اسلامیات

موت اللہ تعالی کا ایک فیصلہ اور مستقل پروگرام ہے

شہر نظام آباد کی ہمہ جہت شخصیت قابل قدر عالم دین حضرت مولانا سید ولی اللہ قاسمی صاحب علیہ الرحمۃ کی وفات پرحسرت کے بعد ادارہ مظہرالعلوم علماء حفاظ اور شہریان نظام آباد سے اظہارتعزیت کےلیےحاضر ہونے پر علماء کرام کی ایک خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ مولانا سید ولی اللہ قاسمی صاحب صرف آپ ہی کے نہیں میرے بھی بڑے تھے اور میرااحساس ہیکہ میں نے اپنا بڑا کھودیا مزید کہا کہ مولانا مرحوم سے میرا تعلق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا لیکن گذشتہ 25/برس سے میں مسلسل مولاناسے رابطہ رکھا ہوا تھا ابتداء مولانافرحت اللہ صاحب حیدرآباد کی دعوت اور اصرار پر اس مدرسہ میں حاضری ہوتی تھی لیکن کچھ ہی عرصہ میں مولانا نے میرے دل پر قبضہ کرکے اپنی جگہ بنالی تھی تب سے تو مجھے کسی کے دعوت دینے کی ضرورت نہیں پڑی ازخود میں نظام آباد حاضر ہوجاتاتھا اور مولانا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے مختلف پروگراموں میں حاضر ہوجاتاتھا اور مولانا مرحوم ایسا قلبی تعلق قائم ہوچکا تھا کہ میں اپنی مصروف ترین زندگی کے اوقات میں سے بھی وقت نکال کر آپ سے فون پر بڑی طویل گفتگو کیا کرتا تھا آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے جس کا ہم سب کو احساس اور افسوس ہے اور ہم میں سے ہر کسی کو اپنے اپنے وقت پر موت کا مزہ چکھنا ہے دوستو آج ہر انسان اپنی موت سے قریب ہوتا جارہا ہے اور یادرکھیں کہ موت کا تعلق کسی حادثہ یا بیماری سے نہیں ہے موت اللہ کا ایک مستقل پروگرام اور فیصلہ ہے جو ہم کو نظر نہیں آسکتا لیکن چونکہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اس لیے ہم اس کو کسی نہ کسی حادثہ بیماری اور ظاہری اسباب سے جوڑدیتے ہیں زندگی نام ہے جسم اور روح کے اجتماع کا اور انہیں کے الگ الگ اور جداہونے کانام موت ہے انسان کا نہ جسم فنا ہوتا ہے اور نہ ہی روح فنا ہوتی ہے بلکہ جب موت آتی ہے تو روح اپنی جگہ چلی جاتی ہے اور جسم کے اجزاء بکھر جاتے ہیں اور اگر اللہ کی مرضی ہوتی ہے تو بعض لوگوں کے اجزاء جسم بکھرتے بھی نہیں ہیں جیسے انبیاء اور شہداء کے اجسام آج بھی محفوظ ومامون رہتے ہیں یہ اللہ کی جانب سے ان کا خصوصی اکرام ہوتا ہے موت کے آنے کے بعد جسم کے اجزاء فنا نہیں ہوتے بلکہ بکھر جاتے ہیں اور اسی حقیقت کو اللہ نے یاددلاتے ہوے قرآن مجید میں وہ آیت نازل فرمای جس میں میت کو دفنانے کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوے ہم پڑھتے ہیں منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری اسی حقیقت کو بتلایا گیا کہ جسم کے اجزاء بھی وہیں چلے جاتے ہیں جہاں سے آئےتھے اور اسی سے دوبارہ ان کو اٹھایا جائےگا ماں کے پیٹ میں جب چار ماہ مکمل ہوجاتے ہیں اس وقت اللہ پاک اس کا جسم بناکر اس سے روح کا رشتہ قائم فرمادیتے ہیں جو اللہ کے مقررکردہ وقت تک باقی رہتا ہے اور جب وقت موعودآجاتا ہے تو پھر ایک لمحہ کے لےء بھی وہ موت نہ مقدم ہوسکتی ہے نہ موخر ہوسکتی ہے اس وقت دنیا میں ایسے بہت سارے انسان ہیں جن کو اللہ تعالی نے موت کا تجربہ کرایا لیکن چونکہ ان کا مقررہ وقت پورا نہیں ہواتھا جس کہ وجہ سے وہ موت کے منھ میں جاکر بھی واپس آگےء اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انسانوں کو وفات دیتے ہیں ان کی روح نکال کر بھی اور کبھی اس روح کو نکال لیتے ہیں موت اور وفات کے بغیر بھی اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا جیسے نیند کی حالت میں بھی انسان کی موت ہوجاتی ہے اور روح اپنی جگہ چلی جاتی ہے جس کا مقررہ وقت آجاتا ہے اس کی روح کو روک لیتے ہیں اور جس کا مقررہ وقت پورا نہیں ہوتا اس کی روح کودوبارہ اس کے جسم میں بھیج دیتے ہیں موت ایک حقیقت ہے جس کا مزہ ہر مخلوق کو چکھنا ہے کوئی جلدی اور دیر سے بہرحال اس تلخ حقیقت سے گذرنا ہی ہے اللہ پاک نے اپنے نبی کی زبان سے یہ بات کہلوادی ہیکہ قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم اے نبی کہدو !کہ وہ موت جس سے تم فرار اختیار کرتے ہو وہ تم سے آملے گی پھر تم کو دوبارہ عالم الغیب والشھادہ کی بارگاہ لوٹایاجاے گا وہ تم کو بتلادے گا جوکچھ تم کرتے تھے اس دنیا میں زیادہ دنوں تک رہنا کمال نہیں ہے بلکہ جتنی زندگی ملے ان ایام کا صحیح استعمال کرکے اللہ کو زیادہ راضی کرلینا کمال ہے دنیامیں ایساہواہیکہ کچھ لوگوں کو کم زندگی ملتی ہے مگر وہ کام ایسے کرجاتے ہیں جس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہیکہ صدیوں کی زندگی انہوں نے گذاری ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات مبارکہ 63/سال کہ تھی لیکن آپ نے روےزمین پر وہ کارنامے انجام دیےء کہ نہ آج تک سکی نے وہ کام کےء اور نہ قیامت تک کوی ایسے کام کرے گا مولانا قاسم نانوتوی اور دیگت بانیان دارالعلوم دیوبند نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈال کر تعلیم وتربیت تصوف وسلوک تصنیف وتالیف تحریروتقریر دعوت وتبلیغ کا وہ کارنامہ انجام دیا کہ رہتی دنیا تک جو بھی خیر اور امت کی بھلای کے کام ہوں ان سب کا اجر اور ثواب یقینا ان حضرات اکابرین کو ملتا رہے گا حالانکہ ان کی عمروں کی گنتی کی جاے تو پچاس باون سے زیادہ نہیں ہوگی ان کے کارناموں پر نظر ڈالیں تو ایسا معلوم ہوتا ہیکہ صدیوں کی زندگی گزار کر گےء ہیں جانے والے تو چلے جاتے ہیں اب ہم کو کیا کرنا چاہیے تو بزرگو ہمیں دوکام کرنا ہے (1)ان گزرے ہوے لوگوں کا ذکر خیر ان کی خوبیوں کو یاد کرکرکے ان کے لےء کثرت سے ایصال ثواب اور اللہ سے ان کی مغفرت اور قرب کے اعلہ درجات کے لےء دعاء کرنا(2)ہمیں اپنی بقیہ زندگی کے ایام کی قدردانی کرنا مولانا سید ولی اللہ قاسمی بھی انہیں اللہ کے منتخب وچنندہ بندوں میں سے تھے جنہوں نے کم وقت میں زیادہ کام کرکے اللہ کو راضی کرلیا اب ہماری اپنی ذمہ داری ہیکہ ان کے چھوڑے ہوے کام کو اللہ کی امانت سمجھ کر پورا کرنے کی فکر کرتے رہیں ورنہ عنداللہ ہم سے اس کا مواخذہ اور سوال ہوگا اللہ پاک ہم سب کو توفیق عمل وقدردانی نصیب فرماے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×