سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

شرعی عدالتیں ملکی عدالتوں کی معاون ہیں

۲۰۱۹ء کے انتخابات جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں بی جے پی کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ۲۰۱۴ء کی انتخابی مہم میں ڈھیر سارے سبز باغ دکھا کر عوام کو اُلّو بنانے والی حکمراں جماعت آنے والے انتخابات کے لئے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کے ساتھ ایسے موضوعات کی تلاش میں ہے جن کو بنیاد بناکر ملک کے اکثریتی طبقہ کو پارٹی کے حق میں متحد کیا جاسکتا ہو، انتخابی مفاد کے لئے نان ایشو کو ایشو بنانا بی جے پی کا قدیم وطیرہ ہے، گذشتہ ۹؍ جولائی کو بی جے پی کو انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے اس وقت ایک نیا ایشو ہاتھ لگا جب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر رکن ظفر یاب جیلانی نے بیان دیا کہ ملک کے تمام اضلاع میں شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، ظفر یاب جیلانی نے اپنے بیان میں کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ملک کے ہر ضلع میں ایک شرعی عدالت تشکیل دینا چاہتا ہے جسے دار القضاء کے نام سے جانا جائے گا، جہاں شریعت کے مطابق معاملوں کی سماعت ہوگی، ملک بھر میں شرعی عدالتوں کے قیام کے لئے بورڈ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۸ء کے آنے والے اجلاس میں تبادلۂ خیال کرے گا، جیلانی کا بیان کیا آیا سنگھ پریوار اور بی جے پی کے حلقوں میں کہرام مچ گیا، سنگھ پریوار کے مختلف قائدین آستین چڑھا کر میدان میں کود پڑے، مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سوال کیا کہ کل ہند و اگر ہندوعدالت عیسائی کرسچن عدالت اور پارسی اگر اپنی عدالت کا مطالبہ کرنے لگیں توملک میں کیا حالت ہوگی؟مرکزی وزیر قانون پی چودھری نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، عدالت کی تشکیل آئین اور اس کی جانب سے بنائے گئے انتظام سے ہوتی ہے، ظاہرہے کہ شرعی عدالت کا قانونی وجود نہیں ، بی جے پی کی ایک خاتون قائد میناکشی لیکھی نے اپنی شدید برہمی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ہم کوئی اسلامک ریپلک انڈیا نہیں ہیں، یہاں شرعی عدالت کی کوئی جگہ نہیں ہے، عدالت قانون کے دائرہ میں کام کررہی ہے، جے ڈی یو کے رہنما کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ بھارت کا آئین اور قانونی انتظام تمام مذاہب اور تمام طبقوں پر یکساں طور ہوتا ہے، قانون تمام مذاہب کی حفاظت کی گیارنٹی دیتا ہے، اس لئے الگ سے عدالت تشکیل دینے کی ضرورت نہیں، ظفر یاب جیلانی کے بیان اور اس پر ہورہے شدید رد عمل کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس پورے معاملہ میں پروپیگنڈہ سے کام لیا گیا ہے، ظفر یاب جیلانی نے اپنے بیان میں ہائی کورٹ یا شرعی عدالت کی تعبیر استعمال ہی نہیں کی کہ کوئی اسے ملکی عدالتی نظام کے متوازن نظام قرار دینے لگے، جیلانی نے اسلامی دار القضاء کے قیام کی بات کہی ہے جو برسوں سے جاری ہے اور سب کومعلوم ہے کہ ایسے دار القضاؤں کا مقصد مسلمانوں کے عائلی تنازعات کی یکسوئی کرکے انھیں طویل عدالتی اخراجات سے بچا کر قرآن وسنت پر عامل بنانا ہوتا ہے، جیلانی نے دوسرے دن شائع شدہ اپنے بیان میں وضاحت کی کہ میں نے شرعی عدالت کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا، یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ اور اصل مسائل سے ذہن بھٹکانے کی کوشش ہے،ایک نیوز پورٹل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ا س بات کی تردید کی کہ پی ٹی آئی سے گفتگو کے دوران انہوں نے شرعی عدالت کا لفظ استعمال کیا تھا، جیلانی نے بتایا کہ ۸؍ جولائی کو پی ٹی آئی سے سلیم نامی ایک صحافی کا فون آیا تھا اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تھا جس پر ہم نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ۱۹۹۳ء سے دار القضاء قائم کرتے ہوئے آرہا ہے اور مزید دار القضاء قائم کئے جائیں گے، ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۸ء کو دہلی میں ہونے والی عاملہ کی میٹنگ میں بھی ا س تجویز پر بات چیت ہوگی، جیلانی نے صاف لفظوں میں اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے شرعی عدالت کا لفظ استعمال کیا تھا۔ظفر یاب جیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بات سلیم سے ہوئی تھی اور رپورٹ کسی دوسرے صحافی نے بنائی، اس پوری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ سارا ہنگامہ میڈیا کا برپا کیا ہوا ہے، میڈیا نے جیلانی کے بیان کو اس انداز سے پیش کیا کہ گویا بورڈ ملکی عدالتوں کے متوازی ایک مستقل عدالتی نظام قائم کرنے جارہا ہے،بیشتر ملکی نیوز چینل اس وقت وہی کچھ کرتے ہیں جو حکومت چاہتی ہے، ہندوستانی میڈیا گودی میڈیا بن چکا ہے، یہ میڈیا کی کارستانی ہے کہ اس نے ۲۰۱۹ء کے انتخابات سے قبل ماحول کو گرمانے کے لئے بی جے پی کو ایک سلگتا ہوا موضوع مہیا کیا۔
جہاں تک ملک میں قائم اسلامی دار القضاؤں کا تعلق ہے تو وہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں آزادی سے پہلے سے ان کا وجود ہے، اتنا ہی نہیں ہندوراجاؤں کے زمانے میں بھی اسلامی نظام دار القضاء کسی نہ کسی صورت میں کارگر رہا ہے، چنانچہ عالم اسلام کے نامور عالم دین فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں دار القضاء کی تاریخ بڑی قدیم ہے، بعض عرب سیاحوں کے سفر ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکومت سے پہلے بھی ہندو راجاؤں کے تحت جنوبی ہند کے علاقہ میں مسلمانوں کے لئے قاضی ہوا کرتے تھے جن کو ’’ہنر من‘‘یا ’’ہنر مند‘‘ کہا جاتا تھا، پھر جب مغل حکومت کا زوال ہونے لگا اور ہندوستان پر برطانوی تسلط مکمل ہونے کے قریب پہونچ گیا تو علماء ہند میں سب سے پہلے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے فتویٰ دیا کہ مسلمانوں کو اپنا نظام قضاء قائم کرنا چاہئے اور اسی وقت سے ملک کے مختلف خطوں میں اس قسم کی کوششں شروع ہوگئیں جس کو شیخ الہند مولانا محمودحسن صاحبؒ کے شاگرد رشید مفکر اسلام مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب نے ریاست بہار میں اوج کمال پر پہونچادیا اور ایک مستحکم اور منظم دار القضاء کو وجود بخشا، یہ ریاست اس وقت موجودہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے کچھ علاقے پر مشتمل تھی، یہ اتفاق ہے کہ بہار کے بعد اسی طرح کے منظم نظام میں آسام نے سبقت کی اور وہاں سات مشرقی ریاستوں پر مشتمل امارت اور قضاء کا نظام قائم ہوا، اس کے علاوہ جنوبی ہندکے ایک اہم شہر بھٹکل میں کئی صدی پرانا نظام قضاء قائم ہے، گذشتہ پچاس سال کے عرصہ میں کرناٹک، آندھرا پردیش نیز مہاراشٹر، اترپردیش، مدھیہ پردیش اور ملک کے مختلف حصوں میں دار القضاء قائم ہیں، ان سب کی تعداد دیڑھ سو سے بھی زائد ہوگی‘‘ (متاع فکر ونظر مجموعہ مضامین،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب)
ملک میں جاری اس قدیم نظام قضاء کے تعلق سے برادران وطن کی جانب سے کبھی انگشت نمائی نہیں کی گئی، ملکی عدالتیں ہمیشہ ان دار القضاؤں کو اپنا معاون سمجھتی رہیں، خود حکومتوں کا بھی منشأ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تنازعات عدالت سے باہر ہی طے ہوں، تاکہ عدالتوں کابوجھ ہلکا ہو، اس وقت عدالتوں میں زیر دوراں مقدمات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ آئندہ پچاس برس بھی ان کے لئے ناکافی ہیں، ۱۸؍ اپریل ۲۰۱۶ء میں ملک کے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے نیشنل جوڑیشیل اکیڈمی میں سپریم کورٹ کے ججوں کی چوتھی ریٹریٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتا یا تھا کہ اس وقت ملک کی عدالتوں میں تقریبا تین کروڑ زیرالتوا مقدمات ہیں جو ملک کے لئے قابل تشویش بات ہے،گذشتہ سالوں میں موجودہ حکومت کے وزیر قانون پی چودھری نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک کے ضلع اور سیشن کورٹ میں ۲۶۵۰۵۳۶۶ مقدمات زیر التوا ہیں، ایک طرف آئے دن بڑھتے تنازعات کے سبب عدالتوں میں دائر کئے جانے والے مقدمات کی شرح بڑھتی جارہی ہے، دوسری جانب ملکی عدالتوں کو ججوں کی قلت کا سامنا ہے، ایسے میں اگر اسلامی دار القضاء کا نظام مؤثر کردار ادا کرے اور مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ تنازعات ان دار القضاؤں ہی میں حل ہوں تو یہ بات حکومت کے لئے نہ صرف اطمینان کا باعث ہونا چاہئے بلکہ حکومت کو ایسے دار القضاؤں کا ممنون ومشکور بھی ہونا چاہئے، لیکن جو لوگ اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ نفرتوں کو پالتے رہتے ہیں انہیں ملک کو در پیش مسائل سے کیا سروکار، انہیں تو اقتدار سے مطلب ہے، انتخابات میں کامیابی کے لئے انہیں ایسے موضوعات چاہئے جن کو اچھال کر وہ اپنا ووٹ بینک مضبوط کرسکیں، اسلامی دار القضاء کے خلاف کھڑا کئے گئے حالیہ ہنگامے کا یہی پس منظر ہے، اس ہنگامے کا مقصد ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے لئے ماحول کو ابھی سے گرمانا ہے، ورنہ سپریم کورٹ تو ۷؍ جولائی ۲۰۱۴ء ہی کو اس مسئلہ کی یکسوئی کرچکی تھی، ۲۰۰۵ء میں وشولو چن نامی ایک شخص نے ملک میں قائم اسلامی دار القضاؤں کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا اور انہیں متوازی نظام عدالت قرار دے کر امتناع عائد کرنے کی مانگ کی تھی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس مقدمہ میں فریق بنتے ہوئے بھر پور پیروی کی تھی، بالآخر بورڈ کی کوششیں رنگ لائیں اور ۷؍ جولائی ۲۰۱۴ء کو جسٹس سی کے پرساد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وشولو چن کی درخواست کو خارج کردیا، فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں صاف کہہ دیا تھا کہ دو شخص اپنے ذاتی تنازعات کو حل کرنے کے لئے دار القضاء جاسکتے ہیں، نیزسپریم کورٹ نے اس وقت اس کی بھی صراحت کی تھی کہ دار القضاء کی حیثیت متوازی عدالت کی نہیں ہے، کیوں کہ وہ بزور طاقت اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرتے، فریقین کے اختیار ہی سے فیصلہ نافذ ہوتا ہے، کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی بھی وضاحت کی تھی کہ اس سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہوتا ہے، البتہ چونکہ جب تک فریقین حاضر نہ ہوں دار القضاء کے فیصلے اگرچہ شرعاً معتبر ہوتے ہیں لیکن قانوناً فریقین پر لازم نہیں ہوتے۔
مسلم معاشرہ کے لئے نظامِ دار القضاء کلیدی حیثیت رکھتا ہے، ایک مسلمان زندگی کے تمام معاملات میں شریعت پر عمل آوری کا پابند ہے، عبادات ہوں کہ معاملات، معاشرتی مسائل ہوں کہ عائلی اور خاندانی نزاعات، مسلمان شریعت پر عمل کے پابند ہیں، جب اپنے تمام معاملات میں مسلمانوں کے لئے شریعت کی پابندی ضروری ہے تولا محالہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دار القضاء سے رجوع ہوں، آپسی معاملات اور تنازعات میں خدا ورسول کے فیصلے کو قبول کرنے کی قرآن وسنت میں سخت تاکید آئی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے ایمان کی نفی فرمائی ہے جو آپﷺ کے فیصلے کو دل سے قبول نہ کرے، ارشاد ربانی ہے: فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً (النساء:۶۵) اے محمد(ﷺ)! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مانیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، قرآن مجید میں ایک زائد مقامات پر اپنے آپسی نزاعات میں خدا ورسول کی جانب رجوع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امرہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پھیرو، اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے (النساء)
قرآن وسنت کی انہی تاکیدات کے پیش نظر فقہاء امت نے نظام قضاء کو ایک اہم ترین فریضہ اور اس کے قیام کو لازم قرار دیا ہے،چنانچہ مشہور فقیہ امام سرخسیؒ لکھتے ہیں:’’قضاء بالحق ایمان باللہ کے بعد اہم ترین فریضہ اور عظیم ترین عبادت ہے، قضاء کی عظمت اور شرف اس لئے ہے کہ حق کے ساتھ فیصلہ کرنا عدل کااظہار ہے اورعدل پر ہی زمین وآسمان قائم ہیں، قضاء ہی کے ذریعہ ظلم کا ازالہ ہوتا ہے اور مظلوم کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور مستحق کو اس کا حق ملتا ہے، اس میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر ہے اور انہی مقاصد کے لئے انبیاء مبعوث ہوئے‘‘
نظام قضاء اور دار القضاء کا قیام مسلمانوں کی صرف شرعی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے موجودہ حالات میں جب کہ انصاف رسانی انتہائی مہنگی ہوتی جارہی ہے اور عدالتی اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں، یہ ایک سماجی تقاضا بھی ہے، عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے کاٹتے لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، مگر انہیں انصاف نہیں ملتا، ایک طرف وکیلوں کے خطیر اخراجات کا مسئلہ ہے، دوسری جانب مقدمہ کی طوالت ہے، جس سے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ملکی عدالتوں میں اس وقت لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں، عدالتوں پر مقدمات کا بڑھتا بوجھ بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ دا رالقضاء جیسے ادارے زیادہ سے زیادہ قائم ہوں اور لوگ آسانی کے ساتھ اپنے معاملات طے کریں۔

Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×