سیاسی و سماجی

ہاں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوں۔۔۔!

ہاں میں دیارِ شوق، شہرِ آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوں ۔ ہندوستان کی تاریخی اور عظیم یونیورسٹی، تحریک آزادی میں حصہ لینے والی، کارہائے نمایاں انجام دینے والی، تحریک آزادی کے متوالوں کا مسکن، سیکولرازم کا پاسدار، ہزاروں مجاہدین آزادی کو پروان چڑھانے والی، شیخ الہند محمود حسن کے خوابوں کی تعبیر، مولانا محمد علی جوہر کی حب الوطنی سے سرشار، ذاکر حسین کے مقاصد کی تکمیل، ہندوستانی مسلمانوں کی آن بان اور شان، حکیم اجمل خان کا شجر ثمردار، ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا خون جگر، مہاتما گاندھی کا پسندیدہ ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوں۔ میری بنیاد ۱۹۲۰ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسجد میں جہاں چمنستان سید کے روح رواں آرام فرما ہیں، رکھی گئی۔ پھر ۱۹۲۵ میں دہلی کے قرول باغ میں مجھے منتقل کیا گیا؛ لیکن جگہ کی قلت، طلبا کی کثرت اور ایک عظیم تر مقصد کی خاطر مجھے یکم مارچ ۱۹۳۵ کو جنوبی دہلی کے اوکھلا میں منتقل کیاگیا، جہاں اب پوری آب و تاب اور جوش و ولولے کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت انجام دے رہی ہوں اور رہتی دنیا تک اسی شان وشوکت سے ملک، آئین اور سیکولرازم کی پاسداری کرتی رہوں گی۔ میرے قیام سے لے کر اب تک کئی حالات مجھ پر آئے؛ لیکن میں بادِ سموم سے کبھی گھبرائی نہیں اور حالات کا مقابلہ کرتی رہی، کبھی میرے اقلیتی کردار کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی میرے نام سے اسلامیہ لفظ ہٹانے کا مشورہ دیاگیا، آزادی ہند کے بعد تقسیم ہند کے المناک مناظر دیکھے، جس وقت پورا ہندوستان جل رہا تھا، جامعہ اپنی لائبریری کی ساٹھ لاکھ کتابوں کے نذر آتش ہوجانے کے بعد بھی امن وامان قائم رکھے ہوئے تھی جبھی گاندھی جی کو کہنا پڑا کہ تشدد کے دور میں بھی جامعہ امن کے لیے سہارا کا نخلستان بنا ہوا ہے۔
ہاں میں وہی جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوں جس کا مقصد واضح کرتے ہوئے میرے پہلے وائس چانسلر نے کہا تھا کہ ’’ ‘جامعہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس کا مرکز مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندوستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں رنگ جائے، جامعہ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کے اس نقشے کو سامنے رکھ کر ان کی تعلیم کا مکمل نصاب بنائے اور اس کے مطابق ان کے بچوں کو جو مستقبل کے مالک ہیں تعلیم دے، علم محض روزی کی خاطر جو ہمارے ملک کی جدید تعلیم کا اصول ہے اور علم محض علم کی خاطر جو قدیم تعلیم کا اصول تھا دونوں نظریے بہت تنگ اور محدود ہیں، علم کو زندگی کی خاطر سکھلانا جامعہ کا مقصد ہے جس کے وسیع دائرے میں مذہب، حکمت، صنعت، سیاست اور معیشت سب کچھ آجاتا ہے۔‘‘
(جامعہ ملیہ اسلامیہ، تحریک، تاریخ، روایت ص۳۳)
ہاں میں وہی جامعہ ہوں جہاں آزادی ہند کے متوالے پیدا ہوئے اور تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا، انگریزوں سے لڑے، پھانسی کے پھندوں کو چوما، ملک کی آزادی کےلیے دیار غیر میں اپنی قبریں بنوائیں، لیکن اس کے باوجود میں تب بھی کچھ لوگوں کی آنکھ کی شہتیر بنی تھی اور اب بھی کچھ لوگ میرے وجود کو سب و تاژ کرنے کے در پے ہیں، اب آزادی کے ۷۳ سال بعد ایسے لوگوں سے لڑنے کا وقت آگیا ہے۔ میرے طلبا وطالبات نے ملک وآئین مخالف قانون سی اے اے کی مخالفت میں بگل بجادیا ہے جس کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے، اس آئین مخالف قانون سے لڑنے کی وجہ سے ۱۵؍دسمبر اتوار کو کیمپس کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا، احاطے میں قائم مسجد کی حرمت کو پامال کیاگیا، مصلے خون سے آلودہ کیے گئے، لڑکیوں کے ہاسٹل پر پتھر بازی کی گئی، آنسو گیس کے گولے داغے گئے، صنف نازک کا خون بہاکر اس آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی، لائبریری میں پڑھ رہے مستقبل کے معماروں کو لہولہان کیاگیا، ہاشم پورہ قتل عام کی طرح میرے بچوں کے ہاتھ اوپر اُٹھوا کر انہیں پولس کے غول میں بے یاردومددگار چھوڑ دیاگیا، جنرل ڈائر کی طرح ہٹلر ثانی نے میرے بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کرواکر جلیانوالہ باغ کا منظر دہرایا، جس میں سینکڑوں طلبا لہولہان ہوگئے ، طالبات خون آلود ہوگئیں، لیکن ظالموں کو رحم نہیں آیا، وہ مارتے رہے، ان کی چیخیں فلک چیرتی رہیں؛ لیکن ان ظالموں کا دل نہیں پسیجا، وہ سمجھے اس تشدد کے بعد میری آواز دب جائے گی؛ لیکن ہمارے طلبا کی آواز میں سب سے پہلی آواز جے این یو کے طلباء نے ملائی اور اسی دن پولس ہیڈ کوارٹر کا گھیراؤ کیا، اے ایم یو کے طلبا نے بھی اپنے بڑے بھائی ہونے کا ثبوت دیا، رات بھر وہ مارکھاتے رہے، نہتے لڑتے رہے، فورس نے انہیں گھیر گھیر کر مارا، اے ایم یو کیمپس میں پھنسے طلبا کو امید نہیں تھی کہ سنگینوں کے سائے والی یہ اندھیری رات ختم ہوگی؛ لیکن ملک بھر کی دعائیں ہمارے ساتھ تھیں صبح ہوئی اور یہ صبح نوید آزادی میں مزید شدت پیدا کرگئی، ندوہ، دیوبند سمیت ملک کی تقریبا سبھی یونیورسٹیوں اور دانش گاہوں سے بھی حریت کے نغمے بلند ہونے لگے، جس کی لو میں آزادی کے متوالے میرے شاہینوں نے پھر سے مورچہ سنبھال لیا، اپنے اوپر ہوئے تشدد کو پوری دنیا کے سامنے بتایا کہ کس طرح ہمیں مارا پیٹا گیا، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بہادر وجانباز طلبہ نے میرے بچوں پر ہوئے ظلم اور ان کی باعزت رہائی کے لیے سردی کی یخ بستہ رات میں دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کا گھیراؤ کرکے پولیس سے اپنے مطالبات منواکر ہی دم لیا، میں اس پر جے این یو طلبہ یونین کی بے حد شکر گزار ہوں، اپنی سیاسی لڑائی لڑنے کےلیے کس طرح آئین ودستور کی قسم کھانے والوں نے ایک جمہوری ملک میں آئین ودستور کو بالائے طاق رکھ کر مستقبل کے معماروں کو زدوکوب کیا۔ اب تو میرے شاہینوں کے جذبات مزید بلند ہوگئے ہیں ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پورا ملک ہم آواز ہوگیا ہے، ملک ہی نہیں بیرون ممالک کی آکسفورڈ، ہارڈورڈ یونیورسٹیاں بھی میرے شاہینوں کی آواز میں آواز ملا کر پیغام آزادی کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ اب میرے شاہینوں کے نعرہ آزادی میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ انگریزوں کی ذریت سے ملک کو، آئین کو، سیکولر اقدار کو بچانے کےلیے لوگ میدان میں پوری طاقت سے کود پڑے ہیں، شہادت کے رتبے پر فائز ہورہے ہیں، لہو لہان ہورہے ہیں، لاٹھیاں کھارہے ہیں، آنکھوں کی بینائی کھورہے ہیں، ہاتھوں سے معذور ہورہے ہیں؛ لیکن پھر بھی ترنگے کو پکڑے ہوئے ہیں۔ حب الوطنی سے سرشار ہوکر قومی ترانے گارہے ہیں، مارنے والی پولس کو پھول پیش کررہے ہیں، بنا قائد کے انتہائی امن وامان کے ساتھ مظاہرہ کررہے ہیں، نہ کسی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں، نہ کسی کی راہ میں روڑا اٹکا رہے ہیں بس پوری قوت سے ’’ہے جان سے پیاری آزادی۔۔۔اور لے کر رہیں گے آزادی۔۔۔ہے حق ہے ہمارا آزادی۔۔۔منوواد سے آزادی۔۔۔سنگھ واد سے آزادی۔۔۔برہمن واد سے آزادی۔۔۔‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں اور ان نعروں میں پورا ملک شریک ہے ، ملک کے طول و عرض میں بس یہی آزادی کا نعرہ گونج رہا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی ہمارے شاہین ملک کو برہمن واد سے، بھکمری سے ، بےروزگاری و نفرت وکدورت سے آزادی دلاکر رہیں گے۔ اور پھر وہی آزادی جس کا خواب اشفاق اور رام پرساد بسمل نے دیکھتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو چوما تھا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ملک کو انگریزوں کے مخبروں اور دلالوں سے آزادی دلائیں گے، جہاں صرف محبت والفت کے نغمے گائے جائیں گے اور ایک بار پھر سے ملک بھر کے ہندو مسلم سکھ عیسائی ایک ساتھ "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔
جے ہند۔۔۔انقلاب زندہ باد۔۔۔۔قومی اتحاد زندہ باد۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×