سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

چار اہم سوال؟

گذشتہ دنوں احقر جنوبی ہند کی ایک مؤقر جامعہ سے شائع ہونے والے مجلہ کے خصوصی شمارے پر طائرانہ نظر ڈال رہا تھا کہ ایک مختصر سے ڈبے میں دئے گئے مذکورہ بالا عنوان ’’چاراہم سوال‘‘ پر نگاہ ٹھہری، عنوان کے تحت دیا گیا اقتباس کچھ یوں تھا’’ ۱۹۹۵ء؁کی بات ہے قاہرہ میں ایک مجلس میں فیصل ایوارڈ یافتہ حضرات کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا ان میں بوسینا کے صدر علی عزت بیگوچ بھی تھے انہوں نے اپنے مقالے کے اخیر میں کہا کہ میرے ذہن میں چار سوال ہیں میں چاہتا ہوں کہ جو ان کا تسلی بخش جواب دے اسے خدمتِ اسلام کا فیصل ایوارڈ ملے۔
(۱) پہلا سوال یہ کہ امت مسلمہ جسے اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں ’’اقرأ‘‘ (پڑھ) کا درس دیا ہے اس وحی کو نازل ہوئے آج تقریبا چودہ سو سال ہورہے ہیں اس کے باوجود اس امت کی اکثریت ناخواندگی کا شکار کیوں ہے؟؟
(۲) دوسرا سوال یہ کہ اسلام میں وقت کی پابندی پر زور دیا گیا ہے، مثلا: نماز کا وقت مقرر ہے روزے کا مہینہ مقرر ہے، زکوٰۃ کا وقت مقرر ہے، حج کی تاریخ مقرر ہے، لیکن دنیا میں سب سے زیادہ وقت کا ضیاع مسلمان کرتے ہیں کیوں؟ وقت کی پابندی کے تئیں ان کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ چند سال پہلے ’’رباط‘‘ میں تنظیم اسلامی (OIC ) کی ایک چوٹی کانفرنس ہوئی جس میں مسلم ممالک کے بادشاہ صدور وغیرہ شریک تھے، یہ کانفرنس ۹ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔
(۳) تیسرا سوال یہ کہ اسلام نے طہارت ونظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اس کی ہر عبادت طہارت اور صفائی ستھرائی سے وابستہ ہے، مگر کیا بات ہے کہ مجموعی طور پر مسلمان صفائی ستھرائی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں؟؟
(۴) آخری سوال یہ کہ اسلام میں توحید کے بعد اتحاد کو بڑی اہمیت حاصل ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ سب سے زیادہ اختلاف وانتشار کا شکار ہے؟؟(راہ اعتدال ستمبر ۲۰۰۷)
علی عزت بیگوچ ایک صاحب بصیرت دانشور ایک عظیم مسلم قائد گذرے ہیں، عالمی حالات سے گہری واقفیت کے ساتھ قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے انہیں ان کی اسلامی خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، بوسینا کے سابق صدر علی عزت بیگوچ نے جن چار سوالوں کو اٹھایا ہے وہ فی الواقع اہمیت کے حامل ہیں،انہوں نے اپنے ان سوالات میں مسلمانوں کے تعلق سے جن چار مسائل کا تذکرہ کیا ہے ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا،تعلیمی پسماندگی ہی کو لیجئے آج ہرجگہ مسلمانوں کی پہچان بن گئی ہے، غیر مسلم معاشروں میں مسلمان ایک ناخواندہ ان پڑھ قوم کی حیثیت سے متعارف ہیں، جب کہ مسلمانوں کو سب سے پہلا جو سبق دیا گیا وہ پڑھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے، مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی واحد مذہب ہے جو پڑھنے اور حصول علم کو عبادت کا درجہ دیتا ہے، قرآن وحدیث میں اگر چہ علم کا حقیقی مصداق معرفتِ الٰہی تک پہونچانے والا علم ہے لیکن علم نافع اور تسخیر کائنات والے علم کے تعلق سے بھی بار بار ترغیب دی گئی ہے، سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء عطا فرمایا پھر انہیں خلافتِ ارضی کا اہل قرار دیا گیا، نیز علم کے ذریعہ فرشتوں پر فوقیت عطا کر کے انہیں مسجود ملائکہ بنایا گیا،پہلی وحی میں قراء ت، علم، تعلیم اور قلم جیسے الفاظ کو لا کر علم کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا، غزوہ بدر کے موقع پر کافر قیدیوں کی رہائی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ ان میں جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، پیغمبر اسلامﷺ نے جس امت کو علم واخلاق کی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا آج وہ امت تعلیم سے کوسوں دور ہے ملکی سطح پر مسلمان تعلیم میں پسماندہ ہیں اور عالمی سطح پر بھی، ابھی گذشتہ دنوں سول سروسیز امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا، ملک بھر میں جملہ ۱۱۲۲ کامیاب امید واروں میں صرف ۳۴ مسلمان کامیاب ہوسکے، ٹاپ ۱۰۰ ہیں صرف ۴ مسلمانوں نے جگہ پائی، پچھلے ۵ سالوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو مسلم امید واروں کی کامیابی کا فیصد دو سے چار کے درمیان میں رہا،یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ان امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدوار ہی ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، عملا ملک کا نظام وہی چلاتے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف ۳۰ فیصد مسلم بچے ہی اسکولی تعلیم سے وابستہ ہیں،بقیہ ۷۰ فیصد کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسکول کس چڑیا کا نام ہے، پھر جو بچے اسکول جاتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد درمیان میں ترک تعلیم کردیتی ہے، گذشتہ دنوں دہلی کے مرکز برائے مطالعہ امن (CPS) نے ایک رپورٹ منظر عام پر لائی، اس سروے میں ملک کی ۱۵ ریاستوں کا احاطہ کیا گیا اور ۸ ہزار سے زیادہ لوگوں سے سوالات کئے گئے، رپورٹ میں ۲۵۰۰ مسلم بچوں کا جائزہ لیا گیا جنہیں کبھی اسکول جانا نصیب نہیںہوا اس پر طرہ یہ کہ ۱۷۰۰ بچے ایسے ہیں جنہیں اسکول میں داخل کروایا گیا تھا لیکن پہلے ہی سال اسکول سے نکل گئے، رپورٹ کے مطابق بہار میں جن بچوں کو اسکول میں شریک کروایا جاتا ہے ان میں سے صرف چار فیصد بچے ہی یونیفارم کے متحمل ہوسکتے ہیں، ۷ فیصد بچے ہی کتابیں خرید سکتے ہیں، ۵۶ فیصد بچوں کو کھانا میسر آتا ہے، گجرات میں حالت مزید ا بتر ہے جہاں ۳ مسلم بچوں میں سے صرف ایک کے پاس اسکول یونیفارم ہوتا ہے اور ایک تہائی بچوں کو دوپہر کا کھانا نہیں ملتا، گورنمنٹ اردو پرائمری اسکولوں کی حالت زار تو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، شہربنگلور میں تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے عہدیدارنے اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ کو لکھتا ہے: ’’ ایک صبح کو نو بجے میں اپنے دفتر کے لئے محلے کے ایک گورنمنٹ اردو پرائمری اسکول کے پاس سے گذر رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ بچے خوش کے مارے ناچتے تالیاں بجاتے چیخ وپکار کرتے ہوئے اسکول سے نکل رہے ہیں اس منظر کو دیکھ کر میں ٹھٹک گیا، وجہ پوچھی تو بچوں نے کہا آج ہمارے حضرت کے رشتہ دار کی شادی ہے اس لئے اسکول کی چھٹی ہے۔ وہ اپنا ایک اور مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں’’دوپہر کے کوئی ڈھائی بجے ہماری ٹیم شہر کے ایک اور اسکول پہونچی وہاں دیکھا کہ بچوں کے شورو غل کی وجہ سے کان میں آواز سنائی نہیں دے رہی ہے،آگے بڑھنے پر لگا کہ جیسے بند کمرے کے اندر بچے آپس میں مار پیٹ کررہے ہیں، جو نہی کسی نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اس شور وغل میں استانی صاحبہ بینچ پر خراٹے مارتے ہوئے سورہی تھیں اور بچے تاش کھیلنے میں مصروف ایک دوسرے پر جھپٹے پڑ رہے تھے، ہم پرنظر پڑتے ہی لائق شاگردوں نے استانی صاحبہ کو جگایا تو محترمہ بڑبڑا کر اٹھیں، نیند میں ڈوبی آنکھوں کو مسلسل مسلتے مسلتے ایک عجیب سی کیفیت میں بولیں، در اصل سرمیں درد ہونے کی وجہ سے تھوڑا سا لیٹ گئی تھی، تعلیم کے تعلق سے بڑھتی بے اعتنائی امت مسلمہ کے لئے فالِ نیک نہیں، اس کے لئے ملت کے با شعور طبقہ کو پوری قوت کے ساتھ تعلیمی بیداری کی مہم چلانی ہوگی۔
یہ تو ملکی سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا جائزہ تھا عالمی سطح پر بھی مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں، ابھی گذشتہ دنوں دنیا کی ۱۰۰ شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی کی رپورٹ منظر عام پر آئی اس سال کی گئی درجہ بندی میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ۸ امریکی یونیورسٹیوں نے ٹاپ ۱۰ میں جگہ حاصل کی، ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سو شہرت یافتہ جامعات میں سرِ فہرست ہے ان سو یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے، بیشتر سے مسلم ممالک میں تعلیمی شرح کے قابل اطمینان نہیں ہے اس کے بر خلاف ہمارے دشمن یہودی تعلیم اور سائنس وٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہیں، ۱۰۵ سالوں میں یہودیوں نے ۱۸۰ نوبل انعام حاصل کیا ہے جب کہ مسلمان صرف ۳ انعام حاصل کرسکے حالانکہ آبادی کے لحاظ سے ایک یہودی سو مسلمانوں کے مقابل ہے، کچھ عرصہ قبل امریکی یہودیوں نے ایک ملین ڈالر چندہ اکٹھا کر کے اپنے روحانی پیشوا کے پاس اسرائیل بھیجا، جنہیں چیف ربی کہا جاتا ہے اور کہا گیا کہ اس رقم سے ایک عالی شان عبادت گھر تعمیر کیا جائے، چیف ربی نے کہا ہم کون ہوتے ہیں اس حقیر رقم سے اس عظیم پروردگاکے لئے محل تعمیر کرنے والے، اس کی عبادت تو کہیں بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اسے پہنچاننے کے لئے علم کی ضرورت ہے اس لئے اس رقم سے پہلے ایک تعلیمی اکیڈمی قائم کرو تاکہ کوئی بھی یہودی بے علم نہ رہ سکے۔
دوسرے سوال میں اٹھایا گیا مسئلہ بھی اس وقت مسلمانوں کاطرہ امتیاز بن گیا ہے جبکہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے جن سنہرے ادوار میں جو کچھ کامیابی حاصل کی تھی وہ وقت کی قدر دانی ہی سے حاصل کی تھی، عہد عباسی میں مسلمانوں نے جو سائنسی ترقی کی تھی وہ و قت کے صحیح استعمال کا نتیجہ تھا، پھر بعد کے زمانوں نے قوم مسلم کا زوال وقت کی ناقدری ہی کے سبب ہوا، موجودہ دور میں مسلم نوجوان وقت کا کس بے دردی کے ساتھ قتل کرتے ہیں اس کا اندازہ کرنا ہو تو مسلم محلوں کا دورہ کیجئے، ہر جگہ چبوتروں پر مسلم مسلم نوجوانوں کی بھیڑ نظر آئے گی جو گپ شب میں گھنٹوں ضائع کرتے ہیں، شادی خانوں اور دعوتی پروگراموں میں کھانے کے انتظار میں گھنٹوں گذر جاتے ہیں، رقعوںمیں بعد نماز عشاء تحریر ہوتا ہے جبکہ دولہا پہونچنے تک بسااوقات گیارہ بارہ بج جاتے ہیں، ہمارے مذہبی جلسوں کا حال بھی کچھ کم ابتر نہیں، اکثر جلسے وقت پر شروع نہیں ہوتے، جلسوں کے منتظمین وقت پر شروع کرنا بھی چاہیں توسامعین کی تاخیر سے حاضری رکاوٹ بنتی ہے، یہ اس قوم کا حال ہے جس کے مذہب میں سب سے زیادہ وقت کی قدر دانی پر زور دیا گیا ہے، قرآن مجید میں زمانہ کی قسم کھاکر وقت کی اہمیت کو ا جاگر کیا گیا، اس سے ہٹ کر کہیں فجر کے وقت کی قسم کھائی گئی تو کہیں چاشت کے وقت کی کہیں رات ودن کی قسم کھائی گئی، قیامت کے دن ہر انسان سے جو پانچ سوال کئے جائیں گے ان میں سب سے پہلا سوال عمر کے بارے میں ہوگا کہ اسے کس کاموں میں صرف کیا، نبی رحمتﷺ نے وقت کی قد دانی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، موت سے پہلے زندگی کو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ، فقر سے پہلے بے نیازی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، اور مشغولیت سے پہلے فراغت کو نیز آپ نے فرمایا، اللہ کی نعمتوں میں سے د و نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ دھوکہ میں رہتے ہیں،ا یک صحت اور دوسرے فراغت، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا ارشاد ہے جس نے ا پنی عمر کا کوئی دن اس کا حق ادا کئے بغیر گذارا یا کوئی فرض ادا نہیں کیا یا عزت کا کوئی کام نہیں کیا یا قابل تعریف کوئی عمل نہیں کیا یا کسی چیز کی بنیاد نہیں ڈالا یا کوئی علم حاصل نہیں کیا تو اس نے اس دن کا حق ادا نہیں کیا اور اپنے اوپر ظلم کیا، علامہ ابن قیم کا قول ہے کہ وقت کا ضیاع موت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ وقت کا ضیاع تم کو اللہ اور اخروی زندگی سے دور کرتا ہے اور موت تم کو دنیااور دنیا و الوں سے دو کرتی ہے، بقول علامہ یوسف القرضاوی کے جو اپنا وقت برباد کرتا ہے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے یہ سلوپوائزن خود کشی ہے جس کا ارتکاب وہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے لیکن اس کو کوئی سزا نہیں دیتا، جو لوگ وقت کی ناقدری کرتے ہیں وہ در اصل اپنے اونچے نصب العین سے غافل ہیں، امت مسلمہ کے ہر فرد کو اللہ نے جس مقصد کے لئے بر پا کیاہے، اس کا ادراک ہوجائے تو اسے موجودہ زندگی بہت ناکافی معلوم ہونے لگے، ہماری ذمہ داریاں ہمیں حاصل زندگی سے زیادہ ہیں، مختصر زندگی میں ہمیںاپنی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے، تاریخ اسلام کے سارے مصلحین اور عبقری شخصیتوں نے ایک لمحہ کے ضیاع کو گوارا نہیں کیا، اس کے لئے عوام میں بیداری شعور کی مہم چلائی جائے ہم اپنی تقریبات اور پروگراموں میں وقت کی پابندی کا ضروری خیال کریں، ہم اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے وقت کی قدر دارنی کی تعلیم دیں، ہرکام کے لئے ایک وقت مقرر کریں اور اسی وقت میں اسے انجام دیں، صبح بیدار ہونے سے لیکر رات سونے تک ہمارے اوقات منضبط ہونے چاہئے، آج کے کام کو کل پر ٹالنا چھوڑ دیں، ملازمت کے اوقات کا بھر پور خیال رکھیں، رات عشاء کے بعد کوئی خاص دینی یا دنیوی مصروفیت نہ ہو تو جلد سونے کا اہتمام کریں، گھروں سے ٹی وی کلچر کا خاتمہ کریں، ٹی وی ہماری بربادی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے، رات ۱۲ ایک بجے تک ٹی وی بینی میں ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، رات کے وقت کا ضیاع ہمیں صبح بیداری میں رکاوٹ بنتا ہے، جس کی وجہ سے فجر کی نماز ضائع ہوجاتی ہے، ہم اپنی آفسوں اور ملازمت گاہوں میں وقت کی پابندی کو شعار بنائیں،اوقات کی قدردانی کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی رفاہی خدمات اور سوشیل و رک میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے تاکہ اس کا کوئی وقت فارغ نہ رہے۔
تیسرا سوال نظافت اور صفائی سے متعلق ہے، یہ بات فی الواقع حیرت انگیز ہے کہ سب سے زیادہ نظافت پر زود دینے والا مذہب اسلام ہے، اور نظافت سے سب سے دور قوم، قوم مسلم ہے، ایک نمازہی کو لیجئے اس کی درستگی کے لئے بدن کا پاک ہونا ضروری ہے، کپڑوں کا پاک ہونا ضروری ہے، پھر جس جگہ نماز ادا کی جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے، وضو کے بغیر نماز ممکن نہیں، ایک مسلمان کو دن میں پانچ مرتبہ اعضائے وضو کودھونا پڑتا ہے، اتنا ہی نہیں راستہ کو صاف رکھنا ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ،ارشاد نبوی ہے: ایمان کے ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، اعلیٰ شاخ لا الہ الا اللہ کا اقرار اور ادنی شاخ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا،(الجامع الصغیر: ۲۸۰۰) قرآن میں کپڑوں کی صفائی سے متعلق فرمایا گیا: وثیابک فطہر اور اپنے کڑوں کو صاف ستھرا رکھو اتنا ہی نہیں گھروں کے صحنوں سے متعلق حکم دیا گیا کہ انہیں صاف رکھا جائے، الطہور شطرالایمانکہہ کر طہارت کو نصف ایمان قرار دیا گیا، نبیﷺ کے زمانہ میں کسی نے مسجد کی دیوار پر تھوک دیا تھا نبی کریمﷺ کو بے حد ناگوار گذرا، آپ نے اپنے دستِ مبارک سے اس گندگی کو صاف کیا اور اس کہ جگہ خوشبو لگادی،(سنن ابو داؤد: ۴۷۹) اسلام میں نظافت کی اس قدر ا ہمیت کے باوجود ہم اس تعلق سے انتہائی کوتاہ واقع ہوئے ہیں، شہروں میں مسلم بستیوں اور محلوں میں جائیے صاف محسوس ہوگا کہ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کا انبار لگارہے گا، گھروں میں صفائی نام کی چیز نہ ہوگی، عید الاضحی کے موقع پر سڑکوں اور گلیوں کو جانوروں کی غلاظت سے ایسے آلودہ کیا جاتا ہے کہ ہفتوں تک اس کے اثرات سے چھٹکارا ممکن نہیں، گندگی اور نظافت سے دوری ہماری پہچان بن گئی ہے، ایک عالم دین نے لکھا ہے کہ چند احباب ایک دینی ادارے کی زیارت کے ارادے سے ایک شہر گئے انہیں اس ادارے کا پتہ معلوم نہیں تھا، پتہ کی تلاش میں وہ جس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے وہ صاف ستھری تھی کسی سے انہوں نے پوچھا تو جواب ملا: آپ دائیں جائیے اور سیدھ میں چلے جائیے، جہاں سے گندگیاں نظر آئیں سمجھئے کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوا، اس سے گذرتے جائیے جس جگہ گندگیوں اور کوڑا کرکٹ کا انبار نظر آئے رک جائیے وہیں آپ کو اس ادارے کا سائن بورڈ نظر آئے گا، احباب نے ویسا ہی پایا، اس صورتِ حال کی اصلاح کے لئے ہمیں عام مسلمانوں میں نظافت کے تعلق سے باقاعدہ بیداری مہم چلانی ہوگی۔
چوتھا اور آخری سوال مسلمانوں کے آپسی انتشار سے متعلق ہے، ہماری ہر عبادت ہمیں اجتماعیت کا درس دیتی ہے، ہمارا دین ہمیں قدم قدم پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رہنے کی تلقین کرتا ہے، نزاع اور تفرقہ سے بچنے کی تاکید قرآن میں بار بار آئی ہے، ہمارا انتشار پوری دنیا میں ضرب المثل بن چکا ہے، موجودہ حالات ہی کاجائزہ لیجئے مسلمانوں کے انتشار کا اندازہ ہوجائے گا، مسلم ممالک اپنے انتشار کے سبب اس وقت تباہی کے دہانے پر پہونچ چکے ہیں، غزہ پر اسرائیل ایک ماہ بمباری کرتارہا ، اس کے اطراف دسیوں عرب ممالک ہیں کسی میں جرأت نہیں کہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں، مدد تو دو کنار بعض مسلم ممالک حماس کا صفایا کرنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ ساز باز کررہے ہیں، مکہ مدینہ کی دہائی دینے والوں کے گھناؤ نے کردار کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، خود کو اسرائیل کی سب سے بڑی دشمن کہنے والی حزب اللہ جس نے شام میں ہزاروں نہتے سینوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کیا،آج جب حماس اسے اسرائیل کے خلاف مدد کی دعوت دیتا ہے تو اس پر خاموشی طاری ہے، عراق میں آپسی انتشار اسے ملبہ میں تبدیل کررہا ہے، ہر روز سیکڑوں مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھ ہلاک ہورہے ہیں، پڑوسی ملک میںخود اپنے ہی انتشار برپا کر کے حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔

Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×