یوم جمہوریہ یوم مسرت ہی نہیں یوم احتساب بھی ہے
حصول آزادی کی تحریک در اصل ہندوستان کے مسلمانوں و علماء کرام سے ہی شروع ہوئی تھی۔ سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و آپ کے خانوادہ نے انگریزی حکومت کے ظلم و تشدد اور ہندوستانی عوام کے ساتھ کی جانے والی
ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی
اتنا ہی نہیں باقاعدہ اس حکومت کے خلاف جہاد کا فتوی دیا گیا اس کے بعد ملک بھر کے مسلمان ہندوستان سے انگریزوں کو باہر نکالنے اور ملک کو
آزادی دلوانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے ۔۔۔بعد کے دنوں میں ملک بھر کے مسلمانوں کے علاوہ سید احمد شہید
اور آپکے رفقاء علماء صادق پور اور علماء دیوبند جو ولی اللہ تحریک کے وارث و امین تھے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی وغیرہ نے اپنے احباب و رفقاء کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لیا
حضرت نانوتوی اور آپکے ساتھیوں کے بعد حضرت شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی و آپکے شاگردوں نے اس محاذ کو سنبھالا
انہوں نے انگریزوں کے خلاف پوری قوم کو منظم کرنے کی کوشش کی
ہندوستان سے انگریزی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک عالمی سطح کی منصوبہ بندی کی
جسے ہم ریشمی رومال کی تحریک کے نام سے جانتے ہیں
یہ تحریک بعض وجوہ کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکی
اور حضرت شیخ الہند سمیت آپکے رفقاء کو لگ بھگ چار سال تک مالٹا کی جیل میں قید کرکے رکھا گیا
جب حضرت شیخ الہند رہا ہوکر آئے تو آپ نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ آپس میں اتحاد و اتفاق قائم کیا جائے اور ملک سے غیر ملکی تسلط کو ختم کرنے کیلئے ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ کوششیں کی کی جائیں آپ نے مسلمانوں میں تعلیمی شعور کو بڑھانے کے لیے ملک نامور دانشوران کو ایک قومی تعلیم گاہ قائم کرنے کی تلقین کی
چنانچہ آپکی سربراہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی
جس نے ملک کی آزادی اور اعلی تعلیم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے
انکے علاوہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی
مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی وغیرہ جیسے بےشمار علماء کرام تھے۔
جنہوں نے تحریک آزادی کے جاں باز مجاہد کے طورپر اپنی گراں قدر خدمات و قربانیاں پیش کی
و عام مسلمان بھی ہر قدم پر برادران وطن کے شانہ بشانہ جنگ آزادی میں شامل رہے
ان سب کی مشترکہ کوششوں کی بدولت ہی ہندوستان لگ بھگ ڈھائی سو سال کی غلامی کے بعد آزاد ہوا اور ہمیں ایک جمہوری دستور ملا جس کے مطابق تمام شہریوں کو
اس ملک میں آزادی کے ساتھ رہنے کھانے پینے و اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ۔۔۔۔
اور بحیثیت اس ملک کے شہری کے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم سکھ ہو یا عیسائی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا
سبھوں کو تمام تر حقوق دیے گئے ۔۔۔
آج کے دن ہم تمام ہندوستان کے شہری 1 7 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں
اور ہمیں اپنے ملک کے جمہوری دستور پر فخر ہے جو ملک کے تمام شہریوں کو نہ صرف یکساں عزت و احترام دیتا ہے
بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں تمام سماجی اور شہری حقوق بھی دیتا ہے
اور انکے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے ۔۔
ہمارے دستور کا یہ خاص وصف ہے کہ اسمیں نہ صرف سیاسی جہموریت پر زور دیا گیا ہے
بلکہ معاشی اور سماجی مساوات و انصاف پر بھی خاص طور سے توجہ دی گئی ہے
تاکہ ملک میں بسنے والے مختلف مذاہب برادری و رنگ و نسل کے لوگ آپس میں کسی قسم کا بھید بھاؤ و تفریق نہ محسوس کریں
اور سارے شہری یکساں طور پر اس ملک کے ذرائع سے فائدہ اٹھائیں اور اسے خوشحال و ترقی یافتہ بنانے میں
اپنی جدوجہد اور ہر قسم کی صلاحیت کو بروے کار لائیں ۔۔۔۔
دستور ہند تمام شہریوں کو اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں
انہیں اپنے مذہب پر نہ صرف عمل کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پر امن طریقے سے اپنے مذہب کی اشاعت و تبلیغ کرنے مذہبی تعلیم گاہ قائم کرنے و مذہبی عبادات و امور انجام دینے کی مکمل آزادی ہے
ان میں سرکار کوئی مداخلت نہیں کریگی عملی طور پر سرکار کا کوئی مذہب نہیں ہوگا
بلکہ وہ دستور ہند پر کاربند ہوگی
مگر یہ شاید اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ شروع سے ہی جہاں ایک طرف زیادہ تر لوگ تانا بانا و دستور ہند میں ۔
یقین رکھنے والے اور اسکی سیکولر روح کے قدر دان رہے ہیں ۔وہی مٹھی بھر طبقہ
ایسے لوگوں کا بھی رہا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر توڑ دیا جائے
اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں کے دلوں میں باہمی محبت کے بجائے نفرت اور عداوت کا بیج بودیا جائے
مختلف طبقات کے درمیان ذات پات و برادری کا بھید بھاؤ بڑھا دیا جائے ۔۔۔
لوگوں کی آزادی اور حقوق کو سلب کرنے کی سازش کی جائے
ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے اس ملک کو تقسیم کا سانحہ بھی جھیلنا پڑا
جسمیں لاکھوں بے قصور افراد مذہبی جنون کی بھینٹ چڑھ گئے
افسوس کی بات ہے کہ ان دنوں جن طاقتوں کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے یہ وہی لوگ ہیں جنکا کبھی بھی ملک کے دستور وجمہوریت میں یقین نہیں رہا
انہوں نے ہمیشہ اس ملک کی سماجی یکجہتی و ہم آہنگی کو توڑ نے اور عوام کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی
اور مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دیتے رہے
انکی حکومت کے دوران ان تمام لوگوں کاحوصلہ بڑھ گیا جو ملک کی جمہوریت کو برباد کرنا چاہتے ہیں
گزشتہ چار برسوں کے دوران ملک میں اقلیتوں بلخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے بےشمار واقعات رونما ہوچکے ہیں
مگر حکومت کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی
ایسے نازک ترین وقت میں ملک کے مسلمانوں ہی نہیں تمام انصاف پسند شہریوں کی ذمہ داری ہے
وہ ملک کی جمہوریت کی بقاء و تحفظ کے حوالہ سے اپنی جواب دہی کو محسوس کرتے ہوئے
فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف پوری قوت و عزم ساتھ کھڑے ہوں اور انہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ منھ توڑ جواب دیا جائے۔