سیاسی و سماجی

زخمی جمہوریت کی صورت حال

ایک سال پہلے کی بات ہے، سی اے اے کے خلاف احتجاج کیاگیا، احتجاجی شاہین باغ میں بیٹھے، اس احتجاج میں صرف مسلمان ہی شریک نہیں تھے؛ بل کہ سکھ، سادھو اوردلت قوم کے لوگ بھی شریک تھے، ہاں یہ ضرورہے کہ چوں کہ قانون مسلم قوم کے خلاف تھا؛ اس لئے ان کی تعداد زیادہ تھی، جس طرح آج کسانوں کے احتجاج میں ہے، سارے لوگ شریک ہیں؛ لیکن کسانوں کی تعداد زیادہ ہے اوروہ بھی اس جگہ کے کسان زیادہ ہیں، جہاں کھیتی باڑی زیادہ ہوتی ہے، شاہین باغ کے احتجاج کی شروعات جامعہ ملیہ کے ہنگامہ سے ہوئی، طلبہ نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا، جس کودبانے کے لئے دہلی پولیس نے ایسی کارروائی کی، جسے دیکھ کرجمہوریت شرم سارہوئی، نہتے طلبہ پر آنسو گیس ہی نہیں چھوڑے گئے؛ بل کہ بندوق کی نال سے گولیاں بھی داغی گئیں، بلااجازت جامعہ کے کیمپس میں پولیس گھسی اورلائبریری کوتہس نہس کردیا، ہاتھ گولے بھی داغے گئے، پولیس کی ان کارروائیوں کی وجہ سے طلبہ زخمی توہوئے ہی، کئی کی جانیں بھی گئیں، اس کے بعد باقاعدہ احتجاج کے لئے شاہین باغ وجود میں آیا۔

شاہین باغ سے لوگوں کوکافی تکلیفیں تھیں؛ لیکن صرف ان لوگوں کو، جوبرسراقتدارپارٹی کے ہم نواہیں، باقی لوگوں کوکوئی تکلیف نہیں تھی، شاہین باغ آنے جانے کے لئے راستہ بھی پورے طورپربند نہیں تھا، لوگ آجا رہے تھے، ایک طرف کاراستہ مکمل طورپرکھلاتھا، گاڑیوں پرپابندی پولیس کی طرف سے لگائے گئے بریگیڈس کی وجہ سے تھی اوروہ کئی کیلومیٹرپہلے سے ہی ان لوگوں نے ایساکیاتھا؛ تاکہ شاہین باغ کوبدنام کیاجائے، شاہین باغ کوختم کرانے کے لئے بہت سارے حربے استعمال کئے گئے، بم پھینکے گئے، گولیاں چلائی گئیں، دھمکیاں دی گئیں، ٹیوٹرٹرینڈ چلایاگیا، شوسل میڈ یاز کے ذریعہ سے دہشت گرد اورنہ جانے کیاکیانہ کہاگیا؛ لیکن شاہین باغ کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی، اس کے باوجود اس کا آڑلے کردہلی کوفساد میں جھونک دیاگیا اورکروڑوں کی املاک تباہ کردی گئی، جانیں بھی گئیں، پھراس کے خلاف جوکارروائی ہوئی، وہ بھی ناانصافی پرمبنی تھی، جس کے تعلق سے قومی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ بھی آچکی ہے۔

شاہین باغ کے ٹھیک ایک سال بعد کسان آندولن شروع ہوا، حکومت نے ان کے ساتھ روابط قائم کئے اوراس تعلق سے گیارہ دورمیں تبادلۂ خیال ہوا، کل یوم جمہوریہ کو کسانوں کی طرف سے ٹریکٹرپریڈ کی بھی اجازت دی گئی ؛ حالاں کے اس سے قبل سی اے اے کے خلاف مارچ کے لئے بھی اجازت مانگی گئی تھی؛ لیکن دہلی پولیس نے اجازت نہیں دی تھی، کسانوں کواجازت دی گئی ، کسانوں کا ٹریکٹرپریڈ ہوا، اترپردیش بارڈر پرپولیس کے ساتھ کسانوں کی جھڑپ بھی ہوئی، کئی لوگ زخمی بھی ہوئے اورایک کی موت کی بھی خبر ہے، ایک سال قبل سی اے اے کے خلاف احتجاجیوں پرپولیس کی بے رحمی ؛ بل کہ ان کی غنڈہ گردی صاف دکھ رہی تھی ، جس کی وجہ سے نہتے طلبہ کی شہادت ہوئی، آج پولیس والوں کے اندروہ جوش نہیں نظرآرہاتھا؛ بل کہ اگریہ کہاجائے توبے جانہیں ہوگاکہ ان کے اندروہ دم خم تھاہی نہیں، وجہ صاف ہے کہ وہ لوگ کپڑے دیکھ کارروائی کرتے ہیں۔

کل 26؍جنوری کولال قلعہ میں جوکچھ ہوا، اس کی مذمت جتنی بھی کی جائے ، کم ہے، ایسابالکل بھی نہیں ہونا چاہئے تھا؛ لیکن اس کی وجہ سے کئی قسم کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایک تودہلی پولیس کادورخاپن صاف نظرآیا، ورنہ کیامجال کہ پولیس کا گھیراتوڑکرکوئی لال قلعہ میں جھنڈا لہرائے؟ اس کی وجہ سے جمہوریت بھی شرم سارہوئی ہے اوردیش واسیوں کوتکلیف بھی ہوئی ہے کہ لال قلعہ جیسی جگہ پر، جہاں بھارت کاپرچم لہراتاہے، وہاں دوسراپرچم لہرایاگیا، یہ کیسے ہوا؟ دہلی پولیس اس کے لئے جواب دہ ہے، یہ کس نے کیا؟ اس سے زیادہ سوال اس پراٹھناچاہئے کہ یہ کیسے ہوا؟بتایاجاتاہے کہ ہمارے ملک کاسب سے زیادہ صرفہ حفاظتی دستوں پرہوتاہے، توکیایہی وہ حفاظتی دستے ہیں، جو جھنڈے کولہرانے سے بھیڑکوقابومیں نہیں لاسکے؟ توپھران سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ چین کے مقابلہ میں کھڑے ہوسکیں گے؟ یوں بھی خبروں کے مطابق چین نے پوری کالونی آباد کرلی ہے بھارت کی سرزمین پر اوریہ صرف عوام کوبے وقوف بنانے کے لئے روزانہ ایک دھمکی آمیز جملہ پریس کی نذرکردیتے ہیں، باقی اندرسے یہ ڈھول کے پول ہیں۔

کل کے واقعہ سے یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ جس پولیس نے جے این یو، جامعہ ملیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اوربنارس یونیورسٹی میں بربریت کامظاہرہ کیاتھا، وہ کیاتھا؟ طلبہ پرتوجم کرلاٹھی چارج ہوئی اورکل خود دم دباکربھاگنے لگے، مطلب صاف ہے کہ طاقت کے آگے یہ ٹھہرنے والے نہیں، کسانوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے پولیس بھاگ کھڑی ہوئی توچین کے سامنے ڈٹنے کی ان کے اندرہمت ہے؟ پھریہ سوال بھی اہم ہے کہ جب معلوم تھا کہ ٹریکٹرپریڈ ہوگا اوراتنے بڑے پیمانہ پرپریڈ ہونے میں کچھ کھلبلی بھی مچ سکتی ہے توپھرپولیس نے اس کے لئے کیا تیاری کی تھی؟ اورکتنی؟ یہ تووہ ہیں، جونیشنل ہائی ویز پربھی گڑھے کھوددیتے ہیں؛ تاکہ لوگوں کوآگے نہ بڑھنے دیں، واٹرکین سے حملے کرتے ہیں؛ لیکن عجیب بات ہے کہ کل کہیں بھی واٹرکین سے حملے کی خبرنہیں آئی، اس سے یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ ساراڈرامہ کہیں باقاعدہ طور پر کروا یاتونہیں گیاہے؟ جیسا کہ دودن پہلے ایک شخص کی گرفتاری بھی ہوئی تھی اوراس نے میڈیاکے سامنے بیان بھی دیاتھا۔

اس ملک میں کچھ لوگ ہیں، جوجمہوریت کونیست ونابودکرناچاہتے ہیں؛ بل کہ کافی حدتک کربھی چکے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں، جنھوں نے مہاتماگاندھی کوقتل کیاتھا، جنھوں نے بابری مسجد کوشہید کیاتھا، جنھوں نے مالی گاؤں میں بم بلاسٹ کیاتھا اوروہاں نقلی داڑھی اورٹوپیاں بھی دستیاب ہوئی تھیں، جنھوں نے مکہ مسجد میں دھماکہ کیاتھا، جنھوں نے پلوامہ میں حملہ کرایاتھا، یہ وہ لوگ ہیں، جنھیں ملک سے ذرابھی محبت نہیں ہے، اگرملک سے انھیں محبت ہوتی توملک کی ترقی کے لئے ہمیشہ سوچتے، ایسے فیصلے لیتے، جوملک کو جوڑ کر رکھے، یہاں توخانہ جنگی کی کیفیت پیداہوگئی ہے، ترنگاکے سامنے دوسراپرچم لہرایا جارہاہے؛ لیکن یہ کیوں ہورہاہے؟ اس پرغورکرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت زخمی ہوچکی ہے، اس کے پورے جسم سے لہوٹپک رہاہے اورمرہم لگانے والاکوئی نہیں ہے؛ لیکن جمہوریت کوزخمی کس نے کیا؟ اوپرسے لے کرنیچے تک ہرعہدہ دارکرپشن کاشکارہے(سوائے چندکے)، ہرکام کے لئے رشوت ضروری ہے، جس کے پاس دولت ہے، وہ کچھ بھی کرسکتاہے، تازہ خبرہے کہ کوروناکی مہاماری میں پورے ملک کی معیشت تباہ ہوگئی، ہرشخص پریشان ہے؛ لیکن امبانی گروپ فائدے میں رہا اورہرگھنٹے 90کروڑکمائی کی، یعنی دن بھرمیں2160کروڑروپے کی کمائی، یہ کیسے اورکیوں کر؟ ملکی معیشت ڈانواڈول اوراڈانی وامبانی کے فائدے ہی فائدے، کتنی کمپنیاں بندہوگئیں، کتنے اسکول بندہوگئے، سیکڑوں لوگوں نے خوکشی کرلی، لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، اس پرمہنگائی کی مار، یہ ہے زخمی جمہوریت کی صورت حال ۔

کل کے واقعہ نے زخمی جمہوریت پرایک اورزخم لگایا، یہ زخم تیروتفنگ کے زخم سے زیادہ گہراہے؛ لیکن ایساہونے کیوں دیاگیا؟ کسان دومہینے سے سڑکوں پراترے ہوئے ہیں، معاملہ کوحل کیوں نہیں کیاگیا؟ لگتا ایساہے کہ کل کا واقعہ بھی کسی پلاننگ کاحصہ تھا، اوراسی پلاننگ کوانجام دینے کے لئے ٹریکٹرپریڈ کی اجازت بھی دی گئی، اور پھر اس کا فائدہ اٹھاکر کسان آندولن کوبدنام کردیاگیا، ظاہرہے کہ ملک کاکوئی باشندہ اس بات کوگوارہ نہیں کرے گا کہ کوئی بھی شخص ترنگاکے مقابلہ میں اپنا جھنڈا لہرائے؟ یہ ملک کے لئے ایک بدنما داغ ہے، جسے دھلانہیں جاسکے گا، ہاں! لیکن اس کی وجہ سے گرفتاریاں ہوں گی اورایسے ایسے لوگوں کی ہوں گی، جن کے تصور میں ایسانہیں ہوگا کہ وہ ایساکچھ کرے گا، واقعی اس ملک کی سیاست اتنی گندی ہوچکی ہے کہ اس کی صفائی ممکن نہیں، جس نے صاف کرنے کی کوشش کی، اسے ہی صاف کردیاگیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×