اسلامیات

خواتین اور تراویح کی نماز

قرآن وحدیث میں جہاں کہیں کسی عمل پر ثواب یا عذاب کا تذکرہ ہے وہ مرد و عورت دونوں کو شامل ہے ، عام طور پر یاایہا الذین آمنوا کے ذریعہ جوخطاب کیا گیا ہے اس میں عورتیں بھی شامل ہیں ،ہاں اگر عورت کو اس سے مستثنی کرنے کی ضرورت ہوئی تو عورت کو الگ سے بیان کردیا گیا ۔نمازجس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے اسی طرح دیگر عبادات جس طرح مردوں پر فرض ہے عورتوں پر بھی فرض ہے حکم میں مردو و عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح رمضان میں جو مخصوص اعمال ہیں اس کا حکم بھی مرد و عورت دونوں کوشامل ہے ، آپ ﷺ رمضان کے اخیر عشرہ میں راتوں کو بیدار رہ کر عبادت کیاکرتے تھے تو آپ ازواج مطہرات کوبھی بیدار کیا کرتھے ، رمضان میں مخصوص عبادت میں ایک تراویح کی نماز ہے جس کے بارے میں حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا من قام ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (سنن ابی داؤدحدیث نمبر ۱۳۷۱) جس نے ایمان و ثواب کی امید پر رمضان میں تراویح کی نماز پڑھی اس کے اگلے گناہ معاف کردئے جائیں گے ۔ تراویح کا یہ حکم جس طرح مردوں سے متعلق ہے اسی طرح عورتوں سے بھی متعلق ہے اسی لیے حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ تروایح کی نمازمردوعورت دونوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے ، التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال و النساء اجماعا(ردالمحتار ۲/۴۳)
لیکن عام طور پر تراویح کا جس قدر اہتمام مرد حضرات کرتے ہیں عورتوں میں اس قدر اہتمام نہیں دیکھا جاتاہے اورجو عورتیں تنہا گھروں میں فرض نمازوں کا اہتمام کرتی ہیں وہ بھی تراویح کا اس قدر اہتمام نہیں کرتی ہیں جب کہ خیر القرون میں حضرات خواتین بھی تراویح کا اہتمام کرتی تھیں ، حضرت عائشہ ؓ اپنے غلام ذکوان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھتی تھیں۔
جماعت کے ساتھ تراویح
خواتین جس طرح دیگر نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتی ہیں اسی طرح تروایح کی نماز بھی ان کے لیے گھروں میں پڑھنا افضل ہے ، مرد حضرات مسجد میں تروایح کی نماز پڑھیں گے تو عورتیںتروایح اپنے گھروں میں تنہا تنہا پڑھ لیں گی ،لیکن اگر مرد حضرات گھر میں کسی وجہ سے جماعت کرتے ہیں تو اس جماعت میں عورتیں شریک ہوسکتی ہیں ، اور اس میں صفوں کی ترتیب وہی ہوگی جو نماز میں ہوتی ہے کہ امام کے بعد مردحضرات کی صفیں ہوں گی پھر بچوں کی صفیں ہوگی اور اس کے بعد عورتوں کی صف ہوگی ۔موجودہ حالات میں زیادہ تر گھروں میں تراویح کی نماز ہو رہی ہے یہ خواتین کے لیے جماعت سے نماز پڑھنے کا بہتر موقع ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
بعض مرتبہ صرف میاں بیوی تراویح پڑھتے ہیں تو اس صورت میں امام آگے کھڑا ہوگا اوربیوی پیچھے کی صف میں کھڑی ہوگی ، اگر میاں بیوی کے ساتھ بچے بھی ہوں تو اگر کئی لڑکے یا محرم مرد ہوں تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور عورتیں اس کے پیچھے کھڑی ہوں گی ، اگر ایک لڑکا ہے یا ایک مرد ہے تو وہ امام سے تھوڑا پیچھے کھڑا ہوگا اور عورتیں پیچھے کی صف میں کھڑی ہوں ہوگی ۔
اگرنماز پڑھانے والا غیر محرم ہے یا پڑھنے والوں میں محرم ،غیر محرم سبھی قسم کے لوگ شامل ہیں تو اس صورت میں عورت پردے سے جماعت میں شریک ہوسکتی ہے ۔بعض مرتبہ میں گھروں میں تراویح میں گھر کے ہی فرد پڑھاتے ہیں جس سے عام حالات میں غفلت و جہالت کی بنا پر پردہ نہیں کیا جاتا ہے اگر ایسا شخص نماز پڑھائے جو کہ غیر محرم مثلا گھر میں دیور نماز پڑھائے تو بھی عورت کو پردہ میں تراویح کی نماز پڑھنی چاہیے ۔
اگر تراویح پڑھانے والا غیر محرم ہو تو صرف غیر محرم عورتوں کا اس نمازمیں شریک ہونا مکروہ ہے ہاں اگر گھر کے محرم مرد بھی شامل ہوں یا پڑھانے والا کی کوئی محرم عورت ہومثلا پڑھانے والے امام کی ماں یا اس کی بہن بھی نماز پڑھ رہی ہے تو ایسی صورت میں غیر محرم عورتوں کا شریک ہونا درست ہے ۔فتاوی شامی میں ہے :تکرہ امامۃ الرجل لہن فی بیت لیس معہن رجل غیرہ و لامحرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما اذا کا ن معہن واحد ممن ذکر أو امہن فی المسجد لا یکرہ (بحر ۱/۵۶۶)
اگرصرف محرم حضرات نماز پڑھ رہے ہو ں اور نماز میں کوئی غلطی ہوجائے اور عورت حافظہ ہو مثلا بھائی بہن دونوں حافظ ہیں اور بھائی نماز پڑھائے تو غلطی پر بہن لقمہ دے یا غیر محرم عورت لقمہ دے دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اس لیے کہ اصح قول کے مطابق عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے تاہم عورت کے لیے بہتر نہیں ہے کہ وہ لقمہ دے بلکہ امام کو چاہیے کہ مقدار فرض پڑھ چکا ہو تو لقمہ کا انتظار کئے بغیر رکوع میں چلاجائے۔ فی شرح المنیۃ الاشبہ ان صوتہا لیس بعورۃ و انما یؤدی الی الفتنۃ کما علل بہ صاحب الہدایۃ و غیرہ فی مسئلۃ التلبیۃ و لعلہن انما منعن من رفع الصوت بالتسبیح فی الصلاۃ لہذا لمعنی و لایلزم من حرمۃ رفع صوتہا بخضرۃ الاجانب أن یکون عورۃ ( البحرالرائق ۱/ ۲۸۵)
عورت کی امامت
عورتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ تنہا تروایح کی نماز پڑھ لیں ، اگر گھر میں جماعت ہورہی ہے تو جماعت میں بھی شریک ہوسکتی ہیں، لیکن عورتوں کا امامت کرنا درست نہیں ہے ، عورتوں کی امامت کی کئی صورتیں ہیں ، کوئی حافظہ خاتون ہے وہ اپنے گھر کے مردو عورت کی امامت کرے یہ ناجائز ہے؛ اس لیے کہ عورتیں، مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہیں ، خیروالقرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے ؛حضرات صحابیات میں بعض بہت بلند مقام کی حامل تھیں ، حضرت عائشہ کا عمل و تقوی میں صحابہ کی نگاہ میں بلند مقام تھا حضرات صحابہ مشکل مسائل میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا مذکور نہیں ہے کہ عورتوں نے مردوں کی امامت کی ہو ۔حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اخروہن من حیث اخرہن اللہ عورتوں کو پیچھے رکھو جیسے اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے ، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مردوں سے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے اور اگر عورت کو مردوں کا امام بنادیا جائے تو عورت کا مردوں کے آگے ہونا لازم ہوئے گا ۔ اعلام السنن میں حضرت علی کا قول نقل کیا ہے :عن علی ؓأنہ قال لا تؤم المرأۃ :قلت رجالہ کلہم ثقات (اعلاء السنن ۴/۲۲۷،دارالکتب العلمیہ بیروت ) اس لیے عورتوں کے لیے مردوں کی امامت کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔موجودہ حالات میں بعض لوگوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ گھر میں حافظہ عورت ہے اور مردوں میں کوئی بھی امامت کرنے کا اہل نہیں ہے اور یا مرد کو زیادہ قرآن یاد نہیں ہے تو کیا عورت اپنے محرم مردوں کی امامت کرسکتی ہے ، ظاہر ہے کہ اس کا حکم بھی عدم جواز کا ہے مرد حضرات جس طرح فرض نماز ادا کرتے ہیں اسی طرح تراویح کی نماز بھی ادا کریں گے۔
عورت کی امامت کی دوسری صورت یہ ہے کہ عورت صرف عورتوں کی امامت کرے ،حضرات فقہاء نے اس کو مکروہ تحریمی لکھا ہے فتاوی شامی میں ہے : ویکرہ تحریما جماعۃ النساء ولو فی التراویح الی قولہ فان فعلن تقف الامام و سطہن فلو تقدمت أثمت ۔افاد ان الصلاۃ صحیحۃ و انہا اذا توسطت لاتزول الکراہۃ و انما ارشد و الی التوسط لانہ اقل کراہۃ التقدم(شامی ۲/۳۰۵)
ایک صورت یہ ہے کہ عورت حافظہ ہے اور وہ اپناقرآن یاد رکھنے کے لیے ،تراویح کی نماز پڑھانا چاہتی ہے ، اس صورت میں بعض حضرات نے گنجائش لکھی ہے لیکن یہاں چند چیز وں کا خیال کرنا ضروری ہوگا پہلی چیز تو یہ کہ باہر کی عورتوں کو نہ بلایا جائے اس لیے کہ فتنہ کے اندیشہ سے عورتو ں کو مسجد میں آنا سے منع کیا گیا ہے تو تراویح کی نماز کے لیے کسی دوسرے کے گھر میں جانے کس طرح اجازت ہوسکتی ہے ، یعنی جب مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے تو کسی دوسرے کے گھر میں نماز پڑھنے کے لیے نکلنے کی اجازت کیوں کر ہوسکتی ہے ، اس لیے باہر کی عورتوں کو مدعو نہ کیا جائے اور عورت کی آواز اس قدر پست ہو کہ مردو ں تک اس کی آواز نہ پہنچے ، اور عورت درمیان میں کھڑی ہو تو ان شرطوں کے ساتھ قرآن یاد کرنے کے پیش نظر جماعت کرنے کی گنجائش ہوگی حضرت مفتی نظام الدین صاحبؒ لکھتے ہیں :(الف )آج کل حافظہ عورتوں کے بارے میں اگر اتنی بڑی جماعت کی امامت ہو جس میں آواز معتادآواز سے زائد ہو تمام قیود و شرائط کے باوجود مکروہ تحریمی اور ناجائز رہے گی۔(ب)اگر ماہ رمضان میں حافظہ قرآن عورتوں کی چھوٹی جماعت جس میں آواز معتاد کے اندر اندر رہے اور تمام قیود و شرائط کے اندررہے اور عورت صف سے صرف چار انگل آگے رہے تو الامور بمقاصدہا کے تحت یہ فعل جائز رہے گا ۔(ج)اگر ماہ رمضان مبارک میں صرف دو دو تین تین عورتوں کی جماعت جو محض بہ نیت حفظ قرآن پاک اور بطور دور ہو تواور قیود و شرائط کے موافق اور مکان محفوظ کے اندر ہو وجس میں آواز اپنی معتاد آواز سے زائد نہ رہے تو بلا شبہ جائز رہے گی بلکہ الامور بمقاصدہا کے تحت مستحن بھی ہوسکتی ہے ۔( نظام الفتاوی ۶/۷۶)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×