اسلامیات

محروم نہ ہو خدا کی رحمتوں سے!!

بندہ حق تعالی شانہ کی رحمت کا اور خصوصی عنایتوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ کتنا مہربان ہے، اسکی شفقت ورأفت کا کوئ کنارہ نہیں، فضل و مہربانیوں میں کوئی قناعت نہیں،  یہ اک لازوال نعمت ہے ، ماہ شعبان ،بالخصوص نصف شعبان خدا کی عظیم نعمت کا مظہر ہے، رحمتوں کا زینہ ہے، برکتوں کا شبینہ ہے انسانیت کی ترقی کا قرینہ ہے ، یہ وہ شب ہے جو ہر خوش نصیب انسان کا نصیبہ بناکر جاتی ہے،احساس زیاں کو اجاگر کرتی ہے،فضائل وثمرات کے نقوش میں دوام لاتی ہے، بس یہ مسلمانوں کے لئے شامت اعمال پر گریہ وزاری کی رات ہے ،رب کریم سے تجدید عہد کا زریں موقع ہے ،شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کا بہترین ہتھیار ہے،
اس شب میں بلکہ زندگی کے  ہر پل رحمت الہی سے محروم انسان غور کرے کہ کوئ ذات تو ہے جو اسے معاف کردے ،کوئی ذات تو ہے کفر و عصیاں کے دلدل میں مستغرق ہونے کے باوجود رداۓ رحمت کو سلب نہیں کیا، کوئ تو مہربان ذات ہے جو زندگی کو خوشنما بناکر رکھاہے،
  اشتیاق رحمت کی ایک جھلک :-
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود رحمت اللعالمین ہونے کے اپنی ذات کو اس شب کی رحمتوں سے مستغنی نہیں رکھا، بلکہ عملی طور پر خصوصیت کے ساتھ روزوں کا اور قیام الیل کا خوب اہتمام فرمایا ،اس کا اندازہ اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتاہے کہ آپ فرماتی ہیں میں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا (صحیح مسلم۲۷۷۷)
اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نصف شعبان میں قیام اور روزہ کی تلقین فرمائ ہے "حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا جب نصف شعبان کی رات آے تو رات کو قیام کرو اور اس کی صبح کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات اللہ تعالی کی رحمت غروب آفتاب سے لے کر اسمان دنیا پر آکر پکارتی ہے، ہے کوئ بخشش مانگنے والا کہ میں اس کو بخش دوں ! ہے کوئ رزق کا طالب میں اسے رزق دوں ! ہے کوئ مصیبت زدہ میں عافیت عطا کروں ! یہاں تک فجر طلوع ہوجاتی ہے(ابن ماجہ ۱۳۷۸)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہےجسکی برکت سے لوگ غافل ہیں اس ماہ میں اللہ تعالی کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں (الترغیب والترھیب ۲۲۵)
خصوصیات شب برات:-
مفسرین ومحققین نے سورۃالدخان کی آیت انا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ الخ کے ذریعے نصف شعبان کی رات کو بابرکت قرار دیا ہے، جبکہ جمہور علماء  شب قدر ہونے کو زیادہ واضح کیا ہے عام فہم سے یوں سمجھا جاسکتاہے کہ اگر شب برات کوئی حقیقت نہ ہوتی تو اس کا ذکر نہیں کرتے بلکہ مخالفت کرتے ،
بنابریں  مشہور مفسر علامہ زمخشری ؒ نے اس شب کی پانچ خصوصیات شرح وبسط کے ساتھ درج کیا ہے،
(۱) اس میں ہر حکمت والے امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس رات عبادت کی بہت فضیلت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا جس نے اس رات ۱۰۰ رکعات ادا کیں اللہ تعالی اس کی طرف ۱۰۰ فرشتے بھیجےگا ،جن میں سے ۳۰ فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے ، ۳۰ فرشتے اسے آگ کے عذاب سے امن میں رکھیں گے ،۳۰ فرشتے اس سے دنیا کی افآت دور کریں گے،اور دس فرشتے اس سے شیطان کی تدبیروں کو دور کردیں گے ،
(۲) اس رات رحمت کا  نزول ہوتا ہے ،چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالی میری امت پر بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں  برابر رحم کرے گا ،
(۳) اس رات حصول مغفرت ہوتی ہے ،چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اللہ اس رات تمام مسلمانوں کو بخش دیتا ہے سوائے کاہن ،جادوگر،کینہ پرور ،شراب کا عادی، والدین کا نافرمان ،اور زنار پراصرار کرنے والے کے،
(۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا مکمل حق دیا گیا ہے وہ اس طرح سے کہ آپ نے شعبان کی پندرھویں رات اپنی امت کے بارے میں یہ حق مانگا تو آپ کو تیسرے حصہ کی شفاعت کا حق دیا گیا  ،پھر چودھویں رات کو یہ حق مانگا تو آپ کو امت کے دو تہائی حصہ دیا گیا ، پھر آپ نے پندرھویں شعبان کو یہ حق مانگا تو آپ کو ساری امت کی شفاعت کا حق دیا گیا ،سواۓ ایسے شخص کے جو اللہ کی اطاعت سے ایسے بدک کر نکل جائے جیسے اونٹ اپنے مالک کے سامنے بدک کر بھاگ جاتا ہے ،
(۵)  اس رات اللہ تعالی زمزم کے پانی کو ظاہری طور پر زیادہ کردیتا ہے ،(تفسیر کشاف للعلامہ زمخشری4/269)
ان کےعلاوہ اور احادیث ہیں جن میں شب برات کی خصوصی رحمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ،اسکی قدر کی جانب توجہ دلائی گئی ہے روزہ رکھنے کی، اور عبادات وطاعات میں مشغول ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ، منہیات و منکرات سے حددرجہ منع کیا گیا ہے، فضول ولا یعنی اعمال حد درجہ احتراز   کی دعوت دی گئی غفلت کی چادر کو نکال کر احساس اورشعور  کی شمع کو فروزاں کیا گیاہے ان برے اعمال سے  بچنے کی  توجہ دلائی گئی ہے جن کی وجہ سے مغفرت کا وعدہ اٹھا دیا جاتا ہے ، وہ یہ ہیں ،
شرک سے، قتل سے ،والدین کی نافرمانی سے، بغض اور عداوت رکھنے سے، رشتہ توڑنے سے ، ٹخنوں کے نیچے کپڑا پہننے سے، شراب پینے سے، زنا کرنے والے سے ،
ان تمام گناہوں سے بلکہ اسباب  گناہ سے بچ کر خدا کی رحمت کو  دامن میں سمیٹنے کی ہدایت دی گئی ہے خدا ہم سب کو اپنی رحمت کے  ذرے ذرے سے سرشار فرمائے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×