سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

بابری مسجد فیصلے کے بعد ……

بالآخر ۹؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ملک کی تاریخ کے سب سے طویل تنازعہ کا فیصلہ آہی گیا۔ ۹؍نومبر ۲۰۱۹ء کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ۱۵۲۸ء میں تعمیر کردہ بابری مسجد پر قبضہ کے لئے جس سیاسی جدوجہد کا آغاز ۱۹۴۹ء میں ہوا تھا، وہ سیاسی مہم ۹؍نومبر ۲۰۱۹ء کو اس وقت اختتام کو پہنچی جب سپریم کورٹ نے متنازعہ اراضی کو رام جنم بھومی نیاس کو سونپنے اور سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لئے اجودھیا ہی میں مناسب مقام پر پانچ ایکڑ اراضی دینے کا فیصلہ سنادیا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازعہ اراضی شری رام جنم بھونی نیاس کو دی جائے گی اور سنی وقف بورڈ کو اجودھیا میں ہی پانچ ایکڑ اراضی دستیاب کرائی جائے گی۔
بابری مسجد ،رام جنم بھومی تنازعہ کا آغاز ۱۹۴۹ء میں اس وقت ہوا جب راتوں رات خفیہ طورپر مسجد میں رام کی مورتیاں رکھ دی گئیں اور یہ خبر پھیلادی گئی کہ مسجد کے اندر سے رام کی مورتی برآمد ہوئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد مسجد پر تالا لگادیا گیا۔ ۱۹۵۹ء میں نرموہی اکھاڑے کی جانب سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی گئی۔ بعد ازاں ۱۹۶۱ء میں یوپی سنی سنٹرل بورڈ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔ ۱۹۸۶ء کو متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندوں کے لئے کھول دیاگیا اور شیلانیاس کی اجازت دی گئی۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل پائی۔ اس قضیہ میں اس وقت گرمی پیدا ہوئی جب ۱۹۹۰ء میں بی جے پی لیڈر ایل کے ایڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔ اڈوانی کی رتھ یاترا مہم کے نتیجہ میں ۱۹۹۱ء میں یو پی میں بی جے پی برسر اقتدار آئی۔ اسی سال مندر کی تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔ بالآخر ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو ایودھیا پہنچ کر کارسیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کرڈالا۔ جس کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔جس میں مسلمانوں کا غیر معمولی جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس وقت جلد بازی میں ایک عارضی مندربھی تعمیر ہوا۔ ۱۹۹۲ء سے نومبر ۲۰۱۹ء تک مختلف مقدمات اور مراحل سے گزرتے ہوئے آخر کار ۹؍نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہوا۔
جہاں تک حالیہ عدالتی فیصلہ کا تعلق ہے تو ہر صاحبِ شعور جانتا ہے کہ یہ فیصلہ کم اور حکم نامہ زیادہ ہے ۔ فیصلہ میں شواہد و دلائل اور حقائق کو بنیاد بنانے کے بجائے عقیدے اورآستھا کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہ دلائل و حقائق کی بنیاد پر انصاف کے تقاضوں کی تکمیل سے زیادہ مصالحتی فارمولا ہے۔ ملک کے مختلف دانشوروں نے فیصلہ میں پائے جانے والی خامیوں اور تضادات کی نشاندہی کی ہے۔ فیصلے کے بعض پہلو انتہائی چونکا دینے والے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کے دعویٰ کو سرے سے بے بنیاد قرار دیا جبکہ رام مندر کی پوری تحریک ہی اس دعوے پر چلائی گئی تھی کہ بابری مسجد رام مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ پھر عدالت عظمیٰ اپنے فیصلہ میں یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ مسجد کو غیر قانونی طورپر توڑا گیا تھا۔ نیز اس میں مورتیاں بھی غیر قانونی طورپر رکھی گئی تھیں۔ ملک کے ایک معروف صحافی نے حالیہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا لکھا کہ ’’سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ جس اراضی پر ۴۶۳ سال تک مسجد کھڑی رہی اور نماز ہوتی رہی اس پر حق اس فریق کا ہے جو گمان کرتا رہا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں لاکھوں سال قبل شری رام کا جنم ہوا تھا۔ کہا یہ گیا کہ مسلم فریق مسجد کے قیام سے ۱۸۵۹ء تک لگاتار نماز اور بلاشرکت غیرے اختیار کا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ جبکہ ہندو مسلسل اس جگہ کو عقیدت کی نگا ہ سے دیکھتا رہا۔ صحافی مذکور آگے لکھتے ہیں ’’مسجد کا وجود ایک حقیقت تھا ۔ فریق مخالف کا دعویٰ موہوم عقیدہ کی بنیاد پر تھا۔ عدالت نے مسجد کے وجود کو تسلیم کیا ۔ چوری چھپے مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کو مسمار کئے جانے کو غیر قانونی قرار دیا۔ مورتیاں رکھے جانے تک اس میں نماز کو بھی تسلیم کیا، لیکن ان حقائق پر عقیدہ بھاری پڑا۔ ملکی سیاست میں اکثریت گردی کا بول بالا تھا۔ اب عدالت کا حکم نامہ بھی اس بنیاد پر آگیا ۔ اکثریت کا عقیدہ حق ملکیت کا جواز بنا۔عدل کا مطلب دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر نا ہوتا ہے کہ سچ آئینہ ہوجائے اس کیس میں جو حکمنامہ صادر ہوا ہے اس میں دودھ کا نام پانی اور پانی کا نام دودھ ہو گیا ہے۔
عدالتی فیصلے پر مزید کچھ کہنے کے بجائے بعض ان شخصیتوں کے تاثرات کا نقل کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے جو سابق میں چیف جسٹس کے باوقار عہدیپر فائز رہ چکی ہیں۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے حالیہ عدالتی فیصلے کی تعبیر اس طرح کی ہے ’’جیسے چند دبنگ لڑکوں نے شریف بچے کے ہاتھ سے سینڈوج چھین لیا۔ بچہ رونے لگا تو ماسٹر نے اس میں سے تھوڑا سا ایک کنارہ توڑ کر اسے دے دیا ۔ مارکنڈے کاٹجو نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آخر کسی بھی جج نے اس فیصلے سے اختلاف کی جرأت کیوں نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پورا فیصلہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس بن گیا ہے۔ ہم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں برس پہلے پیدا ہونے والا شخص ایک خاص مقام پر پیدا ہوا ہو۔ مقام پیدائش پر ضد کرنے والے برسوں رام چبوترے کو رام کی جائے پیدائش کہتے رہے۔ پھر پوری مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے درمیانی گنبد کے بیچ کے حصے پر اڑ گئے جبکہ بات لاکھوں برس پہلے کی ہے۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مطابق اس فیصلہ نے جارحیت کو قانونی تقدس عطا کرنے کی ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور سابق جج اشوک کمار اگانگولی کا حالیہ فیصلے پر تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’گزشتہ سنیچر کو ایودھیا تنازعہ پر جو فیصلہ ہوا ہے، اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے میں بے حد پریشان ہوں۔ اقلیتوں نے نسلاً بعدنسلٍ دیکھا ہے کہ وہاں مسجد تھی جو منہدم کردی گئی۔ اب فیصلہ کے مطابق وہاں مندر بنادی جائے گی۔ اس سے میرے دماغ میں شک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ دستور کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس فیصلہ کو تسلیم کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ سنیچر کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ عبادت کرنے والوں کو یقین ہے کہ وہاں مسجد تھی۔ اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ ۵۷۔۱۸۵۶ء کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہاں مسجد نہیں تھی، لیکن ۱۹۴۹ء تو کہا جاسکتا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی، جس کا ثبوت ہے۔ جب ہمارے دستور کا نفاذ ہوا تو اس وقت وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ایک جگہ جہاں نماز پڑھی جاتی ہے وہ مسجد کی حیثیت سے جانی جاتی ہے تو اقلیتی فرقہ کو اپنے مذہب کی آزادی کی مدافعت کا حق ہے ۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔ آج مسلمان کیا دیکھتے ہیں؟ وہاں ایک مسجد تھی جو بہت سالوں سے منہدم کردی گئی۔ اب عدالت اس جگہ مندر بنانے کی اجازت دے رہی ہے، اس کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس جگہ کا تعلق رام للا سے ہے۔ کیا سپریم کورٹ صدیوں پہلے کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے ؟ کیا سپریم کورٹ یہ بھول جائے گا کہ اس مقام پر دستور ہند کے نفاذ سے بہت پہلے سے مسجد عرصہ دراز سے قائم تھی؟ (روز نامہ سالار ۔ بنگلور ۱۱؍نومبر ۲۰۱۹ء)
فیصلہ بہر حال آچکا ، مسلم قیادت اس کے مضمرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈنے دوبارہ عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ بورڈ کے اس اقدام کی کچھ زیادہ افادیت محسوس نہیں ہوتی، لیکن عرضی نہ داخل کرنے کی صورت میں ملک کی دیگر عوام کو یہ پیغام جاسکتا تھا کہ شاید فیصلہ برحق تھا تب ہی تو مسلمانوں نے اس کے خلاف عرضی داخل نہیں کی۔ عرضی داخل کرنیکا ایک فائدہ تو ضرور ہوگا کہ ساری دنیا پر فیصلہ میں موجود تضاد اور اس کی خامیاں واضح ہوجائیں گی۔لیکن اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ مابعد فیصلہ ملت اسلامیہ کو کن باتوں پر توجہ دینا چاہئے۔ نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ قوموں کی زندگی میں کوئی نئی بات نہیں جب کوئی بڑا حادثہ یا شکست و افسردگی کا کوئی عظیم سانحہ پیش آئے تو ایک زندہ اور عظیم نصب العین کی حامل قوم کی حیثیت سے ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے اور مابعد حادثہ ہمیں کن پہلوؤںپر زیادہ توجہ دینی چاہئے ۔ اس سلسلہ میں چند نکات ذیل کی سطور میں پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) حالیہ عدالتی فیصلہ کا سب سے تباہ کن اثر مسلمانوں کے احساسات و جذبات پر پڑا ہے۔ اس فیصلہ نے پوری ملت اسلامیہ کو شدید مایوسی میں مبتلا کردیا ہے حتی کہ بہت سے مسلمان کفر کی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور اپنے مذہبی تشخص سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھ نے لگے ہیں۔ اس صورت حال کے تدارک کے لئے علماء امت اور دانشوران ملت کو چاہئے کہ وہ عام مسلمانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کی فکر کریں۔ خدا کی عظیم قدرت پر یقین رکھنے والی قوم کبھی مایوس نہیں ہوسکتی۔ عہد رسالت میں بھی انتہائی کٹھن حالات آئے۔ لیکن نبی رحمت ﷺ نے حوصلہ کا دامن نہیں چھوڑا اور مایوسی کو صحابہ کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا۔ واقعۂ ہجرت ہی کی مثال ہے۔ چھپ چھپاکے آپ مکہ سے نکلے۔ آپ ﷺ کے سر پر سو اونٹوں کا انعام رکھا گیا تھا۔ جس کی لالچ میں لوگ آپ ﷺ کے تعاقب کے لئے پھیل چکے تھے۔ خوف کے عالم میں تین دن غار ثور میں پناہ لیا۔ جب سفر طئے ہونے لگا تو سراقہ بن مالک آپ ﷺ کے قافلے کے قریب پہنچ گئے ،دشمن کی رسائی ہورہی ہے ۔ جان کے لالے پڑے ہیں۔ سراقہ کے گھوڑے کے پیر زمین میں دھنس گئے۔ انہوں نے معافی کی درخواست کی تو آپ نے ایسے نازک موقع پر ان سے فرمایا! سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ غور کیجئے ، کیسی مایوس کن صورت حال ہے۔ جان پر خطرہ منڈلا رہا ہے مگر آپ اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے پر امید ہیں، کسریٰ کی فتح کی پیش گوئی فرمارہے ہیں۔ اسی طرح غزوہ احزاب کیسا نازک موقع تھا ، کفر کی ساری طاقتیں مدینہ پر ٹوٹ پڑنے والی ہیں۔ صحابہ پریشان ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کا مکمل صفایا کرنے کے لئے یہود و مشرکین متحد ہوچکے ہیں۔ خندق کھودی جارہی ہے۔ ایک جگہ چٹان نکل آتی تو آپ نے اس پر کدال چلایا جس سے چنگاری چمک اٹھی۔ آپ نے فرمایا مجھے اس روشنی میں مدین کے محلات دکھائے گئے۔ دوسری کدال مارای پھر چنگاری چمکی، فرمایا مجھے شام کے محلات دکھائے گئے۔ کیسا نازک مرحلہ تھا۔ مگر آپ ﷺ نے مایوسی کو قریب آنے نہیں دیاایسے کٹھن وقت پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے روشن مستقبل پر آپ کی نگاہ تھی۔ ملک کی موجودہ صورت حال میں جبکہ ٹرپل طلاق بل کی منظوری اور دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی اور اب بابری مسجد پر فیصلہ نے ہمارے حوصلے پست کردئیے ہیں۔ اور بہت جلد این آر سی لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کے بجائے عزم و عمل اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے،مایوسی اور پست ہمتی ہمارے مسائل کا حل نہیں۔
(۲) موجودہ حالات سے مایوس اسلئے بھی نہیں ہونا چاہئے کہ بسا اوقات شر سے خیر نکلتا ہے۔ بظاہر کوئی واقعہ ہمارے لئے شر نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس شر سے خیر نکالتے ہیں اور یہ چیز اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ نبی ﷺ اور صحابہ کی زندگیوں اور اسلام کی تاریخ میں اس کے بے شمار نمونے ملتے ہیں۔ ۵ ؁ھ ہجری میں مسلمان ایک عظیم حادثہ سے دوچار ہوئے۔ ذات رسول ﷺ کو داغدار کرنے دشمنو ںنے سازش کی اور عفیفۂ کائینات صدیقہ بنت صدیق پر سنگین تہمت لگائی گئی۔بعض سادہ لوح مسلمان اس سازش کا شکار ہوئے۔ یہ واقعہ بظاہر شرہی شرمعلوم ہوتا تھا لیکن قرآن مجید اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں گویا ہے لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم(النور) اس کو تم اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لئے خیر ہے۔ ظالموں نے ایک اللہ کے گھر پر غاصبانہ قبضہ کر لیاہے بظاہر یہ شر نظر آتا ہے ۔ اس سے ہر مسلمان مغموم ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اللہ اس میں خیر رکھے ۔ ہم اسے صحیح رخ دے کرمثبت اقدامات میں لگ سکتے ہیں۔ ممکن ہے ایک مسجد سے محرومی ہم مسلمانوں کو مساجد سے جوڑنے میں کلیدی رول ادا کرے۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں اگر مجموعی طورپر ملت کا ضمیر جاگ گیااور ان میں مساجد کے حقوق کی ادائیگی کا احساس پید اہوگیا تو یہ ایک بڑے خیر کی بات ہوگی۔ ۱۳ سال تک کعبۃ اللہ بت پرستی کا مرکز رہا ۔ صحابہ اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ کیسے کعبہ کی توہین ہورہی ہے۔ کیسے مرکز توحید کو بتوں سے بھردیا گیا ہے۔ لیکن اس شر سے بعد کو خیر نمودار ہوااور کعبہ مرکزِ تو حیدبن گیا صلح حدیبہ کے موقع پر مسلمانوں کو مکہ کے قریب تک پہنچنے کے بعد روک دیاگیا۔ پھر دب کر صلح کی گئی ۔ بظاہر یہ انتہائی ناگوار واقعہ تھا۔ لیکن اس شر سے اللہ نے خیر نکالا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزا رکہ فتح مکہ کے حالات پیدا ہوگئے۔طائف میںآپ کے ساتھ کیسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا لیکن اس کے فوری بعد معراج کا واقعہ پیش آیا پھر ہجرت کے اسباب پیدا ہوئے۔ بغداد پر تاتاریوں کا حملہ کس قدر ہولناک واقعہ تھا۔ لوگ یقین کرچکے تھے کہ اب مسلمان ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے مگر اس شر سے اللہ نے خیر نکالا وہی تاتاری اسلام کے پاسپاں بن گئے۔ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے عسی ان تکرہ شئی وھو خیر لکم (البقرۃ) ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو بُراسمجھو مگراس میں تمہارے لئے بھلائی ہو۔ حالیہ عدالتی فیصلہ ہندوستان کی دیگر قوموں کی اسلام سے قربت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ملک کی سارے انصاف پسند برادری اس نا انصافی کو محسوس کررہی ہے۔
(۳) اس وقت سب سے زیادہ مساجد کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔حالیہ فیصلہ نے اگر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے تو ہمیں اپنی کوتا ہیوں کا احساس ہو نا چاہئے ،کہیں مساجد سے ہماری بے رخی نے تو ہمیں یہ دن نہیں دکھائے ، ہندوستان میں سینکڑوں مساجد ویران پڑی ہیں خود ہمارے شہر حیدرآباد میں ایسی دسیوں مساجد غیر آبادہیں ان کی آباد کی فکر کرنی چاہیے ور نہ بابری مسجد پر ہمارا ماتم مگر مچھ کے آنسو سمجھے جائیں گے۔
(۴) برادران وطن کو ہم ایمان و توحید سے متعارف کر ائیں انہیں جب پتہ چل جائے گا کہ اصل دین تو حید ہے تو پھر وہ دین حق کے محافظ بن جائیں گے ،آج کے غیر مسلم نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے مساجد کیا ہیں نمازز اور اذان کی حقیقت کیا ہے ؟پورے ملک میں دعوت دین کی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔
۵۔ ہم اپنی قیادت پر بھر پور اعتماد رکھیں غیر ضروری قیادت کو غیر ضروری تنقید کا نشانہ نہ بنائیں، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بابری مسجد کی بازیابی کے لئے حتی المقدور کوشش کی ہے ہمیں بورڈ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو نا چاہئے۔
۶۔جس طرح اب تک بابری مسجد کی بازیابی کے لئے ہم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا سارے مسالک کے لوگوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیا اسی طرح آنے والے دنوں میںبھی ہم ملی اتحاد کو متاثر ہونے نہ دیں۔
۷۔نوجوان ہمارا سب سے بڑا سرمایا ہے ، اس کی صحیح تربیت اور دین و ملت کے لئے اس کا بھر پور استعمال ضروری ہے ، نوجوانوں میں شعور بیداری ضروری ہے ،فضولیات اور لغو مصروفیات سے نکال کر انہیں زندگی کا نصب العین سمجھا یا جائے نیز نوجوانوںکو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کر نے کی فکر کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×