ادب اور احترام
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تمام مخلوقات میں اشرف وافضل بناکر پیدا کیا ہے ، دنیا میں زندگی گزار نے کے لئے روز اول ہی سے انہیں باضابطہ ایک کامل ومکمل نظام دے دیا گیا ہے ، اس نظام زندگی کا نام دین اسلام اور احکام شریعت ہے ، دین اسلام اور اس کے احکامات و قوانین میں انسانوں کے لئے اعلیٰ ترین اصول وآداب موجود ہیں ، انسان اسے اپنا کر ہی انسانیت کی منزل تک پہنچ سکتا ہے،کیونکہ اخلاق واداب ہی انسانوں کو حیوانوں سے جدا اور الگ کرتی ہیں ،اگر انسان آداب واخلاق سے خالی ہوجائے تو پھر اس میں اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ، اگر فرق رہ جاتا ہے تو صرف اتنا کہ انسان بولتا ہے اور حیوان بولنے سے محروم ہے ، اخلاق وآداب ہی انسانیت کی معراج اور اس کے ارتقا ء کا ذریعہ ہیں ،باادب شخص ہر ایک کی نظر میں معزز ومحترم اور بے ادب ہر ایک کی نگاہ میں کمتر وبے حیثیت بن جاتا ہے ، ادب وہ راستہ ہے جس پر چل کر آدمی عزت وعظمت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور بے ادبی وہ کھائی ہے جس میں گر کر آدمی ذلت ورسوائی کی گہرائی میں چلاجاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آداب واخلاق کی بڑی اہمیت ہے بلکہ عربی کا ایک مشہور قول ہے ’’الدین کلہ ادب ‘‘ دین اسلام سراپا ادب کا نام ہے، اسلام کا ہر حکم اور اس کا ہر فرمان ادب واخلاق کی مکمل تصویر ہے ،اسلام ادب کا آئینہ ہے بلکہ ادب اس کی پہنچان اور شناخت ہے ، اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کو راحت پہنچانے کا نام ادب اور اپنے قول وفعل کے ذریعہ دوسروں کی دل آزاری کا باعث بننا بے ادبی ہے ،سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ادب کیا ہے اور کس چیز کا نام ہے ، اپنے مفادات کے حصول کے لئے لوگوں سے عمدہ گفتگو کرنا،شیریں زبان استعمال کرنا ،جھک کر ملاقات کرنا اور مسکراہٹ سے آنے والے کا استقبال کرنا یا صرف چند مخصوص امور کے انجام دینے کا نام ادب نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز ادب میں داخل ہے جس سے انسانیت راحت محسوس کرے ، ان کے نفع کو اپنی ذات پر ترجیح دے اور ان کو خود سے بہتر جان کر ان کے ساتھ حسن خلق سے پیش آئے ۔
قرآن کریم میں حضرات صحابہ ؓ اور ان کے واسطے سے قیامت تک تمام انسانوں کو آداب واخلاق سکھلائے گئے ہیں اور بے ادبی کے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات سے آگاہ کیا گیا ہے ارشاد رب العالمین ہے : یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(الحجرات:۲)’’اے ایمان والو!اپنی آوازیں نبی ؐ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کروجیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ‘‘ ،اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ ٔ کرام ؓ کا کچھ عجیب حال ہو گیا تھا ،وہ آپ ؐ سے گفتگو کرنے میں بہت احتیاط برتنے لگے تھے ،سیدنا ابوبکر صدیق ؓ حاضر قدمت ہوکر عرض کرنے لگے ،یارسول اللہ ؐ !قسم ہے کہ میں مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی سر گوشی کرتا ہے ،سیدنا عمر فاروق ؓ اس قدر آہستہ بولنے لگے تھے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا،سیدنا ثابت بن قیس ؓ طبعی طور پر بہت بلند آواز تھے ،یہ آیت سن کر بہت ڈرے اور روئے اور اپنی آواز کو پست کیا (معارف القرآن) ، علماء کرام ؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ علماء وارثین انبیاء ہیں اس لئے ان کی مجالس میں بھی حد درجہ ادب واحترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور دوران گفتگو اپنی آواز پست رکھنی چاہیے ، بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی صالح بزرگ کو کسی نے اپنا مرشد بنایا ہو اس کے ساتھ گستاخی وبے ادبی کا بھی یہی حال ہے کہ بعض اوقات وہ سلب توفیق اور خذلان کا سبب بن جاتی ہے جو انجام کار متاع ایمان کو بھی ضائع کر دیتی ہے،نعوذ باللہ منہ (معارف القرآن)۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ’’ ادب سے قومیں بنتی ہیں اور بے ادبی سے قومیں فنا ہوتی ہیں ‘‘، تاریخ شاہد ہے کہ سابق میں جن قوموں کو ہلاکت خیز عذاب سے دوچار کیا گیا اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر عبرت کا نشان بنادیا گیا اس کی وجہ صرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے احکام سے روگردانی ہی نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے انبیاء ورسلؑ اور اولیاء واتقیائؒ کی بے ادبی اور ان پاکیزہ نفوس کے ساتھ توہین آموز برتاؤ کی وجہ سے ان پر عذاب الٰہی کا کوڑا برسا تھا اور وہ ہلاک وبرباد کر دئے گئے تھے، ادب کی وجہ سے جہاں آدمی عذاب الٰہی سے محفوظ رہتا ہے ،دنیا میں عزتیں پاتا ہے اور لوگ اس سے بلاکسی غرض کے محبت کرنے لگتے ہیں وہیں عبادات واطاعات کی طرف اس کی رغبت بڑھتی جاتی ہے ،اُسے یاد الٰہی میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ ادب کی منزلیں طے کرتے ہوئے تقرب الٰہی کو پالیتا ہے ،کسی بزرگ کا قول ہے کہ بندہ عبادت کرنے سے جنت تک پہنچتا ہے اور عبادت واطاعت میں آداب بجالانے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ،چنانچہ بعض مفسرین ؒ نے قرآن کریم کی یہ آیت : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی(النجم:۱۷)’’ نبی ؐ کی آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقع پر ملاقات ربانی اور دیدار الٰہی کے شدت شوق کے باوجود آپ ؐ نے اس موقع پر حد درجہ ادب واحترام کا مظاہرہ کیا اور اپنی نظروں کو شدت اشتیاق رکھنے کے باوجود احترام کے دائرہ تک محدود رکھا ، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء اور مشائخ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اطاعت میں احترام ملحوظ رکھتا ہے اور قربت و نزدیکی میں بھی آداب کے دائرہ میں رہ کر محبت وعقیدت کے جلوئے بکھیر تا ہے تو وہ اسی ادب کے راستہ سے بہت جلد تقرب الٰہی کو پالیتا ہے ،حضرت ذالنون مصری ؒ طالبان راہ طریقت کو باادب بننے کی تلقین کرتے ہوئے اور بے ادبی سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس کا نقصان بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’جب کوئی سلوک کا طالب علم ادب کا لحاظ نہیں کرتا تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلاتھا ‘‘ یعنی جس طرح ابتداء میں وہ بے حاصل تھا بے ادبی کی وجہ سے اس کی محنت وریاضت پر پانی پھر جاتا ہے اور اتنی کوشش کے باوجود بے ادبی کی وجہ سے بد نصیبی اسے گھیر لیتی ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقت میں نصیب ادب سے بنتا ہے ،کسی بزرگ کا قول ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں کیونکہ بے ادب فضل ربی سے محروم کر دیا جاتا ہے ،حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ ادب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلہ میں تھوڑا سا ادب حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے ،اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت ابوحفص ؒ اپنے مریدین کو زیادہ مؤدب رکھتے تھے ،جب یہ اپنے مریدین کے ساتھ بغداد تشریف لائے تو حضرت جنید بغدادیؒ نے ان کے نہایت مہذب ومؤدب مریدوں کو دیکھ کر فرمایا:آپ نے اپنے مریدوں کو شاہی آداب سکھا رکھے ہیں ،اس پر حضرت ابوحفص ؒ نے جواب دیا ’’ظاہری حسن ادب باطنی حسن ادب کا آئینہ دار ہوتا ہے‘‘ ،ادب کی اہمیت ، اس کے فوائد وثمرات اور اس کے ذریعہ جلد مراتب عالیہ طے ہوتے دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’عارف باللہ کے لئے پاس ادب اس طرح ضروری ہے جس طرح مبتدی کے لئے توبہ ضروری ہے ،۔
دنیا میں بانصیب کون ہے اور بے نصیب کون ؟ اس کا جواب ہر شخص اپنی سوچ سمجھ اور اپنے نزدیک چیزوں کی قدر وقیمت کو پیش نظر رکھ کر دیتا ہے ،تاجر کی نظر میں کم وقت میں زیادہ نفع کمانے والا بانصیب ہے ، دولت کی حرص رکھنے والے کے نزدیک امیر شخص بانصیب اور مفلس بے نصیب ہے،جاہ ومنصب کی آرزو رکھنے والے کے نزدیک اقتداد وکرسی رکھنے ولا بانصیب ،عزت دار اور عہدہ ومنصب سے خالی بے نصیب ہے، جسمانی طاقت وقوت والے کی نظر میں صحت مند ،تندرست اور پہلوان شخص بانصیب اور کمزور ،ناتواں اور طاقت وقوت سے محروم شخص بے نصیب ہے ،اہل علم کے نزدیک علم کی دولت سے مالامال شخص با نصیب اور ان پڑھ بے نصیب ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جن کے پاس ادب واخلاق تھے،اکرام تھا وہ با نصیب تھے ،وہ ادب واخلاق کے قیمتی موتی تھے ، وہ لباس ادب سے مزین تھے ،وہ جد ھر سے گزرے آداب واخلاق کی خوشبو سے پورے علاقہ کو معطر کر دیا،لوگ دیوانہ ہوکر ان کے پیچھے چلتے گئے ،بڑے بڑے علاقوں کو انہوں نے اپنے اخلاق وکردار سے منور کر دیا اور جاتے جاتے صفحہ ہستی پر وہ گراں قدر نقوش چھوڑ کر گئے کہ اگر تاریخی صفحات سے انہیں ہٹادیا جائے تو تاریخ کے صفحات تاریک ہوجاتے ہیں ،بعض علماء نے ادب واخلاق کو انسانوں کے لئے ڈھال بتایا ہے ،عربی کا مقولہ جسے ضرب الامثال میں شمار کیا گیا ہے:الادب جنتہ للناس’’ادب انسانوں کے لئے ڈھال ہے‘‘،حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کی نظر میں بے ادب علم کی دولت سے مالامال شخص بے حیثیت اور بے وزن ہے ،فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایسے شخص کا ذکر آئے جسے اولین وآخرین دونوں کا علم ہو مگر وہ ادب سے خالی ہو تو مجھے اس کی ملاقات نہ ہونے پر کبھی بھی افسوس نہیں ہوگا،بر خلاف جب کبھی سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص آداب کا حامل تھا تو اس سے ملاقات نہ ہونے پر افسوس ہوتا تھا،حضرت ابوللیث سمر قندیؒ ادب کو اسلام کے قلعوں میں سے ایک اہم قلعہ بتایا ہے ،فرماتے ہیں کہ اسلام کے پانچ قلعے ہیں (۱) یقین(۲) اخلاص(۳) فرض (۴) سنن(۵) ادب ،جب تک انسان ادب کی حفاظت کرتا ہے اور اخلاق وادب کا بھر پور مظاہرہ کرتا رہتا ہے تو شیطان اس سے مایوس ہوتا رہتا ہے اور جب یہ ادب چھوڑدیتا ہے تو شیطان اس سے بقیہ چاروں چیزیں چھڑادیتا ہے ، امام الاولیاء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ ادب سے محروم شخص خالق ومخلوق دونوں کی نظروں میں گر جاتا ہے،بہت سے علماء ربانینؒ اور اولیاء کاملین ؒفرماتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو محض ادب کی وجہ سے اعلیٰ درجات عطا ہوئے اور بہت سے لوگ صرف بے ادبی کی وجہ سے بلند مراتب سے اُتار دئے گئے ،ادب کی مثالوں میں بہت مشہور اور نہایت اہم مثال حضرت اسماعیل ؑ کی ہے جنہوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم ؑ کے حکم پر اپنی جان کا تحفہ موت کی طشتری میں ڈالنے کا ارادہ کیا ،قرآن کریم میں ان کے اس مؤدبانہ جملہ کو قیامت تک کے لئے نوٹ کر دیا گیا ہے ارشاد رب العالمین ہے:قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ(الصفت:۱۰۲)بیٹے اسماعیل ؑ نے کہا! ابا جان !آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘ ، کس قدر مؤدب اور شائستہ جواب ہے ،یقینا اسے سن کر فرشتے بھی جھوم اٹھے ہوں گے ،بلاشبہ یہ جملہ اسی کی زبان سے نکل سکتا تھا جس کی سلب سے خاتم الانبیاء پیدا ہونے والے تھے ، شاعر نے کہتا ہے ؎
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی٭سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ رئیس المفسرین کیسے بنے ،تو فرمایا کہ میں حضور ؐ کا جوڑا مبارک سنبھال کر رکھتا تھا،ایک مرتبہ آپ ؐ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو میں نے ایک لوٹا بھر کر رکھ دیا ،جب آپ تشریف لائے تو فرمایا(من وضع الوضوی ) یہ لوٹا کس نے بھر کر رکھا؟ (انی وضعت الوضوی) میں نے کہا یا رسول اللہ ؐ میں نے بھر کر رکھا ہے ،آپ ؐ (میرے اس عمل اور ادب واحترام پر بہت خوش ہوئے اور) دعا دی :الھم فقہ فی الدین ‘‘ اے اللہ عبداللہ کو دین میں سمجھ عطا فرما‘‘ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس واقعہ سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ادب واحترام اور بڑوں کا خیال رکھنے اور انہیں خوشی پہنچانے ہی کی وجہ سے ،مجھے یہ مقام ومرتبہ حاصل ہوا ،یقینا حضرات صحابہ ؓ کے بعد تابعین ؒ اور ان کے بعد ہر دور میں چھوٹوں نے اپنے بڑ وں،سعادت مند اولاد نے اپنے ماں باپ ، طلبہ نے اپنے اساتذہ اور سالکین راہ طریقت نے اپنے مشائخین کا اس درجہ ادب واحترام کیا کہ تاریخ میں اسے سنہرے حرفوں سے تحریر کیا گیا ہے ،لوگ اسے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کی کوشش کرتے ہیں ،یقینا کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو اپنے بڑوں اوربزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے آداب بجالانے کی فکر کرتے ہیں ،تاریخ کے صفحات میں ایسے سینکڑوں واقعات تحریر ہیں کہ جسے پڑھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں اور ان کے انداز ادب پر رشک ہوتا ہے ، روایت ہے کہ سید شاہ اسماعیل شہید ؒ جب اپنے شیخ سید احمد شہید ؒ کی معیت میں سعادت حج بیت اللہ سے واپس تشریف لائے تو لکھنوں میں ان کو اطلاع ملی کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ انتقال فرماگئے ہیں ،یہ خبر سن کر سید احمد شہید ؒ بے چین وبے قرار ہوگئے اور سید شاہ اسماعیل ؒ کو اپنا ذاتی گھوڑا دے کر دہلی روانہ کیا کہ معلوم کریں خبر صحیح ہے یا نہیں،سید شاہ اسماعیل ؒ اپنے شیخ کے حکم پر فوراً دہلی روانہ ہوئے مگر ادب کی وجہ سے تمام راستہ گھوڑے کی باگیں پکڑ کر چلتے رہے اس کی زین پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کی جس پر ان کے شیخ ؒ بیٹھا کرتے تھے،حضرت مجدد الف ثانی ؒ اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے صاحبزادوں کو خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر آپ کے آستانے کے خادموں کی عمر بھر خدمت کرتا ہوں تو پھر بھی آپ کا حق ادا نہ ہو گا،ان حضرات کا اپنے شیوخ کے ساتھ یہی وہ ادب واحترام تھا جس کی بناپر اللہ تعالیٰ نے انہیں مراتب عالیہ سے سرفراز فرمایا تھا ،بر خلاف بے ادبی اور بے احترامی آدمی کے مراتب گھٹادیتی ہے ،بے ادب چاہے کتنے بلند مقام پر فائز ہو جائے ایک دن ضرور پستی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ بڑا عبرت خیز اور ہلات خیز ہوتا ہے ،کہتے ہیں کہ حضرت بہلول ؒ کسی نخلستان میں تشریف فرما تھے ،ایک تاجر کا وہاں سے گزر ہوا ،وہ آپ کے پاس آیا اور مؤدب ہوکر بیٹھ گیا اور بڑی عاجزی سے گزارش کی کہ حضرت تجارت کی کونسی جنس خریدوں جس میں نفع زیادہ ہے ،حضرت بہلولؒ کی زبان سے نکلا سیاہ کپڑے کی تجارت کرو اس میں نفع زیادہ ہے ،اس نے شکریہ ادا کیا ،جانے کی اجازت چاہی اور بازار پہنچ کر سارا سیاہ کپڑا خرید لیا ،اس کے چند روز بعد اس شہر کے ایک متمول اور بااثر شخص کا انتقال ہوا،لوگ اس کے سوگ میں سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکلے اور منہ مانگیں رقم دے کر اس تاجر سے کپڑا خریدا جسے بیچ کر یہ مالامال ہوگیا ،پھر کچھ عرصہ بعد یہ گھوڑے پر بڑے شاہانہ انداز سے نکلا ،کسی مقام پر اس کی ملاقات پھر حضرت بہلولؒ سے ہوئی تو اب کی بار اس نے بڑے گھمنڈ اور غرور کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر حضرت سے پھر وہی سوال کیا جو کچھ عرصہ قبل کیا تھا،حضرت نے اس بار تربوز خرید نے کی صلاح دی ،چنانچہ اس نے بازار کے سارے تربوز خرید کر ذخیرہ کر لیا چند دن ہی گزرے تھے کہ ان میں بد بو شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گل سڑ کر کوڑے دان کی نذر ہوگئے اور یہ ہاتھ مل کر اشک بہاتے رہ گیا ،اس خستہ حالی نے اسے در بدر بھٹکنے پر مجبور کردیا ،اسی دوران پھر اس کی ملاقات حضرت بہلولؒ سے ہوئی تو اس نے سارا ماجرہ کہہ سنایا ،اس پر حضرت بہلول ؒ بول پڑے کہ ’’تیرے ادب نے تجھے مالدار کیا تھا اور اب تیری بے ادبی نے تجھے کنگال کر دیا‘‘یقینا حضرت ذوالنون مصری ؒ کے قول سے ماخوذ یہ مقولہ بہت سچا اور حقیقت پر مبنی ہے کہ ’’باداب بانصیب اور بے ادب بے نصیب‘‘حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کتنا ہی قابل ہوجائے ادب کے زینہ کے بغیر بلندی پر پہنچ نہیں سکتا ،ادب ہی ہے جو انسان کو بہت جلد اور بہت اونچے مقام تک پہنچا دیتا ہے ،تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے ادب کے بغیر مراتب حاصل کئے ہوں اور کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی کہ جس نے اپنے بڑوں کی بے ادبی کی ہو پھر بھی بلندی پر دیر تک قائم رہا ہو، کتابوں میںہمارے اکابر ؒ کی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ اگر انہوں نے کسی ادنیٰ شخص سے بھی کوئی علمی نکتہ حاصل کیا تھا تو عمر بھر استاذ جیسا ان کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے ،کبھی بھی ان کے ادب واحترام میں فرق آنے نہ دیا، ادب واحترام کی اہمیت وحقیقت کو جاننے اور بے ادبی کے وبال سے واقف ہونے کے باوجود بہت سے نادان لوگ اپنے علم وکمال اور صلاحیت واستعداد پر ناز کرتے ہیں اور دوسروں پر اپنی فوقیت جتاتے ہیں ،لوگوں کی نظر میں خود کو ممتاز بنا کر پیش کرتے ہیں ، اس گستاخی اور بے ادبی کی وجہ سے وہ اہل علم وفضل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور اصحاب علم و فضل سے دوری تنزلی کی علامت ہے ،نیک صالح آدمی کی پہچان اس کا ادب ہے اور بے ادبی آدمی کو محروم بنا کر چھوڑ دیتی ہے ،تجربہ شاہد ہے کہ پیڑ سے کٹ جانے والی ہری بھری شاخ چند روز میں سوکھی ہوجاتی ہے اور پیڑ سے جڑا ہر پتہ اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے ،علماء ،مشائخ اور اہل دل واہل بصیرت سے تعلق ،ان کا اداب واحترام اور ان سے استفادہ آدمی کے لئے ترقیات کا ضامن ہوتا ہے ،اسی وجہ سے اونچے مقامات پر فائز ہونے اور علمی وعملی میدان کے شہسوار ہونے کے باوجود ان حضرات نے اپنے اکابر سے کبھی رشتہ ختم نہیں کیا اور کبھی ان سے دور ہوکر نہیں رہے بلکہ ہر معاملہ میں ان سے استفادہ کرتے رہے اور ان کے ادب واحترام میں اپنی پلکیں بچھاتے رہے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ادب واحترام، محبت و عقیدت سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور مضبوط تعلق ہی سے بہت کچھ ملا کرتا ہے ،اس کے لئے ادب بے حد ضروری ہے بلکہ یہ محبت کا پہلا قرینہ ہے ،شاعر کہتا ہے ؎
خموش اے دل بھری محفل میں چلا نا نہیں اچھا ٭ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
٭٭٭