فقہ و فتاوی

قربانی کے اہم مسائل

(۱) ۹؍ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک بار ’’ اللہ ا کبر اللہ ا کبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ‘‘ کہنا ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد ، خواہ مقیم ہو یا مسافر ، مرد ہو یا عورت ، شہری ہو یا دیہاتی ، البتہ عورت آہستہ آواز سے کہے اور مرد درمیانی آواز سے ، یہ تکبیر یں جمعہ اور نماز عید کے بعد بھی کہی جائیں (شامی : 2:179، مصنف ابن ابی شیبہ : 5651، مستدرک حاکم:1:299 )
(۲) ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اپنی قربانی ہونے تک ناخن اور بدن کے کسی حصہ کے بال نہ کاٹے ۔ (مسلم شریف مع التکملہ 3:487)
(۳) ایامِ قربانی صرف تین دن (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ ذی الحجہ) ہیں۔ ( مسلم : 1970-71‘ موطا مالک : 774‘ المغنی لابن قدامۃ: 453/9‘ بیہقی : 19254)
(۴) ۱۰ ؍ ذی الحجہ کی صبح سے ۱۲ ؍ کے غروب آفتاب تک دن اور رات دونوں وقت قربانی جائز ہے ‘ البتہ رات میں مکروہ تنزیہی ہے۔ (طبرانی کبیر: 1458)
(۵) قربانی کے وکیل اور مؤکل دونوں کے مقام پر ’’یوم قربانی‘‘ کا ہونا ضروری ہے؛ لہٰذا اگروکیل کے مقام پر تو قربانی کا دن ہے؛ لیکن مؤکل کے مقام پر نہیں یا اس کے برعکس‘ دونوں صورتوں میں قربانی ادا نہیں ہوگی۔ (بحوالہ : چند اہم عصری مسائل : 222)
(۶) بقر عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں البتہ شہر میں متعدد جگہوں پر نماز عید ہوتی ہو تو کسی ایک جگہ نماز عید ادا کرلی جائے توسارے شہر والوں کے لیے قربانی کرنا درست ہوجاتا ہے خواہ ان کے محلوں میں ابھی تک نماز عید نہ پڑھی گئی ہو ( ھندیہ : 5:295، احسن الفتاوی: 7: 524)
(۷) مسلمان ‘ آزاد‘ مقیم‘ عاقل‘ بالغ‘ مالک نصاب ( اسباب خانہ داری کے علاوہ ۶۱۲گرام چاندی یا اتنی رقم کے مالک) پر قربانی واجب ہے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ : 14190‘ مسند احمد : 8273‘ بدائع 64/5)
(۸) اپنے ذمہ واجب قربانی ادا نہ کرکے دوسروں (مرحومین وغیرہ) کی جانب سے قربانی دینے سے اپنے ذمہ واجب‘ قربانی ادا نہیں ہوگی‘ بلکہ ایسا شخص ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوگا‘ لہٰذا پہلے اپنے ’’ذمہ واجب‘‘ قربانی ادا کرے‘ پھر اگر اللہ نے استطاعت دی ہے ‘ تو مرحومین کی جانب سے بھی ادا کرے اور اس قربانی کے گوشت کو خود یہ شخص بھی کھا سکتا ہے ، صدقہ کرنا واجب نہیں ۔ (اعلاء السنن: 17:269)
(۹) کسی مالک نصاب کی جانب سے کوئی خواہ باپ ہو یا بیٹا وغیرہ‘ اسے اطلاع دیئے بغیر قربانی کردے ‘تو اس کی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی‘ البتہ علم و اطلاع کے بعد قربانی کرے‘ تو واجب قربانی ادا ہوجائے گی۔ (بخاری : 101/7‘ فتح الباری : 19/10)
(۱۰) صرف ایک بکرا گھر کے تمام افراد کی جانب سے ذبح کردینے سے کسی کی بھی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی‘ واجب قربانی کی ادائیگی کے لئے ہر شخص (مالکِ نصاب) کی جانب سے علحدہ ایک بکرا یا بڑے جانور میں سے ایک حصہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد : 8273‘ اعلاء السنن : 208/17)
(۱۱) قربانی کی ادائیگی کے لئے بکرے کا مکمل ایک سال ‘ گائے ‘ بیل‘ بھینس کا مکمل دو سال اور اونٹ کا مکمل پانچ سال کا ہونا ضروری ہے‘ اگر بکرا سال بھر سے ایک دن بھی کم عمر کا ہو تو شرعاً اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی؛ البتہ دنبہ اگر سال بھر سے کم رہے؛ لیکن اس قدر فربہ ہے کہ ‘ دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہوتا ہے‘ تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسلم : 1963‘ مرقاۃ المفاتیح: 1079/3)
(۱۲) بکرے اور دنبے میں ایک حصہ اور گائے‘ بھینس‘ اونٹ وغیرہ تمام بڑے جانوروں میں سات حصے ہوں گے۔ (ابن ماجہ: 3136‘ مسلم : 1318)
(۱۳) سات شرکاء میں سے کسی ایک کی بھی نیت محض گوشت حاصل کرنے کی ہو تو ‘ کسی کی بھی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ عالمگیریہ: 304/5)
(۱۴) بڑے جانور میں کچھ حصے قربانی کے لئے ہوں اور کچھ عقیقہ یا ولیمہ کیلئے ہوں‘ تو اس کی اجازت ہے۔ (شامی: 326/6)
(۱۵) ایک حصے کا ثواب متعدد اموات کو پہنچانا جائز ہے۔ (مسند احمد: 27190۔ ابن ماجہ : 3147)
(۱۶) بڑے جانور میں کوئی شخص دیگر چھ کی شرکت کے ساتھ قربانی کرنا چاہتا ہے‘ تو بہتر یہ ہے کہ‘ پہلے چھ حصہ داروں کو تلاش کرے‘ پھر جانور خریدے؛ تاہم اگر پہلے جانور خریدکر پھر حصہ داروں کو تلاش کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ (مجمع الانھر‘ کتاب الاضحیۃ : 169/4، بدائع : 5:72)
(۱۷) سات حصے دار جس طرح گوشت میں اپنے حصے کے مطابق شریک ہوتے ہیں‘ اسی طرح چرم میں بھی سب برابر کے شریک ہوں گے‘ کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکاء سے اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھ لینا یا کسی دوسرے کو دے دینا جائز نہیں۔ ( مجمع الانھر: 174/4)
(۱۸) قربانی کے جانور سے کسی بھی قسم کا انتفاع (فائدہ اٹھانا) مثلاً دودھ نکالنا‘ اس کے بال کٹواکر استعمال میں لانا یا بیچنا وغیرہ سب ناجائز ہے‘ اگر ضرورت کی بنیاد پر بال کاٹے گئے یا دودھ نکالا گیا‘ تو اس کا صدقہ کردینا واجب ہے۔ (فتاویٰ عالمگیریہ : 301/5‘ شامی : 329/6)
(۱۹) خصی جانورکی قربانی جائز اور صحیح ہے۔ (مسند احمد : 25843)
(۲۰) ایسی گابھن گائے وغیرہ‘ جو قریب الولادۃ ہے‘ اس کی قربانی مکروہ ہے۔ ( شامی‘ کتاب الذبائح: 304/6)
(۲۱) اگر جانور کے پیٹ سے بچہ نکل آئے اور وہ زندہ ہو‘ تو اسے بھی ذبح کرکے استعمال کرلیں یا زندہ صدقہ کردیں لیکن اگر ایام قربانی گزر گئے تو اب زندہ صدقہ کرنا ہی لازم ہے ، آئندہ سال تک اس کو رکھ کر اپنی قربانی میں ذبح کرنا درست نہیں (شامی : 5:315، اعلاء السنن 17:276 ) اور مردہ نکلے تو اس کو استعمال میں نہیں لاسکتے۔ ( ترمذی: 1503۔شامی : 322/6)
(۲۲) جانور کو وزن کرکے بیچنا اور خریدنا دونوں جائز ہے۔ (فتاویٰ عثمانی: 98/3)
(۲۳) ایسا لنگڑا جانور ‘ جو مذبح تک چل کر نہیں جاسکتا‘ یا جس پیر پر زخم ہے‘ اسے زمین پر رکھ کر نہیں چل سکتا‘ اس کی قربانی جائز نہیں ہے؛ البتہ لنگڑ کر چلتا ہو اور زخم شدہ پیر بھی زمین پر رکھ کر اس کا بھی سہارا لیتا ہو تو ‘ ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔ (ابوداؤد: 2806۔ مرقاۃ المفاتیح: 1085/3)
(۲۴) جس جانور کو پیدائشی طورپر سینگ نہیں ہے‘ یا آدھا‘ یا اس سے زیادہ سینگ ٹوٹ گیا اور گودا و دماغ تک اس کا کوئی اثر نہیں پہنچا‘ تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے‘ البتہ ٹوٹنے کا اثر گودا اور دماغ تک پہنچ گیا یا مکمل جڑ سے سینگ ٹوٹ گیا تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (طحاوی شریف: 6198۔ اعلاء السنن:237/1۔ ابودائود: 2803)
(۲۵) ایسا جانور کہ‘ جس کا مکمل یا ایک تہائی حصے کے برابر کان یا دم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے؛ البتہ ایک تہائی سے کم ہو‘ تو درست ہے۔ (شامی: 498/9)
(۲۶) جس جانور کا کان درمیان سے صرف چیر دیا گیا ہو یا تہائی سے کم کاٹ دیا گیا ہو اس کی قربانی جائز ہے۔ (بدائع: 316/6) اور اگر دونوں کانوں کا کچھ کچھ حصہ کٹا ہوا ہو تو دونوں کو جمع کرکے دیکھاجائے اگر مجموعہ تہائی کان تک پہنچ جائے یا اس سے بڑھ جائے تو قربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے ۔ (شامی : 5:206)
(۲۷) بھیڑ بکری کے تھن کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کاٹ دیا گیا ہو یا ایک تھن خشک ہوگیا ہو یا اس کی گھنڈی جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں اور اونٹنی ، گائے ، بھینس میں اگر دو گھنڈیاں جاتی رہی ہو تو ان کی قربانی درست نہیں ۔(ہندیہ : 5:298)
(۲۸) جس جانور کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہو‘ اس کی قربانی جائزنہیں ہے۔ (ابوداؤد : 2802۔ اعلاء السنن : 239/17 )
(۲۹) جس جانور کے دانت اس قدر گرچکے کہ‘ وہ چارہ کھانے کے قابل نہیں رہا‘ اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (اعلاء السنن : 253/17۔شامی : 469/9)
(۳۰) کسی جانور کے اعضاء زائد ہوں مثلا چار کے بجائے پانچ ٹانگیں ہوں تو چوں کہ یہ عیب ہے لہذا ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔ ( المحیط البرہانی :8:17، بحوالہ قربانی کے مسائل مفتی احمد ممتاز : 16)
(۳۱) ذبح کرنے کے لئے جانور کو گراتے وقت اس میں کوئی عیب پیدا ہوجائے ‘ تو اس کی قربانی جائز و درست ہوگی۔( بدائع : 76/5)
(۳۲) صاحب نصاب آدمی کا جانور مرجائے یا بھاگ جائے یا عیب دار ہوجائے تو نیا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے‘ ہاں جس کا جانور مرا‘ یا بھاگا ہے‘ اور وہ مالکِ نصاب نہیں ہے‘ تو اس پر نیا جانور خرید کر قربانی کرنا لازم نہیں ہے اور عیب دار ہو جانے کی صورت میں اس کے لئے اسی جانور کی قربانی کردینا کافی ہے۔ ( ابو داؤد : 3386‘ 3384‘ اعلاء السنن : 279/17‘ شامی: 325/6 )
(۳۳) قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائیں اور قبلہ رو ہو کر یہ دعا پڑھیں :
انی وجہت وجہی للذی فطر السموات والارض حنیفا و ما انا من المشرکین ، ان صلاتی و نسکی و محیای ومماتی للہ رب العلمین ، لاشریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین ، اللہم منک ولک پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کریں اور ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں :
اللہم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد و خلیلک ابراہیم علیہما السلام ‘‘
اگر کسی دوسرے کی جانب سے قربانی کر رہا ہو تو ’’منی ‘‘ کے جگہ ’’من‘‘ کہہ کر اس کا نام لے ، ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلیں ، ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں ، ذبح کرنے میں جانور کی گردن نہ توڑیں اور جلدی ٹھنڈا کرنے کے لئے اس کا حرام مغز نہ کاٹیں ، کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے میں جلدی نہ کریں جب تک جانور پوری طرح ٹھنڈا نہ ہوجائے ( بدائع وغیرہ )
نوٹ : قربانی کی دعا پڑھنا ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے ، ہاں بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرنا اور قربانی کی نیت کرنا ضروری ہے ۔
(۳۴) قربانی کے وقت سب شرکاء کا موجود رہنا ضروری نہیں بلکہ اجازت کافی ہے ؛ البتہ موجود رہنامستحب ہے ، نیز جانور کو ذبح کرتے وقت شرکاء کے نام پکارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں ذبح کرنے والا نیت میں ان سب کی جانب سے ذبح کرنے کا خیال رکھے اور اتفاقاً نام پکار دیئے جائیں اور مقصود خبر کرنا ہو تو مضائقہ نہیں ۔ ( جامع الفتاوی : 8:222)
(۳۵) مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقراء کے لیے دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لیے اور تیسرا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ، البتہ اگر سارا گوشت خود رکھنا چاہے تو بھی جائز ہے ۔ ( ھندیہ : 5:300 )
(۳۶) قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے ۔ (ہندیہ : 5:305 )
(۳۷) جانور کی سات (7) چیزیں کھانا مکروہ تحریمی اور ناجائزہے۔
(۱) پتہ (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود ( گھٹلی کی صورت میں جما ہوا خون) (۴) نر و مادہ کی شرمگاہ (۵) کپورے (۶) خون (۷) حرام مغز (پشت کا مہرہ)۔ ( بیہقی سنن کبریٰ : 19700‘ کنزالدقائق : 432)
(۳۸) انتڑیاں‘ اوجھڑی‘ بٹ (بوٹی) وغیرہ کھانا حلال و جائز ہے‘ اس لئے کہ احادیث شریفہ میں جن چیزوں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے ‘ ان میں یہ داخل نہیں ہے۔ ( المعجم الکبیر طبرانی: 44/25‘ بیہقی سنن کبریٰ : 19700)
(۳۹) قربانی کرنے والا قربانی کی کھال کا جائے نماز یا مشکیزہ یا دستر خوان بناکر خود استعمال کرسکتا ہے البتہ اگر وہ اس کو روپیہ کے بدلے بیچ دے تو ان روپیوں کا صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ ( شامی : 5:328، ط: سعید )
(۴۰) ایامِ قربانی میں کسی وجہ سے خرید کر دہ جانور کی قربانی نہیں کرسکا تو اس زندہ جانور کا صدقہ کرناواجب ہے اور اگر ناواقفیت کی وجہ سے اس کو ذبح کردیا تو اس کا گوشت پوست صدقہ کردے ، اگر گوشت پوست اپنے استعمال میں لایا ہے تو اس کی قیمت صدقہ کردے ، نیز زندہ جانور کی قیمت اگر گوشت پوست سے زیادہ ہے تو وہ زیادتی بھی صدقہ کردے ۔ (شامی : 6: 320المکتبۃ الشاملۃ )
(۴۱) کسی نے ایک سال کی یا کئی سالوں کی واجب قربانی ادا نہیں کی ، اب اس کو توفیق ہوئی تو وہ سابقہ سالوں میں سے ہر سال کی قربانی کے عوض ایک درمیانی بکری کی قیمت کسی مسکین کو دیدے ، گائے کے ساتویں حصے کی قیمت دینے سے بری الذمہ نہ ہوگا ۔ ( احسن الفتاوی : 7:480)
(۴۲) غلطی سے ایک نے دوسرے کی قربانی کا جانور ذبح کردیا تو دونوں کی قربانی صحیح ہوگئی ، ذبح کے بعد دونوں اپنا اپنا جانور لے لیں یا اس جانور کو ایک دوسرے کے حق میں حلال کردیں ۔ ( ہندیہ : 5:302)

 

مفتی محمد مکرم محی الدین حسامی قاسمی

صدر مفتی دار الافتاء صفا بیت المال
فون نمبر : 9394419824

مفتی محمد مجاہد خان قاسمی

انچارج صفا شریعت ہیلپ لائن
فون نمبر : 9394419829

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×