اسلامیات

ماہ محرم الحرام؛ کیا کریں ،کیا نہ کریں…..؟؟

کائنات ہستی میں انعامات خداوندی کا حساب وشمار نہیں، عالم کا ذرّہ ذرّہ اور دنیا کا چپّہ چپّہ اسی کی رحمت و عنایت کا مظہر ہے۔اس کے لامتناہی احسانات میں ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اس نے بندوں کے روحانی ارتقاء کے لیے خیرات و حسنات کے ایسے موسم عطا کیے؛جو رحمت الہی کے نزول اور ازدیادِ اجر کے حوالے سے منفرد اورجداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔

یہ دیکھیے! ماہ شعبان آیا اور رحمت و غفران کی نوید دے کر اختتام پذیر ہوگیا پھر استقبال رمضان کی ہلچل شروع ہوئی اور نیکیوں کاموسمِ بہار تیس دن تک پوری آب و تاب کے ساتھ مغفرت و نجات کے ہمہ رنگ جلوے بکھیرتا رہا اور ہلال عید کے ساتھ سال بھر کےلیے غروب ہوگیا۔ اس پر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے تیاریاں شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہ ذی الحجہ آپہنچا، جو طالبین صادقین کو خم کے خم سیراب کرتے اور ایثار و قربانی کا درس دیتے ہوئے الوداع کہہ گیا۔ اب نئے سال کے ساتھ ماہ محرم الحرام نے دستک دی اور امیدوں کے کنول کھلنے لگے، جذبات میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا، عمر رفتہ کے احتساب اور عمر آئندہ کی منصوبہ بندی کا خیال آیا،ساتھ ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی شہادتوں کا تذکرہ ہونے لگا؛لیکن زمانہ کو قرار کہاں ؟؟آناً فاناً یہ مہینہ بھی گزر جائے گا اور اللہ کے موفق بندے حسب توفیق نیک اعمال کے ذریعہ اپنی عاقبت سنوارلیں گے اور بد بخت لوگ اپنی ہی بد عملی میں پڑے رہیں گے۔

محرم کا مہینہ اس درجہ قابل احترام ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں اس ماہ کی عظمت وحرمت کا اعلان کیا ہےجیساکہ ارشاد باری ہے:’’بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں، جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے ان میں سے چار عزت والے ہیں‘‘(سورۃ التوبۃ:۳۶)جو ذوالقعدۃ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں جس کا تذکرہ حدیث میں آیا ہے۔یہی وہ باعظمت مہینہ ہے جسے آثار و روایات  میں اللہ کا مہینہ کہا گیا، جسے ہجرت کےپہلے مہینہ سے یاد کیا گیا، جسے مختلف تاریخی وقائع سے سبق آموزی کا مہینہ بتلایا گیا؛ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسے بابرکت و ذی مرتبت مہینہ کو غم و ماتم کا مہینہ بنادیاگیا، اس میں مختلف رسوم و بدعات کا دہانہ کھول دیا گیا اور شیعیت کے زیر اثر عوام کی اکثریت کو یہی باور کرایا گیا کہ اس مہینہ میں شادی بیاہ کی تقاریب کا انعقاد موجب نحوست ہے، سیاہ لباس زیب تن کرنا محبت اہل بیت کی علامت ہے اور سبیلیں لگاکر پانی و شربت پلانا ہی جنت و مغفرت کی ضمانت ہے وغیرہ۔۔۔۔

زیر نظر تحریر کا مقصد محرم الحرام کے فضائل و اعمال کی وضاحت اور بدعات و خرافات کی نشان دہی ہے؛ تاکہ اعتدال کے ساتھ ان امور کو انجام دیا جائے جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور ان سے بچنے کی کوشش کی جائے جن سے منع کیاہے۔

محرم کے روزے :

محرم وہ قابل قدر مہینہ ہے کہ رمضان کے بعد اِسی ماہ میں نفل روزہ رکھنا سب سے زیادہ فضیلت کا باعث ہے جیسے فرائض کے بعد نوافل میں قیام اللیل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اِسی طرح فرض روزوں کے بعد نفل روزوں میں محرم کے روزے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندہیں، ایک حدیث میں ہے کہ ایام محرم میں ایک دن کا روزہ رکھنا دوسرے مہینوں کے تیس دن روزہ رکھنے کے برابر فضیلت رکھتا ہے۔”حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے اِرشاد فرمایا: بہترین روزہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں ۔”(مسلم شریف)

” حضور اکرمﷺ نے (ایک صحابی کو خطاب کرتے ہوئے )ارشاد فرمایا کہ صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھواور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو، ان صحابی نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے لہٰذا میرے لیے اور اضافہ کردیجیے ۔آپ نے فرمایاہر مہینے میں دودن روزہ رکھ لیا کیجئے پھر ان صحابی نے عرض کیا کہ میرے لیے اور اضافہ فرمادیجیے (کیونکہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے )۔آپ نے ارشاد فرمایاکہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کیجئے پھر ان صحابی نے عرض کیا کہ میرے لیے اوراضافہ فرمادیجئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اشھرحرم (ذیقعدہ ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب کے مہینوں )میں روزہ رکھو اور چھوڑو (آپ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی ) اور آپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا ان کو ساتھ ملادیا پھر چھوڑ دیا ۔مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھو پھر تین دن ناغہ کرو اور اسی طرح کرتے رہو”۔(ابوداؤد شریف)

فائدہ : حدیث شریف میں ان چار مہینوں کے اندر روزہ رکھنے کا جو طریقہ بتلایا گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہرشخص اس طریقہ پرعمل کرے بلکہ جس طرح اور جتنے روزے کوئی رکھ سکتا ہو اجازت ہے۔ حضورﷺ نے ان صحابی کے لیے یہی طریقہ مناسب سمجھا تھا اس لیے اُن کی شان اور حالت کے مطابق یہ طریقہ تجویز فرمایا ۔

محرم کے عمومی روزوں کے علاوہ  عاشوراء کے دن خاص کر روزہ رکھنا اور اس کا اہتمام کرنابھی آپﷺسے ثابت ہےجیساکہ ” حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ رسولِ کریمﷺکسی خاص دن روزہ کا اہتمام فرماتے ہوں اور اس کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں مگر سوائے اس دس محرم کے دن کے اور اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے مہینہ کے ۔”(بخاری شریف) علامہ نوویؒ : فرماتے ہیں کہ نفلی روزے رکھنے کے لیے افضل ترین مہینہ محرم ہے ،اِس میں عاشورا اور اِس کے علاوہ محرم کے دُوسرے ایام کے روزے بھی داخل ہیں۔ (شرح مسلم للنووی)یہ فضیلت ماہِ محرم کے تمام روزوں کو شامل ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو اِس پورے مہینے کے روزے رکھیں یا اِس کی ہر پیر اورجمعرات کو روزہ رکھیں ورنہ نو، دس او رگیارہ کا، اور کم اَز کم نودس یا دس گیارہ کا روزہ رکھیں !

یوم عاشوراء سے متعلق ایک اور کام:

محرم کی دسویں تاریخ  کوعاشورا کہتے ہیں ،اس دن روزہ رکھنے کےعلاوہ اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے وسعت وفراخی بھی روایات سے ثابت ہے؛جو اگرچہ فرض واجب نہیں،مگرمستحسن ہے کہ اس طرح کرلیاجائے۔ چناں چہ حضرت ابن مسعود،حضرت ابوسعید الخدری،حضرت ابوہریرہ اورحضرت جابر رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوشخص عاشوراء کے دن اپنے گھروالوں پرخرچ کرنے میں وسعت وفراخی کرے گا، اللہ تعالی ساراسال اس پر(رزق) میں وسعت فرمائے گا۔(شعب الایمان بیہقی)

اگرچہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے؛مگرمحدثین کی تصریحات کے مطابق ایسی روایات جو مختلف طرق سے مروی ہوں ،تعددطرق کی وجہ سے ان میں قوت پیداہوجاتی ہے؛ اس لیےان کو فضائل کے باب میں معتبر ماناجاتا ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ اس مضمون کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:اگرچہ ان روایات کی سندوں میں ضعف ہے، لیکن ان میں مجموعی طورپراتنی بات ضرور پائی جاتی ہے کہ ان اسانید کو ملا لیا جائے تو قوّت کی شکل بن جاتی ہے ۔(شعب الإیمان للبیہقي، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر: 3/365)

بعض منکرات وخرافات:

محرم کے مہینہ میں عاشورا کے دن حضرت حسین اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شہادت کے غم میں نوحہ اور ماتم کرنے کا عام رواج ہوچکا ہے،جو بہ چند وجوہ  ناجائز ہے:

1: شریعت مطہرہ میں رنج لاحق ہونے یا عزیز اقارب کے فوت ہونے پر صبر کی تلقین کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر صبر وتحمل کا حکم دیا ہے اور اس کے فضائل وانعامات بیان فرمائے ہیں، احادیث میں بھی حضور اقدس ﷺ نے مصائب پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے، یہ ساری صورتحال کسی مسلمان سے مخفی نہیں۔اس لیے نوحہ اور ماتم کرنا صبر کے خلاف ہے۔

2: شریعت نے اپنے عزیز کی فوتگی پر اعتدال کے ساتھ غم زدہ رہنےکی اجازت دی ہے، اس میں آنسو بہانا صبر وتحمل کے خلاف نہیں بلکہ غم کا تقاضا ہے،اور حضور ﷺنے اپنے فرزند کے انتقال پر اسی طرح اظہار غم فرمایا ہے؛ البتہ بلند آواز سے رونا چیخنا، چلانا، جسم یا چہرے کو پیٹنا، گریبان چاک کرنا؛ یہ تمام ایسے امور ہیں جن سے شریعت منع کرتی ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو چیزیں ایسی ہیں جو کفر ہیں: ایک تو نسب میں طعنہ دینا، اور دوسری چیز میت پر نوحہ کرنا۔(مسلم شریف)ایک اور روایت میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دو احمق اور فاجر آوازوں سے منع کیا ہے: ایک تو مصیبت کے وقت چیخنا، چہرہ نوچنا اور گریبان پھاڑنا، اور دوسری شیطانی مرثیہ خوانی۔(ترمذی شریف)

اسی طرح بعض لوگ محرم کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اس میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے اجتناب کرتے ہیں ؛جب کہ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ شرعاً سوگ کرنے کی صرف چند صورتیں ہیں اور وہ بھی خواتین کے لیے: مطلقہ بائنہ کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقعہ پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے اور سوگ کا مطلب یا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگھار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوش نما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلاً: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا اور سیاہ لباس وغیرہ پہنناجائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کیا معنی رکھتا ہے؟!!

خلاصۂ کلام:

آج ضرورت ہے اِس بات کی کہ محرم الحرام کی آمد پر ہم اِس کی عظمت و فضیلت سے فائدہ اُٹھا کر زیادہ سے زیادہ اللہ جل شانہ کی عبادت اور حضورﷺ کی سچی اطاعت میں اپنا وقت گزاریں اور اِس میں رونما ہونے والے عظیم الشان واقعات سے نصیحت و عبرت حاصل کریں کہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ محرم الحرام عبادت و عبرت کا ہے، اِس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ خصوصاً اِس میں ہر قسم کے محرمات و منکرات، خرافات و رسومات، بدعات اور معاصی سے مکمل اجتناب کریں؛تا کہ اِس کا اثر پورے سال بلکہ زندگی بھر باقی رہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×