سیاسی و سماجی

خودی میں ڈوب جا غافل ۔۔۔۔!

ہر انسان عزت کا متلاشی ہے،وہ مجلسوں میں اپنے تذکرے سننا چاہتا ہے وہ خاک تیرہ دروں سے اٹھ کر ہمالیہ کی رفعت کو رام کرنے کے چکر میں مست ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عظمت کے گیت گائیں،اس کے تقدس کے نغمات ہر شخص کی زبان پر ہوں۔مگر یہ ایک ہوس ہے ایسی ہوس جو انسان کو ٹھوکر میں ڈال دیتی ہے،طوق میں جکڑتی اور جال میں پھنسادیتی ہے،اگر ہوس نہ ہو تو صیاد جال کیوں ڈالے؟ اسی ہوس میں پھنس کر ہم خود کو بھلادیتے ہیں،نظریہ خودی نظروں سے محو ہوجاتا ہے۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں روشن ہونے کے لیے پہلے اپنا اندر روشن کرنا پڑتا ہے،ہوس کی رنگینیوں سے نکل کر یقین کی راہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔جس کے لیے انسان کو پہاڑوں جیسے عزائم،فولاد سے زیادہ سخت ہمت،بے انتہا صبر اور قائل کردینے والے سکوت سے گذرنا پڑتا ہے،منزل کی جستجو کرنے والا راہ کے کانٹوں کا شکوہ نہیں کرتا،رد عمل سے گریز کرنا،کسی کا عیب جان کر اس کی خوبیوں کی تشہیر کرنا،دولت و پبلسٹی کو ٹھکرانا زمانے سے بے غرض ہوکر سفر حیات کا آغاز کرنا یہ ساری چیزیں ایک نا قابل ذکر زندگی کو حسن عطا کرتی ہے،بہت بڑا حسن کہ آپ کے ہمعصر دل ہی دل میں ناز کرنے لگتے ہیں،مگر وہ اظہار نہیں کرتے کیوں کہ ان کی "میں” اس چیز سے روک دیتی ہے،وہ آپ کو حوصلہ نہیں دیتے؛بل کہ نیچا دکھانے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں،دراصل انھیں گلہ آپ کی مقبولیت سے نہیں بل کہ خود اپنی بدقسمتی اور نااہلیت سے ہے۔۔۔ذہن سے نکال پھینکوکہ معاشرہ ہمیں کاندھوں پر اٹھالےگا،معاشرہ کسی کو نہیں اٹھاتا،معاشرہ گرانے کے فن میں طاق ہے،آپ کی انفرادیت،صفت بے نیازی،شان خود داری اور مثبت مزاجی،انتقام کی آگ سے اجتناب یہ چیزیں معاشرے میں وقار دیتی ہے۔۔ عزم و ہمت کا یہ پیغامبر،اپنی روشنی کا ساز بڑھا کر یہی کہتا جارہا تھا کہ اختلاف کو برداشت کرنا، اختلاف رائے اور تنقید سے تعلق میں فرق نہ آنے دینا، تنقید کو حلم وتحمل اور فراخ دلی وعالی حوصلگی کے ساتھ سننا، اچھی بات کو قبول کرنا، غلط بات کو نظرانداز کردینا۔ اپنی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنے میں کسی بزدلی کا شکار نہ ہونا، نہ کسی غلطی کے اعتراف میں بخل برتنا، نہ کسی پر تنقید وتعریض کرنے میں فیاض بننا، نہ کسی کی تعریف کرنے میں کنجوسی برتنا۔ کوئی منہ پر برا بھلا کہے تو وہ خود کو ہی برا بھلا کہہ رہا ہے، تم کیوں غصہ کرو۔ کوئی پیٹھ پیچھے برا بھلا کہے تو تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ تم جواب نہ دوگے تو فرشتے تمہاری طرف سے جواب دیں گے۔وقت تمھارے تقدس کا گواہ بن کر آےگا۔ تم غصہ، انتقام، ذلت وعزت کے چکر میں پھنس جاؤگے تو اور دس گناہوں میں مبتلا ہوگے۔ خاموش رہوگے تو فرشتوں کی نصرت کے علاوہ برا بھلا کہنے والوں کی نیکیاں بھی تمہیں ملیں گی۔ تمہیں تو امام ابوحنیفہؒ کی طرح اسے ہدیے بھیجنا چاہئیں، کجاکہ تم غصے اور انتقام کی آگ میں خود کو جلانا شروع کردو۔ معترضین کا جواب دینے کے چکر میں بھی نہ پڑنا، خصوصا برسرعام۔ ہر معترض کی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرلینا۔ وہ کوئی صحیح بات کہیں، تو اپنی اصلاح کرلینا۔ اگر غلط لکھا ہے تو درگزر کردینا۔ درگزر کرنے سے تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا، عزت میں کوئی کمی نہ آئے گی، تلخی نہ بڑھے گی، دل جیتنے کی شیرینی ہاتھ آسکتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ اعتراض اور رد اعتراض میں الجھنے سے زیادہ فضول اور کوئی کام نہیں۔ یہ نہ کروگے تو وقت بچے گا۔ وہی وقت خیر اور اجر کے حصول میں لگادینا۔
دوسروں کو قائل کرنے کے لیے خود کو قائل کرنا پڑتا ہے،خودی کے دریا میں غرق ہوکر موتی تلاشنا ہوتے ہیں۔۔”میں” والی خودی نہیں کہ یہ مذموم شئ ہے؛بل کہ اقبال کی خودی”اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی”والی خودی۔۔ خودی تکبر و غرور اور نخوت کا نام نہیں،ماہ و افلاک اور کائنات کی رنگینیوں سے نظریں ہٹاکر اپنے اندر جھانکنےکا نام ہے۔۔خودی کیا ہے؟ محض ایک لفظ، ایک فکر یا فقط ہماری ذات؟ نہیں اور ہرگز نہیں خودی تو وہ مرکزی نقطہ ہے جہاں سے حیات پھوٹتی ہے اور کہکشاں کی قوس و قزح سے کائنات روشن ہوجاتی ہے۔ خود کو جاننا، پہچاننا اور اپنے وجود کے ہونے اور نہ ہونے کی اہمیت کا ادراک کرنا خودی ہے۔ فرد واحد ہونے کی حیثیت سے اپنی ذات کا ادراک اور اس میں چھپے رموز کو جاننا اور اپنے تخلیق کیے جانے کا مقصد جاننا خودی ہے۔ اپنی اصل سے روشناس ہونا خودی ہے۔ خودی وہ امر ہے جو رب تعالی نے انسانوں کو عطا کی تاکہ وہ سوچے اور غور و فکر کرے اور اپنی اصل کو تلاش کرے۔۔۔۔میں شیر ہوں گیدڑوں سے ڈرنا فطرت کے خلاف ہے والی خودی، خودداری بہترین انسانی صفات میں سے ایک بیش قیمت وصف ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے وجود کی اہمیت کو پہچانتا ہے اوراپنےآس پاس پھیلی ہوئی دنیا سے اپنے رشتوں کو ازسرنوترتیب دیتا ہے۔نکل جائیے اس ماحول سے جو آپ کی خودی پر اثرانداز ہو۔وہ ماحول جو آپ کے تشخص کا سودا گر ہو۔جو آپ کا امتیاز مٹا کر ایک معمولی سا انسان بل کہ سنسان بنانا چاہتا ہو۔تم تو اس کائنات کی روح ہو،اس کائنات کا رنگ ڈھنگ اور مثالی بانکپن آپ ہی کے دم سے ہے،ایسا بن کہ کائنات تجھ پر رشک کرے،پہاڑ تیرے جواں جذبے سے حوصلے مانگے،خودی میں اتنا گھل جا کہ سمندر کی طغیانی سکتے میں پڑجائے،اتنا صبر کر کہ دشمن آب آب کی صدائیں لگانے پر مجبور ہوجائے،دوسروں کے کاندھوں پر ٹیک لگانا چھوڑ،ان کی بیساکھیوں کے سہارے چلنا بند کر کہ سہارا نہیں، تجھے غرق کرنے کے لیے ایک پگڈنڈی کا سہارا دیا جارہا ہے،بیساکھی کی راہ تیری رفعت کو پست کی طرف لے جانے والی ہے ۔۔۔اس سے بچ،دامن کو بچا،مایوس ہونا بند کر اور۔۔۔
 اپنے من  میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×