اسلامیات

موجودہ حالات میں قربانی کیسے کی جائے؟

قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعار ہے، سابقہ امم واقوام میں بھی قربانی انجام دی جاتی تھی، کتاب وسنت اور اسلاف وفقہاء احناف کی تعلیمات سے قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے، قربانی اسلام کا ایک مخصوص عمل ہے، جو مخصوص ایام کے ساتھ خاص ہے، دوسرے دنوں میں اس کا کوئی اعتبار نہیں، قربانی کے دن دس، گیارہ، بارہ ذی الحجہ ہیں، ان دنوں میں آدمی جب چاہے قربانی کرسکتا ہے، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے، اگر کوئی شخص (ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے) ایام قربانی میں اپنی قربانی نہیں کرسکا اور قربانی کے دن گذر گئے؛ لیکن قربانی کے ان تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کردینے سے یہ واجب ادا نہیں ہوگا، بلکہ وہ ہمیشہ گنہگار رہے گا؛ کیوں کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جیسے نماز پڑھنے سے روزہ، اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکاۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی، رسول اللہﷺ کے ارشادات اور تعامل اور پھر تعامل صحابہ اس پر شاہد ہیں۔
اس کے برخلاف بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ حالات کے پیش نظر قربانی کے بجائے لوگوں کی امداد کی جائے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کی جائے، تو اس سلسلہ میں یہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہئے کہ صدقہ الگ چیز ہے اور قربانی ایک مستقل عبادت ہے جس کا کوئی بدل اور عوض نہیں، جو شخص قربانی کرنے پر قادر ہو تو وہ خود یا پھر کسی سے بطور وکالت اپنی قربانی کرالے، اور قربانی سے پہلے ہی اس طرح مایوس ہوکر اس کی قیمت صدقہ کرنے سے وہ واجب ان کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا اور نہ وہ اپنے فریضہ سے بری ہوں گے۔
اگر کوئی شخص حتی المقدور سعی وکوشش کے باوجود قربانی نہ کرسکے تو ایام قربانی کے بعد اس کی قیمت صدقہ کردے، جب کہ جانور نہ خریدا ہو (البتہ ایام قربانی سے پہلے یا ایام قربانی میں اس طرح کرنا جائز نہیں) اور اگر جانور خرید لیا ہو اور اخیر وقت تک قربانی کرنے کی کوئی صورت اور شکل نہ بن سکے تو وہ جانور صدقہ کرنا واجب ہے؛ لیکن بعض لوگ شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قربانی کی جگہ اگر جانوروں کی قیمت غریبوں میں بانٹ دی جائے تو غریبوں کا زیادہ فائدہ ہوگا، مگر یہ جہالت کی بات ہے، ایک تو اس لئے کہ اللہ کی شریعت میں کسی کو اختیار نہیں کہ اس میں رد وبدل کرے، دوسرے اس وجہ سے کہ قربانی کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے، اس کے لئے تو شریعت نے زکاۃ اور صدقات کا ایک الگ مکمل نظام بنایا ہے، بلکہ اس کا مقصد تو اللہ کی محبت کا اظہار ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس محبت کا اظہار فرمایا تھا، اس لئے قربانی میں جانوروں کے ذبح کرنے کو ان ایام کی سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت قرار دیا گیا ہے۔
(۱) ایک اور مسئلہ واضح رہے کہ جو لوگ گذشتہ سالوں میں اپنی واجب قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے مرحومین کی جانب سے نفلی قربانی کا اہتمام کرتے تھے ان کا اس طرح کرنا درست ہے؛ لیکن موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے غرباء وضعفاء کی امداد وتعاون کرنا بہتر ہوگا؛ لیکن یہ صدقہ کرنا قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ قربانی کا ثواب بطور قربانی ملتا ہے۔
(۲) اسی طرح جو احباب ہر سال عمدہ اور گراں قیمت کا جانور خریدتے تھے وہ اب کے حالات میں ایسا جانور نہ خریدیں، بلکہ درمیانی قسم کا جانور مل جائے تو اس کی قربانی کریں اور ہمیشہ کے جانور اور اس سال کے جانور کی قیمت کے اعتبارسے جو قیمت بچ جائے تو اس کو صدقہ کردینا مناسب ہے۔
(۳) پچھلے سالوں میں جس طرح اجتماعی شکلوں میں قربانیاں دی جاتی تھیں، شہر والے یا ضلع والے جہاں کثرت سے مسلمانوں کی آبادی ہو یا پھر جہاں بکثرت آبادی مسلمانوں کی ہو اجتماعی قربانیوں کا انتظام کیا جاتا تھا، اس وبا کے زمانہ میں احتیاطی تدابیر کے پیش نظر محلہ واری سطح پر محلہ کمیٹیاں اور گاؤں دیہات کی اسلامی کمیٹیاں یا ذمہ دار لوگ آپسی مشورہ کے بعد کسی جگہ یا کسی بڑے ہال میں صفائی، پاکی اور حکومت کی گائڈ لائنس کا اہتمام کرتے ہوئے محدود انداز میں باعتبار تعداد مختلف جگہوں اور کھلی فضاؤں والے میدان کا انتخاب کرکے قربانیوں کا نظم کرلیں، ہاں یہ بات یاد رہے کہ ہوسکتا ہے کہ پچھلے سالوں کی طرح جانوروں کے ٹکڑے، صفائی اور حصہ بنانے کے لئے جو مسلم یا غیر مسلم قصاب اجرت پر کام کرتے تھے، اس سال دستیاب نہ ہوں، اس لئے قصاب برادری سے ابھی سے مشورہ کیا جائے، تاکہ عین حالات میں پریشانی اور کلفت کا باعث نہ بنے۔
(۴) جہاں تک چھوٹے جانوروں(بکرا، دنبہ، مینڈھا) کی بات ہے تو ان کو ذبح کرنا، چمڑی ادھیڑنا، صفائی کرنا اور جانور کے ٹکڑے کرنا خود سیکھ لیں، یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے، اس لئے کہ بعض جگہ طلبۂ مدارس ہی بڑے جانوروں کو ذبح کرکے خود ان کے ٹکڑے بناکر حصہ داروں تک ان کا حصہ پہونچاتے ہیں، دنیا دار لوگ تو اس کام کو ان سے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں، بازاروں میں بڑے اور چھوٹے ہر قسم کے جانور دستیاب ہیں، ہمارے علاقہ (صوبۂ تلنگانہ ) میں کشیدگی اور جانوروں سے متعلق تنگی یا خریدوفروخت میں رکاوٹ کے واقعات ابھی تک نہیں سنے گئے، آئندہ کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ علماء ودانشوران قوم، ملت کے رہنما وقائدین قربانی سے متعلق اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں میں شعور، بیداری اور حرکت پیدا کریں، اور دار الافتاء کے فتاویٰ سے جو غلط فہمی لوگوں میں پیدا ہوئی تھی اس کے ازالہ کی فکر کریں، قربانی سے متعلق جمود وقیود کی جو کیفیت ہے اس سے لوگوں کو متنبہ کریں، تاآں کہ لوگ حرکت میں آکر اپنی واجب قربانی کی کوشش میں لگ جائیں۔
(۵) چرم کے ذریعہ مدارس اسلامیہ کا جو تعاون کیا جاتا تھا اور قیمتوں کے گھٹنے کے بعد بشمول چرم جو رقم دی جاتی تھی اپنا وہ تعاون مدارس اسلامیہ کو ضرور کریں، موجود ہ حالات میں مدارس کے نظام کو مستحکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×