اسلامیات

گرمائی تعطیلات اور مسلم بچوں کی دینی تربیت

مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی

اسلام نے ہر اس شخص پر جسے اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار اور محافظ بنایا گیا ہے چاہے وہ آقا ہو یا حاکم ، سردار ہو یا افسر ، سربراہ مملکت ہو یا بادشاہ وقت،سرپرست ِ خانہ ہو یا گھر کا کفیل یا پھر ماں باپ ہوں یا اساتذہ! ہر ایک پر اپنے اپنے ماتحتوں کی خبر گیری و خیر خواہی اور انکی دینی واخلاقی تربیت کی ذمہ داری عائد کی ہے اور آگاہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ لاپرواہی وبے توجہی ، ظلم وناانصافی اوران کی دینی واخلاقی تعلیم وتربیت سے بے فکری وبے زار گی پر روز محشر خدا کے حضور ان کے لئے سخت باز پرس کا سبب ہوگی، جناب ِ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’کلکم راعِ وکلکم مسئول عن رعیتہ فالامام راعٍ وھو مسؤل عن رعیتہ والرجل راعٍ وھو مسئول عن اھلہ والمرأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا وھی مسئولۃ عنھا والعبد راعٍ علی مالِ سیدہِ وھو مسئول عنہ الا کلکم راعٍ وکلکم مسئوول عن رعیتہ(بخاری ) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میںکا ہر شخص نگران ومحافظ ہے اور تم میں ہر ایک سے ان لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا جو تمہاری نگرانی وسرپرستی میں ہیں ،امیر بھی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ تاچھ ہو گی ،اور شوہر بھی اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہے اور اس سے اپنے اہل وعیال کے بارے میں سوال ہوگا ، (اسی طرح ) بیوی (بھی) نگران ہے اپنے شوہر کے گھر کی ،اس سے پوچھا جائے گا،اور (غلام )خادم اپنے مالک کے مال کا محافظ ہے اور اس سے بھی باز پرس ہوگی،یاد رکھو! پس ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی زیر نگرانی لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس حدیث کے ذریعہ معلم انسانیت ومربی اعظم ﷺ نے نہایت وضاحت اور بے حد تاکید کے ساتھ بتایا کہ نگران اور سرپرست کی ذمہ داری صرف کھلا نے ، پلانے ،عمدہ لباس پہنانے اور اچھے مکان میں رکھنے کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس کے دین وایمان اور اخلاق وکردار کی ذمہ داری بھی اسی کے ذمہ ہے اس میں کوتاہی ولاپرواہی بد ترین خیانت اور ایک سنگین جرمِ ہے جس کے سبب قیامت میں سخت پکڑ کی جائے گی۔ اللھم احفظنا منہ
ایک دوسری حدیث میں محسنِ انسانیت ﷺ نے بڑی صراحت کے ساتھ فرمایا کہ: لا یسترعی اللہ تبارک وتعالیٰ عبداً رعیۃ قلت اوکثرت الا سألہ اللہ تبارک وتعالیٰ عنھا یوم القیامۃ اقامہ اقام فیھا امراللہ تبارک وتعالیٰ ام اضاعہ حتی یسئالہ عن اھل بیتہ خاصۃ(مسند احمد) اللہ تعالیٰ دنیا میں جب کسی شخص کو لوگوں پر اقتدار عطا کرتا ہے ،خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ، تو قیامت کے دن ضرور اس سے ان کے بارے میں پوچھے گاکہ اپنے ماتحتوں پر خدا کا دین جاری کیا یا پھر خدا کے دین کو ان پر جاری کرنے میں بے پرواہی برتی،یہاں تک کہ آدمی سے اپنے اہل خانہ (بیوی ،بچے اور دوسرے زیر کفالت لوگوں) کے بارے میں بھی پوچھ تاچھ ہوگی۔اس حدیث میں محسن اعظم ﷺ نے نہایت صاف اور واضح الفاظ میں امت کو اس جانب توجہ دلائی کہ وہ اپنے ماتحتوں کے بارے میں غفلت وکوتاہی کا شکار نہ ہوں،اپنی ذات کی طرح ان کی شخصیت کو دیندار بنانے کی فکر کرتے رہیں ، ان کی بے دینی اور شریعت سے دوری اور احکامات ربانی وفرمودات نبویﷺ سے بُعد ان کے ساتھ تمہیں بھی سزا کا مستحق نہ بنادے ،عموماً دیکھا گیا کہ صدر خانہ اور ماں باپ تو نماز ،روزہ اور سنتوں کے پابند ہوتے ہیں مگر اپنے ماتحتوں اور اپنی اولاد کو دیندار بنانے کی طرف توجہ نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تو دینی احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن ان کے گھر بے دینی کی عملی تصویر پیش کرنے لگتے ہیں ،پھر دھیرے دھیرے بے دینی کا ماحول آ نے والی نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے ۔
اولاد کے ساتھ اپنے دیگر ماتحتوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مربی انسانیت ﷺ کے ارشادات وفرمودات اور دیگر انبیاء ؑ کے طریقہ ٔ تعلیم و تربیت کا ذکر قرآن وحدیث اور سیرت کی بہت سی کتابوں میں بڑے اچھوتے انداز میں کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی اولاد کی جسمانی فکر سے بڑھ کر روحانی واخلاقی فکر فرمایا کرتے تھے ، حضرت ابراہیم ؑ واسحاق ؑ نے اپنے اپنے بچوں کو دین مستقیم پر گامزن رہنے کی جس انداز میں وصیت فرمائی تھی قرآن نے اُسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :ووصی بھا ابرٰھیم بنیہ ویعقوب یبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون(البقرہ ۱۳۲) حضرت ابراھیم وحضرت یعقوبؑ نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ اے ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ا س دین ِ اسلام کو پسند فرمالیاہے لہذا تم اسلام ہی کی حالت میں مرنا،اسی طرح حضرت یعقوبؑ نے اپنے انتقال کے وقت بطور خاص اپنی سب اولاد کو جمع فرماکر ان الفاظ میں وصیت فرمائی کہ : اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الٰھک والٰہ اٰبآئک ابراھیم واسمٰعیل واسحق الھا وحدا ونحن لہ مسلمون(البقرہ ۱۳۳) جب حضرت یعقوب ؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنی اولاد سے فرمایا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟ تو سب نے جواب دیا کہ (ہم آپ کے بعد بھی) آپ کے معبود اور آپ کے آباواجداد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاق ؑ کے معبود ہی کی عبادت کریں گے جو ایک ہے اور ہم ہمیشہ اسی کے فرمانبر دار رہیں گے۔
مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: انبیاء ؑ کے اس طرز عمل سے ایک اصولی بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ والدین کا فرض اور اولاد کا حق ہے کہ سب سے پہلے ان کی صَلاح وفلاح کی فکر کی جائے اس کے بعد دوسروں کی طرف تو جہ کی جائے ( معارف القرآن ج ۱ ؍۳۴۰) جس طرح جسم میں روح کی اہمیت ہے اسی طرح انسانی زندگی میں دین وایمان ، اسلامی تہذیب و کردار اور اسوۂ حسنہ نبی رحمت ﷺ کی اہمیت ہے ،جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے اسی طرح دین وایمان کے بغیر زندگی بے رونق بلکہ بے حیثیت ہے ،شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اپنے خطبات میں فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں والدین کو اپنے اولاد کے کیریر بنا نے اور ان کے مستقبل سنوار نے کی فکر تو ہے مگر انہیں دیندار بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں ،چنانچہ ایک شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے بچے کی دنیوی کامیابی کو عظیم اور اس کی بے دینی کو معمولی خامی ونقصان سے تعبیر کر رہے تھے حالانکہ ان کا یہ سو چنا ایسا ہی ہے جیسے ایک مریض کو کسی ڈاکٹر کے پاس لیجایا گیا ، مریض کے معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ جسم تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے بس صرف جان نکل گئی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسان کے جسم سے جان نکل جائے تو وہ مردہ کہلاتا ہے اسی طرح آدمی کی زندگی سے دین وشریعت نکل جائے تو وہ بھی دینی اعتبار سے مردہ انسان ہی کی طرح ہوتا ہے ۔
والدین پر جہاں اپنی اولاد کی ظاہری اور جسمانی راحت وآرام کی فکر کرنا ضروری ہے وہیں انکی دینی ،روحانی اور اخلاقی حالت کی فکر کرتے رہنا بھی اس سے زیادہ ضروری ہے بلکہ جسمانی فکر پر روحانی فکر کو ترجیح دینا زیادہ اہم ہے کیونکہ جسمانی فکر سے دنیا بنتی ہے اور ر دینی و رو حانی فکر سے آخرت سنور تی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اُ خروی زندگی کے مقابلہ میں دنیوی زندگی کی قدر وقیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، قرآن میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے وَالْآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَّأَبْقٰی (سورہ اعلیٰ) دنیا کے مقابلہ میں اُخروی زندگی خیر ہی خیر اور دوام ہی دوام ہے۔ رحمت عالم ﷺ نے بہت سے مواقع پر والدین کو اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے ، آپ ﷺ نے اولاد کی عمدہ تربیت اور انہیں اچھے اخلاق وکردار سے سنوار نے کو بہترین تحفہ قرار دیا : مانحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن(ترمذی) کسی والد نے اپنی اولاد کو کوئی تحفہ حسن ادب اور اچھی تعلیم وتربیت سے بہتر نہیں دیا۔
حضرت انس ؓ کی روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے والدین سے فرمایا کہ:اکرموا اولادکم واحسنوا اٰدابھم(ابن ماجہ) اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انہیں حسن ادب سے آراستہ کرو ۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے اولاد کی تربیت کو صدقہ وخیرات سے بھی افضل قرار دیا ہے :لان یؤدب الرجل ولدہ خیر من ان یتصدق بصاع (ترمذی)آدمی کااپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع ( تین کیلو) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
اولاد کی دنیوی زندگی کی خاطر والدین کا ان کے آخرت کی فکر سے غافل ہوجانا اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی آخرت میں بڑے خسارے اور نقصان کا سبب ہوگا،قرآن کریم میں نہایت خیر خواہانہ انداز میں والدین کو بتایا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے دین وایمان اور ان کے آخرت کی بھی فکر کریں اور انہیں جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں ارشاد ربانی ہے : یا یھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقو دھا الناس والحجارۃ( التحریم ۶)اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت عمر فاروق ؓ نے دربار ِ رسالت مآب ﷺ میں حاضر خد مت ہو کر عرض کیا کہ’’ یارسول اللہ ﷺ ! اپنے کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الہیہ کی پابندی کریں) مگر اہل وعیال کو ہم کس طرح جہنم کی آگ سے بچائیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع کیا ہے ان کاموں سے ُان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو تو تمہارا یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا( روح المعانی)۔
اس وقت ملک کے طول عرض میںجتنے عصری مدارس وجامعات ہیں ان میں ایک بڑی تعداد مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کی بھی ہے ، ان اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بنیاد ی مقصد ہی عصری تعلیم کو فروغ دینا ہے اس لئے اکثر وبیشتر عصری مدارس میں صرف اور صرف عصری تعلیم ہی دی جاتی ہے اور جن اداروں میں دینی تعلیم کا نظم ہے ان کی تعداد بہت کم ہے بلکہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے بلکہ ان میں بھی بہت سے ادارے ایسے ہیں جہاں دینی تعلیم اور اسلامی تربیت برائے نام ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عصری مدارس کے بے شمار مسلمان بچے اور بچیاںبنیادی دینی تعلیم و اسلامی تربیت سے خالی نظر آتے ہیں ،خاص کر وہ اسکولس اور کالجس جن کے نگران مسلمان نہیں ہیں یا مسلمان تو ہیں مگر دینی مزاج نہیں رکھتے ان کی صورت حال بہت ہی خطرناک ہے ،ان میں پڑھنے والے مسلمان بچے نہ صرف دینی تعلیم سے دور ہیں بلکہ ان میں دین بیزاری کا مزاج پیدا ہوتا جارہا ہے ، چنانچہ اس نازک صورت حال میںضرورت ہے کہ عصری درسگاہوں میںپڑھنے والے بچے اور بچیوں کو ضروری دینی واخلاقی تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جائے ، دینی مقتداء ،دینی مزاج رکھنے والے مسلمان اور خصوصا والدین اور سرپرستوں کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے،اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد دین وایمان پر قائم رہے، حسنِ اخلاق کے زیور سے آراستہ ہو ،معاشرہ میں اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کرے ،ملک کے اچھے اورسچے شہری بن کر زندگی گذارے اور دنیا میں والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ، ان کے لئے صدقہ ٔ جاریہ اور آخرت میں فلاح و نجات کا ذریعہ بنے تو اس کے لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم اور اسلامی تہذیب سے آراستہ وپیراستہ کریں،نبی اکرم ﷺ نے نیک صالح اولاد کو والدین کے لئے صدقہ ٔ جاریہ فرمایا ہے ’’ اوولدٍ صالحٍ ید عو لہ‘‘(مسلم) یعنی اولاد صالح جب تک نیک کام کرتی رہے گی ان کے ساتھ ان کے والدین کو بھی برابر اس کا ثواب ملتا رہے گا۔
ان دنوں پورے ملک اور خصوصا پوری ریاست میں عصری و انگریزی اسکولس وکالجس کے طلبہ وطالبات کی سالانہ( گرمائی) تعطیلات شروع ہوچکی ہیں ، تعطیلات میں طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد اپنے سرپرستوں کے ساتھ تعطیلات گذار نے اور تفریحی مقات کی سیر کرنے کے لئے جاتی ہیں ،اگر چہ ذہنی وقلبی آرام کیلئے یہ بھی ضروری ہے مگر اس سے بھی اہم اگر کوئی چیز ہے تو وہ ان کی دینی تعلیم وتربیت ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لئے سب سے اہم ترین شے اس کا دین وایمان ہے اور اس کی حفاظت ان کے لئے جان سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ دین وایمان کے مطابق زندگی گزارنے میں اسکی دنیوی کامیابی اور اُخروی نجات پوشیدہ ہے، سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نونہالوں کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کریں اور انہیں کم ازکم ان تعطیلات میں مکمل اسلامی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں تاکے چل کر گھروں کے ماحول کو بنانے میں مدد مل سکیں ۔
الحمد للہ عصری مدارس پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کے لئے مختلف دینی مدارس ومکاتب اور محلوں کی مسجدوں میں گرمائی تعلیم کے نام سے دینی وتربیتی کلاسس چلائی جاتی ہیں ،ان گرمائی کلاسس میں بچوں کی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بنیادی دینی تعلیم وتربیت کا ہلکا پھلکا نصاب پڑھایا جاتا ہے جیسے بنیادی اسلامی عقائد ، تجوید کی تعلیم ،ناظرہ قرآن کی مشق ، نماز کی عملی مشق ، منتخب سورتوں کا حفظ، اخلاقیات پر مبنی احادیث کا حفظ ، سیرت نبوی ،سیرت خلفائے راشدین اور ضروری اسلامی تاریخ سے واقفیت ، اسلامی آداب اور روز مرہ پڑھی جانے والی مسنون دعاؤںکو یاد کروایا جاتا ہے ،ان کلاسس کے ذریعہ چونکہ بچوں کو ایک ماحول ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ کم وقت میں بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں اور دیر تک اس کا اثر باقی رہتا ہے بلکہ اگر گھروں میں ان سکھلائی ہوئی باتوں کا مذاکرہ ہوتا رہے اور ان پر عمل کی طرف توجہ دلائی جاتی رہے تو امید ہے کہ آگے چل کر یہ ان کی زندگی حصہ بن جائیں جس کے بعد ان کی زندگی اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ نظر آنے لگے گی، کم عمری بچوں کی تربیت کا سنہری موقع ہوتا ہے ،ماں باپ تربیت کے زمانے میں لاپر واہی کرتے ہیں اور مشورہ کے زمانے میں تربیت کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ماں باپ اور اولاد کے درمیان دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور پھر ماں باپ اپنی اولاد کی نافرمانی کا ڈھنڈوڑا پیٹتے ہیں حالانکہ اس میں کوتا ہی ماں باپ کی ہوتی ہے ۔
والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ آئندہ افسوس کرنے کے بجائے بروقت اپنے بچوں پر توجہ دیں اور ان کی دنیوی تعلیم کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ان کی دینی تعلیم وتربیت پر توجہ دیں اس کے لئے کم ازکم گرمائی تعطیلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں گرمائی دینی تعلیمی نظام سے جوڑ دیں ،موجودہ حالات میں تو بچوں کی دینی تربیت کی فکر ماں باپ کے لئے ان کی جسمانی ضروریات سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کے پاس اگر دین وایمان محفوظ رہے گا تو یقینا وہ بھی محفوظ رہیں گے اور آنے والی نسل بھی دین پر باقی رہے گی،اگر بروقت توجہ نہ دی گئی اور خدا نخواستہ یہ آگے چل کر بے راہ روی کا شکار ہو گئے اور دین سے دور ہوگئے تو یہ ہمارے لئے جہاں معاشرہ میں ذلت ورسوائی کا سبب بنیں گے وہیں آخرت میں پکڑ اور سخت سزا کا بھی سبب بن سکتے ہیں ،گرمائی دینی کلاسس سے بچوں کو جہاں بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں وہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں مسجد اور دینی مدرسے کا ماحول حاصل ہوتا ہے ،انہیں مکمل دوچار گھنٹے دینی ماحول میں گزارنے کا موقع حاصل ہوتا ہے ،اسی طرح وہ شریر بچوں کی صحبت سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور ایک خاص چیز یہ ہے کہ وہ ٹی وی اور موبائل کی دوستی سے محفوظ رہتے ہیں ،لہذا والدین اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اپنے نونہالوں میں اسلام کی عظمت ،تعلیمات اسلام کی اہمیت ،پیغمبر اسلام کی سنتوں سے محبت ،ایمان کی قدر وقیمت اور دنیوی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کی ختم نہ ہونے والی زندگی کی قیمت کو بتا نے کے لئے انہیں ضرور گرمائی دینی تعلیمی نظام سے جوڑیں ،ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج حاصل ہوں گے ۔
٭٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×