اسلامیات

قرآنی آیات میں گفتگو کرنے والی ایک مبارک خاتون

مفتی عبدالمنعم فاروقی

یہ اس امت کی خوش قسمتی وسعادت مندی ہے کہ اس میں ہر دور ،ہر زمانہ اور ہر علاقہ میں ایسے افراد موجود رہے جنہیں قرآن کریم سے غیر معمولی شغف اور بے حد لگاؤ رہا ہے ، بعض وہ ہیں جنہوں نے کمسنی میں قرآن حفظ کرکے اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے ،بعض وہ ہیں جنہوں نے سفر وحضر دونوں میں روزانہ دس پارے تلاوت قرآن کا معمول بنائے رکھا، توبعض کے متعلق ہر رات ایک قرآن ختم کرنے کی معتبر روایات موجود ہیں، بعضوں نے کتابت قرآن میں اپنے شب وروز گذار کر خادمین قرآن کی فہرست میں اپنا نام درج کروالیا ، بعض وہ ہیں جنہوں کئی کئی جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی تو بعضوں نے بغیر نقطوں کی تفسیر لکھنے کا کارنامہ انجام دیااور بہت سے خوش نصیب وہ ہیں جنہوں نے پوری زندگی خد مت قرآن میں لگادی، قرآن کریم کے سلسلہ میں ان حضرات کا یہی وہ غیر معمولی جذبہ ہے کہ جس کے طفیل تاریخ اسلام میںانہیں نمایاں مقام عطا ہوا اور تاریخ کے اوراق میں ان کی قرآنی خدمات اور اس سے ان کے غیر معمولی شغف کو سنہرے حروف میں لکھا گیا ، ایسی ہی باکمال ہستیوں میں سے ایک ، قرآن کریم سے غیر معمولی شغف اور والہانہ تعلق رکھنے والی،قابل رشک حافظہ کی حامل اور باکرامت خاتون کا تذکرہ تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا گیا ہے جنہوں نے چالیس سال تک قرآنی آیات میں گفتگو کی ، مشہور محدث حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج بیت اللہ اور زیارت روضہ اقدس ﷺ کی غرض سے نکلا میرے ساتھ ایک قافلہ تھا جس میں کئی لوگ شامل تھے ،دوران سفر میری نظر ایک بوڑھی خاتون پر پڑی جو ایک درخت کے سایہ میں بیٹھی تھی اور بڑی پریشان حال نظر آرہی تھی ،میں اس خاتون کے قریب گیا اور کہا’’السلام علیکم ورحمہ اللہ‘‘ اس نے جواب میں کہا’’سلام قولا من رب رحیم‘‘( یٰسین ۵۸) (سلام بڑے مہربان رب کا قول ہے )یعنی سلام تو در اصل مہربان رب کا قول ہے اور اللہ ہی ہیں جو ہم پر تم پر اورساری مخلوق پر مہربان اور بے حد رحم کرنے والے ہیں ، سلام کا اس انداز سے جواب دے کر بوڑھی خاتون نے مجھے چونکا دیا ،میں نے پوچھااللہ تم پر رحم کرے تم یہاں کیا کر رہی ہو،اس نے کہا ’’من یضلل اللہ فلا ھادی لہ‘‘( اعراف ۱۸۶) ( جس کو اللہ بھٹکادے اس کو راہ پر لانے والا کوئی نہیں) میں سمجھ گیا کہ یہ راستہ بھول گئی ہے ،اس لئے از راہ خیر خواہی پوچھا کہاں جانا چاہتی ہو؟ تو کہنے لگی ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ‘‘(بنی اسرائیل ۱) (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (حضر ت محمد ﷺ) کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی ) میں سمجھ گیا کہ یہ حج ادا کر چکی ہے اور بیت المقدس جانا چاہتی ہے ،میں نے پوچھا : کب سے یہاں بیٹھی ہیں ؟ کہنے لگی ’’ثلث لیال سویا‘‘(مریم ،۱۰) (پوری تین راتیں) یعنی میں متواتر تین رات سے یہاں ہوں، میں نے کہا:تمہارے پاس کچھ کھانا وغیرہ نظر نہیں آتا آخر کھاتی کیا ہو؟ اس نے جواب میں کہا’’ھو یطعمنی ویسقین‘‘(الشعراء ۷۹)(وہ اللہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے) یعنی کہیں نہ کہیں سے اللہ رزق پہنچا دیتے ہیں ، میں نے پوچھا :وضو کس چیز سے کرتی ہو؟ کہنے لگی ’’فتیمموا صعیدا طیبا‘‘(المائدہ ،۶)(پاک مٹی سے تیمم کر لو) یعنی پانی یہاں دستیاب نہیں ہے اس لئے پاک مٹی سے تیمم کر لیتی ہوں ، شریعت نے پانی نہ ہونے پر تیمم کی اجازت دی ہے، میں نے کہا :میرے پاس کچھ کھاناہے کھاؤگی؟ جواب میں اس نے کہا ’’ اتمواالصیام الی الیل‘‘(البقرہ ۱۸۷)(رات تک روزوں کو پورا کرو) یعنی میں روزہ سے ہوں ،میں نے کہا : یہ رمضان کا تو مہینہ نہیں ہے ؟
تو وہ بول پڑی ’’ومن تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم‘‘(البقرہ ۱۵۸) ( جو بھلائی کے ساتھ نفلی عبادت کرے تو اللہ قدر دان اور جاننے والا ہے ) میں نے کہا :تم میری طرح کیوں بات نہیں کرتیں؟ اس نے جواب میں کہا’’ مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘(قٓ ،۱۸)(انسان جو بات بھی کرتا ہے ،اس کے لئے ایک نگہبان فرشتہ مقرر ہے) یعنی زبان سے نکلی ہوئی بات کاخدا کے سامنے جواب دینا ہے، اس لئے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے بات کرنے میں صرف قرآنی آیات ہی پر اکتفا کرتی ہوں۔میں نے پوچھا تم کس قبیلہ سے تعلق رکھتی ہو؟ اس نے جواب میں کہا ’’لا تقف مالیس لک بہ علم ‘‘(بنی اسرائیل ۳۶) (جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑو)یعنی جس سے کچھ حاصل نہیں اس بارے میں پوچھ گجھ کیوں کرتے ہو، میں نے کہا : مجھ سے قصور ہو گیا ہے براہ ِ کرم معاف کردو، تو بولی’’ لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم‘‘(یوسف ۹۲)( آج تم پر کوئی ملامت نہیں ،اللہ تمہیں معاف کرے) یعنی خیر کوئی بات نہیں میں نے تمہیں خوش دلی کے ساتھ معاف کر دیا ہے،
میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میری اونٹنی پر سوار ہو جاؤ اور اپنے قافلہ سے جا ملو، کہنے لگی’’ وما تفعلوا من خیر یعلمہ اللہ‘‘(البقرہ ۱۹۷) ( تم جو بھی بھلائی کرو ،اللہ اُسے خوب جانتا ہے) میں نے یہ سن کر اپنی اوٹنی کو اس کے قریب کر کے بٹھا دیا،مگر وہ سوار ہونے سے پہلے بولی’’قل للمؤ منین یغضوا من ابصارھم ‘‘(النور،۳۰) ( مؤ منین سے کہیں کہ وہ نگاہ نیچی رکھیں ) میں نے فورا نگاہ نیچی کرلی اور کہا سوار ہو جاؤ،لیکن جب وہ سوار ہونے لگی تو اچانک اوٹنی بگڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی اور اس جد وجہد میں اس کے کپڑے پھٹ گئے،اس پر وہ بولی ’’ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم‘‘(الشوریٰ ،۳۰) (تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کے سبب ہے)یعنی انسان پر جو مصیبت وپریشانی آتی ہے اس کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے ،میں نے کہا :ذرا ٹہر جاؤ میں اونٹنی کو باندھ دوں پھر سوار ہونا،وہ بولی’’ففھمناھا سلیمٰن‘‘ (الانبیاء ۷۹)(ہم نے سلیمان ؑ کو مسئلہ کا حل سمجھا دیا) یعنی سمجھ داری کا کام یہ ہے کہ پہلے اونٹنی باندھی جائے تاکہ سوار ہونے میں دشواری نہ ہو، میں نے اونٹنی باندھا اور کہا سوار ہو جاؤ،وہ سوار ہوگئی اور یہ آیت پڑھی ’’ سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون ‘‘ (الزخرف ۱۳،۱۴) ( پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کیا ورنہ ہم اسکو قابو کرنے والے نہ تھے ،اور بلا شبہ ہم سب اپنے پرور دگار کی طرف لوٹنے والے ہیں)یعنی یہ محض اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے ہمارے لئے سواری کا نظم کیا اور اس کو ہمارے تابع کیا ،اس پر ہم اپنے خالق کا شکر اور سواری فراہم کرنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،جس وقت ہم سب اپنے پروردگار کے یہاں حاضر ہوں گے ،وہ ضرور ہمارے ہر اچھے عمل کا بدلہ دے گا،
میں نے اونٹنی کی مہار پکڑی اور چل پڑا ،میں بڑی تیزی کے ساتھ ،زوردار آواز میں اونٹنی کو ہنکاتا چل رہا تھا ،یہ دیکھ کر وہ بولی’’واقصد فی مشیک واغضض من صوتک‘‘(لقمان ۱۹)(اپنی چال میں اعتدال سے کام لو اور اپنی آواز پست رکھو)یعنی غیر ضروری چیخ وپکار اچھی بات نہیں اور اپنی چال میں اعتدال پیدا کرو اور اپنی آواز بھی پست رکھو،اس کے نصیحت آموز کلمات سن کر میں دھیرے دھیرے چلنے لگا اور کچھ اشعار ترنم سے پرھنے لگا ،یہ سن کر اس نے کہا’’فاقرئوا ماتیسر من القرآن‘‘(مزمل ،۲۰)(قرآن میں سے جو کچھ پڑھ سکو تو پڑھو) یعنی ان اشعار پڑھنے سے بہتر ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو ، کیونکہ قرآن کے پڑھنے اور سننے والے دونوں کے لئے ثواب ہے،یہ سن کر میں نے کہا :تمہیں تو اللہ کی طرف سے بڑی خوبیوں سے نواز گیا ہے ،وہ بولی’’وما یذکر الااولوالاباب‘‘((صرف عقل مند ہی نصیحت حاصل کر تے ہیں ) یعنی جولوگ صاحب عقل ہوتے ہیں وہ ہر بات سے نصیحت پکڑتے ہیں اور اچھے کام کرکے آخرت کے لئے ذخیرہ بناتے رہتے ہیں ،کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے پوچھا تمہارا کوئی شوہر ہے؟ وہ بولی’’لا تسالوا عن اشیآء ان تبد لکم تسؤکم‘‘(المائدہ ۱۰۱) (ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بُری لگیں)یعنی تم کو اس طرح کا سوال پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ،اور یاد رکھو عقلمند لوگ غیر ضروری سوالات پوچھا نہیں کرتے،یہ جواب سن کر میں خاموش ہوگیا اور جب تک قافلہ نہیں مل گیا تب تک میں نے اس سے پھر کوئی بات نہیں کی ،
قافلہ سامنے آگیا تو میں نے اس سے کہا :یہ قافلہ سامنے ہے تمہارا اس میں کون ہے بتادو تاکہ اس تک پہنچنے میں سہولت ہوسکے،توکہنے لگی ’’المال والبنون زینۃ الحیٰوۃ الدنیا‘‘(الکہف ۴۶)(مال اور بیٹے دنیوی زندگی کی زینت ہیں)یعنی اس قافلہ میں میرے بیٹے موجود ہیں،میں نے پوچھا :قافلہ میں وہ کس کام پر مامور ہیں ، وہ بولی ’’وعلٰمٰت وبالنجم ھم یھتدون‘‘(علامتیںہیںاور ستاروں سے ہی وہ راستہ معلوم کرتے ہیں )یعنی میرے بیٹے قافلہ والوں کو راستہ دکھانے پر مامور ہیں ،چنانچہ میں ان کے خیمے کے پاس پہنچ گیا اور پوچھا اب بتاؤ ان کے نام کیا ہیں ،تو بولی’’واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا(النساء ۱۲۵)،وکلم اللہ موسیٰ تکلیما(النساء ۱۶۴)، یا یحیٰ خذ الکتاب بقوۃ‘‘(مریم ۱۲) (اور اللہ نے ابراہیمؑ کو دوست بنایا،موسیٰ ؑ سے کلام کیا ،اے یحیٰؑ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو)یعنی میرے بیٹوں کے نام ابراہیم ،موسیٰ اور یحیٰ ہیں، میں نے ان ناموں سے آواز لگائی تو تھوڑی ہی دیر میں چند نوجوان جو چاند کی طرح خوبصورت تھے میری جانب لپک کر آئے ،میں نے اس کو ان کے حوالے کیا اور جانے لگا تو اس نے مجھے ٹہر نے کا اشارہ کیا اور اپنے بچوں سے بولی’’فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکیٰ طعاما فلیاتکم برزق منہ‘‘(الکہف ۱۹) (اب اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دیکر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ تحقیق کرے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے ،سو اس میں سے تمہارے لئے کچھ کھانا لے آئے) یعنی ائے میرے بچو تم میں سے کوئی بازار جاکر کچھ کھانا لے آئے تاکہ ہمارے محسن کی ضیافت کی جاسکے،یہ سن کر ان میں سے ایک لڑکا بازار کی طرف گیا اور تھوڑی دیر بعد کچھ کھانا خرید لایا ، جب وہ کھانا میرے سامنے رکھا گیا تو اس نے مجھ سے کہا’’کلوا واشربوا ھنیئا بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ‘‘ (الحاقہ ۲۴)(اطمینان کے ساتھ کھاؤ پیو یہ سب ان اچھے کام کے عوض ہے جو تم نے پچھلے دنوں میں کئے ہیں) یعنی دوران سفر تم نے جو میری خدمت کی ہے اور مجھے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنے بچوں تک پہنچا دیا ،اس کا اصل بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی دے گا مگر اس خدمت کے عوض میں تمہاری یہ حقیر سی خد مت کرنا چاہتی ہوں براہ کرم قبول کرلیں ،حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ میں اس خداترس ، ذہانت سے بھر پور خاتون کی قرآن کریم پر اس قدر گرفت اور مہارت دیکھ کر حیران رہ گیا، اب مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اس کے لڑکوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا :تمہارا کھانا مجھ پر حرام ہے ،جب تک تم مجھے اپنی والدہ ٔ محترمہ کی حقیقت نہ بتلا دو،لڑکوں نے کہا،ہماری والدہ گذشتہ چالیس سال سے آیات قرآنی ہی کے ذریعہ گفتگو کر رہی ہیں ،یہ اس لئے کہ کوئی ایسالفظ زبان سے نہ نکل جائے جو قیامت میں اللہ کی ناراضگی کا سبب بنے ،یہ سن کر میں نے کہا :ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم(الجمعہ۴) ۔
سبحان اللہ ! اس عظیم خاتون کاقرآن کریم کے ساتھ اس قدر شغف ،آیات قرآنی پر گرفت اور قرآن سے والہانہ تعلق قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل رشک بھی ہے ،اللہ ہم سبھوں کو بھی اس کا کچھ حصہ عطا فرمائے آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×