فقہ و فتاوی

شوال کے روزے؛ فضیلت اور احکام

ایمان قبول کرنے کے بعد اسلام کے چار بنیادی ارکان ہیں 1))۔ فرض نمازیں 2))۔ رمضان کے روزے 3))۔ زکات 4))۔ حج

پھر ان چاروں قسموں کے لیے سنت یا نفل کے طور پر بھی کچھ عبادات رکھی گئی ہیں جو یقینا فرائض میں ہونے والی کوتاہیوں کو دور کرتی ہیں،۔۔۔۔چناں چہ

☆ نمازوں میں فرائض کے ساتھ سنت اور نفل نمازیں بھی ہیں،

☆ زکات تو فرض ہے لیکن مال خرچ کرنے کی ایک قسم نفل صدقہ و خیرات بھی ہے،

☆ حج ایک مستقل فرض عبادت ہے ہر اس شخص پر جس کے پاس كعبة الله تک پہنچنے کی استطاعت ہو ، اسی کا ساتھ نفل اور سنت کے طور پر عمرہ کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے

☆ اسی طرح رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ نفل اور سنت روزوں کی بھی بہت ساری شکلیں رکھی گئی ہیں جیسے : *10 محرم کا روزہ، *ایام بیض کے روزے، *9 ذوالحجہ کا روزہ اور *شوال کے چھے روزے وغیرہ

اور ان تمام نفل اور سنت اعمال کے ذریعے ان کی جنس کے فرض اعمال میں ہوئی کوتاہیوں کی بھرپائی کی جائے گی یا پھر ذخیرہ ثواب بنا دیا جائے گا

اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ فرائض ، واجبات اور سنت مؤکدہ کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کے بہ قدر نفل اور سنت غیر موکدہ والے اعمال کا بھی اہتمام کرے

(1) شوال کے چھے روزوں کی فضیلت

حدیث (1) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے تو ایسا ہے جیسا کہ اس نے پورے سال کے روزے رکھ لیے (مسلم)

حدیث (2) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص عید کے بعد چھے روزے رکھے تو وہ پورا سال روزے رکھنے والا ہوگا، کیوں کہ ایک نیک لانے والے کے لیے دس کے برار اجر ملتا ہے (ابن ماجہ)

فائدہ : ایمان والوں کے لیے قرآن اور حدیث میں یہ ضابطہ طے کردیا گیا ہے کہ ایک نیکی پر کم از کم دس نیکیوں کا اجر ملے گا، اسی ضابطے کے تحت ایک روزہ پر دس روزوں کا اجر حاصل ہوگا۔ لہذا جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کو 300 دن یعنی دس مہینے روزہ رکھنے کا اجر ملا پھر جس نے شوال کے چھے روزے رکھے تو اس کو 60 دن یعنی مزید دو مینے روزے رکھنے کا اجر حاصل ہوگیا گویا کہ اس نے سال کے بارہ مہینے کے روزے رکھ لیے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایسے شخص کو سال بھر روزہ رکھنے کا اجر ملے گا

(2) شوال کے روزوں کا حکم

شوال کے یہ چھے روزے رکھنا سنت اور مستحب عمل ہے یعنی رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی پوچھ یا عذاب نہیں ہے

(3) شوال کے چھے روزے رکھنے کا طریقہ

حدیثون میں تو یہ بات مطلق کہی گئی ہے کہ رمضان کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنا سال بھر روزے رکھنے کے برابر ہے ، یعنی یہ چھے روزے پورے مہینے میں کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح رکھے جاسکتے ہیں البتہ عید کے دن یکم شوال کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے

اسی لیے دو باتوں پر تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ

1))۔ شوال کے چھے روزوں سے مراد ہے یکم شوال کے بعد چھے روزے؛ یعنی عید کا دن ان چھے روزوں میں شامل نہیں ہے

2))۔ یہ چھے روزے پورے مہینے میں کسی بھی طرح رکھے جاسکتے ہیں؛ چاہے چھے روزے ملا کر ایک ساتھ رکھے یا ایک ایک ، دو دو ، کر کے پورے مہینے میں علاحدہ علاحدہ چھے روزے مکمل کرے

البتہ اختلاف اس بات میں ہے کہ بہتر اور افضل طریقہ کیا ہے ؟ چھے روزے ایک ساتھ ملا کر رکھنا بہتر ہے ؟ یا علاحدہ علاحدہ رکھنا بہتر ہے ؟

اکثر فقہائے کرام کی رائے یہی ہے کہ عید کا دن چھوڑ کر اس کے بعد 2 شوال سے چھے روزے ایک ساتھ رکھنا بہتر اور مستحب ہے

چناں چہ شوال کے چھے روزے مندرجہ ذیل کسی بھی طریقے سے رکھے جا سکتے ہیں

1))۔ عید کے بعد یعنی دو شوال سے چھے روزے ایک ساتھ رکھے جائیں

2))۔ دو شوال سے تو روزے نہ رکھے لیکن جب بھی رکھے چھے روزے ایک ساتھ رکھے

3))۔ ایک ساتھ چھے روزے نہ رکھے بلکہ پورے مہینے میں علاحدہ علاحدہ کر کے چھے روزے رکھ لے ، مثلا : شوال کے پہلے دس دن میں دو روزے ، دوسرے دس دن میں دو روزے ، پھر تیسرے دس دن میں دو روزے

ان تمام صورتوں میں پہلی صورت کو فقہائے کرام نے سب سے بہتر رار دیا ہے

نوٹ : اگر لوگ دو شوال سے ایک ساتھ چھے روزے رکھنے کو ہی ضروری سمجھیں اور اس کے علاوہ صورتوں کو غلط قرار دینے لگیں تو پھر شوال کے چھے روزے علاحدہ علاحدہ رکھنا ہی بہتر ہوگا

(4) شوال کی عید

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شوال کے چھے روزے رکھنے کے بعد بھی ایک عید ہوتی ہے جسے وہ "شوال کی عید” یا "چھوٹی عید” کا نام دیتے ہیں حالاں کہ یہ غلط ہے ، کیوں کہ شریعت میں شوال کے چھے روزے رکھنے کی فضیلت تو مذکور ہے لیکن ان روزوں کے بعد چھوٹی عید کا کوئی ذکر نہیں ہے

اس لیے اس عید کا عقیدہ رکھنا اور پھر اسی عقیدے کی وجہ سے اچھے اچھے قسم کے پکوان وغیرہ کرنا یہ دین میں اضافہ اور بدعت ہے

(5) شوال کے چھے روزوں میں قضاء کی نیت کرنا

"شوال کے چھے روزے” اور "رمضان کے قضاءروزے” یہ دو الگ الگ عبادات ہیں ؛ اس لیے شوال کے روزوں میں رمضان کے قضاء روزوں کی نیت کرنے سے بہ یک وقت دونوں روزوں کا ذمہ ادا نہیں ہوگا،

اگر شوال کے چھے روزوں میں قضاء روزوں کی نیت کی تھی تو وہ رمضان کے قضاء روزے ہی شمار ہوں گے شوال کے چھے روزے نہیں ، یعنی شوال کے روزوں کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے علاحدہ سے چھے روزے پھر سے رکھنے ہوں گے

(6) قضاء روزے پہلے رکھیں یا شوال کے روزے ؟

چوں کہ شوال کے چھے روزوں کا وقت پورا مہینہ ہے جب کہ روزوں کی قضاء کا وقت ساری زندگی ہے،

اس لیے دونوں باتوں کی اجازت ہے ، چاہے تو شوال کے چھے روزے پہلے رکھ لیں ، پھر بعد میں رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کریں یا پھر پہلے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کر لیں اور بعد میں شوال کے چھے روزے رکھ لیں

فائدہ : جیسا کہ حدیثوں سے یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے روزے رکھ کر شوال کے روزے رکھنے پر یہ فضیلت حاصل ہوگی تو ۔۔۔

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی عذر اور مجبوری کے؛ رمضان کے کچھ یا سارے روزے چھوڑدے، پھر بعد میں شوال کے چھے روزے بھی رکھ لے اور رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء بھی کرلے تب بھی وہ اس فضیلت کو نہیں پائے گا، ہاں اگر کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوٹ گئے تھے جیسے : عورتوں کے لیے ایام حیض کے روزے۔۔۔ پھر یہ لوگ شوال کے روزے بھی رکھیں اور رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء بھی کرلیں تو شوال کے روزوں کی فضیلت کو پانے والے شمار کیے جائیں گے ۔ ان شاء اللہ تعالٰی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاري)

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أول ما يحاسب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة، يقول ربنا عز وجل لملائكته – وهو أعلم – : انظروا في صلاة عبدي هل أتمها أم نقصها؟ فإن كانت تامة كتبت له تامة، وإن كان انتقص منها شيئاً، قال: انظروا هل لعبدي من تطوع؟ فإن كان له تطوع قال: أتموا لعبدي فريضته، ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم”.(أحمد وأبو داود والنسائي والحاكم بإسناد صحيح)

عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أنه حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر (مسلم كتاب الصيام » باب استحباب صوم ستة أيام من شوال إتباعا لرمضان)

عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها( كتاب الصيام » باب صيام ستة أيام من شوال)
قوله ( كان تمام السنة ) أي كان صومه ذاك صوم تمام السنة إذ السنة بمنزلة شهرين بحساب من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها وشهر رمضان بمنزلة عشرة أشهر وفي الزوائد الحديث قد رواه ابن حبان في صحيحه يريد فهو صحيح وقال وله شاهد .(حاشية السندهي على ابن ماجه)

وعن ابن عمرو بن ثابت عن أبي أيوب إلخ ” من صام رمضان ثم أتبعه ” بهمزة قطع أي جعل عقبه في الصيام ” ستا ” أي ستة أيام والتذكير لتأنيث المميز ، أو باعتبار لياليه ” من شوال ” وهو يصدق على التوالي والتفرق ” كان كصيام الدهر ” قال الطيبي : وذلك لأن الحسنة بعشر أمثالها ،(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب الصوم » باب صيام التطوع)

(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافا للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال (الدر المختار)
[مَطْلَبٌ فِي صَوْمِ السِّتِّ مِنْ شَوَّالٍ] ٍ (قَوْلُهُ وَنُدِبَ إلَخْ) ذِكْرُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ بَيْنَ مَسَائِلِ النَّذْرِ غَيْرُ مُنَاسِبٍ وَإِنْ تَبِعَ فِيهِ صَاحِبَ الدُّرَرِ (قَوْلُهُ عَلَى الْمُخْتَارِ) قَالَ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ فِي كِتَابِهِ التَّجْنِيسُ: إنَّ صَوْمَ السِّتَّةِ بَعْدَ الْفِطْرِ مُتَتَابِعَةً مِنْهُمْ مَنْ كَرِهَهُ وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ لِأَنَّ الْكَرَاهَةَ إنَّمَا كَانَتْ لِأَنَّهُ لَا يُؤْمَنُ مِنْ أَنْ يُعَدَّ ذَلِكَ مِنْ رَمَضَانَ فَيَكُونَ تَشَبُّهًا بِالنَّصَارَى وَالْآنَ زَالَ ذَلِكَ الْمَعْنَى اهـ وَمِثْلُهُ فِي كِتَابِ النَّوَازِلِ لِأَبِي اللَّيْثِ وَالْوَاقِعَاتِ لِلْحُسَامِ الشَّهِيدِ وَالْمُحِيطِ الْبُرْهَانِيِّ وَالذَّخِيرَةِ؛ وَفِي الْغَايَةِ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بِصَوْمِهَا بَأْسًا وَيَقُولُ كَفَى بِيَوْمِ الْفِطْرِ مُفَرِّقًا بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَ رَمَضَانَ اهـ وَفِيهَا أَيْضًا عَامَّةُ الْمُتَأَخِّرِينَ لَمْ يَرَوْا بِهِ بَأْسًا.
وَاخْتَلَفُوا هَلْ الْأَفْضَلُ التَّفْرِيقُ أَوْ التَّتَابُعُ اهـ. وَفِي الْحَقَائِقِ صَوْمُهَا مُتَّصِلًا بِيَوْمِ الْفِطْرِ يُكْرَهُ عِنْدَ مَالِكٍ وَعِنْدَنَا لَا يُكْرَهُ وَإِنْ اخْتَلَفَ مَشَايِخُنَا فِي الْأَفْضَلِ. وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ كَرِهَهُ مُتَتَابِعًا وَالْمُخْتَارُ لَا بَأْسَ بِهِ اهـ وَفِي الْوَافِي وَالْكَافِي وَالْمُصَفَّى يُكْرَهُ عِنْدَ مَالِكٍ، وَعِنْدَنَا لَا يُكْرَهُ، وَتَمَامُ ذَلِكَ فِي رِسَالَةِ تَحْرِيرِ الْأَقْوَالِ فِي صَوْمِ السِّتِّ مِنْ شَوَّالٍ لِلْعَلَامَةِ قَاسِمٍ وَقَدْ رَدَّ فِيهَا عَلَى مَا فِي مَنْظُومَةِ التُّبَّانِيِّ وَشَرْحِهَا مِنْ عَزْوِهِ الْكَرَاهَةَ مُطْلَقًا إلَى أَبِي حَنِيفَةَ وَأَنَّهُ الْأَصَحُّ بِأَنَّهُ عَلَى غَيْرِ رِوَايَةِ الْأُصُولِ وَأَنَّهُ صَحَّحَ مَا لَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ إلَى تَصْحِيحِهِ وَأَنَّهُ صَحَّحَ الضَّعِيفَ وَعَمَدَ إلَى تَعْطِيلِ مَا فِيهِ الثَّوَابُ الْجَزِيلُ بِدَعْوَى كَاذِبَةٍ بِلَا دَلِيلٍ ثُمَّ سَاقَ كَثِيرًا مِنْ نُصُوصِ كُتُبِ الْمَذْهَبِ فَرَاجِعْهَا فَافْهَمْ (رد المحتار مع الدر المختار، كتاب الصوم، باب النذر)

ومنها (اي من الصيام المكروهة) اتباع رمضان بست من شوال كذا قال أبو يوسف: كانوا يكرهون أن يتبعوا رمضان صوما خوفا أن يلحق ذلك بالفرضية، وكذا روي عن مالك أنه قال: أكره أن يتبع رمضان بست من شوال، وما رأيت أحدا من أهل الفقه، والعلم يصومها ولم يبلغنا عن أحد من السلف، وإن أهل العلم يكرهون ذلك ويخافون بدعته، وأن يلحق أهل الجفاء برمضان ما ليس منه، والإتباع المكروه هو: أن يصوم يوم الفطر، ويصوم بعده خمسة أيام…فأما إذا أفطر يوم العيد ثم صام بعده ستة أيام: فليس بمكروه بل هو مستحب وسنة(بدائع الصنائع ،فصل شرائط أنواع الصيام)

عن أم المؤمنين أم عبدالله عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه، فهو ردٌّ۔ رواه البخاري ومسلمٌ، وفي روايةٍ لمسلمٍ: من عمل عملًا ليس عليه أمرنا، فهو ردٌّ.

"ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لا يصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية”. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 299)
"ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف – رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – كذا في الذخيرة”. (الفتاوى الهندية 1/ 196)
"ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب” (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 13)

عن عبد الله بن عمرو ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : « ما من مسلم يصاب ببلاء في جسده إلا أمر الله الحفظة الذين يحفظونه أن اكتبوا لعبدي في كل يوم وليلة من الخير على ما كان يعمل ، ما دام محبوسا في وثاقي (رواه الحاكم في المستدرك وقال هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه )

واللہ اعلم بالصواب

خادم : محمد مبین قاسمی عفی عنہ
واٹس ایپ نمبر : 9908100239

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×