اسلامیات

ماہِ صیام کا استقبال کیسے کریں ؟

از قلم : محمد عمر قاسمی کاماریڈی

یہ بات ماہتاب نیم شب کی طرح عیاں ہے کہ جس چیز کی جتنی اہمیت و عظمت اور قدر و منزلت ہوتی ہے اس کی قدردانی و قدر شناسی اتنی ہی کرنا دانش مندی اور خرد مندی کا تقاضہ ہوتا ہے ، اور یہ بدیہی حقیقت ہے کہ رمضان المبارک تمام مہینوں میں سب سے افضل اور برتر مہینہ ہے تو اس کا بھر پور استقبال کیا جانا چاہیے ، اور اس کی آمد سے قبل ہی خود کو اس کے لئے اس طرح تیار و مستعد کیا جائے کہ رمضان جب آئے تو عجیب اور اجنبی نہ لگے ، اور اب چونکہ رمضان کی آمد آمد ہے ، ہلالِ ماہِ مبارک کی رؤیت کا مسلسل انتظار ہے ، نیکیوں اور سعادتوں کا خوشگوار موسم قریب تر ہے ، جس کے فضائل و برکات سے کسی خردمند کو نہ ہی انکار ہے، نہ ہی اس سے انکار ممکن ہے ؛ البتہ اس کی صحیح قدردانی ، اس کی رحمتوں ، برکتوں اور مغفرتوں کی وصول یابی تب ہی ممکن ہے ؛ جب کہ وقت سے پہلے خود کو تیار کر کے اور اپنے آپ کو فارغ کر کے رمضان کا صحیح طور پر استقبال کیا جائے ، اور اس لیے بھی کہ رمضان المبارک سالانہ روحانی ورکشاپ ، طاعت و عبادت کا مہینہ ، مغفرت و بخشش کا بہانہ ہے ؛ نیز ماہِ مبارک پورے سال کا قلب ہے ، اگر یہ درست گذرے تو پھر پورا سال درست ، دراصل رمضان نیکیوں کی وہ چیک بُک ہے جس میں اندراجِ رقم کا حق پروردگارِ عالم نے مردِ مؤمن کو دے رکھا ہے ؛ لہٰذا بندۂ مؤمن کو چاہیے کہ آمدِ رمضان سے قبل ہی اس کے لئے تیار اور مستعد ہوجائے ؛ کیوں کہ انگریزی کا مقولہ ہے : Well plan half done ( کام کا اچھا پلان کرلینا گویا کہ آدھا کام ہوگیا) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رمضان کا استقبال کیسے کیا جائے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ چند ایسے امور و اعمال ہیں جن کی ادائیگی اور رعایت کرنے سے ان شاءاللہ رمضان کی بابرکت ساعتوں ، اور رحمت بھری گھڑیوں سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
خود نبی کریم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اس کی تیاری شروع کردیتے تھے ؛ جیسے روزوں کا مسلسل اہتمام ، عبادات میں اضافہ ، نوافل کی کثرت ، گوشۂ تنہائی اور خلوت نشینی کا التزام ، تلاوتِ قرآن مجید کی مواظبت و پابندی وغیرہ۔۔۔

سطورِ ذیل میں وہ چند امور و اعمال درج کیے جاتے ہیں کہ جن کی رعایت سے ان شاء اللہ رمضان کی قدردانی آسان ہوسکتی ہے :

(۱) شعبان المعظم ہی سے روزوں کا اہتمام کریں :
تاکہ وہ صیامِ رمضان میں معاون و مددگار ثابت ہو ، نبی ﷺ رمضان کی تیاری میں شعبان ہی سے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے ؛ جیساکہ امی جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں: کہ ” میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں“۔(صحیح بخاری: ۱/۲۶۴)
اسی طرح حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں : ” میں نے رسول اللہ ﷺ کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دو مہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا “ (ترمذی:۱/۱۵۵) یعنی نبی کریم ﷺ رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔
حاصل یہ کہ رمضان کی تیاری میں سب سے پہلا عمل ” شعبان ہی سے روزوں کا اہتمام” ہے ؛ البتہ ۱۵‚ شعبان کے بعد روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے سلسلہ میں دونوں قسم کی روایات موجود ہیں جس کا خلاصہ یہ ہےکہ جو شخص ہر پیر و جمعرات کو یا ہر ماہ کے آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو ، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اس کو روزہ رکھنے سے کم زوری اور نقاہت نہیں ہوتی تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے اور اگر کسی شخص میں مذکورہ ممانعت کی وجوہات میں کوئی وجہ پائی جائے تو اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہوگا۔

(۲) فضائلِ رمضان کی تعلیم:
یہ بات بالکل عیاں و بیاں ہے کہ جب تک کسی چیز کی اہمیت و فضیلت کا علم نہ ہوگا ؛ تب تک اس کی قدردانی و قدر شناسی ناممکن اور بعید از عقل ہے ؛ لہٰذا رمضان المبارک کے فضائل و برکات سے متعلق کتاب وسنت میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ، گھروں میں اجتماعی یا انفرادی طور پر اس کی تعلیم کی جائے ؛ نیز رمضان المبارک میں اکابر و بزرگانِ دین کے معمولات اور طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جائے ، اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے ، ان شاء اللہ بہت کارآمد اور سودمند رہے گا۔

(۳) اپنے آپ کو فارغ کر کے رمضان کے لئے تیار کریں:
انسان کا مزاج ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا ہے اس کے لئے تن من دھن سب کچھ قربان کردیتا ہے ، ساری مشغولیتوں سے فارغ ہوجاتا ہے ، تمام ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ، اگر ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سچی محبت کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دنیاوی مشاغل سے بالکل فارغ البال اور یکسو ہوجائیں ؛ تاکہ عبادات میں یکسوئی رہے ، توجہ کسی اور طرف مرکوز نہ ہونے پائے ؛ اس لئے کہ رمضان کے علاوہ مکمل سال کمائی اور کسبِ معاش کا ہے ، صرف ایک ماہ محض عبادت وبندگی کےلیے خاص رکھیں ؛ نیز شاپنگ و عید کی خریداری رمضان کی آمد سے قبل ہی کرلیں ؛ کیوں کہ رمضان کے مبارک لمحات اور بالخصوص ، آخری طاق راتیں اور شب قدر کی مبارک رات یوں ہی بازاروں میں ضائع کرنا انتہائی محرومی کی بات ہے ، اس کا خیال کیا جائے تو ان شاء اللہ فائدہ مند رہے گا۔

(۴) رمضان تک پہونچنے کی دعا کا کثرت سے اہتمام کریں :
ماہِ مبارک کی تیاری اور استقبال کے لئے ایک عمل یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان کو بہ عافیت پانے کی دعائیں جائے ؛ جیسا کہ حضرت انس ؓ نبی ﷺ کا عمل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو نبی ﷺ اس دعا کا خاص اہتمام فرماتے: ” اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان “
ترجمہ : اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ( اپنے فضل و کرم سے) رمضان تک پہنچا ۔ (مجمع الزوائد)
لہٰذا کثرت سے اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ۔

(۵) رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت "تراویح” بھی ہے ؛
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے روزے ( مسلمانوں پر) فرض فرمائے ، اور اس کی رات کے قیام ( تراویح) کو باعثِ ثواب کردیا۔
جب تراویح کا پڑھنا اور اس میں قرآن مجید کا سننا سنتِ مؤکدہ ہے ، تو لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ تراویح کے لئے ایسے حافظ و قاری کا انتخاب کریں جو قرآن مجید کو باتجوید، عمدہ لحن میں سنت کے مطابق اطمینان سے ترتیل کے ساتھ پڑھنے والا ہو ؛ تاکہ تراویح کی سنت نماز کی ادائیگی علی وجہ الکمال ہوسکے ،
اور ان مساجد میں ہرگز نہ جائیں جہاں ایسی عجلت اور تیزی سے قرآن پڑھا جاتا ہو ، کہ کچھ سمجھ میں نہ آتا ہو تو وہاں پڑھنا اجر وثواب کے بجائے تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے ، اس لئے اس سلسلہ میں احتیاط کریں ، اور مقدور بھر کوشش کریں۔

(۶) نبی ﷺ نے رمضان کی آمد سے قبل صحابہ کے سامنے جو ترغیبی اور استقبالی خطبہ دیا تھا اس کو پڑھا کریں :
اور اس میں بیان کردہ باتوں کو بہ غور مطالعہ کرکے اس پر عمل پیرا ہونے کی سعی کریں ؛ سو مختصراً خطبہ ملاحظہ فرمائیں:
”حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی رحمت ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی) خطبہ ارشاد فرمایا : کہ ” اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے (یہ) مبارک مہینہ ہے ، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اللہ تعالٰی نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نماز تراویح کی صورت میں ) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے ، جو (خوش نصیب) اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا ، تو اسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر ثواب ملے گا اور جو کوئی اس مہینے میں فرض عبادت ادا کرے گا ، تو اسے دوسرے مہینوں میں (اسی نوع کے) ستر فرض کے برابر اجر ملے گا ، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ، یہ دوسروں سے ہم دردی اور ان کے دکھ درد کے ازالے کا مہینہ ہے ، یہ ایسا مبارک مہینہ ہے کہ اس میں مؤمن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ، جو شخص اس مہینہ میں کسی کو روزہ افطار کرائے گا تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا اور اس کے سبب اس کی گردن نارِ جہنم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اسے اس کے برابر اجر ملے گا “۔
حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر کوئی اتنی توفیق نہیں رکھتا کہ روزے دار کا روزہ افطار کرائے ( تو کیا ایسے لوگ افطار کے اجر سے محروم رہیں گے؟ ) محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا : یہ اجر اسے بھی ملے گا ، جو دودھ کے ایک گھونٹ سے یا ایک کجھور سے یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے ، اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا ، تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوض (کوثر ) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔ (صحیح ابن خزیمۃ: ۲/ ۹۱۱)

(۷) گناہوں سے بچا جائے : رمضان کا خاص عمل ” روزہ “ہے ؛ جس کا‌ مقصد قرآن عظیم الشان یوں بیان کرتا ہے: ” لعلکم تتقون “ (البقرۃ:۱۸۳) ” تاکہ تم متقی بن جاؤ “ یعنی اللہ سے ڈر کر گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گذارا کرو ؛ لہٰذا رمضان میں تو بالخصوص اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم سے کہیں کوئی گناہ سرزد نہ ہوجائے ، نہ تو موبائل فون کا ناروا استعمال کرکے وقت کا ضیاع کریں اور نہ ہی گپ شپ کی محفلوں میں وقت گذاری کریں ، نہ دن بھر لغویات میں مصروف ہوکر روزہ کا نقصان کریں اور نہ ہی رات میں بےکار شب بیداری کرکے قیمتی لمحات کی ناقدری کرکے وقت خراب کریں ؛ بلکہ بندگی کا تقاضہ اور مؤمن کی شان تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ حتی المقدور کوشش کریں کہ ذکر اور عبادت کی ادائیگی و انجام دہی میں وقت صرف ہو ؛ اس لئے کہ اگر رمضان میں بھی گناہوں سے نہ بچا جائے اور گناہوں سے معافی نہ مانگی جائے تو پھر رمضان و غیر رمضان یکساں ہوجائیں گے ؛ حالاں کہ رمضان کا مقصد مغفرت و بخشش کا ہونا ہے ؛ جیسا کہ حضرت جبرائیل ؑ کی بددعا سے مفہوم ہوتا ہے اور شعر بھی ہے ؂
بخشنے پہ آتا ہے جب امت کے گناہوں کو
تحفے میں گناہ گاروں کو رمضان دیتا ہے۔

(۸) اور استقبالِ رمضان سے متعلق آخری کام یہ کہ ۲۹‚ شعبان المعظم کو چاند دیکھنے کا اہتمام کریں ؛ کیوں کہ اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے ، اور چونکہ ۲۹‚ شعبان کو غروبِ آفتاب کے بعد چاند دیکھنا (تلاش کرنا) فرض کفایہ ہے ؛ تاکہ حقیقت واضح ہوجائے کہ آئندہ دن روزہ رکھنا ہے یا افطار کرنا ہے۔

*خلاصۂ تحریر :*
ماہ رمضان جو بہت زیادہ فضیلت اور عظمت کا حامل مہینہ ہے ، اس کی قدردانی و قدر شناسی ہی حقیقی سود مندی اور دانش مندی کا تقاضہ ہے ؛ اور اگر خدانخواستہ ماہِ مبارک کی ناقدری ہوگی تو اللہ پاک اس ماہ سے محروم کرنے پر بھی قادر ہے ، کیا خبر کہ آنے والا ماہِ رمضان کس کس کی زندگی کا آخری رمضان ہو ؛ اس لئے آؤ کہ ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے خیر و خوبی کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کریں ، نہ جانے زندگی میں پھر یہ پر کیف ساعتیں نصیب ہوں کہ نہ ہوں۔
بارگاہِ ایزدی میں دعا ہے کہ امت مسلمہ کے لئے یہ ہلالِ رمضان خیرو عافیت کا پیام لائے ، اور ہمیں اس کی صحیح اور مکمل قدر دانی کی توفیق نصیب ہو آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×