سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

کورونا وائرس کی سنگین صورت ِحال کرنے کے تین کام

اس وقت پورا عالم کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے، ۱۹۰ سے زائد ملکوں میں اس وائرس نے اپنے پنجے گاڑ دئے ہیں، دنیا بھر میں اس کے متأثرین کے تعداد چار لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے، جب کہ ۱۸ ہزار افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں، ہمارے ملک میں ابتدا میں متأثرین کی تعداد بہت تھوڑی تھی، لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، تا دم تحریر بھارت میں اس وائرس سے ۱۱ اموات ہوچکی ہیں، اور وائرس کے شکار افراد۷۰۰سے متجاوز ہوچکے ہیں، بھارت سمیت دنیا کے ملک ملکوں میں لاک ڈاؤن کردیا گیاہے، اور بہت سے ملکوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں، اٹلی جیسے ملک میں صورت ِحال سنگین نوعیت اختیار کرچکی ہے، جہاں حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں، میتیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں ناکافی ہورہی ہیں، سو فوجی گاڑیوں میں میتیں بھر کر بغیر غسل وکفن اور آخری رسومات کے دفن کیا جارہا ہے، ایران کا حال بھی بہت برا ہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی سنامی آنے کا شدید خطرہ ہے، جس میں ۳۰۰ ملین لوگ متأثر ہوسکتے ہیں، جن میں چار سے پانچ ملین لوگوں کی حالت زیادہ خراب ہوسکتی ہے، ایک برطانیہ اخبار میں شائع شدہ مضمون کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں لوگ مشترکہ کنبوں میں رہتے ہیں، جن میں ایک دوسرے کے جراثیم لگنے کے زیادہ امکانات ہیں، اس لیے یہاں عمر رسیدہ لوگوں کو خاص طور پر خطرہ ہے۔
کورونا وائرس کی اس سنگین صورت ِحال کے پیش نظر ہمیں تین کاموں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے،اول یہ کہ ہم لوگوں کو امید دلائیں ، ان کے حوصلے بڑھائیں اور ان کے دلوں سے خوف نکالیں، یہ کام اس لیے ضروری ہے کہ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس قدر خوف زدہ ہے کہ وہ نفسیاتی امراض کا شکار ہورہی ہے، نفسیات کے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں نفسیاتی مریضوں کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے، اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ وبا جس جگہ سے پھیلی ہے خود اس کے مرکز میں کافی حد تک اس پر قابو پالیا گیا ہے، چین کے ووھان شہر میں گذشتہ چند دنوں کے دوران کورونا وائرس کا کوئی تازہ کیس سامنے نہیں آیا ہے، اگرچہ اٹلی، ایران اور امریکہ میں اس نے زور پکڑا ہے اور دوسرے ممالک میں بھی پَر پھیلارہا ہے، لیکن چین میں صورت ِحال تبدیل ہورہی ہے، دوسری بات یہ کہ لوگ عام طور پر اخبارات میں متأثرین کی بڑھتی تعداد دیکھ کر گھبرارہے ہیں، لیکن انہیں صحت یاب ہونے والوں کا اندازہ نہیں ہے، کل چار لاکھ متأثرین میں سے سوا لاکھ سے زائد افراد رو بہ صحت ہوکر اسپتالوں سے ڈسچارج ہوچکے ہیں، ماہرین بار بار تیقن دلارہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں تو اموات میں کافی کمی آسکتی ہے، کورونا وائرس خطرناک ضرور ہے، لیکن اس وائرس کے ساتھ موت کو یقینی تصور کرلینا صحیح نہیں ہے۔علاوہ ازیں دنیا میں آئی پچھلی وباؤں سے حالیہ وباء کا موازنہ کیاجائے تو بہت کچھ حوصلے بڑھ جاتے ہیں، کورونا وائرس کوئی پہلی وباء نہیں ہے جس نے دنیا میں تباہی مچائی ہو، انسانی تاریخ میں ایسی دسیوں وبائیں آئیں، جو حالیہ وباء سے بدرجہا سنگین تھیں، کونسی وباء کتنی ہلاکتوں کا باعث بنی اس کا اندازہ درج ذیل تفصیلات سے کیا جاسکتا ہے:
۱- نیند کی وبا (۱۹۱۵ء تا ۱۹۲۶ء) کل ہلاکتیں :۱۵؍ لاکھ ۔
۲- ایشیائی فلو(۱۹۵۷ء تا ۱۹۵۸ء) کل ہلاکتیں: ۲۰؍ لاکھ۔
۳- ایرانی طاعون(۱۷۷۲ء ) کل ہلاکتیں: ۲۰؍ لاکھ سے زیادہ۔
۴- کوکولزتلی2 ، کل ہلاکتیں:۲۰؍ لاکھ سے ۲۵؍ لاکھ تک۔
۵- انپونین کی وباء(۱۶۵ء تا ۱۸۰) کل ہلاکتیں: ۵۰؍ لاکھ سے ایک کڑوڑ تک۔
۶- کوکولزتلی1 ، کل ہلاکتیں:۵۰؍ لاکھ سے دیڑھ کڑوڑ تک۔
۷- جستینن طاعون(۵۴۱ء تا ۵۴۲ء) کل ہلاکتیں، ڈھائی کڑوڑ۔
۸- HVI ، کل ہلاکتیں: ۳؍ کڑوڑ۔
۹- ہستانوی فلو(۱۹۱۸ء تا ۱۹۲۰ء) کل ہلاکتیں: ۱۰؍ کڑوڑ۔
۱۰- سیاہ موت (۱۳۴۳ء تا ۱۳۵۱ء) کل ہلاکتیں: ساڑھے سات کڑوڑ تا ۲۰؍ کڑوڑ۔
۱۱- ایبولا وائرس(۲۰۱۳ء تا ۲۰۱۶ء) کل ہلاکتیں: ۱۱۳۰۰۔
۱۲- سیاہ موت، سولہویں صدی میں استنبول میں ۴۰ فیصد آبادی ختم ہوگئی۔
۱۳- سیاہ موت، انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔
۱۴- چیچک کی وباء، (۱۵۲۰ء) ڈھائی کڑوڑ لوگوں کا شہر آنا فانا ختم ہوگیا۔
۱۵- ملیریا، کہا جاتا ہے کہ کرۂ ارض پر اب تک جتنے انسان پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم وبیش ۵۰ فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
۱۶- ہیضہ،گذشتہ دوسو سالوں میں اس سے لاکھوں اموات ہوچکی ہیں۔
مذکورہ اعداد وشمار پر غور کیجئے ، پھر حالیہ کورونا وباء کا اس سے موازنہ کیجئے، اندازہ ہوگا کہ دنیا اس سے قبل کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز وباؤں کا سامنا کرچکی ہے، اس سلسلہ میں ایک اور جانکاری بھی زیادہ اطمینان کا باعث ہوسکتی ہے، وہ یہ کہ اس وائرس میں انفیکشن کے بعد کتنے فیصد موت کے امکانات ہوتے ہیں ماہرین کے مطابق اس کی تفصیلات یوں ہے:
۱- سارس وائرس، انفیکشن کے بعد موت کے امکانات ۳۶ فیصد۔
۲- ذیکاوائرس، انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات ۲۰ فیصد۔
۳- ایبولا وائرس، انفیکشن کے بعد موت کے امکانات ۹۰ فیصد۔
۴- ماربرگ بخار، موت کے ا مکانات ۸۸ فیصد۔
۵- نفاہ وائرس، موت کے امکانات ۷۵ فیصد۔
۶- کریمین کانگو بخار ، موت کے امکانات ۴۰ فیصد۔
۷- انفلواینزا ، موت کے امکانات ۱۳ فیصد۔
۸- کورونا وائرس،انفیکشن کے بعد موت کے امکانات ۳ فیصد۔
ماہرین نے کورونا سے مرنے کی بڑی وجہ انسان کا خوف زدہ ہونا بتایا ہے، ایک مسلمان کو اس لیے بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا تقدیر پر پختہ یقین ہوتا ہے، تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی موت وحیات پہلے طے شدہ ہے، جب تک آدمی کی موت کا وقت نہ آئے تب تک اسے موت نہیں آسکتی، قرآن مجید میں ارشاد ہے: قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللہ لنا (التوبہ) آپ فرمادیجئے کہ ہمیں وہی مصیبت آئے گی جو اللہ نے پہلے سے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔حضرات صحابہ کے زمانے میں بھی طاعون اور اس جیسی وبائیں آئیں لیکن صحابہ خوف کا شکار نہیں ہوئے، بلکہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسلامی ہدایات کو اپنایا، اور خوف کو اپنے قریب بھٹکنے بھی نہیں دیا، حضرت سعید ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوعبیدہؓ اُردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا: میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے، اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، زکوٰۃ ادا کرو، حج ادا کرو، آپس میں ایک دوسرے کو نیکی کی تاکید کرتے رہو، اور اپنے امیروں کے ساتھ خیر خواہی کرو،اور ان کو دھوکہ مت دو،اور دنیا تمہیں آخرت سے غافل نہ کرنے پائے، کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے ایک نہ ایک دن اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا، جسے تم دیکھ رہے ہو، اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرنا طے کردیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے، اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے رب کی سب سے زیادہ اطاعت کرے، اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔(حیاۃ الصحابہ۲؍۱۶۵)
دوسرا کام جو اس وقت ہمیں کرنا ہے وہ علاج ومعالجہ اور احتیاطی تدابیر اپنانے کا ہے، خوف زدہ ہونا الگ چیز ہے،اور احتیاط الگ، خوف نہ کرنے کے لیے مانع نہیں ہے کہ آدمی احتیاط نہ کرے، جس رب نے بیماریاں اور وبائیں پیدا کیں اسی رب نے احتیاط اور علاج کا بھی حکم دیا ہے، اللہ پر توکل مسلمانوں کا بیش بہا سرمایہ ہے، اور تقدیر اہل عین ایمان ہے، لیکن تقدیرکی تکمیل تدبیر سے ہوتی ہے، ایک اعرابی اپنی سواری بے لگام چھوڑ کر دربار ِرسالت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اسے باندھو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ہجرت کے وقت آپﷺ نے گہری حکمت ِعملی اور تمام تدابیر اپنائی، غزوۂ خندق کے موقعہ پر دشمنوں سے تحفظ کے لیے تین میل لمبی خندق کھودی، بنو ثقیف کے ایک وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربار رسالت میں حاضر ہوا، آپ نے اسے اس کے مقام ہی سے واپس لوٹا دیا، نہ عملا ً بیعت کی اور نہ مصافحہ کیا۔(صحیح مسلم:۲۲۳۱) یہ کہنا غلط ہے کہ ایمان کے ساتھ احتیاط کی ضرورت نہیں، رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ کوڑھی سے یوں بھاگو جیسے شیرسے خوف زدہ ہوکر بھاگتے ہو۔(صحیح بخاری۵۷۰۷۷) اسباب کو اختیار کرنا ہرگز تقدیر کے خلاف نہیں ہے ؛ بلکہ اسباب خود تقدیر کا ایک حصہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب نبیٔ رحمتﷺ سے صحابہ ؓ نے بیماری کے موقع اپنائی جانے والی دوا دارو اور تدبیر سے متعلق دریافت کیا کہ یہ چیز یں تقدیر کو بدل ڈالتی ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی اللہ کی تقدیر ہی کا ایک حصہ ہیں۔ (ترمذی شریف) اسی طرح حضرت عمرؓکو ملک شام کے سفر کے دوران جب شام میں طاعون پھیلنے کی خبر پہونچی تو انہوں نے مشورہ کے بعد واپس لوٹنا طے کیا، جس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا: امیر المؤمنین! کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:نہیں ، میں اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جارہا ہوں، ایک عرب اسکالر ڈاکٹر طارق السویدان نے صحابہؓ کے زمانے میں پیش آئے طاعوان عمواس کے تعلق سے لکھا ہے کہ طاعون عمواس نے صحابہؓ وتابعینؒ میں سے بیس ہزار انسان دنیا سے رخصت ہوئے ، اطباء وماہرین عاجز آگئے، حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کو خط لکھا کہ اس بلاسے چھٹکارے کے لیے سبیل کیجیے، حضرت عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میں نے غور کیا تو اس نتیجہ پر پہونچا کہ یہ لوگوں کے اجتماع سے پھلیتی ہے ، سرکاری سطح پر لوگوں کو گھروں میں پابند کیا گیاتو تین دن میں یہ وبا ختم ہوگئی، بہت سے لوگوں کو ان حالات میں جب ترک مصافحہ کا مشورہ دیا جاتا ہے تو انہیں الجھن ہوتی ہے کہ آخر ایک سنت کو چھوڑنے کا مشورہ کیوں دیاجارہا ہے ؟دراصل انہیں مغالطہ ہے کہ یہ ترک سنت کی تلقین نہیں ہے ؛ بلکہ ایک سنت سے دوسری سنت کی طرف منتقل ہونے کی تلقین کی جارہی ہے، ایک سنت عام حالات کی ہے اور وہ مصافحہ ہے اور ایک سنت خاص حالات کی ہے اور وہ ترک مصافحہ ہے، جیسا کہ خود حضورﷺ نے کوڑھی سے مصافحہ نہیں کیا،جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے ، جس میں تعدیہ کی نفی کی گئی ہے تو اس کا مکمل حصہ یوں ہے : لاعدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولاصفر وفرمن المجذوم کماتفر من الأسد۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۵۷۰۷) اس حدیث کے آغاز میں جہاں تعدیہ کی نفی کی گئی ہے ( جس کا مقصد اس کے مؤثر بالذات ہونے کی نفی کرنا ہے)وہیں اخیر میں فرمایا گیا کہ جذامی سے ایسے بھاگو ، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔
خلاصہ یہ کہ وباؤں کی صورت میں علاج ومعالجہ اور احتیاطی تدابیر ضروری ہیں؛ البتہ علاج دو طرح کا ہوتا ہے (۱)جسمانی وظاہری علاج(۲) روحانی علاج، موجودہ حالات میں یہ دونوں علاج ناگزیر ہیں، جسمانی وظاہری علاج سے مراد احتیاطی تدابیر اور کسی بھی مرض کے ازالہ یا اس سے تحفظ کے لیے مطلوبہ اسباب وادویہ اختیار کرنا ہے اور روحانی علاج سے مراد بیماری یا آفات وبلایا کے جو اصل اسباب ہیں: جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانی معاشروں پر امراض وآفات بھیجتے ہیں، ان کا ازالہ کیا جائے، غضب الہی کو دور کرنے والی تدابیر اپنائی جائیں، نیز احادیث میں وارد ایسے موقع کی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے ۔
جہاں تک جسمانی علاج کی بات ہے کورونا وائرس کا اب تک کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوا ہے ، دنیا بھر کے ماہرین اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں؛ البتہ احتیاطی تدا بیر کو اپنا کر اس سے بچا اور مزید پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے، عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کی گئیں ہدایات میں کورونا وائر س کی ترسیل کے تین بنیادی ذرائع ذکر کئے گئے ہیں، (۱) ترسیل بذریعہ چھوٹی بوند(چھینکنا کھانسنا وغیرہ) ترسیل بذریعہ ایرو سول( چھوٹے قطرات ہوا میں منتشر ہوکر معلق ہوجاتے ہیں اور ایروسول کی صورت اختیار کرتے ہیں(۳) ترسیل بذریعہ رابطہ ، فضلاتی اور دہنی ترسیل کا بھی خدشہ موجود ہے ، جس کی تصدیق کی ضرورت ہے۔
ترسیل بذریعہ ٔ نظام تنفس کی تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے قطرات ایک خاص فاصلے( ایک سے دو میٹر) سے حساس لعابی جھلی میں داخل ہوسکتے ہیں، روز مرہ بات چیت کے دوران چھینکنے یا کھانسنے کی وجہ سے چھوٹے قطرات کے ذریعہ ترسیل ممکن ہے ، ترسیل بذریعہ ٔ رابطہ کی شکل یہ ہے کہ قطرات کسی شئی کی سطح پر جمع ہوجاتے ہیں، ہاتھ اس آلودہ سطح کے ساتھ رابطہ میں آتا ہے اور منھ ، ناک ، آنکھ اور اعضاء کی لعابی جھلی کے ساتھ رابطہ میں آتا ہے ، ترسیل بذریعہ ایروسول میں چھوٹے قطرات ہوا میں منتقل ہوکر ایروسول کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور معلق رہتے ہوئے پھیلتے ہیں، مذکورہ تفصیل کی روشنی میں احتیاطی تدابیر میں دوچیزوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے (۱) صفائی ستھرائی(۲)لوگوںسے میل جول اور بھیڑ بھاڑ سے گریز، ملک کی مختلف مسلم تنظیموں کی جانب سے درج ذیل احتیاطی تدابیر کی اپیل کی گئی ہے :
(۱)گھر سے کم سے کم نکلیں، پانچ دس لوگوں سے زیادہ کی بھیڑ میں نہ رہیں۔
(۲) فی الحال مصافحہ ومعانقہ سے گریز کریں۔
(۳) ملک کے علماء نے طے کیا ہے کہ کچھ افراد مساجد میں نماز باجماعت ادا کرلیں ، باقی لوگ اپنے گھروں میں پڑھ لیا کریں۔
(۴)جو لوگ مسجد جائیں وہ اپنے گھروں سے باوضو ہوکر اور اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھو کر جائیں۔
(۵) مساجد میں وضوخانے ، استنجا خانے اور فرش کی خوب صفائی رکھیں۔
(۶)مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ مسجد میں رکھے تولیہ اور ٹوپیوں کو ہٹائیں تاکہ لوگ انہیں استعمال نہ کریں۔
(۷)اپنے کپڑے ، بدن او رآس پاس کی صفائی اور پاکیزگی کا خوب خیال رکھیں اور بار بار ہاتھ دھونے کا اہتمام کریں۔
(۸) مساجد میں بچھی قالین ہٹالی جائیںاور مسجد کے فرش کو اچھی طرح پانی اور دوا سے دھوئیں۔
(۹)جن لوگو ں کو سردی کھانسی اور بخار ہو یا سانس کی بیماری ہو وہ گھر پر ہی نماز ادا کریں۔
(۱۰) کھانسی یا چھینک آنے پر منھ پر کپڑا یا ٹشو پیپررکھیں۔
(۱۱) حکومتی ہدایات کے ساتھ مذہبی اداروں سے جو مشورے دئیے جارہے ہیں ان کی پابندی اپنے لیے لازم سمجھیں۔
(۱۲) نزلہ زکام کھانسی بخار ہوتو دوسروں کو اپنی صحبت سے بچائیں۔
(۱۳)ضعیف العمر افراد کو زیادہ محفوظ مقام پر رکھیں۔
(۱۴)عام صحت مند لوگوں کے لیے ماسک ضروری نہیں ہے ؛ اگر آپ کو نزلہ زکام ہوتو ماسک ضرور استعمال کریں۔
(۱۵)سرد اشیاء کول ڈرنگ وغیرہ سے احتیاط کریں اور اپنے ہاتھ کو بلا ضرورت منھ ، ناک وغیرہ تک نہ لے جائیں۔
(۱۶) فوری تشخیص ہوجائے تو اس کا مریض گرم ٹیمریچر میں رہنے اور وقتا فوقتا بھانپ لینے سے ٹھیک ہوجاتا ہے ۔
(۱۷)جتنی احتیاط کر سکتے ہیں کریں باقی اللہ پر چھوڑدیں ، غیر ضروری خود پر خوف طاری نہ کرلیں۔
علاج کا دوسرا حصہ روحانی علاج سے تعلق رکھتا ہے ، جو پہلی قسم کے علاج سے زیادہ ناگزیر ہے ، اس سلسلہ کی چند ہدایات درج ذیل ہیں:
(۱)کورونا دراصل عذاب الہی ہے اور عذاب الہی کا بنیادی سبب گناہ ہے ، اس لیے گناہوں سے سچی توبہ کی جائے ، حضرت یونس ؑ کی قوم پر عذاب شروع ہوچکا تھا، جوں ہی انہوں نے عذاب کے آثار دیکھے ، سچی توبہ کرلی، جس کی وجہ سے عذاب ٹل گیا، ٹی وی سیل فون ، سوشیل میڈیا، یوٹیوپ ، فیس بک وغیرہ سے کنارہ کشی اور فحاشی وبے حیائی سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
(۲)ساری آفتیں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں اور خداتعالیٰ کو منانے ہی سے ان کا ازالہ ممکن ہے ، اس لیے موجودہ حالات میں اولاًرجوع الی اللہ شدید ضرورت ہے ۔
(۳)جس طرح مکہ مکرمہ میں نبیٔ رحمتﷺ کی موجودگی کی وجہ سے عذاب موقوف رہا، اسی طرح آپﷺ کی سنتوں کے عمومی رواج سے بھی عذاب ٹلے گا ، اس لیے سنتوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
(۴)قرآن پاک کے مطابق جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے ، اللہ تعالیٰ عذاب نہیں لائیں گے، اس لیے استغفار کی کثرت کی جائے ۔
(۵) مشکلات وآلام میں درود شریف کی کثرت بھی بہت مؤثر ہے ، اس لیے درود شریف کا خصوصی اہتمام کیا جائے ۔
(۶) آفات وبلیات کو ٹالنے میں صدقہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے ، موجودہ حالات میں ہر مسلمان صدقہ کا خاص اہتمام کرے۔
(۷) نبیٔ کریم ﷺ پر جب کوئی آفت یا مصیبت آتی تو آپﷺ نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے، ان حالات میں نمازوں کا خوب اہتمام کیا جائے۔
(۸) عذاب کو ٹالنے اور اسے روکنے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بڑا مؤثر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس علاقہ سے عذاب کو ٹالتے ہیں ، جہاںامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ہوتا ہے ، علامہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ جب ۴۴۸؁ھ میں سلطنت روم سے ایک بیماری شروع ہوئی ،لوگ اچانک مرنے لگے ، اس کے اثرات عراق ، شام اور حجاز تک پہونچ گئے تو اس وقت کے خلیفہ نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ عام مسلمانوں کو درج ذیل باتو ںکا حکم دیا:
(ا) ہرمحلہ اور علاقہ میںامربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی تجدید کی جائے۔
(ب) آلات لہو ولعب پر پابندی لگادی جائے۔
(ج)شراب خانوں کو بند کردیا جائے۔
(د) ملک میں فساد کرنے والوں کو ملک بدر کردیا جائے۔
(ہ)ذمی حضرات کو لباس کی درستگی کا حکم دیا جائے۔ (البدایہ والنہایہ۱۲؍۱۲۷)
(۹)مصائب وآفات اور بلیات وامراض میں سب سے زیادہ مؤثر چیز اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کا اہتمام ہے، حضرات انبیاء کرام کا اسوہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ، حضرت یونس ؑ سمند ر میں ڈال دئیے گئے تو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالی سے دعا فرمائی اور اللہ نے ان کو اس مشکل سے نجات عطافرمائی، ان حالات میں فرض نمازوں کے بعد الحاح وزاری کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے، نیز دعائے نیم شبی بڑی مؤثر ہے ، نماز تہجد کا اہتمام کیا جائے ، اس کے علاوہ تمام آفات وبلیات اور بیماریوں سے حفاظت کے لیے نبیٔ رحمتﷺ مختلف دعاؤں کا اہتمام فرماتے تھے، انہیں صبح وشام خود بھی پڑھیں اور گھر کی خواتین کو بھی اس کا اہتمام کروائیں، ایسی چند دعائیں درج ذیل ہیں:
(۱) بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شئی فی الأرض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم۔(سنن أبوداؤد: حدیث نمبر:۵۰۸۸)
(۲)أعوذ بکلمات اللہ التامات کلھا من شر ما خلق۔(صحیح مسلم: حدیث نمبر:۶۸۸۰)
(۳)أللھم عافنی فی بدنی، أللھم عافی فی سمعی، أللھم عافنی فی بصری، لا الہ الا أنت۔(سنن أبوداؤد: حدیث نمبر:۵۰۹۰)
(۴) أللھم انی أعوذبک من البرص والجنون والجذام ومن سئی الأسقام ۔ (سنن أبوداؤد: حدیث نمبر:۱۵۵۴)
(۵) أعوذ بکلمات التامۃ من کل شیطان وھامۃ، ومن کل عین لآمۃ۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۳۷۱)
(۶) أذھب البأس رب الناس واشف أنت الشافی لا شفاء الا شفاء ک لا یغادر سقما۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر:۵۷۰۷)
(۷) أسئل اللہ االعظیم رب العرش العظیم أن یشفینی۔ (سنن أبوداؤد: حدیث نمبر:۳۱۰۶)
(۱۰) قرآن مجید کی تلاوت بھی وباؤں میں بہت مفید ہے ، اس لیے کہ اللہ کا کلام ہر بیماری کے لیے شفاء ہے ، وباؤں کے لیے حضرت تھانویؒ نے ایک قرآنی وظیفہ کو نہایت مؤثر بتلایا ہے ، جس کی تفصیل یوں ہے :اول آخر درود شریف کے ساتھ سورۂ فاتحہ تین مرتبہ ، سورۂ اخلاص تین مرتبہ، آیات شفاء ایک مرتبہ ، سورہ قدر ایک مرتبہ اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل تین سوتیرہ(۳۱۳) مرتبہ پڑھ کر پینے کے پانی میں دم کرلیں اور روزآنہ گھر کے سب لوگ اسی پانی کو پئیں ۔ علامہ محمد ابن سیرین ؒنے آیات منجیات کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر صبح شام ان کا اہتما کیا جائے تو ہر قسم کی مصیبت آفت دور ہوجائے گی اوروہ آیات یہ ہیں:
(۱) قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا ھو مولانا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔
(۲) وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھووان یردک بخیر فلا راد لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم ۔
(۳) وما من دابۃ فی الأرض الا علی اللہ رزقھا ویعلم مستقرھا ومستودعھاکل فی کتاب مبین۔
(۴) انی توکلت علی اللہ ربی وربکم ما من دابۃ الا ھو أخد بناصیتھاان ربی علی صراط مستقیم۔
(۵) مایفتح اللہ للناس من رحمۃ فلا ممسک لھاوما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ وھو العزیز الحکیم۔
(۶) وکأین من دابۃ لا تحمل رزقھا اللہ یرزقھا وایاکم وھو السمیع العلیم۔
(۷) ولئن سألتھم من خلق السموات والأرض لیقولن اللہ قل أفریتم ما تدعون من دون اللہ ان أرادنی اللہ بضر ھل ھن کاشفات ضرہ اور أرادنی برحمۃ ھل ھن ممسکات رحمتہ قل حسبی اللہ علیہ یتوکل المتوکلون۔
(۱۱) ذکر وتسبیح او راللہ کی پاکی بیان کر نا وبائی امراض میں بے حد مفید ہے ، امام شافعیؒ کا قول ہے : لم أر أنفع للوباء من التسبیح۔ میں نے وبا کے لیے تسبیح یعنی سبحان اللہ سے زیادہ مؤثر کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (حلیۃ الأولیا ء :۹؍۱۳۶)
موجودہ حالات میں تیسرا اہم ترین کام امداد باہمی خدمت خلق ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حاجت روائی ہے ، اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے سیکڑوں نہیں ؛ بلکہ ہزاروں ایسے افراد ہیں جو اپنی روز مرہ کی آمدنی سے محروم ہوچکے ہیں، ان کے یہاں غلہ راشن کی کمی ہے ،کرفیو کی صورت حال کی وجہ سے یومیہ مزدوری کر کے جینے والے افراد پریشان ہیں، ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ محلہ واری سطح پر صاحب حیثیت مسلمان ایسے محتاجوں اور ضرورت مندوں تک غلہ اناج پہونچائیں، یہ عمل رحمت الہی کو کھینچنے والا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے تمہیں روزی دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے ، دوسری حدیث میں آیا ہے : اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی مسلمان کو خوش کرنایا اس کی تکلیف اور بھوک کو دور کرنا اور اس کے قرض کو ادا کرنا یا کسی کی حاجت روائی کے لیے اس کے ساتھ چل کرجانا ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ میں کسی ایمانی بھائی کی مدد کے لیے چل کر جاؤں ، مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنی مسجد میں اعتکاف کروں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×