سیاسی و سماجی

دیوبند سے انقلاب کی ایک زور دار آواز

دیوبند نے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک بار پھر تاریخ رقم کی ہے۔ جمعیت کی ضلعی یونٹ کے ذمے داران مولانا محمود صدیقی، اور جناب سید ذہین احمد صاحبان اور دیگر جانفشاں ساتھیوں نے عید گاہ کے میدان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں دھرنے کا آغاز کیا ہے، جس کے بعد شام میں تین سو تیرہ افراد نے گرفتاری بھی دی ہیں۔ لوگوں کو جیسے ہی اس پروگرام کی اطلاع ہوئی، تو آس پاس کے گاؤں سے جوق در جوق لوگ دیوبند پہنچنے لگے۔ آخر کار انتظامیہ نے دیوبند آنے والے تمام راستوں کو بند کردیا۔ مقامی ذمے داران میں سابق چیرمین جناب معاویہ علی بھی آگے آگے رہے۔

دھرنے کی خاص بات یہ تھی کہ دارالعلوم دیوبند کے سینیئر استاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور جناب مفتی راشد صاحب اعظمی نے عوام سے خطاب کیا۔ دیوبند سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اہل شہر کی شرکت بہت کم تھی۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی ان کا مسئلہ نہیں ہے، یا پھر یہ کہ کچھ لوگ اگر ذمے داری پوری کررہے ہیں تو بقیہ کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ موقع ان باتوں کو ذہن میں لانے کا یہ اپنے پرانے اختلافات کو یاد کرنے کا نہیں ہے۔ یہ موقع ملک کے تحفظ، بلکہ خود اپنے اور اپنے رشتے داروں کے تحفظ اور بقا کا ہے۔

ان شاءاللہ یہ دھرنا اور گرفتاریاں ہر روز ہونی ہیں، بھارت جاگ چکا ہے، انصاف پسند عوام اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہیں، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، ورنہ مودی کو اپنی تقریر میں صفائی دینے کی نوبت نہ آتی۔ امت شاہ ایک دن میں پانچ پانچ پریس کانفرنس نہ کرتا۔ حکومت بیک فٹ پر اسی لیے ہے کہ ملک بیدار ہے۔ اگر پورا جسم جاگ چکا ہو اور اس کا حصہ غفلت کا شکار ہو تو یہ پورے جسم کی عمومی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ امید ہے کہ اہل دیوبند اکابر دیوبند کے نسبی وارث ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی وارث ہونے کا فریضہ بھی ادا کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×