فقہ و فتاوی

حرمت مصاہرت کا مسئلہ

اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے ایک پاکیزہ اور جائز طریقہ دیا ہے ،جسے نکاح کا نام دیا جاتا ہے ، دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ذریعہ دو اجنبی اس مبارک رشتے میں جڑ کر ایک دوسرے کے لئے تسکین کا سامان پیدا کرتے ہیں ، لیکن نکاح کرنے والے مرد و عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ کن سے نکاح درست ہے اور کن سے درست نہیںہے،شریعت نے جن عورتوں سے نکاح کو حرام قرار دیا ہے ان کو محرمات سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جن عورتوںسے نکاح حرام ہے ان میں تین قسم کے رشتے بنیادی طور پر اہم ہیں جن کو’’ محرمات ابدیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے ، وہ تین اسباب یہ ہیں: نسب ، رضاعت اور مصاہرت،چند دن قبل ایک تحریر و اٹس ایب پر گشت کر رہی تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ زنا یا دواعی زنا سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے اس پس منظر میں یہ تحریر پیش کی جارہی ہے کہ احناف کا مسئلہ حرمت مصاہرت کا مضبوط دلائل اور مستحکم بنیاد پر قائم ہے اس لیے بلا ضرورت اس سے عدول کرنا سوائے سہولت پسندی کے کچھ نہیں ہے ، بہت سے مسائل میں احناف کے یہاں سہولت ہے اور شوافع کے یہاں سختی معلوم ہوتی ہے لیکن شوافع اس پر عمل کرتے ہیں اس لیے کہ وہ ان کے امام کا مسلک ہے اسی طرح احناف بھی اپنے امام کے مسلک پر عمل کرتے ہیں لیکن بعض لوگ قرآن و حدیث پر عمل کے خوشنما عنوان کے ساتھ لوگوں کو عدم تقلید یا تلفیق فی المذہب کی طرف لے جارہے ہیں غور کریں تو ایسے لوگ ہر مسئلہ میں سہولت تلاش کرتے ہیں میں ان کی نیت پر شک نہیں کررہا ہوں تاہم ان کا طرز عمل خود اسی کا متقاضی ہے جب کبھی کسی مسئلہ میں عمل میں دشواری معلوم ہو کسی امام کا یا کسی مجتہد کا قول لے کر اس پر عمل کی تلقین کرنا نہ صرف تقلید کے پٹے کو گلے سے اتارنا ہے بلکہ قرآن و حدیث پر عمل کے نام پر سہولت اور نرمی کا پہلو اختیار کرنا ہے ۔
حرمت مصاہرت کا ثبوت کن نصوص سے ہوتا ہے
حرمت مصاہرت کی بنا پر جو رشتے حرام ہوتے ہیں وہ چار قسم کے ہیں (۱) اصول کی بیوی یعنی باپ دادا اوپر تک کی بیوی ؛یہ ماں کے مشابہ ہوتی ہیں(۲) فروع کی بیوی یعنی بیٹے ،پوتے کی بیوی؛ یہ بیٹی کے مشابہ ہوتی ہیں (۳)بیوی کے اصول یعنی ساس ، بیوی کی نانی؛ یہ ماں کے مشابہ ہوتی ہیں (۴) بیوی کے فروع یعنی بیوی کی بیٹی جسے ربیبہ کہا جاتا ہے؛ یہ بیٹی کے مشابہ ہوتی ہیں، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ شوہر نے بیوی کے ساتھ دخول کر لیا ہو تو ربیبہ حرام ہوگی اور اگر بیوی کے ساتھ دخول نہیں کیاہے تو ربیبہ حرام نہیں ہوگی۔ علامہ شامی لکھتے ہیں :
اراد بحرمۃ المصاہرۃ الحرمات الأربع حرمۃ المرأۃ علی اصول الزانی و فروعہ نسبا و رضاعا، حرمۃ اصولہا و فروعہا علی الزانی نسبا و رضاعا کما فی الوطء الحلال(شامی، ابن عابدین،محمد امین ، ردالمحتارزکریا بک ڈپو،دیوبند،۱۹۹۶، ۴/ ۳۲)
حرمت مصاہرت سے یہی چار قسم کے رشتے حرام ہوتے ہیں اور یہ چاروں قسم کی حرمت قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے ،جس کا تذکر ہ قرآن میں صراحت کی ساتھ مذکور ہے، چنانچہ اصول کی بیوی یعنی باپ کی بیوی کی حرمت کے سلسلے میں ہے :وَلاَ تَنکِحُواۡ مَا نَکَحَ آبَاؤُکُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدۡ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَمَقۡتاً وَسَاء سَبِیۡلاً(النساء۲۲)
دوسری قسم کی حرمت ہے، فروع کی بیوی اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :وَحَلاَئِلُ أَبۡنَائِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ أَصۡلاَبِکُمۡ (النساء۲۳)
تیسری قسم کی حرمت ہے بیوی کے اصول یعنی ساس وغیرہ اس کے بارے میں اللہ تعالی کاارشاد ہے: وَأُمَّہَاتُ نِسَآئِکُمۡ (النساء ۲۳)
چوتھی قسم کی حرمت ہے بیوی کی فروع یعنی ربیبہ، اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَرَبَائِبُکُمُ اللاَّتِیۡ فِیۡ حُجُورِکُم مِّن نِّسَآئِکُمُ اللاَّتِیۡ دَخَلۡتُم بِہِنَّ فَإِن لَّمۡ تَکُونُواۡ دَخَلۡتُم بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیۡۡکُمۡ (النساء۲۳)
غورفر مائیے! حرمت مصاہرت کی بناء پر جو رشتے حرام ہوتے ہیں، وہ سب نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں، اس سلسلے میں احادیث و آثار بھی کثرت سے موجود ہیں، لیکن اس کے ذکر کی چنداں ضرورت نہیں اس لئے کہ کتاب اللہ میںکسی مسئلہ کے ہوتے ہوئے کسی اور نصوص کی طرف التفات کی ضرورت ہی نہیں ہے، تا ہم ان رشتوںکی حرمت کا ثبوت کن اسباب کی بنا پر ہوگا اور اس سلسلے میں کیا شرائط ہیں، یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور حضرات ائمہ کے درمیان بعض مسائل میں اتفاق اور بعض میں اختلاف ہے ،جس کا تفصیلی تذکرہ انشاء اللہ ذیل میں کیا جائیگا ۔
حرمت مصاہرت کے ثبوت کے شرائط
حرمت مصاہرت کے ثبوت کے اسباب میں فقہائے مجتہدین کی آراء مختلف ہیں ، بعض میں اتفاق تو بعض میں اختلاف پایا جاتا ہے ، ثبوت مصاہرت کے مندرجہ ذیل چار اسباب ہیں :
(۱) عقد صحیح : عقد صحیح سے حرمت مصاہرت کا ثبوت متفق علیہ ہے: فحرمۃ المصاہرۃ تثبت بالعقدالصحیح بدون کلام(عبدالرحمن الجزیری ،الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ،طبع ثانی ۲۰۰۳،۴/۶۲)۔ اور حرمت کی چار قسموں میں سے تین قسمیں محض عقد سے ہی ثابت ہو جاتی ہیں ،البتہ بیوی کی فروع یعنی ربیبہ کی حرمت محض عقد کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کی حرمت کے لئے ماں کے ساتھ دخول ضروری ہے جیسا کہ اوپر تذکرہ کیا گیا۔
(۲)وطی : حرمت مصاہرت کا دوسرا سبب وطی ہے خواہ عقد صحیح کے بعد ہویاعقد فاسدکے بعد ہو یا زنا سے ہو:ومناط التحریم عند الحنفیۃ و الحنابلۃ الوطء حلالا کان او حراما(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،وزارۃ الأوقاف والشؤن الأسلامیۃ الکویت،۱۴۲۷،۳۶/۲۱۴)۔وطی سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے احناف کے یہاں تین شرطیں ہیں (الف) موطوئہ زندہ ہو (ب) موطوئہ مشتہات ہویعنی اس کی عمر کم از کم نو سال ہو (ج)وطی قبل میں کی گئی ہو دبر میں نہیں عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں :
یشترط فی الوطء ثلاتۃ امور ،ان تکون الموطوء ۃحیۃ و ان تکون مشتہاۃ وہی من کان سنہا تسع سنین فاکثر و الشرط الثالث ان یکون الوطء فی القبل (عبدالرحمن الجزیری ،الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۴/۶۲)
البتہ زنا سے مصاہرت کے ثبوت میں حضرات فقہاء کے درمیان اختلاف ہے جس کی کچھ تفصیل یہاں ذکر کی جاتی ہے ۔
زنا سے حرمت مصاہرت کا ثبوت
احناف ، حنابلہ اور مالکیہ کی ایک روایت کے مطابق زنا سے حرمت مصاہرت کا ثبوت ہو جاتا ہے ،صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی کی قائل ہے، علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں :
وبقولنا قال مالک فی روایۃ و احمد خلافا للشافعی ومالک فی اخری وقولنا قول عمر وابن عباس وابن مسعود فی الاصح وعمران بن حصین وجابروابی وعائشۃ وجمہورالتابعین کالبصری والشعبی والنخعی والاوزاعی وطاؤس وعطاء ومجاہد وسعید بن المسیب وسلیمان بن یسار وحماد والثوری واسحاق بن راہویۃ(ابن الہمام، فتح القدیرمکتبہ زکریا ، دیوبند،طبع اول ۲۰۰۰، ۳/۲۱۰)
مالکیہ کی مشہور روایت کے مطابق اور شوافع کے نزدیک زنا سے حرمت مصاہرت کا ثبوت نہیں ہوتا ہے ،احناف کا ایک مستدل قرآن کی یہ آیت ہے : وَلاَ تَنکِحُواۡ مَا نَکَحَ آبَاؤُکُم مِّنَ النِّسَاء(النساء۲۲) اس آیت میں نکاح کے حقیقی معنی وطی کے ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس سے تمہارے باپ نے وطی کی ہے خواہ وطی حلال کی ہو یا وطی حرام کی ہو اس سے تم نکاح مت کرو ،لہذا مزنیۃ الاب بیٹے کے لئے حرام ہوگی آیت کے عموم کی وجہ سے ، دوسری دلیل ہے کہ ایک آدمی نے حضور سے دریافت کیا کہ میں نے جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کیا تھا کیا میں اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہوں تو آپﷺنے فرمایا :لا اری ذلک، میں اسے درست نہیں سمجھتا ہوں (فتح القدیر ۳/۲۱۲)یہ حدیث اگر چہ مرسل ہے، لیکن اس سے آیت کی تائید ہو رہی ہے ۔
احناف نے اس سلسلے میں حرمت مصاہرت کی اصل علت کو بھی دلیل قرار دیا ہے کہ حرمت کی اصل علت وہ وطی ہے جو ولادت اور جزئیت کا سبب ہو۔ ظاہر ہے جس طرح وطی حلال ولادت کا سبب ہے اسی طرح وطی حرام بھی ولادت کا سبب ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر عقد فاسد میں دخول ہو جائے تو اس سے با لاتفاق حرمت ثابت ہو جاتی ہے ،حالانکہ وہ بھی وطی حرام ہے ،علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں :
فعلم ان المعتبر فی الاصل ھوذات الوطء من غیر نظر لکونہ حلالا او حراما (فتح القدیر ۳/۲۱۱) قال ابن المنذر:اجمع کل من نحفظ عنہ من علماء الامصار علی ان الرجل اذا وطی امرأتہ بنکاح فاسد او بشراء فاسد انہا تحرم علی ابیہ وابنہ و اجدادہ و ولدولدہ (نورالدین ابو لحیۃ ،طبع اول ،دارالکتاب الحدیث، موانع الزواج ص:۲۳)
وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :
ان الدخول بالمرأ ۃ بنا ء علی عقد فاسد تثبت بہ حرمۃ المصاہرۃ با لاتفاق و ان کان الدخول حراما (زحیلی ،وہبہ بن مصطفی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ،دارالفکر ،دمشق، ۹/۶۶۳۱)
موا نع الزواج کے مصنف نورالدین ابو لحیہ نے اس موضوع پر بڑی عمدہ اور تفصیلی بحث کی ہے اور فریقین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد احناف کے مسلک کو راجح قرار دیا ہے ، انہوں نے لکھا ہے کہ وہ وطی جس کا تحقق زنا کے ذریعہ ہوتا ہے حرمت کے ثابت کرنے میں عقد سے زیادہ طاقت ور ہے اس لئے کہ کوئی بھی مباح وطی ہو تو اس سے حرمت کا ثبوت ہو جاتا ہے ،لیکن ہر عقد سے حرمت کا ثبوت نہیں ہوتا ہے مثلا اگر عورت سے محض عقد کیا تو ربیبہ حرام نہیں ہوگی، لیکن اگر اس کی ماں سے وطی سے کرلی تو ربیبہ حرام ہوجائے گی، معلوم ہوا کہ حرمت کی اصل علت وطی ہے پس وطی حلال ہو یا وطی حرام دونوں سے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ فقہاء نے اس مسئلے میں احتیاط کے پہلو کو سامنے رکھا ہے اس کی انہوں نے دو وجہ ذکر کی ہے ،پہلی وجہ یہ کہ یہ مسئلہ سلف صالحین کے عہد سے ہی اختلافی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دین میں اس کی صحیح اصل موجود ہے، یہ محض فقہاء متأخرین کی آراء نہیں ہے، جس کو مختلف حالتوں پر محمول کر دیا جائے چنانچہ حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم نخعی ، سعید بن مسیب ، شعبی ، عبد الرحمن بن عوف اور عروہ بن زبیر وغیر ہ کے اقوال ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا سے حرمت ثابت ہوجائے گی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شریعت نے سدّا ًللذرائع بہت سی چیزوں سے بندوں کو منع کیا ہے ، شریعت ، عقل اور عرف ان سبھی کا تقاضہ ہے کہ جب انسان سے کسی گناہ کا کسی محل میں صدور ہو جائے تو حتی الامکان اس جگہ اور محل سے دور رہے اس لئے کہ شیطان باربار اس گناہ کو اس کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کرے گا تا کہ دوبارہ اس گناہ کا صدور ہو سکے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے:وَلاَ تَقۡرَبُواۡ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء سَبِیۡلاً(الاسراء۳۲ )جب کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کرلیا تو آئندہ شیطان اس کے سامنے اس عورت کو مزید خوش نما بنا کر پیش کرے گا اور ایک مرتبہ اس فعل کے ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ اس کے لئے یہ فعل آسان ہوگا ، اب اگروہ عورت جس سے اس نے زنا کیا ہے اگر اس کے گھر کی بہو بن جائے تو شیطان باربار اس فعل پر آمادہ کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اس سے دور رہنے کا حکم دیاتا کہ فعل زنا کا دوبارہ ارتکاب نہ ہو سکے، پس راجح یہی ہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت کا ثبوت ہو جائے گا ۔(موانع الزواج ص :۲۹)
مس اور نظر کے ذریعہ حرمت مصاہرت کا ثبوت
حرمت مصاہرت کا تیسراسبب شہوت کے ساتھ چھونا ہے اور چوتھا سبب شہوت کے ساتھ عورت کے فرج داخل کو دیکھنا ہے ، حرمت مصاہرت کے باب میں یہ مسئلہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ اس میں جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ مس اور نظر سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ،جبکہ احناف کی رائے ہے کہ مس اور نظر سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔موسوعہ فقہییہ میں ہے :
یری المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ فی الجملۃ ان لمس اجنبیۃ سواء کان لشہوۃ او لغیرہا لا ینشرحرمۃ المصاہرۃ وذہب الحنفیۃ الی ثبوت حرمۃ المصاہرۃ باللمس والتقبیل والنظرالی الفرج بشہوۃ کما تثبت بالوطء (الموسوعۃالفقہییۃ -لمس ۸-۱۲)
امام مالک کے نزدیک مس بالشہوت اور نظر بالشہوت سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ، اگر چہ کہ بعض مالکیہ نے ثبوت شہوت کا انکار کیا ہے علامہ ابن حزم لکھتے ہیں:
وذہب طائفۃ الی ان اللمس لشہوۃ او النظر الی فرجہا لشہوۃ یحرمہا کما روینا من طریق عبد الرزاق عن ابی حنیفہ عن حماد بن الی سلمۃ عن ابرہیم النخعی قال اذا قبل الرجل المرأۃ من شہوۃ او مس او نظر الی فرجہا لم تحل لابیہ و لاابنہ وقال مالک اذا نظر الی شئ من محاسنہا لشہوۃ حرمت فی الابد علی الولد کالساق و الشعر و الصدر و غیرذلک ( المحلی بالآثار ۹/۱۳۹)
احناف نے مس اور نظر کے مسئلے میں حرمت مصاہرت کی اصل علت کو بنیاد بنا یا ہے ، مصاہرت کی اصل علت وہ وطی ہے جو ولادت کا سبب ہو، شہوت کے ساتھ چھونا اور عورت کے فرج داخل کو دیکھنا یہ اس وطی کی طرف داعی ہے جو وطی ولادت کا سبب ہے ،اس لئے مقام احتیاط میں مس بالشہوت اور نظر بالشہوت کو وطی کے قائم مقام کر دیا گیا ہے شیخ وہبہ زحیلی لکھتے ہیں ۔
تثبت حرمۃ المصاہرۃ بالزنا والمس والنظر بدون نکاح والملک وشبہتہ لان المس والنظرسبب داع الی الوطء فیقام مقامہ احتیاطا ( الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۹/۶۶۳۰)
فتح القدیر میں ہے :
و الجواب ان العلۃ ہو الوطء السبب للولد و ثبوت الحرمۃ بالمس لیس الا لکونہ سببا لہذا الوطء ( فتح القدیر ۳/۲۱۰)
مس اور نظر سے ثبوت مصاہرت کے شرائط
فقہاء احناف نے مطلقا مس ، تقبیل اور نظر الی الفرج کو حرمت مصاہرت کا سبب قرار نہیں دیا ہے ،بلکہ دونوں کے لئے متعدد شرطیں ہیں جب تمام شرطوں کا تحقق ہوگا تو حرمت کا حکم لگا یا جائے گا،مس کے ذریعہ ثبوت حرمت کی سات شرطیں ہیں :
(۱)مرد کا عورت کے جسم کو چھونا یا عورت کا مرد کے جسم کو چھونا بغیر حیلولت کے ہو اور اگر کوئی کپڑا حائل ہو تو وہ اتنا باریک ہو کہ حرارت کے لئے مانع نہ ہو ، اور اگر جسم پر ایسا کپڑ ا ہو جو حرارت کے لئے مانع ہو تو حرمت کا ثبوت نہیں ہوگا ۔
(۲) عورت کے وہ بال جو سر سے متصل ہو اس کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو بال سر سے لٹک رہے ہیں اس کو چھونے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔۔
(۳) جسم کے کسی بھی حصہ کو چھونا شہوت کے ساتھ ہو، بغیر شہوت کے چھونے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ، اور شہوت کی حد مرد کے اندر یہ ہے کہ اگر پہلے سے آلہ منتشر نہ ہوتو اس میں حرکت پیدا ہوجائے اور اگرپہلے سے حرکت ہو تو اس میں ایستادگی ہوجائے اور اور گرپہلے سے ایستادگی ہو تو اس میں شدت پیدا ہوجائے ، اور عورت کے اندر شہوت کی حد دل کا حرکت کرنا اور مرد کی طرف دل کا مائل ہونا ہے
(۴)اگر عورت مرد کے جسم کو چھوئے اور شہوت کے پائے جانے کی خبر دے تو مرد کو عورت کی بات کے متعلق سچائی کا ظن غالب ہواسی طرح اگر چھونے والامرد کا باپ یا بیٹا ہو اور وہ شہوت کی خبر دے تو مرد کے اس کے سچا ہونے کا ظن غالب ہو ۔
(۵)شہوت کا مس کی حالت میں پایا جانا ضروری ہے اگر چھونے سے پہلے یا چھونے کے بعد شہوت پائی جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی
(۶)شہوت کے ساتھ چھونے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو اگر انزال ہو جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔۔
(۷)ممسوسہ مشتہات ہو یعنی اس کی عمر کم از کم نو سال ہو اس سے کم کی صورت میں چھونے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔
(الفقہ علی المذاہب الأربعۃ۴/۶۳)
شرم گاہ کو دیکھنے سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے بھی چھ شرطیںہیں:
(۱)عورت کے فرج داخل کو دیکھا جائے ، فرج خارج یاجسم کے کسی اور حصے کو دیکھنے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی اورفرج داخل کا دیکھنا اسی صورت میں متحقق ہوگا جبکہ عورت کسی جگہ ٹیک لگا کر بیٹھی ہو۔
(۲) شرم گاہ کو دیکھنا شہوت کے ساتھ ہو
(۳) عین شرم گاہ کو دیکھا ہو اس کی تصویر یا عکس کو نہ دیکھا ہو۔
(۴ ) شہوت دیکھنے کے ساتھ متصل ہو ،دیکھنے سے پہلے یا دیکھنے کے بعد پیدا شدہ شہوت سے حرمت ثابت نہیںہوگی ۔
(۵)انزال نہ ہوا ہو اگر دیکھنے کی وجہ سے انزال ہوجائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔
(۶)منظورہ جس کی شرم گاہ کو دیکھا ہے وہ مشتہات ہو، صغیرہ یا مردارنہ ہو اور دیکھنے والامراہق ہو، صغیر نہ ہو
(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ۴/۶۴ )
خلاصہ یہ کہ جس طرح عقد کے ذریعہ حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا اور دواعی زنا سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔

Related Articles

One Comment

  1. حضور! شرائط تو آپ نے ذکر فرما دیں۔لیکن دلیل کے طور پے صرف اتنا ذکر فرمایا کہ یہ دواعی للوطء ہیں۔تو دواعی وطئ کے حرمت مصاہرت کا سبب ہونے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی۔نیز انزال ہونا یا نہ ہونے فرق کرنا ۔اور محض احتیاط کی بنیاد پے کسی کے منکوحہ کو حرام قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے۔کیا کسی چیز کو حرام قرار دینے کے لئے اس فتنہ کا استدلال کافی ہے؟
    واضح فرمائیں،خدا اجر دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×