اسلامیاتمولانا سید احمد ومیض ندوی

عازمین حج کی خدمت میں چند معروضات

مولانا سید احمد ومیض ندوی ،استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

معزز عازمین! حج و زیارت کے لیے آپ کا انتخاب دراصل اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے خصوصی فضل و کرم کا نتیجہ ہے؛ حج کی سعادت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی؛ اللہ تبارک و تعالی اپنے جس بندے کو چاہتے ہیں اسی کو یہ سعادت عطا فرماتے ہیں؛ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ حج کے لیے صرف مال و دولت کا ہونا کافی ہے ؛جو جتنا صاحب ثروت ہوگا وہ اتنا زیادہ خرچ کر سکے گا ؛لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے؛ حج کا تعلق مال و دولت سے زیادہ اللہ کی توفیق اور ہدایت سے ہے؛ وہی بندہ حج سے سرفراز ہوتا ہے جسے اللہ تعالی کی طرف سے توفیق ملتی ہے؛ اور جس کو اللہ تعالی منظور کرتے ہیں؛ اس کے لیے راستے کی رکاوٹوں کو آسان کر دیتے ہیں؛ دنیا میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کے پاس مال و دولت کی فراوانی اور ریل پیل تھی لیکن انہیں حج کی توفیق نہیں مل سکی؛ اور وہ بغیر حج کے دنیا سے رخصت ہو گئے؛ اس کے برخلاف ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ ایک معمولی کاروباری جو ٹھیلا بنڈی کے ذریعے پھیری لگا کر اپنا کاروبار کرتا ہے اس کے اندر اللہ کے گھر کی زیارت کی تڑپ تھی اور اللہ نے اسے حج کے لیے قبول کر لیا؛ خود علاقہ دکن کی بات کریں تو یہاں دکن کے متعدد مسلم حکمران ایسے گزرے ہیں جن کا مالی تعاون ہرسال حرمین شریفین کو پہنچا کرتا تھا ؛لیکن وہ خود حج کی سعادت سے محروم رہے ؛الغرض حج اللہ تعالی کی طرف سے انتخاب ہے نہ کہ اتفاق۔اس لیے آپ تمام عازمین کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے حج کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا۔
قابل قدر عازمین! یہ بات آپ حضرات سے مخفی نہیں کہ حج ایک عظیم الشان فریضہ ہے؛یہ نہ صرف ارکان اسلام میں شامل ہے بلکہ اپنے بے پناہ اثرات اور فوائد کی بنا پر دیگر ارکان اسلام میں ایک منفرد شان کا حامل ہے؛ دیگر ارکان کے لیے یا تو جسمانی محنت کی ضرورت پڑتی ہے یا صرف مال خرچ کرنے کی. نماز اور روزے کے لیے صرف جسمانی محنت درکار ہے جبکہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے صرف مال خرچ کرنا کافی ہے ؛اس میں جسمانی محنت قطعی نہیں ہے؛ لیکن حج ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے جہاں جسمانی محنت؛ دوڑ دھوپ اور تگ و دو ضروری ہے وہیں ایک خطیر رقم بھی درکار ہے ؛حج کے ذریعے ایک بندہ جانی قربانی بھی پیش کرتا ہے اور مال کا نذرانہ بھی ادا کرتا ہے؛ ایک حاجی حج کے دوران وطن؛ دوست و احباب؛ آل و اولاد اور عزیز و اقارب سے دور ہو جاتا ہے؛ اس طرح اسے اپنے جذبات اور خواہشات کی بھی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے؛ حج ایک ہمہ جہت اثرات رکھنے والی عبادت ہے؛ حج وہ مہتم بالشان فریضہ ہے جو ایک حاجی کی پوری زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے؛ حج ایک مسلمان کو آخرت رخی زندگی اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے حج دنیا اور مخلوق کی محبت سے نکال کر بندے کو خالق کی محبت سے سرشار کرتا ہے؛ حج کے دوران ایک حاجی سب سے کٹ کر رب سے جڑ جاتا ہے ؛حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے کتابوں میں لکھا ہے کہ امام صاحب کو اس بات میں تردد تھا کہ اسلام کی چار عبادتوں میں کون سی عبادت سب سے افضل ہے؛ لیکن جب انہوں نے حج کیا اور حج کے اثرات کا مشاہدہ خود اپنی نگاہوں سے کیا تو انہیں اطمینان ہوا کہ حج سب سے افضل عبادت ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز روزہ اور زکوۃ میں سے ہر عبادت کی اپنی خصوصیات و امتیازات ہیں؛ جو دوسری عبادتوں سے حاصل نہیں ہو سکتیں ؛لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حج کے اندر انسان کی زندگی کو بدل کر رکھنے کی غیر معمولی تاثیر ہے؛ اس لیے تمام عازمین کو حج کو جانے سے قبل حج کی اہمیت و افادیت اور اس کے ہمہ گیر اثرات کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے؛ ایک حاجی کو اس بات کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ اس کا حج حقیقی معنی میں ویسا حج ہو جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے؛ حج کے فوائد و اثرات تب ہی حاصل ہوں گے جب ایک حاجی ان باتوں کی رعایت کرے گا جن باتوں کی علماء کرام نے نشاندہی فرمائی ہے؛ ہماری کوشش یہ ہو کہ ہمارا حج حج مقبول بن جائے؛ حج کی اصل اہمیت تب ہی ہے جب وہ مقبول بنے؛ ویسے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ سفر حج پر جاتے ہیں لیکن ان میں سے بہت تھوڑے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے حج کو مقبول بنانے کی فکر ہوتی ہے اور وہ ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہیں جن کے بغیر حج مقبول نہیں ہوتا ؛حج مقبول کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حج مقبول کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں اور جب ایک بندہ حج مقبول سے واپس لوٹتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوتا ہے کہ گویا اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو؛ گناہوں سے مکمل پاکی تبھی حاصل ہوگی جب ہم ان باتوں کا اہتمام کریں جو حج مقبول کے لیے ضروری ہیں ؛حج مقبول کے لیے درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے:


١-گناہوں سے سچی توبہ: ایک عازم حج کو حج کے ارادے کے ساتھ سب سے پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ گناہوں سے سچی توبہ کرے؛ ہر گناہ آدمی کے دل کو گندا اور آلودہ کرتا ہے؛ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑتا ہے؛ اگر وہ سچی توبہ کر لے تو وہ سیاہ نقطہ دھل جاتا ہے؛ اس کے برخلاف اگر وہ دوسرا گناہ کرے تو مزید ایک اور نقطہ پڑ جاتا ہے؛ اس طرح گناہ کرتے کرتے اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے؛ گناہ کی گندگی کے ساتھ ایک آدمی خدا کے گھر کی زیارت کرے گا تو اسے حقیقی معنی میں فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا؛ مقامات مقدسہ کے انوارات کا انعکاس آدمی کے قلب پر تبھی ہوگا جب اس کا قلب گناہوں کی آلودگیوں اور غلاظتوں سے پاک ہوگا؛ گناہوں کی غلاظت کے ساتھ مقامات مقدسہ میں حاضری ہوگی تو لامحالہ وہاں کے نورانی ماحول سے مستفید ہونے میں رکاوٹ پیش آئے گی؛ اس لیے ایک حاجی کو حج کے ارادے کے ساتھ سارے گناہوں سے سچی توبہ کر لینا چاہیے تاکہ اس کا دل پاک ہو جائے اور جن گناہوں کی تلافی ممکن ہو ان کی تلافی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے؛ مثلا کوئی عازم حج اگر ترک صلاۃ کا گنہگار تھا تو اسے چاہیے کہ سچی توبہ کے بعد وہ چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کرنے لگے ؛اسی طرح دیگر جن جن چیزوں کی تلافی ممکن ہو اس سے دریغ نہ کرے۔
٢-گناہوں سے سچی توبہ کے بعد جن گناہوں سے اس نے توبہ کی ہے ابھی سے ان گناہوں سے بچنے کی کوشش شروع کر دے؛ حقیقی توبہ وہی کہلاتی ہے جس کے بعد آدمی ان کاموں کو ترک کرے جن میں وہ مبتلا تھا؛ توبہ کے بعد بھی اگر گناہوں کا سلسلہ جاری رہا تو ایسی توبہ حقیقی توبہ نہیں کہلا سکتی؛ اکثر و بیشتر یہ صورتحال دیکھی جاتی ہے کہ حج کو جانے والے لوگ برسوں سے جن گناہوں کے عادی تھے مقامات مقدسہ پہنچنے کے بعد بھی وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں؛ عادت کی شکل اختیار کرنے والے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا؛ اس کے لیے عازم حج کو حج کے ارادے کے ساتھ ہی ایسے تمام گناہوں سے بچنے کی عادت ڈالنی چاہیے؛ بہت سے لوگ جنہیں بد نظری کی لت لگ جاتی ہے وہ مقامات مقدسہ پہنچ کر بھی بدنظری میں مبتلا ہو جاتے ہیں؛ حتی کہ دوران طواف بھی ان کی نگاہ بھٹکنے لگتی ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انہیں برسوں سے اس کی لت لگی ہوتی ہے؛ حج کے ارادے کے ساتھ ہی اگر وہ اپنے مقام ہی پر نگاہوں کی حفاظت کی مستقل کوشش کرتے رہیں تو ان کے لیے دوران حج بد نظری سے بچنا آسان اور ممکن ہو جاتا ہے؛ جن لوگوں کو غیبت اور لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے وہ مقامات مقدسہ پہنچنے کے بعد بھی دوسروں کی غیبت اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے لگتے ہیں؛ چونکہ انہیں اس کی لت لگی ہوتی ہے؛ جب تک مقام پر رہ کر اس لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے؛ اس لیے عازمین حج کو چاہیے کہ وہ یہیں سے ایسے تمام گناہوں سے بچنے کی کوششیں جاری رکھیں؛ حج سے پہلے کرنے کا یہ ایک اہم ترین کام ہے.
٣-تیسرا اہم ترین کام حقوق العباد سے اپنے آپ کو پوری طرح سے فارغ کر لینا. اگر ہم پر کسی کا قرض ہو یا ہم نے کسی کی حق تلفی کی ہو یا وراثت کی تقسیم میں ہم سے خیانت ہو چکی ہو یا ہمارے ماں باپ ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہم سے ناراض ہوں یا عزیز و اقارب سے ہم نے رشتہ ناطہ ختم کیا ہو ؛ایسے تمام معاملات کو اولین فرصت میں حل کر لینا ضروری ہے؛ خدا کے بندوں کا حق اپنی گردن پر رکھ کر اور اللہ کے بندوں کے حقوق ضائع کر کے ہم اللہ کا قرب ہرگز حاصل نہیں کر سکتے؛ جس کسی کو ہم سے تکلیف پہنچی ہو بشمول والدین؛ عزیز و اقارب ہم ان سے معافی طلب کر لیں؛ اور کہا سنا معاف کروا لیں اور جن لوگوں کا حق ہم پر ہو انہیں واپس لوٹا دیں؛ یہ کام حج کی قبولیت کے لیے انتہائی ضروری ہے؛ بہت سارے لوگ لوگوں کا قرض رکھ کر حج ادا کرتے ہیں؛ اور بہت سے لوگوں کا معاملہ اللہ کے بندوں کے ساتھ انتہائی ناروا ہوتا ہے اور بہت سے لوگوں سے جائز باتوں کی بنیاد پر ان کے والدین ناراض ہوتے ہیں؛ اور وہ انہی حالات میں حج کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں؛ اگرچہ ایسے لوگوں کا حج ہو جاتا ہے لیکن وہ حج کے فوائد و برکات سے محروم رہ جاتے ہیں؛ یہ کام حج کو نکلنے سے پہلے کرنے کا ہے۔
٤-عازمین کے لیے چوتھا اہم ترین کام اتباع سنت کی عملی مشق ہے حج کا بنیادی مقصد رضائے الہی کا حصول ہے؛ اور اللہ کی رضا اتباع سنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی؛ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم(آل عمران) آپ فرما دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو پھر میرا اتباع کرو؛ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے؛ آیت شریفہ میں واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ قرب الہی کے لیے اتباع نبوی ضروری ہے ؛ایک عازم حج کا حج تب ہی کامل و مکمل ہوگا؛ جب وہ دوران حج بلکہ گھر واپس آنے تک تمام معاملات میں سنت کی پیروی کرے ؛کھانا پینا سونا جاگنا سفر اور دوران حج کے تمام مناسک سب کچھ سنت کے مطابق ہونا چاہیے؛ اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ایک عازم حج حج کے ارادے کے ساتھ سنتوں کی عملی مشق شروع کر دے؛ جسے مقام پر جس قدر سنتوں پر عمل کی عادت ہوگی وہ اسی قدر دوران حج سنتوں کا اہتمام کر سکے گا؛ اکثر و بیشتر حجاج حج کو نکلنے سے واپس آنے تک سنتوں سے بڑی لاپرواہی کرتے ہیں؛ بعض حجاج کو دیکھا گیا کہ جوں ہی ایام حج اختتام کو پہنچے وہ اپنی داڑھی مونڈھنے لگتے ہیں؛ گویا حج کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا؛ حج کے موقع پر حجاج کو روضہ رسول کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے؛ جو لوگ حج کے موقع پر دوران حج نبی کی سنتوں کا اہتمام نہیں کر سکے وہ کس منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔


٥-عازمین حج کے لیے پانچواں اہم ترین کام احکام حج کا سیکھنا ہے؛ جب تک احکام حج کا صحیح علم نہ ہوگا ہم مناسک حج صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے دیگر عبادات کے مقابلے میں حج کو ضائع ہونے سے بچانا نہایت ضروری ہے؛ اس لیے کہ حج زندگی میں ایک مرتبہ ادا کی جانے والی عبادت ہے اکثر و بیشتر لوگوں کو ایک سے زائد مرتبہ حج کی سعادت عموما حاصل نہیں ہوتی؛ اگر ہم نے لاعلمی کی وجہ سے مناسک کی ادائیگی میں غلطی کی تو یہ عمر بھر کے لیے افسوس کا باعث ہوگا؛ علاوہ ازیں حج کا فریضہ ایک خطیر رقم خرچ کر کے ادا کیا جاتا ہے؛ لاکھوں روپے کے اخراجات کے بعد بھی اگر ہمارے حج کے اندر کمی رہ جائے تو یہ بڑی محرومی کی بات ہوگی؛ اس لیے حج کے احکام سیکھنے کا خاص اہتمام ہونا چاہیے؛ شہر اور اضلاع میں وقفے وقفے سے حج کے تربیتی پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان میں اہتمام سے شرکت کرنی چاہیے اور علماء کی جانب سے بتائی گئی باتوں کو اپنے نوٹ بک میں وضاحت کے ساتھ تحریر کر لینا چاہیے؛ مگر اتنا بھی کافی نہیں بہتر یہ ہے کہ کسی مستند عالم دین کی لکھی ہوئی کتاب کا مطالعہ کریں ؛اور دوران حج مختلف موقعوں پر کی جانے والی دعاؤں کو یاد کریں؛ ممنوعات احرام اور وجوب دم کی صورتیں بھی ذہن میں مستحضر رہیں؛ اکثر لوگوں سے ممنوعات احرام مستحضر نہ رہنے کی وجہ سے بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں؛اسکے علاوہ حج کے احکام ک سیکھنا اسلیے بھی ضروری ہے کہ حج ایک تفصیل طلب عبادت ہے جو پانچ دنوں میں ادا کی جاتی ہے نیز صرف حج سے متعلق احکام کا سیکھنا کافی نہیں ہے؛ جب ہم اللہ کے گھر حاضر ہو رہے ہیں تو ہماری نمازیں بھی درست ہونی چاہیے؛ اور ہمارے عقیدے بھی صحیح ہونے چاہیے؛ بدعات و خرافات سے مکمل اجتناب ہونا چاہیے؛ طہارت اور پاکی و ناپاکی کے مسائل کی بھی جانکاری ہونی چاہیے؛ حج کو جانے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جنہیں نماز کے فرائض و ارکان شرائط و واجبات کا علم نہیں ہوتا؛ نیز عقیدوں سے متعلق بنیادی باتوں کی جانکاری نہیں ہوتی کلمات اسلام ایمان مفصل وہ ایمان مجمل نماز کے اذکار و اوراد میں بھی اغلاط ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو حج کے ارادے کے ساتھ مستقل دین کے ضروری نصاب کو سیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلت و لاپرواہی کے سبب ہمارا حج ضائع ہو جائے۔
٦-تمام عبادات کی قبولیت کا دارومدار اخلاص نیت پر ہے ادمی کتنا ہی اونچا عمل کر لے اگر اخلاص نہ ہو اور اس کے اندر ریا اور نمود کا شائبہ ہو تو اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کا زیادہ امکان ہے اس لیے ایک عازم حج کو ہر اس حرکت سے بچنا چاہیے جس سے ریاکاری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اتنے سارے اخراجات اور مہینہ بھر کی جسمانی مشقت کے بعد بھی اگر ہمارا حج رد ہو جائے تو اس سے بڑی کوئی محرومی نہیں ہو سکتی چنانچہ حدیث شریف میں حج کے مقبول ہونے کے لیے جو شرطیں لگائی گئی ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ اخلاص کی شرط ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے: من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته امه جو کوئی اللہ کے لیے حج کرے اور حج کے دوران اللہ کی نافرمانی اور شہوت کی باتوں سے بچے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنم دیا ہو اکثر و بیشتر لوگ حج کے موقع پر ریا و نمود کی حرکات کرتے ہیں بار بار فوٹو گرافی اور حج کے دوران سیلفی لے کر لوگوں کو شیر کرنا اخبارات میں حج کی روانگی کی اطلاع شائع کرانا سفر حج سے بہت پہلے سے تشہیر کرتے رہنا یہ اور اس قسم کی بہت سی چیزیں اج کے ہمارے معاشرے میں رائج ہیں جس طرح ایک ادمی روزانہ پانچ مرتبہ نماز پڑھتا ہے اور اپنی نماز کی تشہیر کو ضروری نہیں سمجھتا اسی طرح حج بھی ایک عبادت ہے اس کی تشہیر کی قطعی ضرورت نہیں ہے جس کے لیے حج کیا جا رہا ہے وہ ہمارے عمل سے بخوبی واقف ہے۔
٧-ایک عازم حج کو سفر حج سے پہلے خدا و رسول کی محبت سے خود کو سرشار کرنا ضروری ہے؛ حج ایک عاشقانہ عبادت ہے ؛حاجی ایک عاشق زار کی طرح دیوانہ وار اللہ کی محبت میں کبھی اللہ کے گھر کے ارد گرد چکر لگاتا ہے ؛کبھی منی جاتا ہے ؛کبھی مزدلفہ اور کبھی عرفات کے میدان میں رکتا ہے ؛جب حج ایک عاشقانہ عبادت ہے تو ایک حاجی کو سفر حج سے پہلے ہی خدا و رسول کی محبت کا چسکا لگنا چاہیے؛ جو لوگ اپنے مقام پر عشق خدا و رسول سے سرشار ہوتے ہیں وہ جب مقامات مقدسہ پہنچتے ہیں تو ان کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے؛ اس کے برخلاف جس حاجی کو اللہ سے محبت کا چسکا نہ لگا ہو وہ اس عاشقانہ عبادت کا لطف نہیں اٹھا سکتا ؛ سفر حج سے پہلے محبت خدا و رسول کے اسباب کو اپنانا چاہیے؛ بعض ایسے اعمال ہیں جن کو اختیار کرنے سے اللہ اور رسول کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے؛ مثلا: بار بار اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کرنا اور اللہ نے دوسروں کے مقابلے میں مجھے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں اس کا استحضار کرنا محبت خداوندی میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے؛ اسی طرح اللہ تعالی کی معرفت بھی محبت میں اضافے کا ذریعہ ہے؛ جس کو جس درجے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے وہ اسی درجے اللہ سے قریب ہوتا ہے؛ اسی طرح ذکر اللہ کی کثرت بھی محبت میں اضافے کا ذریعہ ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے امت پر آپ کے جو احسانات ہیں ان کا استحضار نہایت مفید ہے ؛نیز آپ کی سنتوں کی پیروی بھی محبت میں اضافے کا باعث ہے؛ اسی طرح آپ کے کمالات و معجزات کی جانکاری بھی محبت میں اضافے کا ذریعہ ہے؛ اور سب سے زیادہ مفید چیز آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ہے ؛ایک حاجی کو قیام مکہ کے دوران زیادہ سے زیادہ حرم کی حاضری اور طواف کی کثرت پر زور دینا چاہیے؛ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے موقع پر مسجد نبوی میں نمازوں کا اہتمام اور درود شریف کی کثرت رکھنا چاہیے؛ قیام حرمین شریفین کے دوران بازاروں میں زیادہ وقت گزارنے سے گریز کرنا چاہیے؛ حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خان صاحب علیہ الرحمہ کے بقول ایک مسلمان کو بازار سے بیزار رہنا چاہیے ؛بہت سے عازمین حج سے فراغت کے بعد زیادہ وقت بازاروں میں لگاتے ہیں؛ یہ بڑی محرومی کی بات ہے؛ عازمین حج کو ایک ایک لمحہ غنیمت جاننا چاہیے ؛لایعنی چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔


٨-حج کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس سفر کے لیے حلال مال کا اہتمام کریں سفر حج ایک مقدس سفر ہے اس میں حرام کا بالکلیہ شائبہ نہیں ہوناچاہیے۔
٩-سفر حج میں ازدحام کی وجہ سے لوگوں سے بار بار تکلیف پہنچتی ہے ایک عازم حج کو تحمل اور قوت برداشت سے کام لینا چاہیے ۔ سب اللہ تعالی کے مہمان ہیں بے صبری اور جلد بازی نہیں کرنا چاہیے ؛ اپنی ذات سے کسی تکلیف نہ پہونچے اور دوسروں سے پہونچنے والی تکلیف کو در گزر کریں ۔
١٠-قرآن مجید میں بڑے اہتمام کے ساتھ حجاج کرام کو جنگ و جدال سے منع کیا گیا ہے فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج یعنی حج کے دوران نہ جماع اور شہوت کی باتیں کی جائیں اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا جائے اور نہ جھگڑے کیے جائیں بہت سے حاجی اس خدائی فرمان کا پاس و لحاظ نہیں کرتے چنانچہ منی میں قیام کے دوران کثرت سے آپس میں بحث و تکرار کرتے ہیں یہ بڑی غلط بات ہے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
یہ کل دس باتیں ہیں (تلك عشره كامله) اگر کوئی ان کا لحاظ رکھے گا تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کا حج حج مقبول ہوگا عازمین حج سے گزارش ہے کہ وہ دوران حج فلسطین کے مسلمانوں کے لیے اور وہاں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے خوب دعائیں کریں غلاف کعبہ کو پکڑ کر خوب اللہ سے مانگیں اسی طرح ہمارے ملک اور وطن عزیز میں امن و امان کے لیے بھی خوب دعائیں کریں ملک میں ظالموں کی ناکامی اور ظلم کے خاتمے کے لیے خوب گڑگڑائیں جب کعبے پر پہلی نظر پڑے تو یہ دعا کریں کہ پروردگار میں یہاں جو بھی نیک دعا کروں اسے قبول فرما۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×