اسلامیات

’’سفر معراج ‘‘ عالم برزخ کے چند عبرت انگیز حالات

’’سفر معراج ‘‘ رسول اللہ ؐ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کو بطور دلیل بہت سے معجزات عطا فرمائے تھے ،معجزہ یعنی وہ حیرت انگیز بات جو صرف نبی سے ظاہر ہو یا خرق عادت جو نبی سے صادر ہو،جس کا مطلب یہ ہے کہ جسے دیکھ کر عقل انسانی حیران اور ششدر ہوجائے ،اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ اپنے رسولوں اور نبیوں کے ہاتھوں سے اُسے ظاہر کرادیتا ہے ،جن کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں ،تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ اس نبی پر ایمان لائیں اور اسے سچا سمجھیں ،حافظ ابن قیم ؒ’’ اغاثۃ اللھفان‘‘ میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ رسول اللہ ؐ کے معجزات کی تعداد ایک ہزار ہے ،آپ ؐ کے معجزات میں قرآن مجید سب سے بڑا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا ،اس کے علاوہ اسراء اور معراج بھی آپؐ کے عظیم معجزات میں سے ہے ،قرآن مجید میں اسراء کا نہایت صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے جبکہ معراج کے بارے میں اشارے موجود ہیں اور متعدد احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ،سفر معراج میں آپ ؐ کو مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر لیجایا گیا اور جنت وجہنم کے مشاہدات کروائے گئے ،اس میں آپ ؐ کو جہاں جنت اور اس کے انواع واقسام کی چیزیں دکھائی گئیں وہیں جہنم اور اس کے عذابات بھی واقف کروایا گیانیز ان تمام گناہ گاروں اور مجرموں کا انکی سزاؤں کے ساتھ مشاہدہ کروایا گیا اور بتایا گیا کہ کن گناہوں کے سبب انہیں یہ عبرت ناک سخت سزائیں دی جا رہی ہیں ، آپ ؐ نے دوران سفر عالم برزخ کے جو کچھ عذابات کا مشاہدہ فرمایا واپس آکر اُسے امت کے سامنے بطور عبرت ونصیحت کے پیش فرمایا تاکہ امت کے لئے ان گناہوں سے دور رہکر آخرت کے عذاب سے بچنا آسان ہوجائے ان میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)عالم برزخ کا مشاہدہ کر تے ہوئے آپ ؐ کی نظر ایک ایسی جما عت پر پڑی جن کے سر نہایت وزنی پتھروں سے کچلے جا رہے تھے ( اس لرزہ خیز منظر کو دیکھ کر ) آپ ؐ نے جبریل امینؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور انہیں اس طرح کیوں سزا دی جا رہی ہے ؟تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پنجگانہ کی ادائیگی میں سستی کرتے تھے یعنی یہ وہ بدبخت ہیں جن کے کانوں میں مؤذن کی آواز پہنچنے کے بعد بھی یہ مسجد کی طرف قدم نہیں بڑھا تے تھے ، اپنے سرا وراپنی جبین کو خدا کے حضور جھکاتے نہیں تھے ،جن کے سر خدا کے حضور جھکتے نہیں ہیں وہ پتھروں سے کچلے جانے ہی کے لائق ہیں( ذکر حبیب ؐ)۔نماز وہ عظیم الشان تحفۂ خدا وندی ہے جو امت محمدیہ ؐ کو معراج کے مبارک موقع پر عطا کیا گیا، دیگر فرائض وعبادات میں نماز کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے وجہ ظاہر ہے کہ دیگر عبادات کا حکم فرش پر دیا گیا اور نماز کا حکم عرش پر بلا کر دیا گیا، آپ ؐ نے نماز کو امت کی معراج سے تعبیر فرمایا ہے ،نماز دین کا عظیم شعار اور اہل ایمان کا امتیازی نشان ہے ،نماز تعلق مع اللہ کا بہترین ذریعہ اور تقرب الٰہی کا نہایت سہل نسخہ ہے،نماز ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ، آخرت میں تجلیات ِ ربانی کے جو نظارے اہل ایمان کو نصیب ہوں گے نماز ان کی استعداد وصلاحیت پیدا کرنے کا خاص ذریعہ ہے،آپ ؐ نے نماز کو اپنی پسندیدہ اور محبوب ترین چیزوں میں سے ایک قرار دیا ہے اور تارک نماز کو اپنی جماعت یعنی اسلام سے خارج قرار دیا ہے ،افسوس کہ اس قدر محبوب اور مہتم بالشان عبادت کو امت کا ایک بڑا طبقہ معمولی سمجھ رہا ہے ،جان لینا چاہیے کہ ایک مسلمان کی کامیابی وکامرانی خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریزی اور اس کے حضور بندگی ومحتاجی کے اظہار ہی میں ہے اور نماز اس کا بہترین ذریعہ ہے ۔
(۲)عالم برزخ کے عذابات کا مشاہدہ کرتے ہوئے آپؐ کا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ان ناخنوں سے کھرچ رہے تھے ،(یہ تعجب خیز منظر دیکھ کر ) آپ ؐ نے جبریل امین ؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں آدمیوں کا گوشت کھاتے تھے یعنی ان کی غیبت کرتے تھے اور ان کی آبرو ریزی کرتے تھے (ابوداؤد ) اسلام کی نظر میں غیبت بدترین گناہ ہے ،اس کی قباحت وشناعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نہایت صاف لفظوں میں غیبت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے مماثل قرار دیا ہے ( سورۂ الحجرات ) ۔ آپ ؐ نے ایک موقع پر حضرات صحابہؓ کے مجمع میں فرمایا کہ غیبت(جو کسی کی عزت سے کھلواڑ کرنا ہے) زنا سے بھی بڑھ کر ہے ۔ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے غیبت کو عذاب قبر کا سبب بتایا ہے(مسند احمد ) اس سے واضح ہو تا ہے کہ بسا اوقات محض غیبت کی وجہ سے مرنے کے بعد آدمی قبر کے سخت ترین عذاب سے دوچار ہوتا ہے ،ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں غیبت کی شناعت وقباحت بیان گی گئی ہے اور اس سے امت کو بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(۳)چلتے چلتے آپ ؐ کی نگاہ ایک ایسے گروہ پر پڑی جن کے پیٹ مکانات کی مانند تھے اور ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے صاف نظر آ رہے تھے ( یہ عجیب وغریب منظر دیکھ کر ) آپ ؐ نے جبریل امین ؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کا جرم کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ سود خو ار ہیں(ابن ماجہ)۔ نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ معراج کی شب آپ ؐنے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو نہر میں تیر رہا ہے اور پتھر وں کو لقمہ بنا بنا کر کھا تا جا رہا ہے، پوچھنے پر جبریل امینؑ نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کا سود خوار ہے۔ قرآن کریم میں سخت ترین الفاظ کے ساتھ سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور نہایت سخت لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے سود کھانے والوں کو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے جنگ کی دعوت دی گئی ہے (اللہ کی پناہ) ۔ بہت سی احادیث میں سود کی قباحت وشناعت اور سودی لین دین کرنے والوں کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا سود کھانے ،کھلانے ،سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے سبھوںپر اللہ کی لعنت ہے اور یہ سب کے سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(مسلم)سود ی کاروبار اور سودی آمدنی کی مذمت اور اس کی سنگینی کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا کہ سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا وبال اور گناہ چھتیس مرتبہ بد کاری کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ۔(مسنداحمد) جس علاقہ میں سودی کاروبار اور لین دین عام ہوجاتا ہے تو سمجھ لینا چا ہیے کہ وہاںوالوں پر اللہ کا عذاب لازم ہوجا تا ہے ،آپ ؐ نے فرمایا کہ جب کسی علاقہ میں بدکاری اور سود خوری عام ہوجائے تو وہاں کے باشندے اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا لیتے ہیں(الترغیب والترہیب)۔
(۴)آپ ؐ آگے بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جماعت ہے جنکی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں اور دوسرے ہی لمحے وہ درست ہوجاتے ہیں، یہ سلسلہ بلا توقف جاری ہے ،( یہ عجیب حالت وکیفیت دیکھ کر) آپ ؐ نے جبریل امینؑ سے پوچھا کہ یہ بد نصیب کون لوگ ہیں اور کس جرم کی پاداش میں انہیں اتنی سخت سزا دی جا رہی ہے تو جبریل امینؑ نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطبا ء اور واعظین ہیں جو دوسروں کو نصیحت تو کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے۔(بیہقی) درحقیقت ان ہی کے متعلق قرآن کریم میں کہا گیا: تقولون مالا تفعلون ، یعنی اے لوگو وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ،اسلام میں دعوت دین اور وعظ ونصیحت کی اہمیت ا ور اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، خدا اور رسول ِ خدا کی نگاہ میں داعی ٔ اسلام اور واعظین دین کا بڑا اونچا مقام ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اوروں کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ ؐ کی تعلیمات کی طرف بلاتے ہیں ، یقیناجتنے لوگ نیک عمل کرتے رہیں گے اور انہیں نیک اعمال پر ثواب ملتا رہے گا تو وہ تمام ثواب ان داعیان اسلام اور واعظین دین کے نامۂ اعمال میں شامل کیا جائے گاجنکی دعوت اور وعظ ونصیحت سے متاثر ہوکر یہ لوگ اعمال صالحہ کر نے لگے تھے ،مگر خدا کی نظر میں وہی داعی اور واعظ کا میاب کہلائے گا جس کی زندگی میں عمل کا چراغ روشن رہا ہو ۔ ایک موقع پر آپ ؐ نے ان بے عمل واعظین اور داعیوں کا حال بیان فرمایا کہ جنہیں قیامت کے دن جہنم میں پھینک دیا جائے گا (شدت ِ حرارت کی وجہ سے ) ان کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لئے آگ میں اس طرح پھریں گے جس طرح گدھا چکی کے ارد گرد گھومتا ہے ،یہ دیکھ کر دوسرے جہنمی پاس آکر ان سے اس خطر ناک سزا میں مبتلا ہونے کی وجہ پوچھیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کو نیکیوں کا حکم تو کیا کرتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔(بخاری) (اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس طرح کی رسوائی سے بچائے آمین)
(۵)واعظین بے عمل کی سزاؤں کا مشاہدہ کرنے کے بعد آپ ؐ کا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور یہ لوگ اونٹ اور بیل کی طرح چررہے تھے اور (ضریع وزقوم ) یعنی جہنم کی انتہائی کڑوی اور بد بودار غذائیں کھا تے جا رہے تھے (ان لوگوں کا حال ملاحظہ فرمانے کے بعد ) آپ ؐ نے جبریل امین ؑ سے ان کی بابت پوچھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیا نہیں کرتے تھے ۔(الترغیب والترہیب) زکوٰۃ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم ترین رکن ہے کہ جس پر ایمان لا نا ہر صاحب ایمان کے لئے ضروری ہے ،زکوٰۃ کا منکر کافر اور اس کا ادا نہ کرنے والا فاسق وفاجر ہے ،زکوٰۃ نہ دینے والے کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نہایت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ جنہیں اللہ نے دنیا میں مال ودولت سے نوازا پھر بھی وہ مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے تو قیامت کے دن ایسے لوگوں کا انجام نہایت بُرا ہوگا کہ اسی مال کو ان کے گلے کا طوق بنا کر سزا دی جائے گی :سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ(آل عمران) آپ ؐ نے فرمایا کہ: جس شخص کو اللہ نے دولت عطا فرمائی ،پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے سامنے زہریلے ناگ سانپ کی شکل میں آئے گی جس کے انتہائی زہریلے پن کی وجہ سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دوسفید نقطے ہوں گے (جو انتہائی زہریلے پن کی علامت ہے) پھر وہ سانپ اس بخیل (زکوٰۃ نہ دینے والے)کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا وہ اس کے دونوں جبڑے پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں ،میں تیرا خزانہ ہوں (بخاری) زکوٰۃ کی ادائیگی مال کی پاکیزگی اور حفاظت کا سبب ہے ،آپ ؐ نے فرمایا جس مال کی زکوٰہ نہ نکالی جائے وہ بقیہ مال کی ہلاکت وتباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔(مشکوٰۃ) یعنی زکوٰۃ نہ دینے کی نحوست پورے مال کو لے کر ڈوب جاتی ہے بعد میں آدمی صرف ہاتھ ملتے ہی رہ جاتا ہے ۔مالداروں کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام نہ لیں ،بعض مالدار وہ ہیں جو زکوٰۃ دینے سے گریز کر تے ہیں تو بعض ادا کرنے میں بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،خدا کی بارگاہ میں یہ دونوں بھی مجرم ہیں ، ۔
(۶)عالم برزخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے جب آپ ؐ کچھ دور چلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ مرد وخواتین ہیں جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا اور ایک ہانڈی میں کچا سڑا ہوا گوشت رکھا ہے مگر یہ بد عقل پکا ہوا طیب گوشت چھوڑ کر کچا سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں آپ ؐ نے (ان کی عقلوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے) جبریل امینؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور ان کا معاملہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال وپاکیزہ بیویاں موجود ہیں مگر پھر بھی یہ زانیہ اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ شب باشی کر رہے ہیں ،یا وہ عورتیں ہیں جن کے پاس حلال وطیب شوہر ہیں پھر بھی یہ زانی اور بدکردار مردوں کے ساتھ رات گذارنے میں مصروف ہیں (ــبیہقی)اسلام میں شرم وحیا کی بڑی اہمیت ہے بلکہ اسلام ہی نے شرم وحیا کو ایمان کا لازمی جز اور اور اس اہم حصہ قرار دیا ہے،اسلام نے بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ قدم قدم پر اس کی مذمت اور بُرائی بھی بیان کی ہے،قرآن کریم میں فرمایا گیا :ولا تقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشاً وسآء سبیلا(بنی اسرائیل)اور زنا کے پاس نہ جانا کیونکہ وہ بے حیائی اور برائی کا راستہ ہے،آپ ؐ نے گناہوں سے بچنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے پر آخرت میں انعام اور جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی ہے ،ارشاد فرمایا جو شخص مجھے زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں (شعب الایمان) آج ہر طرف بے حیائی وبے شرمی کا دور دورہ ہے ،غیر وں کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے مسلمان بھی بے حیائی وبے شرمی کے راستے پر چل پڑے ہیں ،بے حجابی وبے پر دگی عزت دار لوگوں کا نشان بن چکی ہے ،تہذیب جدید کی لعنت نے اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے ،حضور ؐ نے شرم وحیا کو ایمان کا جزوِ لا زم کہا ہے مگر ہم بھی اسی لعنت میں گرفتار ہوکر خدا کے عذاب کا طوق اپنے گلے میں ڈال رہے ہیں،جب کوئی قوم حد سے تجاوز کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں بھی عذاب کا مزا چکھا دیتا ہے ۔
مسلمان واقعۂ معراج کی ورق گردانی کرتے رہیں اور اسے یاد کرتے ہوئے اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہیں، سفر معراج میں پیش آئے واقعات وکمالات پڑھ کر رب العالمین کی قدرت وطاقت پر غور وفکر کر تے رہیں کہ وہ کس قدر عظیم ہے،اس کے احکامات وفرمودات پر عمل پیرا ہونے کی سعی وکوشش کرتے رہیں ، اس بے مثال واقعہ کے ذریعہ نبی رحمت ؐ کے مقام ومرتبہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اللہ کے نزدیک آپ کا کس قدر اونچا مقام ہے کہ انہیں عرش پر مہمان بنا کر بلا یا گیا، اپنے آپ کو امت محمدی میں ہونے پر خدا کا شکر بجالاتے رہیں ،آپ ؐ کی محبت وعظمت کو دل میں بٹھائیں ، آپ ؐ کی مبارک ومسعود تعلیمات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں ، آپ کی پاکیزہ سنتوں کو گلے لگانے کے سلسلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہ کریں اور سفر معراج میں آپ ؐ نے عالم برزخ میں جن گناہوں اور جرموں کے عذابات کا مشاہدہ کیا ان سے اپنے آپ کو اور امت مسلمہ کے دوسرے ا فراد کو بھی بچانے کی فکر کر تے رہیں واقعۃً سفر معراج میں حضور ؐ کو احوالِ برزخ کا جو مشاہدہ کروایا گیا اُسمیں ہمارے لئے درسِ عبرت ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×