اسلامیات

ایک رات جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے

جس طرح ماہ رمضان المبارک کو سال کے دوسرے مہینوں پر فوقیت حاصل ہے، اسی طرح شب قدر کو ایک ہزار مہینوں سے زیادہ برتری اور فضیلت حاصل ہے،اور ماہ رمضان کی فضیلت اور شب قدر کی قدر و منزلت جاہ و مرتبت کے لیے کیا کچھ کم ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن جیسی مقدس کتاب کو نازل کرنے کے لئے اسی ماہ مبارک کی شب قدر کا انتخاب فرمایا، اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (سورۃ القدر) دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَيْلَةِ مُبَارَکَة (سورہ دخان)
بل نزل به جبرئیل علیه السلام جملة واحدة فی لیلة القدر من اللوح المحفوظ إلی سماء الدنیا إلی بیت العزة وأملأه جبرائيل علی السفرة ثم کان جبرئیل ینزله علی النبي صلی اللہ علیہ و سلم نجوماً نجوماً وکان بین أوله وآخرہ ثلاث وعشرین سنة (تفسیر قرطبی ١٣٠/٢٠) بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام شب قدر میں قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر بیت العزہ تک اکھٹا لے کر اترے اور جبرائیل علیہ السلام نے دوسرے فرشتوں کو اس کا املاء کرایا، پھر جبرائیل علیہ السلام 23 سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتے رہے،
الغرض شب قدر حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے امت محمدی پر ایک عظیم الشان انعام ہے، اور اس کی قدردانی ایمان اور سعادت کی نشانی ہے، اس رات میں کثرت عبادت ذریعہ نجات بن سکتا ہے، بالخصوص نوافل، تلاوت ذکر و استغفار کا اہتمام زیادہ مفید ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مَنْ قَامَ لیلة القدر إيماناً وإحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه (بخاری شریف کتاب الصوم باب من صام رمضان ایمانا وإحتسابا) جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور شب قدر کی تلاش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، مگر افسوس کہ وہ آج کے دور میں لوگوں نے ایک رات کی تعیین کی ہے جس میں حفاظ کرام قرآن کریم کے مکمل کرنے کا معمول کرتے ہیں، اور لوگ اسی کو شب قدر سمجھ کر رات کو جاگ کر بغیر عبادت کے عیاشی میں گزار دیتے ہیں، مگر اکثر فقہاء کہتے ہیں کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات شب قدر ضرور ہوتی ہے، اور اس میں ثواب کی نیت سے عبادت کے حصول کے لیے تمام طاق راتوں کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنی چاہئے، کیاپتہ کہ کونسی شب شب قدر ہو؟ ، جو ہمیں نصیب ہو جائے، یہ موقع سال میں ایک مرتبہ حاصل ہوتا ہے، اس میں کوتاہی کس بات کی؟ اگر کسی کو یہ خبر ملے کہ کہیں سے دس روپیے کے بدلے میں سو روپیے مل رہے ہوں تو اب کون آدمی جو اس کو حاصل کرے بنا رہے گا، اس رات میں ثواب کا دریا بہا دیا جاتا ہے، جو اس سے سیراب ہونا چاہے خوب سیراب ہو سکتا ہے، اس شب کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اس کو ہزار ماہ سے افضل اور بہتر قرار دیا جاتا لیکن اس کی مزید فضیلت و عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں جیسی مقدس جماعت کو اس رات میں بندوں کی مدد کے لئے اور ان کی دعا پر آمین کہنے کے لیے بھیجا جاتا ہے، اب خود ہی غور کریں کہ جس کی دعا کے ساتھ فرشتوں کی آمین بھی شامل ہوجائے اس کی دعا ہاتھ نیچے چھوڑنے سے پہلے قبول ہو جائے، اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس شب میں ہر آسمان سے حتی کہ سدرۃالمنتہیٰ سے بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں، اور لوگوں کی دعا پر آمین کہتے ہیں،

*شب قدر کی تعین و علامات*
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک میں آتی ہے، مگر تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں اس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی میں بھی ہوسکتی ہے، اور ہر رمضان میں بدلتی رہتی ہیں، اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری عشرے کا اعتکاف دوام کے ساتھ ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش میں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر آخری عشرہ اللہ کے گھر( مسجد نبوی) میں گزارا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپناتے ہوئے اکابرین امت اور اسلاف نے بھی اعتکاف کی سنت کو زندہ رکھا، اور شب قدر کی تلاش جاری رکھی، حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کی علامت اور نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کھلی ہوئی چمکدار رات ہوتی ہے صاف اور شفاف نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل موسم ہوتا ہے، گویا کہ اس میں انوار کی کثرت کی بنا پر چاند کھلا ہوا رہتا ہے، دوسری نشانی اسی روایت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوگا، بالکل ایسا ٹکیہ کے مانند جیسا کہ چودھویں کا چاند ہوتا ہے، (در منثور)
لہذا ہمیں بھی پورے اہتمام کے ساتھ عشرہ اخیرہ میں اس کو حاصل کرنے کی نیت سے عبادت میں ہمہ تن مشغول رہنا چاہیے، کتنے خوش نصیب اللہ کے نیک بندے ایسے ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے اس مبارک رات کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے، اور ان پر اپنی رحمتوں کے دہانے کھول دیتا ہے، اللہ تعالی یہ مبارک رات کی عبادت ہم سب کو نصیب فرمائے، (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×