سیاسی و سماجی

احتجاجی مظاہرے؛ چند ضروری کام

اس میں کوئی شک نہیں کہ CAA, NRC کے خلاف چل رہی ملک گیر تحریک عوامی تحریک ہے. اس کی شروعات طلبہ اور عوام نے کی، وہی اسے لے کر آگے بڑھے اور انہیں کی محنت سے پورے ملک میں احتجاجات کا سلسلہ قائم ہوا. آزاد بھارت میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے گھروں سے نکل پڑے ہیں، عوامی سطح پر اس طرح کی بیداری اور سیاسی جد و جہد کی مثالیں کم دیکھنے میں آتی ہیں. اس تحریک کو پروان چڑھانے میں اس طبقے کا کردار تقریباً صفر ہے جسے "خواص” یا "قائدین” وغیرہ الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے. اس تحریک کا سہرا کسی قائد کے سر باندھنا سراسر جھوٹ اور منافقت ہے. اس تحریک میں خواتین نے جس جواں مردی، ثابت قدمی اور عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی تاریخ کا روشن باب ہے، اور اس کی تعریف کا حق لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتا. یہ بات سچ ہے کہ اس طرح کی عوامی تحریک سے مطلوبہ مقاصد کی تحصیل و تکمیل میں طویل وقت لگتا ہے لیکن اگر مسلسل کوشش جاری رہے تو کامیابی لازمی طور پر حاصل ہوتی ہے، بس ضرورت ہے تو صبر کی، جہدِ مسلسل کی، اخلاصِ نیت کی اور باہمی تعاون کی.

اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک میں شریک مسلمان چند امور کا لحاظ رکھیں ورنہ ساری محنت ضائع ہونے کا خطرہ ہے. سب سے پہلی بات یہ کہ مسلمانوں کی کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ان کا رشتہ خدا سے مضبوط نہ ہو. بحیثیت مسلمان ہم نے ہر حال میں خدا کی تابعداری کا عہد کیا ہے اور اس عہد کو پورا کر کے ہی ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں. اس لئے تمام مسلمان اس تحریک کی کامیابی کے لیے نماز اور دعا کا خاص اہتمام کریں. بحمد اللہ اس سلسلے میں مسلمانوں کی روایتی غفلت کافی حد تک کم ہوئی ہے اور ماضی کے مقابلے موجودہ صورتحال کافی بہتر ہے. سوشل میڈیا کے ذریعے جڑے احباب اپنے اپنے علاقے کی جو خبریں شیر کرتے رہتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ دینی رخ سے بھی مسلمان کافی بیدار ہوئے ہیں، اس سے حوصلہ بڑھتا اور امید بندھتی ہے کہ ان شاء اللہ یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی.

دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان احتجاجات کی کثرت اور اس میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد دیکھ کر ہرگز تعلّی اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوں، ایک لمحہ کے لئے بھی بڑائی کا خیال دل میں نہ آئے. اسباب کی کثرت پر غرور مسلمان کا شیوہ نہیں. شیطان مختلف راہوں سے حملے کرتا اور دل میں وسوسے ڈالتا ہے. اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کثرت پر بھروسے نے کئی مواقع پر مسلمانوں کو رسوا کیا ہے. ہر حال میں توکل اور اعتماد صرف خدا کی ذات پر رہے. اسباب اختیار کرنا دین کی تعلیم بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی. مگر اسی کو کافی نہ سمجھنا چاہیے، مسبّبِ حقیقی اللہ کی ذات ہے، اسی کے حکم سے اسباب نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں. ان شاء اللہ اسی کے حکم سے ہماری محنت بھی رنگ لائے گی.

تیسری چیز یہ کہ جہاں جہاں یہ احتجاج ہو رہے ہیں وہاں کے ذمہ داران عوام کو زیادہ سے زیادہ CAA اور NRC کے بارے میں معلومات فراہم کرائیں. کئی لوگ احتجاج میں محض ملی جذبہ کے تحت شامل ہو رہے ہیں، حقیقتاً انہیں اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے. بہت سے غیر مسلم خوش فہمی میں ہیں کہ اس کالے قانون کا اثر ان پر نہیں پڑے گا، انہیں بھی باخبر کیا جانا چاہیے کہ اس قانون کا سیدھا اثر ملک کے غریب، مزدور طبقہ پر پڑے گا چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم اور مذہب سے ہو. امید ہے کہ اس سے مزید لوگ اس تحریک سے جڑیں گے. پروپیگنڈہ کے اس دور میں میڈیا والے بھیڑ میں سے کسی کا انٹرویو لینے لگتے ہیں اور جب سامنے والا جواب نہیں دے پاتا تو اس بات کی منفی تشہیر کی جاتی ہے اور احتجاج کو اپوزیشن کی سازش قرار دیا جاتا ہے. عوام کو اگر اس کے مضرات سے واقف کرا دیا جائے تو اس احتجاج کو منفی رنگ دینا اتنا آسان نہیں رہے گا. اس کے لئے ہندی، اردو، انگلش اور علاقائی زبانوں میں پمفلٹ وغیرہ کی تقسیم کی جانی چاہیے. دیوبند میں الحمد للہ اس تعلق سے کام شروع کیا جا چکا ہے، ہم نے بعض احباب سے اس سلسلے میں گفتگو کی تو انہوں نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا، پمفلٹ کا مواد مرتب ہو رہا ہے اور جلد ہی طبع کرا کر اسے تقسیم کیا جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×