سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟؟

عبدالرشید طلحہ نعمانی

غزہ میں ایک بار پھر حشر برپا ہے،دو ہفتوں سے ظالم اسرائیل کی انتقامی کارروائی عروج پر ہے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم نے فلسطینی جیالوں کے پہاڑ جیسے حوصلوں کو بلند تر کردیا ہے،اِدھر سے توپ و تفنگ اور اُدھر سے قلب و جگر آزمانے کا خونیں منظر دیکھ کر دل لہو ہوا جاتا ہے،آنکھیں اشک بار ہیں اور دست دعا اُس قادر مطلق کی بارگاہ میں بلند؛جس کی مشیت اور قضا و قدر سے کائنات کا نظام قائم ودائم ہے۔فلسطین کے جفاکش نوجوانوں،جاں باز عورتوں اور معصوم بچوں کو دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی امت مسلمہ کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہایت سرخ اور ایمانی حرارت سے کھول رہا ہے، وہ اسلامی مقدسات کی حفاظت کے لیے ہر معرکہ سر کرنے،ہر مصیبت برداشت کرنے اور اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو داؤ پر لگادینے کے لیے تیار اور مسلح افواج سے آمادۂ پیکار ہیں۔ایک طرف موجِ خوں سے الجھنے والے باشندگان قدس کے گرم جوش ولولے ہیں اور دوسری طرف ڈرے،سہمے اور قرار دادیں پاس کرتے مسلم ممالک ۔
مسئلۂ فلسطین کے تئیں عالمی قیادت مفلوج ہوچکی ہے،میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے،مسلم امّہ میں کوئی دم خم نہیں رہ گیا ہے کہ وہ اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کو قوت سے روک سکے یا کم از کم اینٹ کا جواب ٹھیکری سے دے سکے۔
اگر یہ آگ نہ روکی گئی اور متحدہ محاذ بناکر اس کے خلاف عملی جدو جہد نہ کی گئی تو یہ جنگ پھیلے گی اور بہت سے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
جلتے گھر کودیکھنےوالو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اُس کے قتل پہ میں بھی چُپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ آپ بھی چُپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

اسرائیلی قوم کا ظلم و طغیان :
یہ ایک ناقابل تردیدتاریخی حقیقت ہے کہ یہود بےبہود کاشمار انسانیت کی مبغوض ترین قوموں میں ہوتاہے۔ خداتعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کاانکار،حق کی اطاعت سے روگردانی واعراض،اورانبیاء کرام علیھم السلام جیسی مقدس و برگزیدہ ہستیوں کے قتل میں ملوث یہ قوم، آج تک ابدی ذلتوں اورخدائی پھٹکارکا سامنا کررہی ہے۔ تمام تر مادی، عسکری،اقتصادی اورابلاغی اسباب ووسائل پر دست رس رکھنے کے باوجودنکبت وہزیمت اس کے گلے کاہاربنی ہوئی ہے۔ پچھلےآٹھ عشروں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پرظالمانہ وجابرانہ تسلط جماکراہل فلسطین پرجس طرح عرصۂ حیات تنگ کیاگیا، وہ اظہرمن الشمس ہے۔ پوری دنیاسے دجالی پیروکاروں کو لالاکراسرائیل میں بساگیا، جس کاواحدمقصد شیطانی ریاست‘ اسرائیل’ کا استحکام اوربدی کے نمائندے دجال اکبر کے خروج کی راہیں ہموارکرناہے۔ اس دجالی اور طاغوتی لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے میں اگر کوئی چیز رکاوٹ ہے تو وہ مسلمانان فلسطین کا جذبہ ایمانی اورحمیت اسلامی؛جس کی حرارت وتپش سے آج بھی صہیونیت کے ایوانوں میں زلزلہ برپاہے۔ اگرچہ یہودی جارحیت اور دہشت گردی کی منہ زور یلغار نے باشندگان فلسطین کو سخت ترین مشکلات وت کالیف سے دوچار کررکھاہے؛لیکن مصائب وآلام کے اس بھنور میں بھی فلسطینی مجاہدین استقامت وجواں مردی کاپہاڑبنے کھڑے ہیں۔ بلاشک وشبہ یہ سرفروش اور جاں باز پوری امت مسلمہ کی طر ف سے فرض کفایہ کے طور پر،سرزمین انبیا کے تحفظ وسلامتی کی سنہری تاریخ، اپنے لہو کی سرخی سے رقم کررہے ہیں۔

ہم کیا کرسکتے ہیں ؟

اس حوالے سے معروف سعودی اسکالر ڈاکٹر حاتم عارف العونی نے امت مسلمہ کے سامنے ایک پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے،جس کا مختصر ترجمہ؛بل کہ ترجمانی مفید اضافوں کے ساتھ پیش خدمت ہے۔امید کہ ہر مسلمان انہیں رو بہ عمل لانے کی بساط بھر کوشش کرے گا اور دینی غیرت و اسلامی حمیت کا ثبوت دے گا :

فلسطین پر صیہونی قبضہ اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف ہورہے وحشیانہ منظم حملوں(جو آج تک کئی دہائیوں سے جاری اور انسانی زندگی کی معمولی ضروریات سے متصادم ہیں)کے تناظر میں سوال کیاجاتا ہے کہ عام لوگوں کے پاس وہ کون سے ذرائع ہیں جن کی مدد سے وہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کر سکتے ہیں اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں؟؟

حقیقت یہ ہے کہ -اسباب کی کمی کے باوجود – ہمارے پاس متعدد اہم وسائل ہیں، جن کے ذریعہ باشندگان فلسطین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار ہوسکتا ہے،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

(1) مخلصانہ دعا
فلسطین کے قضیے میں جن لوگوں کے پاس اختیار ہے، وہ احساس سے محرومی کے سبب کچھ کر نہیں رہے ہیں اور جو احساس و شعور رکھتے ہیں وہ چاہتے ہوئے بھی اس موقف میں نہیں ہیں کہ ٹھوس عملی اقدامات کرسکیں۔ایسے میں صرف ایک ہتھیار رہ جاتا ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے، دعا ہم سب کا اہم طاقت ور ہتھیار ہے، ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کریں اور حق تعالی سے ان کی نصرت کا سوال کریں۔

(2) مسئلہ فلسطین کا تعارف
فلسطین کی مذہبی و تاریخی اہمیت کے باوجود بہت سے لوگ بالخصوص نئی نسل کو مسئلۂ فلسطین اور مسجد اقصی کے تعلق سے آگاہ کرنا بھی بے حد ضروری ہے،باشندگان عجم مسجد اقصی اور مسئلۂ فلسطین سے بالکل ناواقف ہیں، اکثریت کو پتہ ہی نہیں کہ مسجد اقصی سے مسلمانوں کا کیا رشتہ ہے ، اور قبلہ اول کی بازیابی مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے۔ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو متعصب میڈیا کی وجہ سے مسئلہ کی حقیقت کو نہیں جانتی اور مسخ شدہ حقائق کو جان لینے پر اکتفا کرلیتی ہے۔

(3) صہیونی جرائم کی اشاعت
فلسطین پر قابض صہیونیوں نے قیام اسرائیل سے آج تک درجنوں ایسے گھناؤنے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے،جو قانون، مذہب یا اچھے اخلاق کے لحاظ سے ناقابل قبول ہیں۔
ان جرائم کی اشاعت اور انہیں عام لوگوں کے سامنے بیان کرنا بالخصوص تمام فورمز اور تمام لوگوں کے سامنے انہیں بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے جس کے سبب انسان زمین کے ہر کنارے تک پہنچ سکتا ہے اور گھر میں رہتے ہوئے پوری دنیا کی سیر کرسکتا ہے۔

(4) فلسطین کے تئیں غلط خبروں کی تردید
فلسطین اور یروشلم کے بارے میں وقتاً فوقتاً غلط اور بے بنیاد باتیں پھیلتی رہتی ہیں، خاص طور پر بعض عربوں اور مسلمانوں میں۔
ان گمراہ کن نظریات کا مقابلہ کرنا اور لوگوں میں ان کی اصلاح کرنا ایک اہم فریضہ ہے؛کیونکہ غلط نظریات عوامی شعور پر حملہ آور ہوتے ہیں اور لوگوں کے تصورات کو خراب کرڈالتے ہیں۔

(5) فلسطینی عوام کو مستحکم کرنا اور ان کی مالی و اخلاقی مدد کرنا
فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے آج تک ظالم صہیونی غاصب کے ہاتھوں بڑی تکلیف اور مصیبت سے گزر رہی ہے،ایسے میں انہیں ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا،ان کی ہرممکن حوصلہ افزائی کرنا اور ان کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔نیز اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ معتبر ذرائع سے اجتماعی و انفرادی سطح پر مالی امداد کی کوشش بھی نہایت ضروری ہے۔

یہ وہ اہم کام ہیں جن کے ذریعے ہم فلسطین کے منصفانہ مقصد کی حمایت کر سکتے ہیں.

اخیر میں حق تعالیٰ تعالی کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ وہ فلسطین کے لوگوں کو عافیت و راحت دے، ان کی مصیبت میں مدد و نصرت کرے، ظالم صہیونیوں کو خوار و رسوا کرے، اور ستم رانوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×