اسلامیات

فتنوں سے حفاظت اور گمراہ فرقوں سے واقفیت ضروری

مفتی عبدالمنعم فاروقی

فتن جمع ہے فتنہ کی اس کے معنیٰ آزمائش و فساد کے ہیں ، لفظِ فتنہ اور آزمائش بیک وقت کئی چیزوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، مثلاً شر و فساد اور وبائی امراض کا دور بھی فتنہ ہے،مسلمانوں کا آپسی انتشار بھی فتنہ میں داخل ہے اورشریعت حقہ کے مقابلہ میں اپنی خواہشات کے مطابق عقائد وعبادات کے طریقے نکالنا بھی فتنہ ہی ہے ، چونکہ رسول اللہ ﷺ انسانوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ تھے ،آپ ﷺ کوہر وقت ،ہر لمحہ اور ہر لحظہ یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کسی طرح انسانوں کا ہر ایک فرد عذاب الیم سے بچ کر ہمیشگی کی نعمتوں کا حقدار بنجائے، آپ ﷺ کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ ہر انسان ایمان کی دولت سے مشرف ہوکر خدا کا مقرب بن جائے اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں کا حق دار بن جائے ، آپﷺ ہر وقت اسی فکر میں رہا کرتے تھے کہ کسی طرح آدمی گمراہی نکل کر ہدایت کی طرف آجائے اور ہدایت کی طرف آنے کے بعد پھر کبھی گمراہی کی طرف لوٹ کر نہ جائے ،آپﷺ نے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور ایمان کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی طرف توجہ بھی دلایا کرتے تھے اور ساتھ ہی ہدایت کے ملنے کے بعد گمراہی کی طرف جانے سے بچنے کی دعا بھی سکھلایا کرتے تھے ،آپﷺ نے صاحب ایمان کو یہ دعا پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی ہے : اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دیاور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ،یقینا تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے( آل عمران: ۸) ۔
بلاشبہ آپ ﷺ کی تمام انسانوں اور خصوصا ہر صاحب ایمان کے ساتھ غیر معمولی محبت ہی تھی جس کی وجہ سے آپﷺ نے انہیں آنے والے دور کے فتنوں سے نہ صرف یہ کہ آگاہ فرمایا بلکہ ان سے بچنے اور محفوظ رہنے کے طریقے بھی بتلائے ہیں ، حدیث کی کتابوں میں ایک بڑا ذخیرہ ان احادیث کا ہے جن میں آپﷺ نے قیامت کے قریب فتنوں کا ذکرفرمایا ہے ،چنانچہ محدثین کرام نے ان تمام روایات کو ’’کتاب الفتن‘‘ کے عنوان سے جمع کیا ہے ،چنانچہ یہاں ان میں سے چند کو ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ ان فتنوں سے باخبر ہو سکیں اور گمراہی پھیلانے والوں کے شر سے دور رہ کر اپنے دین وایمان کی حفاظت کر سکیں ۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یقینا میری امت کے لوگ پچھلی امت کے لوگوں کے طریقوں پر بالشت برابر یعنی بالکل ان کے نقش قدم پر چلیں گے ،یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گُھسے ہوں گے تو یہ بھی ان کی پیروی میں اس میں گُھسنے کی کوشش کریں گے ،ـــــــــــــــ۔۔۔پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ؐ کیا پچھلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو اور کون ہیں؟ یعنی بالکل یہی لوگ مراد ہیں۔(بخاری :۷۳۱۹)آپ ﷺ کے ارشاد عالی کا مطلب بالکل واضح ہے اس امت میں بعض نادان بلکہ احمق اور بصیرت سے محروم لوگ وہ ہوں گے جو تعلیمات نبوی کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کی تقلید کریں گے اور وہ جن گمراہیوں میں مبتلا ہوئے تھے یہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف گمراہ ہوں گے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، بلکہ آپ ؐنے تو یہاں تک فرمادیا کہ اگر یہود ونصاریٰ میں سے کسی پاگل اور سر پھرے نے گوہ کے بل میں گھسنے کی حماقت کی ہوگی تو میری امت میں بھی بعض جاہل اور پاگل قسم کے لوگ بالکل اسی طرح کی حرکت کتے ہوئے ان کی پیروی کریں گے اور انکی نقالی کریں گے،یقینا آج آپؐ کی یہ پیشن گوئی صد فیصد سچ ثابت ہو رہی ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض بدبخت قسم کے لوگ ہوس پرستی ،فیشن پرستی اور عقلی گمراہیوں میںمبتلا ہوکر اسوۂ حسنہ سے دور ہوکر یہود ونصاریٰ کے فریبی جال میں پھنستے جا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بد بختی ان کا مقدر بنتی جا رہی ہے ، آج امت کا ایک بڑا طبقہ کھانے پینے سے لے کر معاملات ومعاشرت تک سب چیزوں میں غیروں کی نقل کرنے لگا ہے حتیٰ کے بعض مغربیت سے متأثر جنونی فیشن پرست اسوۂ حسنہ کو دقیانوسی کانام دینے لگے ہیں(العیاض باللہ) ، حقیقت میں آپؐ کا اپنی امت کو ان فتنوں سے آگاہ کرنے کا مقصد انہیں خبر دار کرنا ، گمراہ ہونے سے بچانا اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیرؓ اس حالت میں تشریف لائے کہ ان کے جسم پر بس ایک (پھٹی پُرانی) چادر تھی جس میں کھال کے ٹکڑوں کے پیوند لگے ہوئے تھے ،انہیں اس حالت میں دیکھ کررسول اللہ ﷺ کو رونا آگیا ،انکا وہ وقت یاد کرکے جب اسلام لانے سے پہلے وہ مکہ میں نہایت عیش وعشرت کی زندگی گذارا کرتے تھے،۔۔۔۔اس کے بعد آپ ﷺ نے (ہم لوگوں سے مخاطب ہوکر) فرمایا :(بتلاؤ ) اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب (دولت اور سامان تعیش کی ایسی فراوانی ہوگی کہ) تم میں کے لوگ صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلیں گے اور شام کو دوسرا جوڑا پہن کر ،اور (کھانے کیلئے) ان کے آگے ایک پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اُٹھایا جائے گا اور تم اپنے مکانوں کو اس طرح لباس پہناؤگے جس طرح کعبۃ اللہ پر غلاف ڈالا جاتا ہے (آپ ؐ کا یہ ارشاد سن کر حاضرین میں سے بعض ) لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ اُس وقت ہمارا حال تو آج کے مقابلہ میں بڑا اچھا ہوگا ،ہم معاش کی محنت سے آزاد ہو ں گے تو اللہ کی عبادت کیلئے پوری فراغت حاصل ہوگی ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں ! تم لوگ آج( فقر وفاقہ اور تنگدستی کے اس دور میں عیش وآرام والے) اس دن کے مقابلہ میں بہت اچھے ہو(ترمذی:۲۴۸۴) حضرت عبدری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ مکرمہ کے سب سے زیادہ خوبصورت نوجوان تھے ،مکہ کے نوجوانوں میں ان کے سر کے بال سب سے زیادہ عمدہ تھے،یہ اپنے والدین کے بہت ہی چہیتے تھے،ان کی والدہ بہت مالدار خاتون تھیں وہ اپنے لڑکے کو نہایت خوبصورت اور باریک کپڑے پہنایا کرتی تھیں،آپؓ مکہ والوں میں سب سے زیادہ عطر کا استعمال کرتے تھے اور لباس کے ساتھ جوتے بھی بڑے عمدہ اور خاص کر حضر موت کے بنے ہوئے پہنا کرتے تھے،جب انہیں رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے کا علم ہوا تو یہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہو گئے ،ابتداء میں والدہ سے ڈر کر اسلام لانے کو مخفی رکھا ،جب انکی والدہ اور قبیلہ والوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے آپ کو پکڑ کر قید کر دیا چنانچہ آپ مسلسل قید وبند میں رہ کر سخت صعوبتوں کو برداشت کر تے رہے ،،پہلی ہجرت کے موقع پر حبشہ چلے گئے پھر مسلمانوں کے ساتھ واپس مکہ آگئے ، اب انکی حالت بالکل بد ل چکی تھی ، ناز ونعمت کی جگہ خستہ حالی نے جگہ لے لی تھی ،چنانچہ جب یہ پھٹے پرانے اور جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنکر آپ ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو انکی سابقہ عیش وعشرت کی زندگی یاد کرکے آپ ؐ کے آنکھوں میں آنسو آگئے ،پھر آپ ؐ نے صحابہ ؓ کے سامنے مسلمانوں کے آئندہ حالات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ عیش وعشرت اور مال ودولت کی فراوانی ہوگی ،لوگ صبح ایک جوڑا پہنیں گے تو شام کو ایک جوڑا پہنیں گے ،دستر خوان پر ہمہ اقسام کے لذیز کھانے لگائے جائیں گے ، آپ ؐ نے حاضرین سے پوچھا کہ وہ وقت تمہارے لئے کیسا ہوگا؟ تو لوگوں نے عرض کیا وہ تو بہت بہتر وقت ہوگا کہ فراغت ہی فراغت ہوگی اور ہم اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں گے،یہ سن کر آپؐ نے فرمایا ایسا نہیں ہے بلکہ آج تم لوگ جس حال میں ہویہ آئندہ کے حالات سے کہیں بہتر ہے،مطلب یہ ہے کہ آج اگر چہ لوگوں کے پاس مال ودولت کی کمی اورکھانے و پینے کی تنگی ہے ،نہایت عسرت کے ساتھ معمولی مکانوں میں زندگی بسر کی جا رہی ہے ،لوگ مسافرانہ زندگی گذار رہے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسرت وتنگی کا یہ دور ان کے حق میں عشرت وفراوانی سے کہیں بہتر ہے ، اس لئے کہ مال دولت انسان کیلئے سخت آزمائش کی چیز ہے ،عموماً دنیا کی دولت آدمی کو یاد الٰہی سے غافل کر دیتی ہے ، دولت دنیا کی دلدل میں پھنس کر آدمی دین سے دور اور آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، دنیا دار آدمی طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے اور گناہوں کی نحوست اس کے دل کو سیاہ کر دیتی ہے ،پھر آگے چل کر اس سے حلال وحرام کی تمیز چھین لی جاتی ہے ،نتیجتاً وہ خدا کا باغی اور نافرمان کہلاتا ہے ،آج مسلمانوں اور خصوصا ان مسلم ممالک اور مسلمان گھرانوں میں جن کے پاس مال ودولت کی فراوانی آچکی ہے ان کے حالا ت محتاج بیاں نہیں ہیں، ان میں سے اکثر لوگ مال ودولت اور عیش وعشرت میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے طرح طرح کی نافرمانیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں ،ان کے شب وروز دیکھ کر ایسامعلوم ہورہا ہے گویا انہوں نے دنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور آخرت اور وہاں کی دائمی زندگی کو فراموش کر چکے ہیں ، بس انکی نظر میں دنیا ہی دنیا بسی ہوئی ہے ،جس فرد اور جس قوم کی یہ کیفیت وحالت ہوجائے اس کی تباہی وبربادی میں کیا تردد ہے ،آپ ﷺ نے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس عیش وعشرت اور مال کی فراوانی کے زمانے سے یہ عسرت وتنگی کا دور کہیں زیادہ بہتر اور عافیت والا ہے کہ بندہ خدا کی عبادت اور اس کی اطا عت میں ہمہ وقت مشغول ہے ،درحقیقت انسان کی کامیابی کا مدار خدا کی عبادت واطاعت میں ہے نہ کہ اس مال ودولت کی فراوانی میں جو کہ انسان کو اپنے خالق ومالک سے غافل کردے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (عنقریب ) وہ زمانہ آئے گا کہ وقت قریب قریب ہو جائے گا،اور علم اُٹھا لیا جائے گا ،اور فتنے نمودار ہوں گے،اور (انسانی طبیعتوں میں ) بخل ڈال دیا جائے گا اور بہت حرج ہوگا،صحابہ ؓ نے عرض کیا (اے اللہ کے رسول ﷺ) حرج سے کیامراد ہے؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کشت وخون( بخاری :۷۰۶۱) ،اس حدیث میں آپ ﷺ نے آگے چل کر امت میں پیدا ہونے والے پانچ فتنوں کی نشاندہی فرمائی اور امت کو آگاہ کیااور انکی توجہ اس جانب مبذول کروا تے ہوئے فرمایا کہ جب اس طرح کے فتنے ظاہر ہونے لگیں تو سمجھو کہ یہ دور امت پر بڑ ا تباہ کن ہوگا ، (۱) ’’زمانہ قریب قریب ہوجائے گا ‘‘اگر چہ شارحین حدیث نے اس کے کئی مفہوم بیان کئے ہیں لیکن اکثر علماء نے اس کے دو مطلب بیان کئے ہیں ،ایک آدمی کی زندگی اس قدر مصروف ہوجائے گی کہ اسے اوقات کے گزرنے کا پتا ہی نہ چلے گا ،وہ دنیوی کاموں میں ایسا لجھادیا جائے گا کہ اس کی صبح وشام کیسے گزر رہی ہے اسے خود معلوم نہ ہوگا ،دوسرامطلب یہ ہے کہ اوقات سے برکت اٹھادی جائے گی یعنی اللہ تعالیٰ اس دور کے دن ورات سے برکت کو اُٹھالیں گے جس کی وجہ سے وقت اتنا جلدی جلدی گزرتا ہوا نظر آئے گا جیسے تیز سواری نظروں کے سامنے تیزی سے گزرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جتنے وقت میں پہلے والے لوگ جو کام انجام دئے تھے اتنے ہی وقت میں اس دور والے اس کا آدھا کام بھی انجام نہیں دے پائیں گے،یقینا آج تجربہ شاہد ہے کہ گھنٹہ منٹوں کی طرح ،دن گھنٹوں کی طرح ،مہینہ ،ہفتہ کی طرح اور سال مہینہ کی طرح گذرتا جا رہا ہے،(۲)’’ علم اُٹھا لیا جائے گا‘‘مطلب یہ ہے کہ علمائے ربانیین جو دراصل علم نبوت کے وارث اور امین ہیں اُٹھتے چلے جائیں گے اور ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگا اسے پُر کرنے والے پیدا نہ ہوں گے،(۳)’’ طرح طرح کے فتنے نمودار ہوں گے‘‘مطلب بالکل واضح ہے کہ ہر دن اور ہر رات نئے نئے فتنے جنم لیں گے،کبھی مال فتنہ بن کر ابھرے گا تو کبھی قرآن وحدیث کی تشریح کے نام پر اس کی غلط تاویل کرنے والے پیدا ہوں گے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کریں گے،تو کبھی نبوت کے جھوٹے دجال وکذاب پید ہوکر قصر نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک وناکام کوشش کریں گے،تو کبھی تہذیب جدید کے نام پر امت کو نبوی تعلیمات سے دور کرنے کی احمقانہ کو شش کریں گے،(۴)’’ سخاوت وفیاضی لوگوں سے نکل جائے گی‘‘مطلب یہ ہے کہ سخاوت وفیاضی جو انسان کی ایک عمدہ صفت ہے اور اللہ کو بڑی محبوب ہے ،لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گی ،لوگ مالدار تو ہوں گے لیکن بخل ان کی رگ وریشہ میں پیوست ہوجائے گا ،غریب اور ناداروں کو دیکھ کر وہ نظریں چرانے لگیں گے،(۵)’’کشت وخون عام ہوجائے گا‘‘مطلب یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کا خون بہائیں گے،انسانوں کی قیمت جانوروں سے بھی کم تر ہوجائے گی، ہر روزہر طرف سے قتل وخون کی ہی خبریں آنے لگیں گی۔
حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے قریب) جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے جو ان کے بلاوے پر اُدھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے ،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے ،ہماری زبانیں بولیں گے ،میں نے عرض کیا : اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علاحدگی اختیار کرو اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتی کہ تمہیں اس حالت میں موت آجائے(بخاری: ۳۶۰۶)۔
یقینا خیر القرون سے جتنا بعد ہوتا جارہا ہے فتنے بھی اتنے ہی نمودار ہوتے جارہے ہیں،قرب قیامت ان فتنوں میں تیزی اور شدت پیدا ہوتی جائے گی اور ایسے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے لباس وپوشاک سے لوگ دھوکہ کھائیں گے اور انہیں دینی علوم وفنون کا ماہر سمجھ کر ان سے دھوکہ کھائیں گے ،حالانکہ یہ دینی علوم سے ناواقف اور اس کی بصیرت سے محروم ہوں گے ،انہیں اہل علم کی صحبتیں حاصل نہ ہوں گی ، ان کا اندرون خواہشات سے لبریز ہوگا اور وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنی چرب زبانی کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور نقل (شریعت) کو چھوڑ کر (عقل) یعنی اپنی خواہش کے مطابق لوگوں کو باتیں بتاکر گمراہی کی طرف ڈھکیلنے کی کی بھر پور کوشش کریں ، لوگ ان کی باتوں میں آکر نہ یہ کہ صرف راہ حق سے دور ہوں گے بلکہ اپنے ایمان سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔
دور حاضر جسے فتنوں اور گمراہ فرقوں کا دور کہاجاتا ہے ،ہر روز نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور چند روز نہیں گزرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی شخص کھڑا ہوجاتا ہے اور خود کو مسلمانوں کا خیر خواہ اور مقتدا بتاکر اپنے ناقص علم یا صرف معلومات کو سامنے رکھ کر چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ،پھر چند روز نہیں گزرتے کہ ایک دوسرا شخص پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی خود کو دینی علوم کا ماہر بتاکر دین وشریعت کی خود ساختہ تشریح کرنے لگتا ہے ،یہ سلسلہ چل رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ،اس وقت فتنے عروج پر ہیں اور گمراہ فرقے اور ان کے بانیان پوری قوت کے ساتھ گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں ، دور فتن میں ایک مسلمان اور صاحب ایمان کو حددرجہ چوکنا اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکے، فتنوں کے زمانے میں ایک مسلمان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ فتنوں سے خود کو اور اپنے متعلقین کو دور رکھنے کی کوشش کریں اور جو گمراہ فرقے ہیں ان کی گمراہیوں کے متعلق اہل علم سے مکمل معلومات حاصل کریں اور ان سے اس طرح دور رہیں جس طرح دہکتی ہوئی آگ سے دور رہتے ہیں ،وقت گزاری کے لئے بھی ان گمراہ فرقوں سے قربت نہ رکھیں اور ان کے لٹریچر اور ویڈیوز سننے اور دیکھنے سے مکمل احتیاط برتیں،اس وقت یہ گمراہ فرقے سب سے بڑے فتنے بن چکے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمارے قریب سے قریب ہوتے جارہے ہیں اور دینی علوم سے ناواقف ،اہل علم سے دور اور نئے نئے معلومات کے شوقین ا ن کے چکر میں پڑکر گمراہی میں گھرتے جارہے ہیں،موجودہ دور کے خطرناک اور ایمان کش فرقوں میں سب سے بڑا گمراہ فرقہ ’’قادیانی‘‘ ہے جس کا بانی ملعون کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے جس نے خود کے جھوٹے نبی ہونے کا دعوی کرکے تاج ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور اس کے جہنم رسید ہونے کے بعد اس کے چیلے اسی کام میں مصروف ہیں ،فرقہ قادیانی کے لوگ خود کو مسلمان بتاکر خصوصا دیہاتوں میں کچھ مالی امداد کے ذریعہ لوگوں کو قریب کرکے انہیں قادیانی بنانے میں لگے ہوئے ہیں ،حالانکہ رسول اللہ ؐ کے آخری نبی ورسول ہونے عقیدہ رکھنا ایمان کا جزو ہے اس کے بغیر کوئی مسلمان ہو نہیں سکتا ،جو رسول اللہ ؐ کے بعد کسی اور کے کسی بھی طرح نبی ہونے کا عقیدہ رکھے وہ کافر اور اسلام کے دائرہ سے باہر ہے،ایک دوسرا فرقہ ’’رافضی‘‘ ہے اس فرقے میں کئی ایک فرقے ہیں مگر ان سب کا مشترک کام حضرات صحابہؓ کی توہین کرنا ہے ، حضرات صحابؓ سے بغض رکھنا اور خصوصا حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ سے دشمنی رکھنا اس فرقہ کا محبوب مشغلہ ہے،حالانکہ حضرات صحابؓ حضرات انبیاء ؑ کے بعد سب سے معزز ترین اشخاص ہیں ،انہیں رسول اللہؐ کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی ہے اور قرآن وحدیث میں ان مبارک ہستیوں کی تعریف کی گئی ،سب سے بڑا بدبخت ہوگا جو ان ہستیوں پر زبان چلائے گا۔ اسی طرح ایک اور فتنہ ’’ اہل قرآن‘‘ کا بھی ہے ،یہ درحقیقت انکار حدیث کا فتنہ ہے ، یہ فتنہ احادیث کو معتبر ماننے سے انکار کرتا ہے ،اسی وجہ سے وہ دین کے ان تمام احکامات کا انکار کرتا ہے جو احادیث سے ثابت ہیں ،اس فرقے نے احادیث کو غیر معتبر مان کر دراصل قرآن کا بھی انکار کیا ہے ،حالانکہ احادیث مبارکہ قرآن کی تشریح ہیں ،اس کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔اسی طرح ایک فرقہ ’’ جماعت المسلمین ‘‘ بھی ہے جس نے امت کو گروہ بندی سے بچانے کے لئے خود کا ایک گروہ بنالیا ہے ،یہ ایک حاکم، ایک امام ،ایک قرآن اور ایک دین کا ڈھونگ رچاکر اپنے علاوہ باقی تمام کو کافر قرار دیتے ہیں،یہ امت وحدت کا دلفریب نعرہ لگاکر لوگوں کو فریب دینے میں لگے ہوئے ہیں،اس فرقے کے بھی عجیب وغریب نظریات ہیں جو اہل علم کی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ایک اور فتنہ’’ شکیلیت‘‘ ہے اس فرقہ کا بانی شکیل بن حنیف ہے جس نے خود کے مسیح مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے(نعوذ باللہ) ،احادیث جہاں فتنہ دجال کا ذکر ہے یہ اس سے امریکہ اور فرانس کو مراد لیتا ہے ،وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیؑ ومہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ایک فتنہ’’ فیاضی‘‘ ہے یہ شخص علاج ومعالجہ کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے،وہ اپنے علاوہ سے علاج کروانے کو صحیح نہیں مانتا ،اس کا کہنا ہے کہ اس کی پیروی ہی اصل میں اللہ کی پیروی ہے ،وہ کہتا ہے کہ اس کی اطاعت کے بغیر کوئی بھی عبادت قبول نہیں ، اس وقت فیاضی فتنہ میں بہت سے لوگ اور خصوصا بکثرت عورتیں مبتلا ہیں ۔اسی طرح ایک مشہور فرقہ’’ غامدیت‘‘ ہے اس کا بانی جاوید احمد غامدی ہے جو فکری انحراف کا شکار ہے،یہ شخص قرآن وحدیث کی غلط تاولات کرتا ہے ،اس کا اپنا ماننا ہے کہ قرآن وحدیث کی وہی تشریح معتبر ہے جو اس نے کی ہے،وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی ؑ وفات پاچکے ہیں اور قیامت کے قریب کوئی مہدی آنے والے نہیں ہیں،اس گمراہ فرقہ کا بانی انٹرنیٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے ،اس وقت اس کی لپیٹ میں بہت سے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی آچکے ہیں ،ایک فرقہ’’گوہر شاہی‘‘ ہے ،اس کابانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے،یہ خود ساختہ پیر بن کر بھولے بھالے مسلمانوں کے ایمان کو برباد کر چکا ہے،اس کے جہنم رسید ہونے کے بعد اس ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے جعلی پیر کی عام موت نہیں ہوئی ہے بلکہ غیبت یعنی صرف غائب ہوا ہے اور قرب قیامت اس کا ظہور ہوگا،اس ملعون کا ماننا ہے کہ لوح وقلم اس کے تصرف میں ہیں ،اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اللہ جیسی طاقت ہے (نعوذ باللہ) ،اس وقت اس کا جانشین یونس گوہر شاہی ہے جو انٹر نیٹ کے ذریعہ گمراہی پھیلانے میں مصروف ہے۔ ایک اور خطرناک فرقہ وفتنہ’’انجینیر علی مرزا‘‘ کا ہے ،اس بدبخت کا مشن ہی حضرات صحابہؓ کی شان میں گستاخیاں کرنا ہے اور ان کی شان گھٹانے کی ناکام کوشش کرنا ہے،اس نے اپنی جماعت کانام علمی کتابی رکھاہے،مرزا جہلمی عربی سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کسی دینی ادارہ سے تعلیم حاصل کی ہے ،اس نے انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی اور وہ اپنے نام کے ساتھ لکھتا بھی ہے ،وہ احادیث کے اردو ترجمہ سے جمہور کے خلاف مطلب نکال کر پیش کرتا ہے ،وہ اکثر دھوکہ سے کام لیتا ہے۔ایک اور فتنہ’’دیندار انجمن‘‘ ہے اس فرقہ کابانی صدیق دیندار ہے،اس نالائق نے ہندووں کا اوتار چن بسویشور ہونے کا دعویٰ کیا تھا،وہ کہتا ہے کہ خدا مخلوق میں اتر سکتا ہے،یہ بدبخت مرزا غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء کا جامع مانتا ہے ،ان فرقہ باطلہ کے علاوہ اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے فرقے ہیں جو مستقل گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
جیسا کہ اور پر بتایا گیا ہے کہ اس وقت ذکر کردہ گمراہ فرقے انٹرنیٹ کا سہارا لے کر دینی تعلیم سے ناوقف یا جدید تعلیم سے آراستہ یا پھر مغربی تہذیب سے متاثر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور ان کے درمیان دین کی غلط تشریح کرتے ہوئے ان کے ایمان پر حملہ کر رہے ہیں،اس وقت بہت سی دینی درسگاہیں ،دینی تنظیمیں اور علمائے کرام ان فرقوں کا تعاقب کر رہے ہیں ،ان کا دندان شکن جواب دے رہے ہیں اور ان کے جال میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو وہاں سے نکال کر سیدھے راستہ پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا روز اول ہی سے خصوصا دونوں ریاستوں میں پوری قوت کے ساتھ فرقہ باطلہ کا پیچھا کر رہی ہے،عوام الناس کو ان گمراہ فرقوں کی گمراہیوں سے واقف کرانے کے لئے مختلف علاقوں میں’’ تفہیم ختم نبوت ورک شاپ‘‘ کے نام سے پروگرام منعقد کر رہی ہے ،اس کے ذریعہ اسکولس ،کالجس ،جدید تعلیم یافتہ اشخاص اور خصوصا عام طبقہ کو جوڑ کر ان کے سامنے عام فہم انداز میں ایمان وعقائد کی اہمیت بتاتے ہوئے گمراہ فرقوں کا تعارف اور ان کی گمراہیوں کو واضح کر رہی ہے تاکہ ان سے بچنے میں مدد مل سکے ،اس کے علاوہ قادیانی سے متاثر علاقوں میں مستقل محنت کرتے ہوئے ان لوگوں کو جو قادیانی بن چکے ہیں یا ان سے متاثر ہو چکے ہیں کو عقیدہ ختم نبوت سے واقف کراتے ہوئے انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں،اور د قصبات ویہات کے دورے کرتے ہوئے بڑی محنت کے ساتھ انہیں جوڑ کر ان کے سامنے فتنہ قادیانیت اور دیگر گمراہ فرقوں کی حقیقت بیان کرکے ان کے دین و ایمان کی حفاظت کی کوششیں کر رہے ہیں ،اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم ہے کہ محنتیں رنگ لارہی ہیں اور لوگ گمراہی سے تائب ہوکر دین سے جڑتے جارہے ہیں ،اب تک ہزاروں لوگ گمراہ فرقوں کی گرماہیوں سے آگاہ ہوچکے ہیں اور بہت سے وہ لوگ جو ان گمراہ فرقوں سے متاثر ہوچکے تھے تائب ہوکر صحیح راستہ کی طرف آچکے ہیں اور بہت سے قادیانی علاقہ تائب ہوکر اور رسول اللہ ﷺ کو اپنا آخری پیغمبر مان کر آپﷺ کی سیرت ومبارک تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے اس عظیم کام کے لئے لوگ جوق درجوق آگے بڑھیں اور تحفظ ایمان ،تحفظ ختم نبوت اور ان جیسے پروگراموں میں عوام الناس اور خصوصا نوجوانوں کو جوڑنے کی فکر کریں تا کہ انکا دین ایمان محفوظ رہے ، اللہ تعالیٰ ان فتنوں اور گمراہ فرقوں سے جرأت وہمت کے ساتھ مقابلہ کی توفیق عطا فرمائے ،جو حضرات تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ایمان کی محنتیں کر رہے ہیں ان کی محنتوں کو قبول فرمائیں ،گمراہ فرقوں سے متاثر لوگوں کو ہدایت عطا کرے اور تمام مسلمانوں کو ان تباکن ،ایمان کش فتنوں سے محفوظ رکھے،آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×