سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

کیرل میں قیامتِ صغریٰ؛ ریلیف مہم میں تیزی لانے کی ضرورت

وطنِ عزیز میں ہر سال سیلاب و طوفان کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ شمالی ہند کی متعدد ریاستیں سیلاب سے دوچار ہوتی رہتی ہیں، لیکن کیرل میں آئے حالیہ سیلاب قہر خداوندی کی ایسی بدترین شکل ہے جس نے کیرل میں سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔اس سے قبل ۱۹۳۴ء میں اس علاقہ میں زبردست سیلاب آیا تھا جس سے ایک ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں۔ قریب ایک صدی کے بعد یہ اس سے بدترین سیلاب ہے۔ منجملہ ۱۴ اضلاع کے ۱۳ اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں۔ دو اضلاع کے بارے میں خبروں میں بتایا گیا ہے کہ وہ مکمل طورپر سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ یہاں سب کچھ تباہ نظر آتا ہے ، نہ سڑکیں بچی نہ ہی مکانات محفوظ ہیں، حتیٰ کہ پہاڑوں کے تک کھسکنے کے واقعات پیش آئے۔ کیرلا میں آئی تباہی کا عینی شاہدین اور سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ کیرلا میں مکان اور مکین سب خطرات سے دوچار ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۵۰ سے متجاوز ہے۔ ۱۵۰۰ مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ سو سے زائد مکانات مکمل تباہ ہوچکے ہیں۔ ۳ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ۲ لاکھ ۲۳ ہزار ۱۳۹ افراد ۱۵۰۰ ریلیف کیمپس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سیلاب کی سنگین صورتِ حال کو دیکھ کر اسے صدی کا بدترین سیلاب قرار دیاجارہا ہے۔ تادم تحریر بارش میں کمی کی اطلاعات آرہی ہیں لیکن سیلا ب کی سنگینی کا اندازہ وسیع تر بچاؤ اور راحت کاری کے کاموں سے لگایاجاسکتا ہے۔ ریاست کے ۱۰ مختلف مقامات پر فوج کی جانب سے ۱۰ سیلاب امدادی کالم تعینات کئے گئے ہیں۔ ۳۶ دور افتادہ علاقوں تک دوبارہ رابطہ بحال کرنے کے لئے ۱۳ عارضی پل تعمیر کئے گئے ہیں۔ مرکز کی جانب سے بحری بری فوج اور فضائیہ کی ٹیموں کو متحرک کیا جاچکا ہے۔ زمین کھسکنے کے متعدد واقعات میں کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں ، کرد ضلع میں پہاڑ کے نیچے آباد ایک آبادی پر اس طرح آفت ٹوٹی کہ زمین کھسکنے سے اس پر پہاڑ آگرا اور پوری آبادی اس کی زد میں آگئی۔ ہسپتالوں میں ادویہ کی کمی کی وجہ سے مریض پریشان حال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کا سب سے خوفناک سیلاب ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کے پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ ہسپتالوں میں آکسیجن ختم ہورہا ہے۔ ٹریفک متاثر ہونے سے بیشتر پٹرول پمپ خالی پڑے ہیں۔ جہاں تک مہلوکین کا تعلق ہے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اڈکوتی ضلع سے سب سے زیادہ ہلاک ہونے والوں کی اطلاع ہے۔ جہاں تاحال ۴۳ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ملپورم میں ۲۸ اور تریشور ضلع میں ۲۷ لوگوں کی موت کی اطلاع ہے۔ الپجھا ضلع کے چنگانور میں کم از کم ۵ ہزار لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ پوری ریاست کے راحت کیمپوں میں تقریباً ۶ لاکھ لوگ موجود ہیں۔ صرف تیشور ضلع میں دو لاکھ افراد راحت کیمپوں میں مقیم ہیں۔
سیلاب میں پھنسے متاثرین کا حالِ زار ناقابل بیان ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں سے مدد کی اپیل کی جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کیرلا کے ۳.۳ کروڑ باشندے خوفناک سیلاب کے سبب لوگوں کی امداد کے منتظر ہیں۔ بہت سے لوگ ہمہ منزلہ عمارتوں میں اور طلبہ کی بڑی تعداد اسکولوں اور کالجوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ چرچوں اور مساجد میں محصور ہیں۔ جو سوشل میڈیا کے ذریعہ مدد مانگ رہے ہیں۔ گوگل میاپ کے ذریعہ اپنے لوکیشن کی جانکاری دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وارل ہوئی ویڈیو کلپس بڑے درد ناک مناظر پیش کررہی ہیں۔ لوگ ہاتھ جوڑ کر مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ لوگ بچاؤ کارکنوں سے رابطہ کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن بجلی نہ ہونے سے مواصلاتی نظام ٹھپ ہے۔ فیس بک پر وائرل ایک پوسٹ میں الپوزہ کا باشندہ یہ کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ میرا خاندان اورمیرے پڑوسی بہت زیادہ مصیبت میں ہیں۔ یہاں نہ کھانا ہے نہ پانی، بھوک پیاس کی شدت سے اب منہ سے آواز بھی نہیں نکل پارہی ہے ، کسی سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ بعض ویڈیو کلپس میں لوگ ہاتھ جوڑ کر کہتے نظر آرہے ہیں ’ ہم بھوکے ہیں ہمیں کھانا کھلادو، ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلادو‘۔ ایک راحت کیمپ میں موجود خاتون کہتی ہے کہ ہمارے لئے یہ دوسری زندگی ہے ۔ گزشتہ چار دنوں سے ہمارے پاس کوئی کھانا نہیں ہے اور چاروں طرف گلے تک پانی بھرا ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ کیرلا کو صدی کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے۔ کیرلا کی یہ سنگین صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ پورا ملک وہاں کے ستم رسیدہ باشندوں کی مدد کو آگے آئے۔ بلا تفریق مذہب و ملت ملک کے ہر طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو کیرلا ریلیف مہم کا حصہ بنائے۔ حکومتی سطح پر ملک کی مختلف ریاستوں کی جانب سے امداد ی پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ ریاست تلنگانہ نے فراخدلانہ تعاون پیش کیا۔ مرکزی سرکار کی جانب سے ۵۰۰ کروڑ کی امداد کیرلا کے عظیم سانحہ کو دیکھتے ہوئے بہت معمولی معلوم ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کیرل کے سیلاب کو قومی آفت قرار دیاجائے۔ لیکن کیا کیا جائے فی زمانہ سیاسی جماعتیں ہر مسئلہ کو سیاسی مفاد کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ بہار کے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی اور مہا گٹھ بندھن کے درمیان مقابلہ آرائی تھی۔ دونوں بڑھ چڑھ کر اعلانات کررہے تھے ۔ اس وقت وزیراعظم نے بہار کے لئے سوا لاکھ کروڑ کا اعلان کیا تھا۔ حیرت ہے کہ مودی سرکار نے نیپال کے زلزلہ کے موقع ایک بلین ڈالر کی خطیر رقم بطور امداد پیش کی تھی لیکن اپنے ملک کی ایک ریاست میں تباہی کو نظر انداز کررہی ہے۔ انتخابات کے دوران ممبران اسمبلی کو خریدنے کے لئے کروڑوں کا سودا کرنے میں سیاسی پارٹیوں کے لئے آسان ہے لیکن ملک کے حقیقی مسائل اور سانحات پر خرچ کرنا دل پر گراں گزرتا ہے۔ غیر ملکی دوروں اور انتخابی ریالیوں پر کروڑوں صرف کرتے ہمارے قائدین تھکتے نہیں لیکن ملکی عوام پر آئی آفتوں کے لئے ان کے ہاتھ تنگ ہوجاتے ہیں۔
کیرل میں جس وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اس کی بھرپائی کے لئے حکومتوں کے ساتھ ملکی عوام کو بھر پور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کیرل کے عوام دانے دانے کو محتاج ہیں۔ پورے کے پورے علاقے اور خاندان تباہ ہوچکے ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ملک کے تمام طبقات کو ریلیف مہم میں تیزی لانی چاہئے۔ ریلیف کی اس مہم میں مذہبی تفریق سے یا سیاست سے احتراز کرنا چاہئے۔ یہ وقت بھید بھاؤ کا نہیں بلکہ ڈوبتوں کو بچانے اور بے سہاروں کو سہارا دینے کا ہے۔ بڑی مسرت کی بات ہے کہ سابق کی طرح اس بار بھی کیرلا ریلیف کے لئے مسلم تنظیمیں سرگرم ہوچکی ہیں۔ جمعیۃ العلماء ، جماعت اسلامی، صفا بیت المال اور علاقائی و قومی تنظیموں نے وسیع پیمانے پر ریلیف فنڈ اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے۔ جمعیت علماء ہند نے اپنی مختلف ریاستی یونٹوں کو متحرک کرکے کیرلا کے مختلف علاقوں میں فوری طورپر تین ریلیف کیمپس قائم کئے ہیں۔ ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے شہروں کی تمام مساجد میں جمعہ کو کیرلا ریلیف کے لئے اعلان کرایا جائے اور تمام مساجد کی انتظامی کمیٹیاں اپنے طورپر فنڈ اکٹھا کرکے جمعیت علماء ، صفا بیت المال اور جماعت اسلامی کے ذمہ داروں کے حوالے کریں۔ شہر حیدرآباد کی پہچان ہے کہ اہلیانِ حیدرآباد نے ہمیشہ ایسے موقعوں پر دل کھول کر تعاون کیا ہے۔ فسادات ہوں کہ سیلاب اور دیگر آفاتِ سماویہ حیدرآباد کے مسلمانوں نے فراخدلانہ تعاون پیش کیا ہے۔ ہمیں امید ہیکہ اس مرتبہ بھی شہریانِ حیدرآباد کا تعاون گرانقدر رہے گا۔ سیلاب اور آفاتِ سماویہ انسانی ہمدردی کے مظاہرہ کا زرین موقع ہوتا ہے۔ ایک ملک میں رہنے والے سارے انسان آپس میں وطنی بھائی ہیں۔ سماوی آفات سے ہر کوئی دوچار ہوسکتا ہے۔ آج کیرل کی عوام کو یہ سانحہ درپیش ہے تو کل کو ہم بھی ایسی کسی آفت کی زد میں آسکتے ہیں۔ مصیبت زدوں اور بے سہارا مفلوک الحال بندوں کی مدد کرنا ایک مسلمان کے لئے جہاں انسانی تقاضہ ہے وہیں ایمانی تقاضہ بھی ہے۔ دین اسلام سارے انسانوں کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے۔ مفلوک الحال بے بس و لاچار بندوں کا تعاون قیامت کی مصیبتوں سے چھٹکارا کا سبب بنتا ہے۔ احادیث شریفہ میں وارد ہے کہ جو کوئی کسی مصیبت زدہ کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبت دور فرماتے ہیں۔ بدحالوں اور مجبوروں کی دستگیری و عظیم عمل ہے جو بندے کے لئے خدائی مدد کا ذریعہ بنتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے ’’ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘ مصیبت کے ماروں کی مدد کرنا صدقہ ہے اور صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ صدقہ بیماریوں سے شفا کا سبب بنتا ہے۔
آفاتِ سماویہ کا یہ موقع مسلمانوں کے لئے دعوتی نقطۂ نظر سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دراصل غیر مسلم بھائیو ں کے سامنے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرنے کا موقع ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذریعہ برادران وطن کو بتاسکتے ہیں کہ اسلام انسانیت اور اخوت و بھائی چارگی کا مذہب ہے۔ کیرل کے حالیہ سانحہ میں فرقہ پرست جماعتیں فرقہ پرستی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ فرقہ پرستی کے اس تاریک ماحول میں ہمیں قومی یکجہتی ، انسانی ہمدردی اور آپسی خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جب چینائی میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی تو وہاں کے مسلمانوں نے غیر مسلم متاثرین کے ساتھ مثالی برتاؤ کیا تھا جس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سیلاب سے متاثر غیر مسلم بھائیوں نے فرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مسلمانوں کی انسانی ہمدردی کی تعریف کی تھی۔ کیرلا میں بھی اس کردار کو دہرایا جاسکتا ہے۔ یہ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں بہت کچھ جھلس چکا ہے۔ فرقہ پرستی کی اس آگ نے خاندان کے خاندان تباہ کردئیے۔ آبادیوں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا۔ اب یہاں محبت و آشتی کی ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار کی ضررت ہے۔
سیلاب متاثرین کے تعاون کے لئے ہمیں بہت بڑا بوجھ دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کچھ نہیں تو صرف چند دنوں کے لئے فضولیات ترک کردیں اور اس پیسے کو کیرلا ریلیف کے لئے مختص کردیں تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے۔ سگریٹ ، پان، ہوٹلنگ اور شادی بیاہ کی فضول خرچیوں کو کچھ دنوں کے لئے چھوڑ دیں تو بہت کچھ بچت ہوسکتی ہے۔ لاکھوں مسلمان روزانہ پان ، گٹکھا ، سگریٹ نوشی اور غیر ضروری ہوٹلنگ کرتے ہیں جس میں یومیہ ہزاروں روپئے خرچ ہوتے ہیں۔ کیا ہم اپنے وطنی و ایمانی مفلوک الحال بھائیوں کے لئے فضولیات کو قربان نہیں کرسکتے۔؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×