حیات انسانی کو لاحق ایک سنگین خطرہ
دین و ایمان کے بعد اس دنیا میں انسان کو ملنے والی سب سے بڑی نعمت صحت و تندستی ہے ، جس کے بغیر دنیا کی ساری نعمتیں بے فیض ہیں، صحت سے محروم انسان نہ زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ دوسری نعمتوں سے استفادہ کرسکتا ہے، زندگی در اصل صحت ہی سے عبارت ہے ، دنیا و آخرت کے تمام سرفرازیاں صحت و تندرستی پر موقوف ہیں، صحت و تندرستی در اصل انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے ، جس طرح وہ اللہ تعالی کے دیگر فرائض کا پابند ہے اسی طرح وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ خود کو ان چیزوں سے محفوظ رکھے جو اس کی صحت کو برباد کرسکتی ہیں، جس طرح کسی انسان کے لیے خودکشی کرکے اپنی جان ختم کرلینا حرام ہے اسی طرح صحت کو برباد کرنے والی ان چیزوں کا استعمال بھی نادرست ہے جو بتدریج اسے موت کی طرف ڈھکیلتی ہے ، فی زمانہ صحتِ انسانی کو برباد کرکے اسے ہلاکت کی غاروں میں ڈھکیلنے والی جو چیزیں معاشرے میں خوب عام ہیں ان میں ایک تمباکو نوشی اور سگریٹ کا استعمال ہے ، ابھی گزشتہ جمعرات کو ۳۱؍مئی کی تاریخ گزری ہے جسے دنیا بھر میں عالمی یوم انسدادِ تمباکو نوشی کے طور پر منایا جاتا ہے ، ہر سال کی طرح امسال بھی ۳۱؍مئی کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے عوام کو محفوظ رکھنے اور اس کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے مہلک اثرات کے تعلق سے شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا گیا، شہر حیدرآباد میں ڈی ایس ریسرچ سنٹر کی جانب سے عوامی شعور بیداری مہم چلائی گئی اور مختلف تحقیقاتی اداروں کی جانب سے اس سلسلہ میں جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں، ڈی ایس ریسرچ سنٹر کے مطابق دنیا بھر میں تمباکوکے استعمال سے سالانہ بیس لاکھ افراد امراضِ قلب اور کینسر میں مبتلا ہوکر موت کے شکار ہوجاتے ہیں، حیرت ہے کہ مسلم معاشرہ میں لوگ ماہِ رمضان میں بھی سگریٹ اور تمباکو نوشی سے باز نہیں آتے جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ افطاری کے فوری بعد سگریٹ نوشی سے قلب پر حملہ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے، انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز میں رمضان کے حوالہ سے ہونے والے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انعام دانش نے ترکی میں ہونے والی تحقیق کے حوالہ سے کہا ہے کہ افطاری کے فوراً بعد سگریٹ نوشی کے مضر اثرات نہایت خطرناک ہوتے ہیں، بلڈ پریشر اچانک بڑھ جانے سے دل کے دورہ کا بھی احتمال رہتا ہے جو فوری موت کا باعث ہوسکتا ہے (روزنامہ سیاست ۳۱؍مئی ۲۰۱۸ء)
ایک حالیہ سروے کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ دو بلین (دو ارب) ہے جن میں ۴۵؍ فیصد مرد اور ۲۲؍فیصد خواتین شامل ہیں، اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تمباکو کے استعمال کے نتیجہ میں ۵.۱؍ملین خواتین ہلاک ہوجاتی ہیں جبکہ آئندہ بیس سال کے عرصہ میں ان کی تعداد دگنی ہوجائے گی، تمباکو نوشی اور تمباکو سے تیار ہونے والی اشیاء کے استعمال میں ہمارا ملک بھی کچھ پیچھے نہیں ہے ، ہندوستان میں تمباکو سے تیار ہونے والی چیزوں کے استعمال کرنے والوں کی تعداد ۲۵؍کروڑ ہے جن میں ۱۶؍ فیصد سگریٹ ، ۴۴؍فیصد بیڑی اور ۴۰؍فیصد دیگر طریقوں سے تمباکو استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سالانہ دس لاکھ لوگ کینسر سے متاثر ہوتے ہیں، برطانوی میگزین ’’لاسنٹ‘‘ نے حال ہی میں ہندوستان کے حوالہ سے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ رونگٹے کھڑی کرنے والی ہے ، رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۰ء میں ہندوستان میں ۵۶؍ہزار اموات میں سے ۷۱؍فیصد اموات تیس سے انچالیس عمر کے لوگوں کی تھی ، راجستھان سمیت نو پسماندہ ریاستوں کے مقابلہ میں کیرالا ، مغربی بنگال اور کشمیر کی حالت اور بھی نازک ہے، وہاں اموات کی شرح چار گنا زیادہ ہے ، مغربی بنگال کی ۷۵؍فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتی ہے ۔ ( روزنامہ راشٹریہ سہارا ۳۱؍مئی ۲۰۱۳ء)
افسوس ناک بات یہ ہے کہ کم عمر بچوں میں یہ لعنت تیزی کے ساتھ جڑ پکڑتی جارہی ہے ، ماہرین کے مطابق سگریٹ اور دیگر اقسام کے تمباکو کے استعمال کا تجربہ کرنے والوں کی عمر میں کمی تشویش ناک حد تک چونکا دینے والے انداز میں گیارہ تا بارہ سال تک پہنچ گئی ہے ، ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی جانب سے گزشتہ سالوں میں پورا ایک سال عالمی سطح پر تمباکو کے عدم استعمال کا موضوع رکھا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں تمباکو کا ابتدائی استعمال کرنے والوں میں تشویشناک حد تک کم عمر نوجوان شامل ہیں۔ میکس ہاسپٹل کے دماغی صحت کے ماہر سمیر ملہوترا نے بتایا کہ سگریٹ اور دیگر اقسام کے تمباکو کا ابتدائی استعمال کرنے والوں کی عمر ۱۰تا ۱۶سال تھیں، جبکہ اب ان کی عمریں ۱۱تا ۱۲؍سال ہوگئی ہیں۔ (روزنامہ منصف ۳؍مئی ۲۰۱۳ء)
تمباکو نوشی کے ہولناک اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر روز تقریبا ۱۳؍ہزار افراد تمباکو نوشی کے سبب موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
تمباکو کا آغاز : تمباکو کا آغاز کب کیسے اور کہاں ہوا؟ اس تعلق سے ایک رائے یہ ہے کہ تمباکو کے پتوں کی دریافت باقاعدہ پہلی بار کولمبس نے کیوبا کے سفر کے دوران کی تھی، ۱۴۹۲ء میں جب کولمبس نے کیوبا کے ساحل پر پڑاؤ ڈالا تو وہاں کے باشندوں کو اس نے ان پتوں کو سونگھتے ، چباتے اور پیتے دیکھاپھر اس کے رد عمل پر غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے استعمال کرنے والوں پر ان پتیوں کا بڑا گہرا اثر ہوا ہے ، ۱۵۶۰ء میں فرانس کے سفیر برائے پرتگال نے قیدی جہاز رانوں سے یہ پتیاں حاصل کی، اسے بتایا گیا تھا کہ ان پتیوں کے لگانے سے زخم مندمل ہوجاتے ہیں اور اس سے السر کا علاج بھی کیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ ان کو وبائی امراض جیسے طاعون وغیرہ میں بھی بچنے میں مؤثر خیال کیا جاتا ہے کیوبا میں جو اسپین سے جہاز ملاح وغیرہ آئے وہ اسپین لوٹتے ہوئے تمباکو کے پتے بھی لائے اس کی وجہ سے اسپین فرانس اور جرمنی میں سگار بننے شروع ہوگئے ، یہ سب۱۷۸۶ء میں ہوا۔ ( اردو کالمس آن لائن ۱۰؍جون ۲۰۱۳ء)
سگریٹ کی باقاعدہ ایجاد کے سلسلہ میں ٹوبیواں ہسٹری نامی کتاب کے مصنف اردن گڈ مین کا کہنا ہے کہ اگر چہ وہ کسی شخصِ خاص کا نام لینے سے اجتناب کریں گے لیکن امریکہ کے جیمز سکانن ڈیو ک سگریٹ کی ایجاد کے ذمہ دار تھے ، وہ نہ صرف سگریٹ کو اس کی موجودہ شکل دینے کے ذمہ دار ہیں بلکہ انہوں نے سگریٹ کی مارکٹنگ اور ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس سے ساری دنیا میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، 1880ء میں 24؍سال کی عمر میں ڈیوک نے ہاتھ سے بنی سگریٹ کے کاروبار میں قدم رکھا ، شمالی یرولائنا کے شہر میں کچھ لوگوں نے مل کر ڈیوک اور ڈریم کے نام سے سگریٹ بنانے کی شروعات کیں جس کے دونوں کونوں کو موڑ کر بند کیا جاتا تھا، دو سال بعد ڈیوک نے جیمز یونسی نامی نوجوان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جس کا کہنا تھا کہ وہ مشین سے سگریٹ بنا سکتا ہے ، اسے یقین تھا کہ ہاتھ سے بنے چھوٹے یا بڑے سائز کی جگہ لوگ مشین سے بنی ایک ہی سائز کی سگریٹ پینا پسند کریں گے، ساتھ ہی اس وقت ڈیوک کے کارخانہ میں جہاں ایک شفٹ میں ہاتھ سے تقریبا دو سو سگریٹ بنائے جاتے تھے وہیں اس نئی مشین سے ایک دن میں ایک لاکھ بیس ہزار سگریٹ تیار ہونے لگے، جب کہ اس وقت امریکہ میں صرف ۲۴؍ ہزار سگریٹ کی کھپت ہوتی تھی، اردن گڈ مین کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ تھا کہ پیداوار زیادہ تھی لیکن فروخت کم اس لیے ڈیوک کو اب سگریٹ فروخت کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنے تھے وہ طریقہ تھا اشتہارات اور مارکٹنگ کا ، ڈیوک نے گھڑ دوڑ کو اسپانسر کرنا مقابلہ حسن میں مفت سگریٹ تقسیم کرنا اور جرائد میں اشتہارات دینا شروع کیا، ۱۸۸۹ء میں ہی سگریٹ کی مارکٹنگ پر اس نے ۸؍لاکھ ڈالر خرچ کیے جو آج کے دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ تھے، امریکہ میں پاؤں جمانے کے بعد ڈیوک نے برطانیہ کا رخ کیا،۱۹۰۲ء میں اس نے برطانیہ کی امپرل ٹوبیو کمپنی کے ساتھ مل کر برٹش امریکن ٹوبیو نامی کمپنی قائم کی ۔ ( روزنامہ اسلام ۲۸؍جنوری ۲۰۱۳ء )
سگریٹ نوشی کی تبارہ کاریاں: کسی کہنے والے نے بالکل سچ کہا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پئیں گے تو سگریٹ آپ کو کھاجائے گااور یہ بھی بجا ہے کہ اس کے ایک سرے پر آگ ہوتی ہے اور دوسرے سرے پر بیوقوف ،پیسہ دے کر ہلاکت خریدنے والوں سے زیادہ کم عقل اور کون ہوسکتا ہے ؟ سگریٹ نوشی صحتِ انسانی کے لیے کس قدر مہلک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیکل تجرباتی لیباریٹری میں جب مینڈک کو زندہ لایا جاتا ہے تو اس کا چیر پھاڑ کرنے سے پہلے اسے بیہوشی کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس کے لیے مینڈک کے منہ میں سگریٹ کاتمباکو بھرا جاتا ہے اس سے وہ بیہوش ہوجاتا ہے ، پھر میڈیکل تجربات کرنے والے سرجن بآسانی چیر پھاڑ کرکے اس کے اندرونی نظاموں کاجائزہ لیتے ہیں، سگریٹ کی عادت آدمی کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے ، عالمی ادارۂ صحت نے خبر دار کیا ہے کہ اگر سگریٹ نوشی کے سدِ باب کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ ۳۰؍برسوں میں ۱۰؍کروڑ افراد تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجائیں گے، یہ تعداد ایڈز ، ٹی بی، کار حادثوں اور خود کشی سے ہونے والی کل اموات سے بھی زیاد ہ ہے ، سگریٹ نوشی اور تمباکو اشیاء کے استعمال کے اس قدر نقصانات ہیں کہ صحیح معنوں میں ان کا ادراک بھی مشکل ہے سگریٹ جس تمباکو سے بنتی ہے اس میں چار ہزار کیمیکل شامل ہوتے ہیں جن میں سے پچاس کینسر پیدا کرنے والے ہوتے ہیں، پھیپھڑوں کے کینسر اور سگریٹ نوشی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس وقت پوری دنیا میں دل اور سانس کے عارضہ سے ہونے والی اموات میں سے ۶۸؍فیصد کی وجہ تمباکو کا استعمال ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سگریٹ انسان کی عمر ساڑھے پانچ تا آٹھ منٹ کم کردیتا ہے ، تمباکو میں نکوٹین کی شکل میں پایا جانے والا مادہ دل اور شریانوں کے لیے انتہائی مضر ہے ، یہ ایک طرح کانشیلا زہر ہے جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور عارضی طور پر بی پی میں اضافہ ہوتا ہے ، ایک سگریٹ پینے کے نتیجہ میں بلڈ پریشر تیس منٹ سے ایک گھنٹہ تک زیادہ رہتا ہے ، تمباکو کے دھوئیں میں دوسرا زہریلا مادہ کاربن مونو اکسائیڈ ہوتا ہے جو صحتِ انسانی کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والے تمباکو کے ہر کش کے ساتھ چار ہزار سے زائد کیمیائی مادے اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں، تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس جگہ تمباکو نوشی کی جاتی ہے اس کی فضاء میں بھی زہریلے مادے شامل ہوجاتے ہیں، اس سے تمباکو نوشی نہ کرنے والے بھی زد میں آجاتے ہیں، چین میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جو خود تو سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن ایسی فضاء میں سانس لیتے ہیں جہاں سگریٹ کا دھواں پایا جاتا ہے ان میں یاد داشت کی کمی سے متعلق ایک مرض ڈیمنشائے میں مبتلا ہونے کے امکانات دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں، یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے انسان کی یاد داشت آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جاتی ہے ، چین کاشمار دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست کیاجاتا ہے جہاں تمباکو کا استعمال بہت زیادہ ہے ، چین میں ۳۰؍کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جبکہ چین میں بڑی عمر کے افراد میں ڈیمنشائے کا مرض لاحق ہونے کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے ، لندن کے کنگز کالج نے مختلف چینی صوبوں میں ۶۰؍سال سے زائد عمر کے تقریبا چھ ہزار افراد تک سگریٹ نوشی کیوجہ سے بننے والے دھوئیں اور ڈیمنشائے کے مرض کے درمیان کسی ممکنہ ربط یا تعلق پر تحقیق کے نتائج کے مطابق ان میں دس فیصد افراد ڈیمنشائے کی بیماری میں مبتلا تھے۔ (اردو ڈاٹ کام)
تمباکو میں موجود کیمیائی مادے : تمباکو کی زہرناکی کا صحیح اندازہ اسوقت ہوگا جب اس میں موجود زہریلے مادوں کے صحتِ انسانی پر پڑنے والے اثرات کی جانکاری ہو ۔ ماہرین کے مطابق تمباکو میں درجِ ذیل کیمیائی مادے ہوتے ہیں
(1) کونتار: سگریٹ میں شامل ٹاریا تارکول بھوری رنگ کا ایک مادہ ہوتا ہے جو سگریٹ نوشی کرنے والوں کے پھیپڑوں میں جمع ہوتا رہتا ہے ، یہ کونتار ان نازک بالوں کو جو پھیپڑوں میں جانے والی ہوا صاف کرتے ہیں ساکت کردیتی ہے اور ہوا کے راستے میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے اس کے علاوہ پھیپڑوں کی اندرونی جلد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے ، مزید برآں یہ سانس کی نالیوں ، نرخرے اور پھیپڑوں میں خراب اور سوزش کی موجب بھی ہے ۔
(2) کاربن مونو اکسائیڈ : سگریٹ کے دھوئیں میں ایک سے ڈھائی فیصد تک کاربن مونو اکسائیڈ ہوتی ہے ، یہ وہی گیاس ہے جو گاڑیوں کے دھوئیں میں ہوتی ہے ، یہ زہریلی گیاس خون میں پہنچتے ہی آکسیجن کی جگہ لے لیتی ہے ، اس طرح سگریٹ نوشی کرنے والے کے قلب کو آکسیجن کی فراہمی کم ہوجاتی ہے، یہ گیاس قلب اور پھیپڑے کے مریضوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے ، اس کی وجہ سے تمباکو نوش کا سانس پھولنے لگتا ہے اور اس میں توانائی کم ہونے لگتی ہے۔ اس سے خون کی رگوں کے اندرونی راستے کو نقصان پہنچتا ہے اور وہاں چربی کے جمع ہونے کی وجہ سے وہ تنگ ہوجاتی ہیں۔
(3) کرسیول : ایک طاقتور جراثیم کش مادہ ہے اور فینولی سے تقریبا چار گنا زیادہ اثر کرتی ہے ۔
(4) سائینائیڈ : یہ زہر بھی سگریٹ کے دھوئیں میں پایا جاتا ہے ، اس کے چند قطرے سونگھ لینے سے انسان چند منٹوں میں موت کی آغوش میں چلاجاتا ہے ۔
(5) پولو نیم : جوہری فضلہ ہے جو صحتِ انسانی کے لیے سخت مضر ہے۔
(6) نائٹرو سامائن : یہ کینسر پیدا کرنے والا جز ہے جو تمباکو کا لازمی جز ہے اور تمباکو نوش افراد کو مختلف قسم کے کینسر میں مبتلا کرنے کا موجب ہوتا ہے ۔
(7) ایسی ٹون : یہ وہ مادہ ہے جو مختلف قسم کے پینٹ اور ناخن پالش وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور انسانی صحت کے لیے ضرر رساں ہے۔
(8) امونیا: یہ مادہ روز مرہ کے استعمال میں ٹائلٹ اور فرش وغیرہ صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور سخت مضرِ صحت ہے ، یہ پھیپڑوں کو جلا دیتا ہے ، یہ ایک زہریلی گیس ہے جس سے دم گھٹتا ہے اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔
(9)کیڈسیم: یہ گاڑی کی بیٹری میں استعمال ہوتا ہے اور انسانی صحت کے لیے نقصاندہ ہے ۔
(10) نکوٹین: ایک نامیاتی مرکب ہے جو کہ پودے میں اس کے کل وزن کا پانچ فیصد ہوتی ہے ، یہ تمباکو کا نشہ آور جز ہے ، جو سگریٹ پان گٹکھے وغیرہ میں لذت و سرور کے لیے استعمال ہوتا ہے، سگریٹ کا کش لیتے ہی یہ بڑی تیزی سے منہ کی جھیلوں میں خوب جذب ہوکر خون میں پہونچتا ہے اور پھر فوراً دماغ میں پہنچ جاتا ہے ، بہت معمولی سی مقدار میں جذب شدہ نکوٹین خون میں گلوٹامین وغیرہ کی موجودگی میں اولاً دل اور نبض کی رفتار کو تیز کرتی ہے ، اس کی وجہ سے تمباکونوش خود کو زیادہ چاق و چوبند محسوس کرتا ہے ۔ (روزنامہ اسلام 28؍جنوری 2013)
سگریٹ نوشی سے لاحق ہونے والی بیماریاں: سگریٹ نوشی انسان کے لیے سمِ قاتل اور صحت کی دشمن ہے ، اس سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، یہ انسانی صحت کے نظام کو درہم برہم کردیتی ہے ، اطباء نے سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی درجِ ذیل بیماریوں کو شمار کیا ہے :
(1) پھیپڑوں کا سرطان (2) پھیپڑوں کی سوجن (3) قلب پر حملہ کا خطرہ (4) دورانِ خون میں سستی اور کمی (5) فالج کا خطرہ (6) قلب اور دماغ کی رگوں کی تنگی (7) منہ زبان اور گلے کے سرطان کا خطرہ (8) مزمن کھانسی (9) عضلات کی صحت و توانائی اور قوتِ برداشت کی کمی (10) میدے کا السر (11) سانس پھولنے کا مرض (12) اعضاء تولید کی کمزوری (13) جلد کے مختلف امراض (14) مثانے لبلبے گردے اور عورتوں میں فم رحم کے سرطان کا خطرہ جو کہ دماغ میں بھی منتقل ہوسکتا ہے ۔
سگریٹ اور تمباکو نوشی کی تباہ کاریاں یہیں تک ختم نہیں ہوتی ، ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر سگریٹ زندگی سے گیارہ منٹ چھین لیتی ہے ، سگریٹ نوشی سے نقصان ہونے کے عمل کو محض پندرہ منٹ سے بیس منٹ لگتے ہیں ، سگریٹ نوشی سے انسانی جسم پر مضر اثرات سالوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں مرتب ہوتے ہیں، سگریٹ نوشی کے دوران صرف دس فیصد دھواں سگریٹ نوش کے پھیپڑوں تک پہنچتا ہے باقی 85؍فیصد دھواں فضاء میں پھیل جاتا ہے اور دوسرے لوگوں خاص طور پر بچوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی میں منی سوٹاکی ٹیم کی تحقیق کے مطابق جو کیمیائی مادہ کینسر کا سبب بنتا ہے وہ کیمیائی مادہ سگریٹ نوشی کے سبب انسانی جسم میں بہت تیزی سے بنتا ہے ، تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بالواسطہ سگریٹ نوشی سے اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پانچ سال کے عرصہ تک دھوئیں کے ساتھ رہنے سے اندھے پن کا خطرہ دگنا ہوجاتا ہے ، برطانیہ میں اس وقت تقریبا پانچ لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہیں، ویلنگٹن اسکول آف ہیلتھ اینڈ کینسر کے مطابق عمر اور سماجی پس منظر چاہے کچھ بھی ہو سگریٹ نوشی کرنے والوں میں اموات کی شرح پندرہ فیصد سے زیاد ہ دیکھی گئی ہے۔ برٹش میڈیا جنرل میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سگریٹ پینے سے عام شخص کی عمر میں دس سال کی کمی آجاتی ہے ۔ (میگزین ایڈیشن روزنامہ اسلام 28؍جنوری 2013ء ) علاوہ ازیں تمباکو نوشی نوجوانوں کی قوتِ ارادی اور قوتِ مدافعت کو تباہ کردیتی ہے جس سے دماغی نشو نما میں کمی آجاتی ہے ۔
سگریٹ نوشی کے عوامل و محرکات : جہاں تک سگریٹ نوشی کے عوامل و محرکات کا تعلق ہے تو وہ نفسیاتی ، سماجی ، خاندانی ، معاشی اور سیاسی نوعیت کے ہیں، قریب البلوغ بچے بالعموم سگریٹ نوشی کو خاندانی معاشرے کے خلاف بغاوت میں معین و مدد گار وسیلہ خیال کرتے ہیں، گویا سگریٹ نوشی انہیں اپنے وجود کو منوانے کا مؤثر ذریعہ معلوم ہوتی ہے جب ایک طالبِ علم ماحول کو تبدیل کرنے میں خود کو ناکام محسوس کرتا ہے تو ایک طرح کی نفسیاتی کشیدگی سے دو چار ہوجاتا ہے جس کے ازالہ کے لیے سگریٹ نوشی کاسہارا لیتا ہے ، بہت سے نوجوان اس خام خیالی کا شکار رہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی سے آدمی میں خود اعتمادی اور انہیں داخلی طور پر تحفظ کا احساس ہوتا ہے ، بعض نوجوان احساسِ شرمندگی اور ناکامی کی خفت کو مٹانے کے لیے بھی سگریٹ نوشی کو گلے لگالیتے ہیں ، سگریٹ نوشی کے خاندانی عوامل بھی ہیں مثلاً یہ کہ خاندان میں بڑوں کا سگریٹ نوش ہونا بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے ، بچے اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نو عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کی شرح ان گھرانوں میں زیادہ ہے جہاں گھر کے بڑے سگریٹ نوشی کے عادی ہیں کئی تحقیقاتی رپوٹوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماں باپ کی دیکھا دیکھی بچے بھی سگریٹ نوش بن گئے ، متمول گھرانوں میں مال و دولت کی فراوانی بھی جوانوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنا رہی ہے ، چنانچہ تربیت سے محروم ایسے گھرانوں کے بچے اکثر سگریٹ نوش نظر آتے ہیں، جہاں تک سگریٹ نوشی کے سماجی او ر معاشرتی عوامل کا تعلق ہے تو یہ جان لینا چاہیے کہ ان عوامل کا بھی بڑا دخل ہے ، بیشتر نوجوان اور کم عمر بچے محض تجسس میں سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں کہ دیکھیں آخر اس میں کیالطف ہے، بہت سے لوگ بڑھتے ہوئے معاشی مشکلات سے جب ذہنی تناؤ کا شکارہوجاتے ہیں تو سگریٹ نوشی میں انہیں ایک طرح کی راحت محسوس ہونے لگتی ہے ۔
چھٹکارا کیسے حاصل کریں؟: نوجوانوں اور بچوں اور دیگر افراد کو سگریٹ نوشی سے نجات دلانے کے لیے بیدارئ شعور کا کام انتہائی ضروری ہے ، لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کیاجائے کہ صحت اور زندگی اللہ کی امانت ہے ، اسی سے انسان دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل کرتا ہے ، صحت کو برباد کرنا در اصل اپنی دنیاو آخرت کو بربادکرنا ہے ، شرعی نقطہ نظر سے جس طرح خود کشی کرنا حرام ہے اسی طرح بتدریج موت کی طرف ڈھکیلنے والی مضرِ صحت اشیاء کا استعمال کرنا بھی ناجائز ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ ۔ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ سگریٹ نوشی سے جہاں صحت برباد ہوتی ہے وہیں دولت کا ضیاع بھی ہے ، لوگ ہزاروں روپیے مہلک کشوں میں ضائع کردیتے ہیں جبکہ کل قیامت کے دن پائی پائی کا حساب لیا جائے گا۔ سگریٹ نوش انسان دوسروں کی اذیت کاباعث بنتا ہے ، سگریٹ نوشی سے منہ میں مکروہ بد بو پیدا ہوتی ہے جس سے ہر شخص کو تکلیف ہوتی ہے جو اس سے گفتگو کررہا ہوتا ہے یا نماز میں اس کے بازو کھڑا ہوتا ہے مساجد میں جہاں کچی پیاز اور لہسن کھاکر آنے کی ممانعت ہے وہیں اس ممانعت میں ہر وہ چیز داخل ہے جو آدمی کے منہ میں کریہہ بدبو پیدا کرتی ہے ، والدین اور گھر کے سرپرستوں کو چاہیے کہ اگر وہ اس بلا میں گرفتار ہیں تو کم از کم اپنے بچوں کی خاطر اس سے گریز کریں ورنہ پڑوسی کا دیکھا دیکھی اور بچے بھی عادی ہوجائیں گے ، اس لعنت سے چھٹکارے کے لیے گھریلو تربیت بھی ضروری ہے نیز اسکولوں اور تعلیم گاہوں میں ذہن سازی ناگزیر ہے یا نصابِ تعلیم میں کوئی ایسا مضمون شامل کیاجانا ضروری ہے جس میں سگریٹ نوشی کے نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہو ۔