سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

خلافِ شرع عدالتی فیصلوں کا سلسلہ کب تھمے گا؟

ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات کی ابتری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہر صبح ایک نئی آفت کے ساتھ طلوع ہوتی ہے، مسلم اقلیت کے لیے مسائل ومشکلات کے نئے نئے محاذ کھولے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہے،ابھی ایک مسئلہ سے نمٹا نہیں جاتا کہ دوسرا مسئلہ منھ کھولے کھڑا رہتا ہے، ہجومی تشدد سے پورے ملک میں قیامت برپا ہے، ہر ہفتہ دو ہفتہ میں کسی نہ کسی بے قصور نہتے مسلمان کو ہجومی بربریت کا نشانہ بنایا جارہاہے، تا حال تحفظ گائے کے نام پر دہشت گردی کرنے والے دہشت گرد ٹولے کے ہاتھوں درجنوں بے قصور مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں، اخلاق سے لیکر اَلور کے اکبر تک ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان ہے، سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود ہجومی تشدد تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، ایک طرف غفلت ولاپرواہی کے سبب گؤشالوں میں دسیوں گائیں ہلاک ہورہی ہیں، دوسری جانب خود کو گاؤ رکھشک کہنے والے درندے تحفظ گائے کے نام پر بے قصور شہریوں کو تواتر کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں، ہجومی تشدد کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے، ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے پیش نظر اس میں مزید شدت آسکتی ہے، آنے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے بی جے پی کے پاس ایک ہی ہتھیار رہ گیا ہے اور وہ ہندومسلم کشیدگی میں اضافہ ہے، اسی لیے راجستھان اور دیگر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں گاؤ رکھشک دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، بی جے پی کو ہر حال میں اقتدار عزیز ہے، بھلے اس تک رسائی مظلوم وبے قصور شہریوں کی نعشوں سے گذر کر ہی کیوں نہ ہو، اقتدار کے بھوکے ان سنگھی قائدین کے اندر اگرانسانیت کی تھوڑی بھی رمق ہوتی تو آج ملک اس سنگین موڑ پر نہ پہونچتا اور دنیا بھر میں وطن عزیز کی بدنامی نہ ہوتی۔
ہجومی تشدد ہی کیا کم تھا کہ اب ایک نئی شرارت شروع کردی گئی ہے ،ملک سے غیر ملکیوں اور گھس پیٹھیوں کے اخراج کے نام پر لاکھوں مسلم شہریوں کو شہریت سے محروم کیا جارہاہے، آسام سے شروع ہونے والا یہ نیا منصوبہ پورے ملک میں لاگو ہوگا، آسام میں شہریوں کی تیار کی گئی فہرست سے چار لاکھ نام غائب ہیں، جہاں تک غیر قانونی طور پر آباد غیر ملکیوں کے اخراج کا تعلق ہے اگر وہ نیک نیتی پر مبنی ہو اور کوئی بے قصور شہری اس کی زد میں نہ آئے تو اس پر کسی کو کیوں کر اشکال ہوسکتاہے، لیکن عین انتخابات سے قبل اس قسم کی مہم کا آغاز نیک نیتی پر مبنی نہیں کہاجاسکتا، یہ ایک سنگین اقدام ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، حکومت اس بہانے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اس قسم کی فائنل فہرست سازی کے لیے جس طرح کی دیانت اور شفافیت ضروری ہے وہ دور دور تک نظر نہیں آتی،آسام میں تیار کی گئی حالیہ فہرست سے کئی نامی گرامی شہریوں کے نام غائب ہیں، یہ صورت حال خود بتاتی ہے کہ یہ کس قدر سنگین اقدام ہے، جن شہریوں کے نام غائب ہیں انہیں اگرچہ دلاسہ دیا جارہا ہے کہ مطلوبہ دستاویزات پیش کرنے پر انہیں شامل کرلیا جائے گا، لیکن دستاویزات کے نام پر جتنا کچھ پریشان کیا جائے گا وہ کسی پلصراط سے کم نہیں ہوگا۔
وطن عزیز میں مسلمانوں کو دوہری مشکلات کا سامنا ہے، ایک طرف ان کی جان کے لالے پڑے ہیں کہ مسلسل فسادات اور ہجومی تشدد کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، دوسری طرف ان کے دین وایمان اور ان کی شریعت پر بھی خطرات منڈلاتے رہتے ہیں، آزادی کے بعد سے اب تک ہوئے ہزاروں فسادات میں ہزاروں بے قصور مسلمان شہید ہوچکے ہیں، بعضے علاقوں میں پورے خاندان تباہ کردئے گئے،مسلمان جانی ومالی نقصانات کو برداشت کرتے رہے، جان ومال پر حملوں کے ساتھ شروع سے ان کے دین وایمان کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا، طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کیا جاچکا ہے، اب حلالہ اور تعدد ازواج کو نشانے پر رکھا گیا ہے، شریعت اسلامی اور مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف فرقہ پرست بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اور دوسری طرف ملک کی مختلف عدالتوں کی جانب سے ہونے والے فیصلے بھی اس کے لیے معاون ثابت ہورہے ہیں، ملک کا دستور بھلے یہاں کے ہر شہری کو مذہب پر عمل کی کھلی چھوٹ دیتا ہو لیکن عدالتوں کی صورت حال یہ ہے کہ ہر تھوڑے عرصہ میں کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ ضرور سامنے آتا ہے جو شریعت سے راست ٹکراتا ہے، ملک میں شریعت کے خلاف اقدامات کا سلسلہ انگریزوں کے دور ہی سے جاری ہے، انگریزوں نے سب سے پہلے ۱۸۶۲ء میں اسلامی تعزیرات کو منسوخ کرکے تعزیرات ہند کو نافذ کیا، اس وقت تک مسلم دور حکومت کے مقرر کردہ قاضی برقرار تھے، لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ ۱۸۶۴ء میں شاطر انگریز نے مسلم قاضیوں کی تقرری پر روک لگادی، یہ در اصل ملک سے شریعت اسلامی کے خاتمہ کی طرف پہلا قدم تھا، جب اسلامی نظام قضا ختم ہوگیا تو مسلمان اپنے عائلی تنازعات غیر مسلم ججوں کے پاس لیجانے پر مجبور ہوئے، پھر ۱۸۷۲ء میں اسلامی قانون شہادت کو بھی ٹھکانے لگادیاگیا۔ ۱۹۳۷ء میں تحفظ شریعت کے حوالے سے مسلمانوں کو اس وقت کامیابی ملی جب مرکزی مجلس قانون ساز کے مسلم اراکین کی کوششوں سے شریعت ایکٹ منظور ہوا، جس میں یہ طے کیا گیا کہ وراثت، نکاح، طلاق، ایلاء،ظہار، خلع، نفقہ، لعان،مہر، ثبوت نسب، امانت، جائداد، حق شفعہ، ہبہ اور اوقاف کے معاملے میں مسلمان مسلم پرسنل لاء کے تابع ہوں گے، البتہ وصیت وتبنیت کے معاملات میں مسلم پرسنل لاء کا اطلاق اختیار ی ہوگا، اس طرح شریعت ایکٹ تو منظور ہوا لیکن قوانین کے نفاذ کے لیے مسلم قاضیوں کا لزوم نہیں رکھا گیا،بلکہ غیر مسلم ججوں کو بھی قوانین اسلامی کی تشریح وتعبیر کا حق دیا گیا، جنگ آزادی میں برادران وطن کے ساتھ مسلمان نہ صرف شانہ بشانہ شریک رہے بلکہ ہر اول دستہ کا رول ادا کرتے رہے اور آزادی کی جنگ کے دوران کانگریس نے تیقن بھی دیا کہ مسلم پرسنل لاء کا تحفظ کیا جائے گا،لیکن آزادی کے بعدکی صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف حکومتوں کی جانب سے گاہے گاہے شریعت میں مداخلت کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب مختلف ملکی عدالتوں سے آئے دن خلافِ شرع فصلے صادر ہوتے رہتے ہیں، حکومتوں کی طرف سے ہونے والی شریعت میں مداخلت اور عدالتوں کے غیر شرعی فیصلوں کا طویل سلسلہ ہے، ۱۹۷۲ء میں راجیہ سبھا میں متبنٰی بل پیش کیا گیا جو براہِ راست شریعت کے قانون وراثت ونکاح پر اثر انداز ہوتا ہے، ۱۹۷۳ء میں پارلیمنٹ میں مطلقہ کو تا حیات یا نکاح ثانی سابقہ شوہر سے نفقہ دلانے کا بل پیش کیا گیا جو کہ صریح خلافِ شرع ہے،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس کے خلاف ملک گیر مہم چلائی، بالآخر اس کی آخری خواندگی روک دی گئی اور بورڈ کی کوششوں سے دفعہ نمبر ۱۲۷ میں ایک شق کا اضافہ کیا گیا، پھرجون ۱۹۷۵ء میں جب کہ پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی حکومت نے جبری نسبندی کو لاگو کردیا جو سراسر شریعت کے منافی ہے، اسی زمانہ میں سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں مطلقہ کے لیے تا حیات یا نکاح ثانی نفقہ لازم کیا جس کے خلاف مسلم پرسنل لاء بورڈ نے زبردست مہم چلائی، ۶؍ مئی ۱۹۸۶ء میں قانون وحقوق مسلم مطلقہ پاس کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا گیا، اسی طرح ۱۹۷۸ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ سے مساجد ومقابر کے سلسلے میں ایک نامناسب فیصلہ صادر ہوا جس کے تحت لکھنؤ اور جے پورکے کارپوریشنوں نے لکھنؤ کی دو مساجد وقبرستان اور جے پور کی ایک مسجد کو ایکوائرکرلیا اور مساجد ومقابر کی بے حرمتی کی گئی، اس فیصلہ کے تحت حکومت کو مکمل اختیار دیا گیا کہ وہ جس مسجد یا قبرستان کو چاہے مفاد عامہ کی خاطر اپنے قبضہ میں لے ، اسی طرح اپریل ۱۹۸۰ء میں اوقاف کی آمدنی پر انکم ٹیکس لگانے کا نیا قانون جاری کیا گیا، نیز ۱۹۸۴ء میں مرکزی حکومت نے قانون وقف میں ترمیم کے لیے راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا جس میں وقف بورڈ کی جمہوری حیثیت ختم کردی گئی اور اوقاف کی جائداد کا قانونی تحفظ ختم کردیا گیا، حالیہ عرصہ میں بھی کئی ایک خلافِ شرع عدالتی فیصلے منظر عام پر آئے، گذشتہ ہفتہ اخباری اطلاعات کے مطابق اسی طرح کا ایک خلافِ شرع فیصلہ بمبئی ہائی کورٹ کی طرف سے آیا جس میں مسلم مطلقہ عورت کے تعلق سے یہ بات کہی گئی ہے کہ نچلی عدالت مطلقہ عورت کا مہر مقرر کرسکتی ہے، اورشوہر کی جائداد میں سے اسے حق دلا سکتی ہے، یہ بات قانون شریعت کے سراسر خلاف ہے، مہر کا تعلق میاں بیوی کی آپسی رضا مندی سے ہے، اگر نکاح کے وقت مہر طے نہ ہوا ہو تو عورت کے دادھیال خاندان کی خواتین کے مہر کو معیار مان کر مہر واجب ہوتا ہے جسے فقہاء کی اصطلاح میں مہر مثل کہا جاتا ہے، طلاق کے بعد کسی اور کو مہر کی تعیین کا حق نہیں ہوتا، اسی طرح شوہر کی ذاتی املاک میں مطلقہ کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ حتی کہ نکاح میں رہتے ہوئے بھی بیوی شوہر کے املاک میں سے کسی حصہ کا مطالبہ نہیں کرسکتی، البتہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی مرضی سے پوری جائداد یا اس کا کچھ حصہ ہبہ کرسکتے ہیں، بمبئی ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے تعلق سے میڈیا میں جس قسم کی خبر شائع ہوئی ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے، لیکن بعض قانون دانوں کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلہ کو سمجھنے میں میڈیا کو غلط فہمی ہوئی ہے، بہر حال عدالتوں کے خلافِ شرع فیصلے ملتِ اسلامیہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے مسلسل نظر رکھی جاتی ہے، اور بورڈ ایسے خلافِ شرع فیصلوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا رہتا ہے، لیکن اس سلسلے میں عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عائلی تنازعات کو عدالتوں سے رجوع کرنے کے بجائے شرعی دار القضاء سے رجوع کریں، تبھی اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے، علماء کو چاہیے کہ عوام الناس میں نکاح وطلاق اور دیگر عائلی تنازعات میں شرعی عدالتوں سے رجوع ہونے کے سلسلہ میں شعور بیدا رکریں۔
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×