اسلامیات

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے!

از قلم: محمد عمر قاسمی کاماریڈی

خالقِ ارض و سما نے اس عالم ناپائیدار کو عدم سے وجود بخشا ، ہزارہا ہزار مخلوقاتِ عالم کی تخلیق فرمائی ، حضرت انسان کو أشرف المخلوقات کی دستار اور عزت و فضیلت کا تاجِ گہر بار پہنایا ، ان گنت عدیم الوجود خوبیوں اور بےحدوحساب کمالاتِ فاضلہ سے مالامال فرمایا ، اور ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ کا اعلان فرما کر ” عقل و دانائی اور فہم و فراست “کی عظیم دولت سے نوازا ، کہ اس کے ذریعہ خیر و شر کی تمیز کرسکے ، بھلائی و برائی ، نیکی و گناہ اور طاعت و معصیت میں فرق کرسکے ، حق و باطل اور صحیح و غلط میں امتیاز کرکے نیکی اور بھلائی کو اختیار کریں ؛ گویا انسان میں خیر اور بھلائی کو قبول کرنے اور شر و فتنہ بھڑکانے کی صلاحیت موجود ہے ، نہ وہ مجبورِ محض ہے اور نہ مختارِ کل ۔
معمولاتِ زندگی اور روزمرہ کے احوال میں انسان کو نیکی و گناہ اور طاعت و معصیت دونوں مواقع میسر آتے ہیں ؛ تاہم انسان اعمالِ صالحہ میں اقدام و پیش قدمی کے بجائے نفس کے بھٹکانے ، شیطان کے بہکانے اور لوگوں کے پھسلانے کے سبب گناہ و معصیت کی جانب زیادہ راغب ہوتا ہے ؛ لیکن اعمالِ صالحہ اور امورِ خیر کے بابت غفلت و کوتاہی کے باعث ٹال مٹول اور التوا سے کام لیتا ہے ، جو کہ عقل مندی کے خلاف اور شانِ مؤمن‌ کے مغائر ہے ، اسی لئے بروزِ قیامت بندہ سے سوال ہوگا کہ ”اے انسان ! تم کو کس چیز نے اپنے محسن رب سے غفلت میں مبتلا کردیا“ ؟

کل کا خواب دھوکہ اور سراب کے سوا کچھ نہیں!
زندگی انمول تحفہ اور بے بدل خزانہ ہے جس کا ایک ایک لمحہ ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے ؛ لہٰذا آج کا کام آج ہی کرنا چاہیے ، کل پر نہیں ٹالنا چاہیے ، کل کا سورج کس نے دیکھا ہے ؟ پل کا بھروسہ نہیں اور کل کی بات کی جاتی ہے ، اسی وجہ سے مثل مشہور ہے کہ ” آج کا کام کل پر نہ ٹال “ نیکی کی انجام دہی میں پل بھر کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ زندگی حباب ہے ، جس کی انتہا سے کوئی بشر آگاہ نہیں ، سوجائے تو آنکھ کھلنے کا بھروسہ نہیں ، بیٹھ جائے تو اٹھنے کا اندازہ نہیں ، آنکھ کھلی ہے پلک جھپکنے کا یقین نہیں ؛ حتیٰ کہ سانس چھوڑنے کے بعد سانس لینے کی گارنٹی نہیں ، پھر وقت گذر جانے پر افسوس کرنا اور زندگی کا دفینہ خالی پا کر اشک ندامت بہانا بے سود و بے فائدہ ہے ؛ اسی لئے سرور کائنات ﷺ نے فرمایا: اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ حَیَاتَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَشَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ وَغَناکَ قَبْلَ فَقْرِکْ ( مستدرک حاکم ۴/۳۰۶)
” پانچ چیزوں کو پانچ سے قبل غنیمت سمجھو ، زندگی کو مر نے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے ، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مالداری کو فقر سے پہلے“۔
ایک اور روایت میں ہے جو حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل فرمائی ہے کہ نبی آخرالزماں ﷺ نے فرمایا : من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابداً (بحوالہ شعب الایمان )
” ہر صبح آفتاب طلوع ہوتے ہی دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے آج کے بعد میں پھر کبھی واپسی نہ آؤں گا“۔
مگر افسوس کہ یہ احساس ہمارے خیالوں سے اوجھل اور یہ حقیقت ہماری ذہنوں سے نسیاً منسیاً ہوچکی ہے ، ابھی بھی موقع ہے اپنے اوپر سے غفلت کی چادر اتار پھینکنے کا ، خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا ؛ ورنہ کل بروزِ قیامت سوائے افسوس اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کہ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (سورۃ الشعراء: ۸۸ , ۸۹)
اسی لئے کسی شاعر نے کہا تھا ؂
کل کرے سو آج کر ، آج کرے سو اب
پل میں پرلے ہوئے گی پھر کرے گا کب

ایک جائزہ خود سے !
ایک کامیاب شخص اور عقل مند آدمی کی شناخت اور پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی گزرتی زندگی اور روزمرہ کے احوال و معمولات کا جائزہ لیکر احتساب کرتا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اور جو انسان احتساب اور جائزہ کا پابند ہوتا ہے وہ کبھی غفلت نہیں برتتا اور اپنے مقصد میں ناکام و نامراد نہیں ہوتا اور اپنے پروردگار کی یاد سے روگردانی نہیں کرتا ،
پس ہر مسلمان اپنے ایمان و اعمال اور اخلاق و معمولات کا جائزہ لیں کہ بڑھتی آمدنی اور گذرتے ایام کے ساتھ میرے ایمان میں اضافہ اور اعمال و عقائد کی اصلاح ہورہی ہے ؟ اور غور کریں کہ میری وجہ سے آس پڑوس کے کتنے لوگ نمازی بنے ہیں ؟ اور کتنوں کو توبہ کی توفیق ہوئی ؟
اہلِ علم اور خدامِ دین اپنی خدماتِ عالیہ اور دینی سرگرمیوں میں ہونے والی جد و جہد کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ اتنی سب دوڑ دھوپ سے مقصود و مطلوب خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا دنیاوی غرض و ذاتی مفاد ؟ نیز کیا ہمارے ملفوظات معمولات کے عکاس و ترجمان ہیں ؟
تاجر اور بزنس مین حضرات ذرا دھیان دیں کہ بازارِ دنیا میں مشغول رہتے ہوئے بازارِ آخرت سے غفلت تو نہ ہو ، اور غور کریں کہ کسبِ معاش اور فکرِ روزی میں جھوٹ ، دھوکہ دہی اور سود و بیاض جیسے ناجائز معاملات میں ملوث تو نہیں ہوں ؟
ائمہ مساجد اور مقتدیٰ حضرات اپنے امورِ مفوضہ اور ذمہ داریوں پر نظر کریں کہ کہیں فرضِ منصبی میں کوتاہی اور لاپرواہی تو نہیں ہوئی ہے ؟
اساتذہ کرام و اتالیق عظام توجہ دیں کہ قوم کی امانت اور ملت کا سرمایہ ہمارے ہاتھوں ضائع تو نہیں ہورہا ہے ؟ ان کی حقوق تلفی تو نہیں ہوئی ہے ؟
طلباء کرام تو مہمان رسول ہیں ، ذرا اپنے اعمال و احوال کا جائزہ لیں کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا عمل و حرکت تو سرزد نہیں ہوئے جس سے ہمارے میزبان (معلمِ انسانیت ﷺ ) کو تکلیف ہو ؟ نیز ہمیشہ یہ بات کوچۂ خیال میں تازہ دم رہنی چاہیے کہ ہماری کسی ادا سے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی حرمت پر آنچ آئے ۔
والدین اور سرپرست حضرات سوچیں کہ کیا ہم اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت اور اسلامی ذہن سازی کرکے اس کو پکا مسلمان سچا دین دار بنانے کی کوشش کی ہیں ؟ یا اعلیٰ ڈگری اور وافر تن خواہ کی لالچ میں انہیں مبادیاتِ دین اور عقائد اسلام سے آگاہ تک نہ کیا ؟
لڑکے اور لڑکیاں خود سوچیں کہ تعلیم اور ایجوکیشن کے نام پر ہم نے اپنے والدین کو دھوکہ تو نہیں دیا ہے ؟ خیال رہیں کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی وجہ سے والدین کا سر شرم سے جھک جائے اور انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ۔
سالکین و مسترشدین احتساب کریں کہ مجلسِ شیخ میں حاضری سے واقعۃً استفادہ اور اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس ہورہا ہے یا صرف وقت گذاری اور تبرکانہ شرکت و حاضری ہورہی ؟
ہر صاحبِ ایمان اپنا جائزہ لیں کہ کیا دن کے کسی حصہ میں موت کی فکر ، قبر کا گڑھا اور آخرت کی یاد آتی ہے ؟
مختصر یہ کہ
آسیؔ یہ غنیمت ہیں تری عمر کے لمحے
وہ کام کر اب، تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج

خلاصۂ تحریر:  یہ دنیا دار قرار نہیں بلکہ بے قرار ہے ہر شخص فانی ہے کوئی امر نہیں ، انسانی زندگی بہت ہی مختصر اور انتہائی محدود ہے ؛ اس میں اتنی گنجائش نہیں کہ اسے فضول و لایعنی کاموں میں گنوایا جائے ، عقل و دانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وقت کو امورِ مہمہ اور ضروری کاموں میں لایا جائے اور حتی الوسع کسبِ حسنات اور اعمالِ صالحہ کی انجام دہی میں مصروف رہیں ، گناہ اور اسبابِ گناہ سے بچنے کا بھی اہتمام کریں ، ارتکابِ گناہ کے بعد فوراً توبہ و استغفار میں جلدی کریں ، کہیں یہ نہ ہو کہ فرصت کے انتظار میں مہلت ختم ہوجائے ، لمحاتِ زندگی مثلِ برف ختم ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ سال کے سال نکل جاتے ہیں ، پھر بالآخر اپنے ماضی پر افسوس اور ماتم کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہتا ، یاد رکھیں کہ جب تک ہمارے سامنے زندگی کا کوئی آدرش اور نصب العین نہیں ہوگا ، اس وقت تک صحیح اقدام اور وقت کا بجا استعمال ممکن ہی نہیں اور وقت کا ضیاع انجامِ کار ہمارے ہاتھوں میں کشکولِ گدائی تھما دے گا ، فی الوقت ہمارے نوجوانوں میں لمحاتِ زندگی کی قدر دانی آٹے میں نمک سے بھی کم ہے ؛ اس لیے کہ روزِ محشر اللہ کے حضور اس سے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ” عن عمرہ فیما افناہٗ ” تو اس وقت کیا جواب ہوگا ؟ ایک شاعر اسی حقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ؂
کہہ رہا ہے بہتا دریا وقت کا
قیمتی ہے لمحہ لمحہ وقت کا
وقت کے ساتھ جو چلتے رہے
کامیاب و کامران وہ ہو گئے
وقت دیتا ہے ہم کو سبق یہی
دوستو غفلت میں مت رہنا کبھی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×