اسلامیات

رہنمایانہ خطوط؛ دشمن تیرے گھات میں ہے اے غافل!

دورانِ سفر ایک مسافر کی نظر وتوجہ بار بار بلااختیار اپنے جیب وسامان پر لگی رہتی ہے، ہمہ وقت چوکس ومستعد رہتا ہے کہ کوئی چور اُچکا جیب نہ کتردے، سامان نہ اُڑالے، گھر میں موجود سونا چاندی، روپیہ پیسہ کی حفاظت وتحفظ کے لیے مختلف اقدامات کرتا ہے، گھر تنہا نہیں چھوڑتا، بسا اوقات معمولی آہٹ پر بھی آدمی بیدار ہوجاتا ہے اور جب تک اطمینان نہ ہوجائے نیند بھی نہیں آتی، کبھی بینک سے بڑی رقم نکالنے کی نوبت آئے تو اپنے مقام پہنچنے تک کسی قدر حساس، متیقظ وچوکنّا رہتا ہے اور قدم قدم پر کیسی احتیاط برتتا ہے کہ کوئی چور، ڈکیت بلکہ شریف پولیس والے کی نظر بھی نہ پڑے۔
قارئین کرام ! اس مادی دولت وقیمتی اثاثوں کی بابت ہمارا یہ شعور ہے کہ ہمیں اس پر آنے والے امکانی خطرات وخدشات کا بخوبی اندازہ واحساس ہے؛ لیکن ایک مؤمن کے سینہ میں جو حقیقی وواقعی ’’دولت ایمانی‘‘ کا خزانہ ہے نہ اس کی ہمارے دل میں کماحقہٗ قدرومنزلت ہے اور نہ ہی اس کے لٹیرں ودشمنوں سے خطرات کی آگاہی، اس واقعہ ومعاملہ کا سب سے زیادہ افسوسناک وخطرناک پہلو یہی ہے کہ صاحبِ دولت کو ہی پتہ نہیں کہ اس کے پاس کیسی عظیم دولت ہے، جب کہ دشمن اس کی گھات لگائے بیٹھا ہے، مختلف منصوبوں، سازشوں اور ہتھکنڈوں سے شکار بنانے کے لیے برسرپیکار ہے، اس غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان بدحالی کا شکار ہے، حال یہ ہے کہ مظلومیت کا شکار نادان مسلمان کہتا ہے کہ ہم نے کس کا کیا بگاڑا ہے جو ہم پر ظلم کیا جارہا ہے، ہمارا کیا قصور ہے؟ باوجود وسعت کے دنیا ہم پر کیوں تنگ ہورہی ہے، آخر کیوں؟  یاد رکھیے! ہمارے دشمن کی دشمنی نہ ہمارے مال کی وجہ سے ہے نہ تجارت وجائیداد اس کا سبب ہے؛ بلکہ اس کی نفرت وعداوت کی بنیاد صرف وصرف ہمارے سینوں میں موجود دولت ایمان ہے،* تاریخ اسلام اس حقیقت پر شاہد ہے کہ کفار مکہ کو حضرت بلالؓ، حضرت یاسرؓ، حضرت خبابؓ، حضرت سلمان فارسیؓ سے آخر کیوں دشمنی تھی؟ جواب صاف ہے کہ ان کے سینے روحانی ومعنوی دولتِ اسلام اور جوہر توحید سے معمور تھے، ان کے قلوب شمع نبوت کے نور سے منور تھے اور اسی لافانی وجاودانی دولت کی بیخ کنی وخاتمہ ہی کفار مکہ کی بربریت وتشدد کا واحد مقصد تھا،  اس حقیقت کے انکشاف کے بعد کسی مسلمان کے لیے رَوا نہیں کہ وہ غفلت کے ساتھ اپنے شب وروز گزارے خواہ وہ ظاہری مال ودولت سے محروم ہو حتی کہ مجبور ومعذور ہو، علاوہ ازیں اس غفلت کا جواز اس لیے بھی باقی نہیں رہ جاتا کہ دشمن پہلے چھپ کر وار کرتا تھا، غفلت میں نقصان پہنچاتا تھا؛ مگر موجودہ دور میں وہ ڈاکو ولٹیرا بن چکا ہے، دن دہاڑے علی الاعلان تشدد وننگا ناچ کرنے پر تلا ہوا ہے؛ لہٰذا مسلم سماج کے ہرفرد کو خواہ وہ دیہاتی ہو یاشہری، پڑھا لکھا ہو یااَن پڑھ، مرد ہویا عورت، بوڑھا ہو یاجوان، لڑکا ہو یالڑکی ہرایک کو اپنے دشمن کی پہچان اس کی طاقت کا صحیح اندازہ، اس کے دفاع کے لیے مناسب لائحہ عمل، اس کی تکمیل کے لیے مناسب اسباب ووسائل کا حصول اور جی جان سے اس مہم کی تیاری، وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے، اس مقصد میں بچوں کی معصومیت، صنف نسواں کی نزاکت، بوڑھوں کا ضعف اور ملازمت وتجارت کی مصروفیت کو رکاوٹ نہ جانیں؛ کیوں کہ آپ کا دشمن ان اعذار کا لحاظ نہیں کرتا، علاقائی، طبقاتی، مسلکی عصبیت اور امیری وغریبی کا فرق بالائے طاق رکھدیں؛ کیوں کہ دشمن نقصان پہنچانے اور وار کرنے کے لیے آپ کا صرف کلمہ گو ہونا کافی سمجھتا ہے،*
سیاسی وقومی قیادت کی عدم معاونت ورہنمائی کا بہانہ ترک کریں؛ کیونکہ اپنی ذات وفیملی کے آپ خود قائد ہیں اور ان کا تحفظ ہمارا ہی فریضہ ہے، اپنی ناکامی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنا، بہانہ بازی ہوگی نہ کہ حقیقی عذر، بندہ کا کام، کام کرنا ہے، کامیابی وناکامی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ویسے بھی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ غازی بنے تو دنیوی فلاح، شہید ہوئے تو اُخروی سعادت؛ گویا سکہ کے دونوں رُخ چت اور پٹ دونوں ہی ہمارے حق میں ہیں،* اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے اصل کام تو رجوع اِلی اللہ ہے، یعنی تمام اوامر دینیہ کی انجام دہی اور جمیع نواہی شرعیہ سے مکمل اجتناب ہے جس کے بغیر کامیابی کا تصور ہی ناممکن ومحال ہے، اس کے ساتھ برادرانِ وطن کے سامنے اپنے قول وعمل سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ ہماری عبادتیں مساجد میں، زکوٰۃ وصدقات اپنوں میں، حج وعمرہ بیت اللہ میں ادا کیئے جاتے ہیں، آج دنیا مسلمان کے کردار سے اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے، انہیں جو چیز آنکھوں سے نظر آتی ہے وہی خاکہ ان کے ذہن ودماغ میں چھپ جاتا ہے؛ لہٰذا ہمیں کردار کا غازی بننا ہوگا۔
دوسرا درجہ دنیوی اسباب ووسائل کا اختیار کرنا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے دشمن کی چال، اس کے منصوبہ وعزائم کا جاننا ضروری ہے، ملک کی آزادی سے لیکر آج تک اسلام دشمن طاقتیں ہرمیدان میں اپنی انتھک کوششوں، کاوشوں اور ناپاک سازشوں کے نتیجہ میں اپنا الگ سامراج بناچکی ہیں، مختلف شعبوں، عدلیہ، پولیس، فوج اور میڈیا میں اپنے تیار کردہ افراد کا تعین کرچکے ہیں، جو اپنے مسموم منصوبوں کی تکمیل میں کوشاں ہیں، بہ ظاہر کسی جانب سے عدل وانصاف کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، افسوس! ہم نے اتنا دراز عرصہ خوابِ غفلت میں گزاردیا؛ اگر اسلام دین حق نہ ہوتا تو شاید دشمن ہمیں نوالۂ تر سمجھ کر اب تک ہضم کرچکا ہوتا؛ لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ارشادِ خداوندی ہے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۝۵۴ (آل عمران)
 ابھی دیر ضرور ہوئی ہے مگر اندھیر نہیں، ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سوئی ہوئی تقدیر جگاسکتے ہیں۔
1))۔ چنانچہ ہمیں فی الفور غیرمتعصب برادرانِ وطن خصوصاً دلت طبقات کو ساتھ لیکر بلکہ انہیں آگے رکھ کر ملک میں رونما ہونے والے ظلم وستم اور کالے قوانین کی بھرپور مخالفت اور پرامن احتجاج کرنا ہوگا، یادرہے کہ تنہا مسلمان کا احتجاج خودکشی کے مترادف ہوگا، غیرمسلم ودلت قوم کا مسلمانوں کا ساتھ وشرکت ظلم وتشدد سے بچاؤ وتحفظ کا واحد ظاہری ذریعہ ہے؛
2))۔ نیز اپنے افرادِ خاندان ومتعلقین کو موجودہ صورتِ حال سے واقف کروائیں، ہرمشکل وقت میں ثابت قدم وپرعزم رہنے کی تلقین کریں،
3))۔ مایوسی اور خوف کو ہرگز قریب آنے نہ دیں، تن آسانی، سہولت پسندی کے بہ جائے جفاکشی، محنت وجدوجہد کا عادی بنائیں،
4))۔ چھوٹے بچوں کو ایسے کھیلوں کی طرف مائل کریں جس سے ان کی صحت وتندرستی کے ساتھ جسم کی مضبوطی، ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما ہوسکے،
5))۔ نوخیز لڑکوں ولڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اسپورٹ کے ایسے شعبوں کی طرف توجہ دلائیں، جس سے دفاعی قوت وصلاحیت، ہمت وحوصلہ پیدا ہو جیسے کراٹے، باکسنگ، لاٹھی وغیرہ چلانا،
6))۔ مردوں وعورتوں کو روزانہ کی معمولی ورزش، ہنگامی صورتِ حال میں بچاؤ کی تدبیروں پر مشتمل عملی مشق کا اہتمام کرایا جائے؛ تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں بدحواس ہونے کے بجائے ہمت وحوصلہ کے ساتھ حالات سے نمٹنے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو،
اس کے لیے نہ کسی اسلامی بیانر کی ضرورت ہے اور نہ کسی منظم تنظیم وآرگنائزیشن کا انتظار کرنے کی؛ بلکہ ہرشخص اپنے طور پر اس مقصد کے لیے کوشاں ہوجائے۔
7))۔ امت مسلمہ کے پڑھے لکھے افراد کو ترغیب دلائی جائے کہ بیرونِ ممالک میں ملازمت وتجارت سے اگرچہ ذاتی وانفرادی فائدہ ضرور ہوگا لیکن قومی واجتماعی فوائد کے پیش نظر، مسلم برادری کی خدمت اور طاقت کو بڑھانے کی نیت سے اپنے وطنِ عزیز ہی میں ذریعۂ معاش، تجارت اور سرمایہ کاری کو اختیار کریں، جس سے روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے اور ساتھ ہی قوم کے حوصلے بلند ہوں گے اور اعتماد بھی بڑھے گا،
8))۔ ملک کے ہرشعبہ میں معتدبہ مقدار کی نمائندگی ہو، خصوصاً لاءاینڈآرڈر، فوج، عدالت، وکالت، میڈیا اور سرکاری دفاتر میں اتنا اثرورسوخ ہو کہ ملک میں کسی بھی ناگہانی مصیبت کا انسداد، ظلم وتشدد کی روک تھام کے لیے بروقت مؤثر اقدامات ہوسکیں،
9))۔ سیاسی میدان میں حقیقی شعور بیداری وقت کا شدید تقاضہ ہے، روایتی وجذباتی رائے دہی کے بجائے فلاحی وسماجی خدمات کی بنیاد پر حقِ رائے دہی کا استعمال کیا جائے؛ اگر ایسی پارٹی موجود نہ ہو تو اھون البلیتین پر عمل کریں یاسیکولیریزم کی اساس پر نئے پلیٹ فارم کا آغاز کریں،
بے شک اس راہ میں دشواریاں ضرور آئیں گی؛ لیکن اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۝۶۹ (العنکبوت) ’’جو ہمارے راستہ میں کوشش کرتا ہے ہم اسے ہمارے راستہ کی راہنمائی کرتے ہیں‘‘ لہٰذا اگر اچھی نیت، سچی طلب کے ساتھ صحیح سمت میں پیش قدمی ہو اور ساتھ ہی دعاؤں کا سہارا ہو تو بندۂ مومن کے لیے راستے ہموار ہوتے جائیں گے۔
10))۔ آخر میں ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ نبی کریمﷺ کے جانثار صحابہؓ وصحابیاتؓ، ان کے بچوں اور بوڑھوں کے حالات، واقعات، مجاہدات اور قربانیاں امت کے ہرطبقہ کے لیے تحفۂ نایاب اور آبِ حیات ہیں، حالاتِ حاضرہ کے نشیب وفراز سے نبردآزمائی، اسلامی حمیت وغیرت کی بیداری اورقوت روحانی کی افزائش کے لیے نسخۂ کیمیاء ہے؛ لہٰذا ان کی زندگیوں کے ہرپہلو کو پڑھنے، سننے، سنانے کا اہتمام ہو؛ تاکہ اس مایوس کن اور خوفزدہ ماحول میں اُمید کی شمع روشن اور عزم وحوصلہ کا مادہ پیدا ہوسکے، اس سلسلہ میں حضرت شیخ زکریا کی فضائل اعمال خصوصاً حکایاتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مشتمل حصہ انتہائی مفید تر ہے، جو آسانی سے میسر آنے کے ساتھ معتبر ومستند بھی ہے۔
خدا کرے کہ امت مرحومہ کے دلوں سے دنیا کی محبت اور موت کا خوف نکل جائے جو موجودہ ذلت ورسوائی، ہزیمت وناکامی کا اصل سبب ہے، آمین، ثم آمین۔
بہ شکریہ: ماہنامہ پیام رحمانیہ حیدرآباد (مارچ 2020)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×