پہلاحق ہے کہ ولادت کے بعد انسان کی شناخت کا جو اہم ذریعہ اس کا نام ہے وہ ایسا رکھیں جو قرآن کے اور رسول کی تعلیم سے متصادم نہ ہو، اسلام نے بیٹے اور بیٹی دونوں کو رحمت خداوندی قرار دے کر بیٹی کو بھی اپنے حکمت کے مطابق وہی سلوک کرنے کا حکم دیا جس کا بیٹا مستحق ہے، جس طرح بیٹوں کے نام انبیاؑ و صحابہ کرامؓ کے نام سے رکھنے سے باعث برکت ہوتے ہیں اسی طرح بیٹیوں کے نام ازواج ومطہرات صحابیات کے ناموں سے رکھنے میں بھی بے انتہا برکات ہوتی ہے
محترم والدین!!
والدین کی خدمت میں درد مندانہ درخواست
یاایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا کے تحت سب سے پہلے والدین پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں!!ابتدائی مراحل سے ہی بچوں کی صحیح پروش، انکا مستقبل سنوارنے اور بگاڑنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اگر قوم مسلم یہیں سے اولاد کی تربیت کے سلسلے میں شریعت کے بتائے ہوئے اصول و احکام کو اپنے عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے سارے معاملات اللہ کی حکمت پرچھوڑ کر اسی پر عمل کرنے والی بنے گی اور منشاء خداوندی اور تعلیم نبوی پر رضامند ہوگی تو یہی اولاد آگے چل کر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک سرمایہ آخرت اور صدقات جاریہ ہوگی، بصورت دیگر غیر اسلامی و شرعی تربیت کے جرم میں والدین بھی یہ لخت جگر جب بڑے ہوکر جرائم گناہوں کا ارتکاب کریں گے تو شریک جرم کی حیثیت سے جہنم کے ایندھن بن بھی سکتے ہیں! اللھم احفظنا منہ
اللہ پاک دین مستقیم کی صحیح سمھج اور دین اسلام کی کامل پیروی کی توفیق عطا فرمائے
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اجاگر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×