اسلامیات
حصول علم کے رہنما اصول
علم بڑا غیور ہے، جب آپ سب کچھ تج دیتے ہیں اور اس کی چوکھٹ پر حاضر باشی آپ کا وظیفہ زندگی بن جاتا ہے تب اس کے دربار میں باریابی ملتی ہے اور کچھ حاصل ہوپاتا ہے.
کسی بھی کام میں دلجمعی تسلسل، مداومت، کامیابی کی کنجی ہوتی ہے. اگر یہ سب کچھ تجارت، زراعت، سیاست، سیاحت، وجاہت کے لیے ہو تو دیر سویر اس میدان کی کچھ نہ کچھ حصولیابیاں حصہ میں ضرور آئیں گی، اور اگر کوئی زیور علم سے آراستہ ہونے کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے تو پھر اس کے اندر بھی علمی جمال پیدا ہوگا اور اس کی نورانی کرنیں دور دور تک پہونچیں گی. علم کی چھاپ بڑی گہری ہوتی ہے، اور صاحب علم کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے، اس لئے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا نام جریدہ عالم پرثبت ہو جائے،اور ایسا نمایاں مقام ملےجو قابل رشک بھی ہو اور قابل تقلید بھی.در اصل علم ہی وہ انمول شئی ہے جس کے فیضان کی حدیں وسرحدیں بہت وسیع ہیں،یہاں تک کہ زمان و مکان کے حدود وقیود سے ماوراء.
بس علم سچی طلب اور پکی محنت چاہتا ہے. کیوں کہ انسان کو کوشش کے بقدر ملتا ہے اور وہ وہی کاٹتا ہے جس کی وہ فصل لگاتا ہے.امام اسماعیل جرجانی رحمہ اللہ ہر رات میں مختلف علوم وفنون پر محیط نوے اوراق لکھا کرتے تھے.امام شافعی رحمہ اللہ نے،امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات اور اخذ حدیث کے لئے مدینہ منورہ کا سفر کیا.امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یمن اور بصرہ کے لیے رخت سفر باندھا. عیسی بن یونس،امام اوزاعی سے ملنے کے لیے شام پہونچے.حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں امام بخاری رحمہ اللہ کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ ان کی یہ عادت تھی کہ رات میں سوتے سے اٹھتے، چراغ جلاتے اور جو علمی باتیں ذہن میں آتیں ، انہیں تحریر میں لاتے اور پھر چراغ گل کر کے سوجاتے، پھر کوئی بات ذہن میں آتی تو پھر اسے قلم بند کرنے کے لیے اٹھتے، اس طرح کبھی کبھی اٹھنے کی تعداد بیس کے قریب پہنچ جاتی۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عیش و عشرت سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور دنیا داریوں و دنیوی خواہشات پر قابو یافتہ ہو کر فنا فی العلم ہوگئے. انہوں نے اپنی اس فنائیت کو جاوداں اور شوق کو سدا بہار بنا کر ایسا علمی چمن آراستہ کیا جس کی بہار کو خزاں نہیں، جس کا ہر موسم،موسم گل ہے اور جس کی خوشہ چینی دنیا، رہتی دنیا تک کرتی رہے گی. ابن قیم رحمه الله کا قول ہے -:لا ینال العلم إلا بهجر اللذات، وتطلیق الراحة. علم لذتوں اور راحتوں سے کنارہ کشی اختیار کیے بغیر نہیں مل پاتا.
قال ابن المدینی رحمه الله-: قیل للشعبی: من أین لك هذا العلم كله؟ قال: بنفی الاعتماد (أی الاعتماد على الغیر) والسیر فی البلاد، وصبر كصبر الحمار، وبكور كبكور الغراب.
ابن المدینی نے کہا کہ امام شعبی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ یہ سارا علم آپ نے کیسےحاصل کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا:- "خود پر اعتماد نہ کرنے،مختلف شہروں کا سفر کرنے، گدھے کے صبر کی طرح صبر کرنےاور کوے کی طرح صبح سویرے جاگنے سے۔‘‘
مذکورہ حقائق و واقعات کی بناء پر راہ علم کے کے ہر راہرو کے پیش نظر یہ حقیقت رہنا چاہیےکہ یہ سفر وقت طلب بھی ہوتا ہے اور دقت آمیز بھی. اس سفر میں خار زار وادیوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے اور حوصلہ فرسا حالات سے بھی. اس لیے جنھیں علم کے آب حیات سے سیراب ہونے کا سچا شوق ہے، انھیں کسی بھی حال میں نا امید نہیں ہونا چاہیے. بل کہ ہرحال میں پر امید رہنا چاہیے کہ طلب جب سچی ہے تو ہمارا بخت، ہم بخت سکندر کیوں نہیں ہوسکتا اور ہم مملکت علم کےتاجدار کیوں نہیں بن سکتے.
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول ہمارے علمی حوصلوں کے لیے حوصلہ افزا بھی ہے اور سبق آموز بھی. وہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: مكثت في الحيض تسع سنين حتى فهمته. "مجھے حیض کے باب کو سمجھنے میں نو برس تک ٹھیرنا پڑا”
یہ واقعات علوم و فنون کے طالبین و شائقین کے شوق علم کو مہمیز دینے کے لیے کافی ہیں،ساتھ ہی ان سے یہ نصیحت بھی ملتی ہے کہ اس راہ میں کبھی دل بر داشتہ نہیں ہونا چاہیے،بلکہ قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غوروفکر میں منہمک رہنا چاہیے.
تحصیل علم کے دورانیہ میں کتابوں کی، کتابوں کے رکھ رکھاؤ، ادب و احترام کی اپنی اہمیت ہے، ان کتابوں کا درس دینے والے اساتذہ و مشائخ کی ضرورت اور ان کا تقدس بھی تسلیم شدہ ہے،اور جہاں ایک ہمہ جہت نظام کے تحت ان دونوں کا اجتماع ہوتا ہے، یعنی جامعات اور مدارس ان کا بھی اپنا مقام ہے. یہاں تک کہ ان ستودہ صفات صاحبان علوم و فنون تک رسائی،اور کسب فیض کے لیے بہتر سے بہتر اداروں تک پہونچنے کے لیےپر مشقت سفر کرنا بھی ناگزیر ہے. اس علمی وتعلیمی سفر کی بھیpr اپنی اہمیت، افادیت اور برکت ہے.
علم حاصل کرنے اور صاحبِ علم سے ملاقات کرنے کی بنیاد حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ ہے جوrqجوrqlwal قرآن کریم کی سورہ الکہف میں مذکور ہے. یہ سفر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم یوشع بن نون کے ساتھ اللہ کے ایک خاص بندہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے کیا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم لدنی یعنی اسرار و معارف کے الہامی علوم اور اپنی خصوصی رحمتوں سے نوازا تھا. ملاقات ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:-” آپ مجھے اس علم میں سے کچھ سکھائیں جو آپ کو رہنمائی کے لئے عطا کیا گیا ہے” (الکہف)
اسی طرح عہد نبوی میں لوگ انفرادی و اجتماعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں قرآن سننے اور سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے، بعض لوگ دین کی بنیادی معلومات اور ضروری اسلامی تعلیمات کی غرض سے حاضر خدمت ہوتے، کچھ حضرات تو دور دراز سے وفود کی شکل میں آتے اور معرفت حاصل کرتے اور پھر واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات مبارکہ میں علم حاصل کرنے کے لئے اسفار کی ترغیب دی ہے. امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العلم میں، ترجمۃ الباب کے تحت بیان کیا ہے :
” بے شک علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں،انہوں نے علم کی میراث چھوڑی ہے، پس جس نے اس علمی میراث کو حاصل کر لیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا. جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے”.
اسی مضمون کی حدیث مسلم شریف میں بھی آئی ہے. حدیث کے الفاظ ہیں :
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ
’’جو شخص علم کے حصول کے لئے نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتاہے”.
علم کے شائقین وطالبین کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے کہ علم کی تلاش میں نکلنا گویا جنت کی جانب سفر کرنا ہے. اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علم کے طالبین کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس میں اخلاص اور شفافیت کی کار فرمائ ہو، ایسی شفافیت جو جنت تک پہونچادے، اور جنت اللہ کی رضا کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے،اس سے معلوم ہوا کہ علم کا مقصود اصلی اللہ کی رضا ہونا چاہیے،اس نیت سے رہ نوردی و دشت پیمائی سے جنت تک پہونچنا آسان ہو جایے گا. علم اپنے آپ میں نور ہے، جس کا سرچشمہ اللہ جل جلالہ کی ذات ہے. اس لیے علم اسی کو ملتا اور اسی کے پاس ٹھیرتا ہے جہاں جذبہ اور نیت دونوں پر نور ہوں.
پہلے زمانے میں آج کی طرح سفری سہولیات نہیں تھیں اور نہ ہی جامعات اور علمی مراکز کی کثرت تھی. اسی لئے اس وقت جو اس راہ میں نکلتا اس سے کہا جاتا کہ کمر کس لو اور لوہے کا جوتا تیار کر لو. اب تو سہولیات کا دور دورہ ہے، بہت کچھ ڈیجیٹل اور آن لائن ہوگیا ہے. ہمارے اسلاف اور اکابرین کی مہمات اور جامع منصوبہ بندیوں کی بدولت جگہ جگہ تعلیمی ادارے موجود ہیں.دوسری جانب سفری سہولیات کی وجہ سے دور دراز کے شہرہ آفاق اداروں تک رسائی اور یگانہ روزگار ماہرین فن سے کسب فیض کے لیے حاضری بالکل آسان ہے. لائبریریوں اور کتب خانوں کی کثرت کی وجہ سے اب کتابوں اور کتب بینی کا کوئی مسئلہ نہیں رہا. انٹرنیٹ بھی اب عام ہے.دنیا جہاں کی کتابیں ایک کلک پر سامنے آجاتی ہیں. دن بدن سہولیات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے،یعنی چمن علم کی زمین بالکل تیار، ہموار اور آراستہ ہے، ذوق و شوق کے تمام سامان بھی مہیا ہیں، بس علم و فن کے شائقین اور خوشہ چینوں کو اپنے دامن طلب کو وسیع کرنے اور شوق فراواں کا ثبوت بہم پہنچانےکی ضرورت ہے.ان سب کے باوجود علم کے نور سے آراستہ ہونے اور اس کی خیرو برکات سے فیضیاب ہونے میں اساتذہ ومشائخ کی تادیب و تربیت اور ان کی نظر التفات کا اہم کردار ہوتا ہے.اساتذہ کرام کی توجہات و تجربات سے وہ علمی گہرائی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے جو محض رسمی تعلیم اور کتابوں سےحاصل نہیں ہوسکتی ہے. بغیر صحیح رہنمائی اور ٹھوس تربیت کے، تعلیمی درجہ بندی کی خانہ پری اور نصاب کی تکمیل تو کی جا سکتی ہے، ساتھ ہی معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ بھی جمع ہوسکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے. یہ علم بے جہت و بے سمت بھی ہوسکتا ہے، اور ضرر رساں بھی،لیکن علم نافع تو نہیں ہوسکتا ہے، جب کہ مقصود علم نافع ہے، جس سے صاحب علم بھی نفع حاصل کرے اور خلقت بھی فیضیاب ہو. خلاصہ یہ کہ ایک سچے طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اس کی نیت درست، ہمت جواں، ارادہ بلند، مقصد واضح ہو، مزاج میں انکسار، طبیعت میں اطاعت شعاری کا جوہرہو.ان جیسی خوبیوں کے ساتھ تحصیل علم کے لیے کمر کسنے والےبارگاہِ علم میں باریاب بھی ہوتے ہیں اوربامراد بھی.
کسی بھی کام میں دلجمعی تسلسل، مداومت، کامیابی کی کنجی ہوتی ہے. اگر یہ سب کچھ تجارت، زراعت، سیاست، سیاحت، وجاہت کے لیے ہو تو دیر سویر اس میدان کی کچھ نہ کچھ حصولیابیاں حصہ میں ضرور آئیں گی، اور اگر کوئی زیور علم سے آراستہ ہونے کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے تو پھر اس کے اندر بھی علمی جمال پیدا ہوگا اور اس کی نورانی کرنیں دور دور تک پہونچیں گی. علم کی چھاپ بڑی گہری ہوتی ہے، اور صاحب علم کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے، اس لئے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا نام جریدہ عالم پرثبت ہو جائے،اور ایسا نمایاں مقام ملےجو قابل رشک بھی ہو اور قابل تقلید بھی.در اصل علم ہی وہ انمول شئی ہے جس کے فیضان کی حدیں وسرحدیں بہت وسیع ہیں،یہاں تک کہ زمان و مکان کے حدود وقیود سے ماوراء.
بس علم سچی طلب اور پکی محنت چاہتا ہے. کیوں کہ انسان کو کوشش کے بقدر ملتا ہے اور وہ وہی کاٹتا ہے جس کی وہ فصل لگاتا ہے.امام اسماعیل جرجانی رحمہ اللہ ہر رات میں مختلف علوم وفنون پر محیط نوے اوراق لکھا کرتے تھے.امام شافعی رحمہ اللہ نے،امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات اور اخذ حدیث کے لئے مدینہ منورہ کا سفر کیا.امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یمن اور بصرہ کے لیے رخت سفر باندھا. عیسی بن یونس،امام اوزاعی سے ملنے کے لیے شام پہونچے.حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں امام بخاری رحمہ اللہ کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ ان کی یہ عادت تھی کہ رات میں سوتے سے اٹھتے، چراغ جلاتے اور جو علمی باتیں ذہن میں آتیں ، انہیں تحریر میں لاتے اور پھر چراغ گل کر کے سوجاتے، پھر کوئی بات ذہن میں آتی تو پھر اسے قلم بند کرنے کے لیے اٹھتے، اس طرح کبھی کبھی اٹھنے کی تعداد بیس کے قریب پہنچ جاتی۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عیش و عشرت سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور دنیا داریوں و دنیوی خواہشات پر قابو یافتہ ہو کر فنا فی العلم ہوگئے. انہوں نے اپنی اس فنائیت کو جاوداں اور شوق کو سدا بہار بنا کر ایسا علمی چمن آراستہ کیا جس کی بہار کو خزاں نہیں، جس کا ہر موسم،موسم گل ہے اور جس کی خوشہ چینی دنیا، رہتی دنیا تک کرتی رہے گی. ابن قیم رحمه الله کا قول ہے -:لا ینال العلم إلا بهجر اللذات، وتطلیق الراحة. علم لذتوں اور راحتوں سے کنارہ کشی اختیار کیے بغیر نہیں مل پاتا.
قال ابن المدینی رحمه الله-: قیل للشعبی: من أین لك هذا العلم كله؟ قال: بنفی الاعتماد (أی الاعتماد على الغیر) والسیر فی البلاد، وصبر كصبر الحمار، وبكور كبكور الغراب.
ابن المدینی نے کہا کہ امام شعبی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ یہ سارا علم آپ نے کیسےحاصل کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا:- "خود پر اعتماد نہ کرنے،مختلف شہروں کا سفر کرنے، گدھے کے صبر کی طرح صبر کرنےاور کوے کی طرح صبح سویرے جاگنے سے۔‘‘
مذکورہ حقائق و واقعات کی بناء پر راہ علم کے کے ہر راہرو کے پیش نظر یہ حقیقت رہنا چاہیےکہ یہ سفر وقت طلب بھی ہوتا ہے اور دقت آمیز بھی. اس سفر میں خار زار وادیوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے اور حوصلہ فرسا حالات سے بھی. اس لیے جنھیں علم کے آب حیات سے سیراب ہونے کا سچا شوق ہے، انھیں کسی بھی حال میں نا امید نہیں ہونا چاہیے. بل کہ ہرحال میں پر امید رہنا چاہیے کہ طلب جب سچی ہے تو ہمارا بخت، ہم بخت سکندر کیوں نہیں ہوسکتا اور ہم مملکت علم کےتاجدار کیوں نہیں بن سکتے.
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول ہمارے علمی حوصلوں کے لیے حوصلہ افزا بھی ہے اور سبق آموز بھی. وہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: مكثت في الحيض تسع سنين حتى فهمته. "مجھے حیض کے باب کو سمجھنے میں نو برس تک ٹھیرنا پڑا”
یہ واقعات علوم و فنون کے طالبین و شائقین کے شوق علم کو مہمیز دینے کے لیے کافی ہیں،ساتھ ہی ان سے یہ نصیحت بھی ملتی ہے کہ اس راہ میں کبھی دل بر داشتہ نہیں ہونا چاہیے،بلکہ قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غوروفکر میں منہمک رہنا چاہیے.
تحصیل علم کے دورانیہ میں کتابوں کی، کتابوں کے رکھ رکھاؤ، ادب و احترام کی اپنی اہمیت ہے، ان کتابوں کا درس دینے والے اساتذہ و مشائخ کی ضرورت اور ان کا تقدس بھی تسلیم شدہ ہے،اور جہاں ایک ہمہ جہت نظام کے تحت ان دونوں کا اجتماع ہوتا ہے، یعنی جامعات اور مدارس ان کا بھی اپنا مقام ہے. یہاں تک کہ ان ستودہ صفات صاحبان علوم و فنون تک رسائی،اور کسب فیض کے لیے بہتر سے بہتر اداروں تک پہونچنے کے لیےپر مشقت سفر کرنا بھی ناگزیر ہے. اس علمی وتعلیمی سفر کی بھیpr اپنی اہمیت، افادیت اور برکت ہے.
علم حاصل کرنے اور صاحبِ علم سے ملاقات کرنے کی بنیاد حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ ہے جوrqجوrqlwal قرآن کریم کی سورہ الکہف میں مذکور ہے. یہ سفر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم یوشع بن نون کے ساتھ اللہ کے ایک خاص بندہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے کیا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم لدنی یعنی اسرار و معارف کے الہامی علوم اور اپنی خصوصی رحمتوں سے نوازا تھا. ملاقات ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:-” آپ مجھے اس علم میں سے کچھ سکھائیں جو آپ کو رہنمائی کے لئے عطا کیا گیا ہے” (الکہف)
اسی طرح عہد نبوی میں لوگ انفرادی و اجتماعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں قرآن سننے اور سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے، بعض لوگ دین کی بنیادی معلومات اور ضروری اسلامی تعلیمات کی غرض سے حاضر خدمت ہوتے، کچھ حضرات تو دور دراز سے وفود کی شکل میں آتے اور معرفت حاصل کرتے اور پھر واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات مبارکہ میں علم حاصل کرنے کے لئے اسفار کی ترغیب دی ہے. امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العلم میں، ترجمۃ الباب کے تحت بیان کیا ہے :
” بے شک علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں،انہوں نے علم کی میراث چھوڑی ہے، پس جس نے اس علمی میراث کو حاصل کر لیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا. جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے”.
اسی مضمون کی حدیث مسلم شریف میں بھی آئی ہے. حدیث کے الفاظ ہیں :
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ
’’جو شخص علم کے حصول کے لئے نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتاہے”.
علم کے شائقین وطالبین کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے کہ علم کی تلاش میں نکلنا گویا جنت کی جانب سفر کرنا ہے. اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علم کے طالبین کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس میں اخلاص اور شفافیت کی کار فرمائ ہو، ایسی شفافیت جو جنت تک پہونچادے، اور جنت اللہ کی رضا کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے،اس سے معلوم ہوا کہ علم کا مقصود اصلی اللہ کی رضا ہونا چاہیے،اس نیت سے رہ نوردی و دشت پیمائی سے جنت تک پہونچنا آسان ہو جایے گا. علم اپنے آپ میں نور ہے، جس کا سرچشمہ اللہ جل جلالہ کی ذات ہے. اس لیے علم اسی کو ملتا اور اسی کے پاس ٹھیرتا ہے جہاں جذبہ اور نیت دونوں پر نور ہوں.
پہلے زمانے میں آج کی طرح سفری سہولیات نہیں تھیں اور نہ ہی جامعات اور علمی مراکز کی کثرت تھی. اسی لئے اس وقت جو اس راہ میں نکلتا اس سے کہا جاتا کہ کمر کس لو اور لوہے کا جوتا تیار کر لو. اب تو سہولیات کا دور دورہ ہے، بہت کچھ ڈیجیٹل اور آن لائن ہوگیا ہے. ہمارے اسلاف اور اکابرین کی مہمات اور جامع منصوبہ بندیوں کی بدولت جگہ جگہ تعلیمی ادارے موجود ہیں.دوسری جانب سفری سہولیات کی وجہ سے دور دراز کے شہرہ آفاق اداروں تک رسائی اور یگانہ روزگار ماہرین فن سے کسب فیض کے لیے حاضری بالکل آسان ہے. لائبریریوں اور کتب خانوں کی کثرت کی وجہ سے اب کتابوں اور کتب بینی کا کوئی مسئلہ نہیں رہا. انٹرنیٹ بھی اب عام ہے.دنیا جہاں کی کتابیں ایک کلک پر سامنے آجاتی ہیں. دن بدن سہولیات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے،یعنی چمن علم کی زمین بالکل تیار، ہموار اور آراستہ ہے، ذوق و شوق کے تمام سامان بھی مہیا ہیں، بس علم و فن کے شائقین اور خوشہ چینوں کو اپنے دامن طلب کو وسیع کرنے اور شوق فراواں کا ثبوت بہم پہنچانےکی ضرورت ہے.ان سب کے باوجود علم کے نور سے آراستہ ہونے اور اس کی خیرو برکات سے فیضیاب ہونے میں اساتذہ ومشائخ کی تادیب و تربیت اور ان کی نظر التفات کا اہم کردار ہوتا ہے.اساتذہ کرام کی توجہات و تجربات سے وہ علمی گہرائی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے جو محض رسمی تعلیم اور کتابوں سےحاصل نہیں ہوسکتی ہے. بغیر صحیح رہنمائی اور ٹھوس تربیت کے، تعلیمی درجہ بندی کی خانہ پری اور نصاب کی تکمیل تو کی جا سکتی ہے، ساتھ ہی معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ بھی جمع ہوسکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے. یہ علم بے جہت و بے سمت بھی ہوسکتا ہے، اور ضرر رساں بھی،لیکن علم نافع تو نہیں ہوسکتا ہے، جب کہ مقصود علم نافع ہے، جس سے صاحب علم بھی نفع حاصل کرے اور خلقت بھی فیضیاب ہو. خلاصہ یہ کہ ایک سچے طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اس کی نیت درست، ہمت جواں، ارادہ بلند، مقصد واضح ہو، مزاج میں انکسار، طبیعت میں اطاعت شعاری کا جوہرہو.ان جیسی خوبیوں کے ساتھ تحصیل علم کے لیے کمر کسنے والےبارگاہِ علم میں باریاب بھی ہوتے ہیں اوربامراد بھی.