اسلامیات

موجودہ سنگین حالات اور ہماری ذمہ داریاں

خطاب: عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی دامت برکاتہم

ترتیب :مفتی محمد سعید احمد قاسمی(استاذ مدرسہ قاسم العلوم)

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ان حالات نے تشویش واضطراب کی لہر تمام کلمہ گو انسانوں میں دوڑا رکھی ہے اور وہ بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت سے گزررہے ہیں، ملک کے مختلف اطراف میں الگ الگ انداز میں مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں ان کے دلوں کو مسلسل زخمی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ابھی حالیہ دنوں گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں عدالت کے ذریعہ پوجا کی اجازت نے مسلمانوں کی بے یقینی اور بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے نتیجتاً مسلمان خوف ودہشت اور مایوسی کے شکار ہیں اور ان کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات گردش کررہے ہیں ان حالات میں مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لیے نئے نہیں ہیں قرآن کریم نے ہمیں واضح طور پر بتلایا ہے کہ دنیا میں اللہ کے نیک بندوں اور حق کے پرستاروں کو زندگی کے مختلف موڑوں پر سخت حالات اور پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی سخت حالات سے گزرنا پڑا قرآن مجید میں ہے:’’وقال اللذین کفروا لرسلہم لنخرجنکم من ارضنا او لتعودن فی ملتنا‘‘(کافروں نے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں تمہارے شہر سے نکال دیں گے یا تو تم ہمارے دین میں واپس آجائو) ساڑھے نو سو سال تک حضرت نوحؑ نے محنت کی لوگ ماننے کو تیار نہ ہوئے ، ابراہیمؑ کی ایسی مخالفت کی کہ آپ کو آگ میں ڈالا گیا ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ستایا گیا عرصۂ دراز تک فرعون نے حکومت کی اور بنی اسرائیل پر ظلم کیا ، رسول اللہﷺ کی بعثت کے وقت غلبہ کافروں کا تھا بلکہ اس قدر زیادہ تھا کہ وہ مسجد حرام جسے ابراہیمؑ نے بنایا تھا اس کو انہوں نے بتوں سے بھر دیا تھا اعلانِ نبوت کے بعد رسولﷺ کو ستایا گیا آپﷺ پر فقرے کسے گئے ، آپ کو مجنون کہا گیا، اپنے پیارے وطن شہر مکہ سے نکلنے پر مجبو رکیا گیا ، صحابہ کرامؓ کو اذیتیں دی گئیں حضرت عمار،بلال ، یاسر، خباب وخبیب رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، تاتاریوں نے مسلمانو ںکے خون کی ندیاں بہائیں لیکن ہر دور میں مسلمانوں نے ان مظالم پر صبر کیا اور اللہ کی مدد ان کے ساتھ رہی اس لیے مسلمانوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے حالات پیش آتے رہیں گے ان حالات کا پیش آنا ایمان میں اضافہ کا سبب ہونا چاہیے ان حالت سے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ہر گزضرورت نہیں بس اتنا سمجھ لیں کہ :
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
البتہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے مسلمانو کو چند کام کرنے کی ضرورت ہے:

(۱) علمِ حقیقی کا حصول:
آج پوری دنیا میں فساد اور بگاڑ کی وجہ یہ ہے کہ خالق (پیدا کرنے والے) نے جو علم اورجو کتاب ہمیں عطا فرمائیں تھی مسلمانوں نے اس کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کتاب کو سمجھانے کے لیے جس ذاتِ گرامی کو بھیجا تھا اس سے منہ پھیر لیا جبکہ صحابہ کرامؓ کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ انہوں نے خالق عالم کی طرف سے نازل کی گئی کتاب کو سینے سے لگایا اور اس علم کے سکھانے والے یعنی نبی کریمﷺ کی ذات سے اپنے کو وابستہ کیا ۔

(۲) اللہ کے علمِ حق کو لوگوں تک پہونچانا:
صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلے رسول اللہﷺ سے علمِ حقیقی حاصل کیا اور علم حقیقی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ، لوگوں کے سامنے اللہ کا تعارف کروایا انہوں نے آخرت کی زندگی کا ہمیشہ ایک تصور دیا اور لوگوں کے سامنے وہ اخلاق اور وہ تعلیمات پیش کیں جس کی ان کو ضرورت تھی مثلا:لوگ اس وقت اپنی حقیقی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے رسول اللہﷺ نے انھیں بیٹیوں کی اہمیت اور ان کا اللہ کی عظیم نعمت ہونا سمجھایا ۔ لوگ اسوقت غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں پر ظلم کرتے تھے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ نے معاشرہ کے ان مظلوم طبقات کے حقوق سے متعلق تعلیمات کو اپنے اخلاق اور اعمال سے لوگوں کے سامنے اس طرح عام کیا کہ کئی لوگ اسلام کی انہی تعلیمات کی وجہ سے مشرف باسلام ہوئے۔ اس لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہم علمِ حقیقی سے مزین ہوکر دنیا والوں کے سامنے اسلام کا سچا پیغام اپنے علم وعمل اور اخلاق کے ذریعہ پیش کریں اور اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر دشمنانِ اسلام کی جانب سے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائی گئی ہے اس کو صحیح علم اور اچھے اخلاق سے مٹانے کی جد وجہد کریں ۔

(۳) دینِ حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں پر صبر:
تیسرا کام دینِ حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کو جھیلنا ہے یاد رکھیں کہ قربانی سے راستے کھلتے ہیں اسلام کا ابتدائی دور اور صحابہ کی قربانیوں کو یاد رکھیں کہ کس طرح صحابہ نے اور مسلمانوں نے دین کی خاطر قربانیاں دیں اور مصائب وآلام برداشت کیے ، مسلمان یہ ذہن بنالیں کہ ہمیں اللہ کو راضی رکھنا ہے اور ہر حال میں اس کے دین پر مضبوطی سے جمے رہنا ہے پھر چاہے اس کے لیے خواہشات کی قربانی دینی پڑے ، مفادات کی قربانی دینی پڑے، جان ومال کھیتی اور کاروبار کا نقصان برداشت کرنا پڑے، دشمنوں کی جانب سے دلخراش طعنے سننے پڑیں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ برداشت کرلیں اور دین پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہیں ، محکومیت اور مظلومیت کے دور سے صبر کی صفت سے آراستہ ہوئے بغیر کامیابی کے ساتھ نکلا نہیں جاسکتا، مسلمان دین کی راہ میں آنے والی تکلیفوں کو اپنے لیے نقصان نہ سمجھیں کیونکہ یہ نقصان ہمارے لیے نقصان نہیں ہے اس لیے کہ اگر اللہ کے دین سے وابستگی کی وجہ سے ہماری دکان توڑی گئی یا ہمارے مکان ڈھادئیے گئے یا ہماری جانوں کو نقصان پہونچایا گیا تو ہمیں اس پر اجر ملے گا ۔
مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہمارے مخالفین اور دشمن ہمیں اسی چیز کا نقصان پہنچاسکتے ہیں جو ہمارے پاس ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے وہ ہماری دکان کو نقصان پہنچاسکتے ہیں، مکان گراسکتے ہیں، ہمارے جسم اور ہماری جان کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور یہ سب ہمیشہ رہنے والی چیزیں نہیں ہیں ، اور جو چیزیں ہمیشہ رہنے والی ہیں مثلاً ہمارا عقیدۂ توحید ہمارا جذبۂ ایمانی پوری دنیا کی طاقت ملکر بھی کسی ایمان والے کے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور کسی مضبوط ایمان والے کی ایمانی حرات کو ٹھنڈا نہیں کرسکتے۔
اخیر میں یہ تصور ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ موت یقینی ہے اور اس دنیا سے جانا یقینی ہے اور جب اس دنیا سے جانا یقینی ہے تو ہمیں ہمیشہ یہ فکر ہونی چاہیے کہ اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ جانا ہے اور ہماری موت اس حالت میں آئے کہ خدا ہم سے راضی ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×