اسلامیات

فتنوں سے آگاہ رہیں اورحفاظت ِ ایمان کی فکرکریں!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری ڈائرکٹرالقلم فاؤنڈیشن کریم نگر

ایمان اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے ،اسلام کی ہدایت سے سرفرازہونایقینا بہت بڑا انعام ہے۔دین اسلام کے بغیر کوئی بھی مذہب اور طریقہ اللہ تعالی کو قبول نہیں ۔قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا:وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(ال عمران:۸۵)جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا،تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا،اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جوسخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
ایمان کی بنیاد پر ہی آخرت کی ابدی کامیابی انسان کو نصیب ہوگی ،انسان اعلی ترین نعمتوں کا حق دار بنے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔نبی کریمﷺ سے اس سلسلہ میں بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ایک ارشاد ہے کہ:ابشرواوبشروا من وراء کم انہ من شھد ان لاالہ الااللہ صادقا بھا دخل الجنۃ۔( الجامع الصغیر للسیوطیؒ :۸)خوش خبری لواور دوسروں کو خوش خبری دے دو کہ جو شخص سچے دل سے لاالہ الا اللہ کا اقرار کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
ایمان پر ہی زندگی کا خاتمہ ہوجائے یہ سب سے بڑی سعادت ہے ،او ر اس سلسلہ میں قرآن کریم میں متوجہ بھی کیا گیا ہے:ارشاد ہے:یایھاالذین امنوا اتقوااللہ حق تقتہ ولاتموتن الاوانتم مسلمون۔( ال عمران:۱۰۲)اے ایمان والو!دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے ،اور خبردارتمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے،بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کی دعا نقل کی گئی جس میں انہوں نے سلامتی ٔ ایمان کے ساتھ موت کی تمنا اللہ تعالی سے فرمائی ۔چناں چہ ارشاد ہے: توفنی مسلماوالحقنی بالصلحین۔( یوسف:۱۰۱)مجھے اس حالت میں دنیا سے اٹھانا کہ میں تیرا فرماں برداررہوں ،اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرما۔‘‘
اپنی اولاد کا خاتمہ دین پر ہو اس کی فکر انبیاء کرام ؑ کو کس درجہ ہواکرتی تھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں حضرت یعقوب ؑ کا واقعہ بیان کیا گیا کہ انہوں نے اپنی اولاد سے فرمایا:یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن الاوانتم مسلمون۔( البقرۃ:۱۳۲)اے میرے بیٹو!اللہ نے یہ دین تمہارے لئے منتخب فرمالیا ہے،لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔‘‘
ہر حال میں توحید پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے فرمایا:لاتشرک باللہ شیئا وان قتلت حرقت۔(طبرانی :۱۵۶)اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا چاہے تمہیں قتل کردیا جائے یا جلادیاجائے۔
نعمت ِ اسلام سے مشرف ہونے کے بعد تاحیات صراط ِ مستقیم پر گامزن رہنا اور جادہ ٔ اعتدال پر قائم رہنا یہ بھی توفیق ِ الہی ہی سے نصیب ہوتا ہے۔عقیدہ وایمان کے خلاف شروع ہی سے سازشیں اورکوششیں ہوتی رہی ہیں ،دلوں سے ایمان کو نکالنے اور فکرونظر کے زاوئیے کوبدل کر بد اعتقادی وین بیزاری پیداکرنے کی باطل طاقتیں ہمیشہ کوشش میں لگی رہی۔توحید ورسالت جیسے بنیادی عقیدے اور ضروریات ِ دین جیسے اہم ارکان کے خلاف شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے اور فکری وعملی جہت سے کمزور کرنے کے لئے ممکنہ حربے استعمال کئے گئے اور آج کے دورِ پُر فتن میں بھی کئے جارہے ہیں۔
موجودہ دور میں جہاں خارجی بہت سے مسائل ہیں ،وہیں داخلی طور پر نت نئے فتنے ظاہر ہورہے ہیں ،اسلام کالبادہ اوڑھ کر بدعقیدگی اور بے دینی کو پھیلارہے ہیں ،قرآن وسنت کانام لے کراسلام سے برگشتہ کررہے ہیں اور بالخصوص نئی نسل کو دین سے دور کررہے ہیں۔نبی پاک ﷺ کے بے شمار احسانات میں سے یہ بھی احسان عظیم ہے کہ آپﷺ نے قرب ِ قیامت رونماں ہونے والے فتنوں کے بارے میں امت کو آگاہ کیا،فتنوںسے بچنے کے طریقے بتائے۔ایمان وعقیدہ کو تباہ کرنے اوردنیا وآخرت کو بربادکرنے والے فتنوں سے امت کو باخبر کیا۔مختلف قسم کے فتنوں کی تفصیلات بیان فرمائی ،تاکہ امت ان فتنوں سے اپنے دامن ِ ایمان کو بچائے اور سلامتی ٔایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو۔فتنوں کی سنگینی اور خطرناکی کو کس طرح آپ ﷺ نے بیان فرمایااس سلسلہ میں چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ان تاریک فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرلو،جو اندھیری رات کی تہہ بہ تہہ تاریکیوں کے طرح ہوں گے،آدمی صبح کو مومن ہوگااورشام کو کافر،یاشام کو مومن ہوگااور صبح کو کافر،دنیا کے چند ٹکوں کے بدلے اپنا دین بیچتا پھرے گا۔( ترمذی: ۲۱۹۵باب ماجاء ستکون فتنۃ کقطع اللیل)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:عنقریب ایسا فتنہ رونماہوگا جو اندھا ،بہرا،اورگونگا ہو،جو اُس کو جھانک کر بھی دیکھے گا،فتنہ اسے اپنی طرف کھینچ لے گا۔(ابوداؤد:۴۲۶۴ باب کف اللسان)اندھا بہرا اور گونگا ہونے کا مطلب یہ ہے اس میں حق دیکھا،سنا اور بولا نہ جائے گا،حق اورباطل کا امتیاز ختم ہوجائے گا۔( عون المعبود :۲/۱۹۴۳دارابن حزم )
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:فتنے یکے بعد دیگرے اس طرح در آئیں گے ،جس طرح چٹائی میں یکے بعد دیگرے تنکا در آتا ہے؛چناں چہ جس دل نے ان فتنوں کو قبول کرلیا ،وہ اس میں پوری طرح رچ بس گئے،اس پر ( ہر فتنے کے عوض) ایک سیاہ نقطہ لگتا جائے گااورجس قلب نے ان کو قبول نہیں کیااس پر( ہر فتنہ کورد کردینے کے عوض) ایک سفید نقطہ لگتا جائے گا،یہاں تک کہ دلوں کی دو قسمیں ہوجائیں گی ۔ایک سنگ ِ مرمر جیسا سفید کہ اسے رہتی دنیا تک کوئی فتنہ نقصان نہیں دے گااور دوسرا خاکستری رنگ کا سیاہ الٹے کوزے کی طرح ( کہ خیر کی کوئی بات اس میں نہیں ٹکے گی) یہ بجز خواہشات کے ،جو اس میں رچ بس گئی ہیں،نہ کسی نیکی کو نیکی سمجھے گا،نہ کسی برائی کو برائی ( اس کے نزدیک نیکی اور بدی کا معیار بس اپنی خواہشات ہوگی) ( مسلم مع فتح الملھم:۱۱۱/۲؛باب رفع الامانۃ والایمان من بعض القلوب)فتنوں سے مراد شراح ِ حدیث نے ’’فاسد وگمراہ نظریا ت ،باطل افکار اور نفسانی خواہشات کو قراد دیاہے۔( مظاہر حق جدید:۵۲۸/۴،مرقاۃ :۱۰/۴دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:آخری زمانے میں بہت سے جھوٹے مکارلوگ ہوں گے جو تمہارے سامنے ( اسلام کے نام سے نئے نئے نظریات اور) نئی نئی باتیں پیش کریں گے جو نہ کبھی تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے باپ دادا نے،ان سے بچنا !ان سے بچنا!کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ،اور فتنہ میں نہ ڈال دیں۔!( مسلم مع فتح الملھم:۱/۲۶۰)
آخر دور میں دین کے نام پر خلافِ دین باتیں پیش کرنے والے بہت سے لوگ ظاہر ہوں گے جن کے فتنے سے ہوشیار رہناہر ایمان والے کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ باطل کی پیروی سے بچ جائے ۔ا س سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ چشم کشا ارشاد پیش نظر ہونا چاہیے کہ آپ ؓ نے فرمایا:تم لوگ یہ دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہو؟اور کن لوگوں سے دین کا علم حاصل کررہے ہو؟کیوں کہ آخری زمانے میں شیاطین انسانوں کی شکل میں انسانوں کو گمراہ کرنے آئیں گے اور اپنی جھوٹی باتوں کو سچ باور کروانے لئے من گھڑت سندیں بیان کریں گے اور ’’حدثنا واخبرنا‘‘کہیں گے یعنی مجھے فلاں نے بیان کیا ،مجھے فلاں نے خبر دی وغیرہ وغیرہ ۔( کنزل العمال:۲۹۱۳۱؛۱۰/۲۴۱موسسۃ الرسالۃ)
فتنوں کے دور میں جو فتنوں سے محفوظ رہا نبی کریمﷺ نے اس کو خوش نصیب انسان قراردیا۔چناں چہ آپ ﷺ کا ارشادہے:خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان فتنوں سے محفوظ رکھا گیا۔خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان فتنوں سے محفوظ رکھا گیا۔خوش نصیب ہے وہ شخص وہ ان فتنوں سے محفوظ رکھا گیا۔اور وہ بھی جو ان میں مبتلا کیا گیا مگر اس نے صبر کیا۔( مشکوۃ:حدیث۵۲۶۶)اس حدیث میں آپ ﷺ نے فتنوں سے محفوظ رہنے والے کے لئے تین مرتبہ خوش نصیبی بیان فرمائی۔
فتنوں کے بارے میں نبی کریمﷺ نے جو آگاہ فرمایا ان میں سے یہ چند ارشادات نقل کئے گئے ،ان کے علاوہ مختلف فتنوں سے متعلق آپ ﷺ نے امت کا باخبر کیا،تاکہ قبل از وقت مسلمان فتنوں کی حقیقت کو سمجھیں اور اس سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔فتنوں کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں:’’فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے،اور لغت میں اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ سونے کو آگ پر تپاکر یہ دیکھاجائے کہ وہ کھرا ہے یا کھوٹا؟چو ں کہ اس عمل کا مقصد سونے کی آزمائش ہوتا ہے،اس لئے ہر آزمائش کو فتنہ کہ دیا جاتاہے،جب کوئی بد عملی فیشن بن جائے تو وہ بھی ایک فتنہ ہے،کیوں کہ یہ انسان کی آزمائش کا موقع ہے کہ وہ فیشن کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے یا اس کی حقیقی برائی کا ادراک کرکے اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھتا ہے،جب کوئی فکری گمراہی نظرفریب دلیلوں کا ملمع چڑھاکر معاشرے میں پھیلتی ہے تو وہ بھی ایک فتنہ ہے،اس لئے کہ اس میں انسان کی بڑی آزمائش ہے کہ آیاوہ ظاہری ملمع سے مرعوب ہوکر حق کو چھوڑبیٹھتا ہے یاگمراہی کی تہہ تک پہنچ کر اس کامقابلہ کرتاہے۔۔۔۔‘‘( ذکر وفکر:۲۲۹)
فتنوں کی تقسیم کے بارے میں مولانا سید احمد ومیض ندوی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :’’بعض علماء نے سارے فتنوں کو دو قسموں میں سمودیاہے۔(۱) عملی فتنے(۲)علمی فتنے۔عملی فتنوں میںمعاشرتی بگاڑکی ساری شکلیں شامل ہیں،جیسے زنا،شراب،سودخوری،رشوت،بے حیائی عریانیت،رقص وسرود،ظلم وغیرہ ،اخلاقی بیماریاں،علوم وفنون اور نظریات کے راستے سے آنے والے فتنے علمی فتنوںکے ذیل میں آتے ہیں۔جیسے قدیم زمانہ میں باطنیہ فتنہ تھا،قرامطہ کے دور میں یہ فتنہ خوب پھیلاجس کے نتیجہ میں الحاد وتحریف کا دروازہ کھل گیا،موجودہ دور میں یہود ونصاری کے ذریعہ علمی فتنے عروج پر ہیں ،نت نئے نظریات کے سہارے حق کو مشتبہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘(موجودہ دور کے فتنے اور ان کاعلاج:۲۶)
فتنوں کی حقیقت اور تقسیم کو سمجھنے کے لئے درج بالا دو تحریریں پیش کی گئی ،موجودہ دور میں بڑی تیزی کے ساتھ علمی فتنے خاص کر پھیل رہے ہیں،افکار ونظریات کو بدلنے ،عقیدہ وایمان کو متزلزل والے افراد واشخاص ظاہر ہورہے ہیں۔عالمی سطح پر بھی ،ملکی اور ریاستی سطحوں پر بھی بہت سے جھوٹے اور مکار لوگ اپنے باطل نظریات کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں،جب سے انٹر نیٹ آیااور سوشل میڈیانے اپنا دائرہ پھیلایا،اس وقت سے دور دراز ،کونے اور کنارے میں بیٹھے عیار بھی اپنی باطل فکروں کو دنیا میں پہنچارہے ہیں،اور اس کی زد میں نوجوان آرہے ہیں اور اس سے متاثر ہورہے ہیں۔بے خبری اور لاعلمی کی وجہ سے ان فتنہ بازوں کے جال میں پھنس رہے اور پھر آہستہ آہستہ ان کے آلہ کار بن کر باطل نظریات کی ترویج واشاعت میں لگ رہے ہیں۔فتنوں کا شکار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں،صحیح علم کا نہ ہونا،دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف ہونا،اسلام کے ارکان وعقائد سے بے خبر رہنا۔ایک اہم وجہ یہ بھی ہے علماء دین سے وابستگی کا فقدان ہے،قرآن وسنت کے ماہرین سے اگر تعلق نہیں ہوگا تو ایمان وعقیدوں کو کمزور کرنے والے فتنوں کے بارے میں واقفیت کیسے ہوگی؟کیسے معلوم ہوگا کہ کون فتنہ بن کر دین وایمان کو کمزورکرنے میں لگاہواہے؟ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد پر نظررکھیں،ان کے افکار وخیالات کاجائزہ لیتے رہیں ،تعلیم کے نام پر بالکل بھی آزاد نہ چھوڑدیں ،دنیوی تعلیم کے ساتھ اس بات کی بھی فکر ہوکہ ان کے اعمال واخلاق خراب نہ ہواور ان کے افکار ونظریات قرآن وسنت کے خلاف نہ جائیں۔قرآن وسنت کی عظمت،اصحاب ِ رسول کی محبت،اسلاف امت کی قدرومنزلت ان کے دلوں میں ہو۔عقیدہ ٔ توحید میں کمی نہ آئے اور نبی کریمﷺ سے رشتہ ٔ الفت ومحبت ہمیشہ قائم رہے۔
نبی کریمﷺ نے نہ صرف فتنوں سے آگاہ کیا بلکہ فتنوں سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں بھی سکھائیں ،ان دعاؤں کے اہتمام سے بھی ان شاء اللہ فتنوں سے حفاظت ہوگی۔آپﷺ نے مختلف فتنوں سے حفاظت مانگی اور کثرت کے ساتھ الگ الگ الفاظ میں آپ ﷺ سے دعائیں منقول ہیں۔اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر ،واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال،واعوذبک من فتنۃ المحیا،وفتنۃ الممات۔(بخاری:۸۳۲)اعوذ باللہ من عذاب النار ،اعوذباللہ من الفتن ماظھر منھا ،ومابطن ۔( طبرانی:۱۲۷۷۹)نبی کریمﷺ نے حضرات صحابہ کرام ؓ سے فرمایا:ظاہری وباطنی تمام فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو،حضرات صحابہ کرام ؓ نے اس موقع پر یہ دعا مانگی :نعوذباللہ من الفتن ماظھرمنھا ومابطن۔ہم اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں تمام ظاہری وباطنی فتنوں سے( مستفاد: تاریک فتنے:۷۰)
اس لئے فتنوں کے اس دور میںکسی کے فریب میں آنے سے پہلے حقائق کو جاننا اور صراط ِ مستقیم پر قائم رہنے کے لئے فتنوں کے ماہرین ،حاملین قرآن وسنت علماء کرام سے رابطہ کرکے حقیقت ِ حال سے باخبر ہونا ضروری ہے،تاکہ ایمان سلامت رہے،عقیدہ توحیدورسالت میں کسی طرح کی کمزوری نہ آئے اورکامل ایمان کے ساتھ پروردگار کے حضور حاضر ہوں۔
فتنوں سے اگہی اور فتنہ باز وں سے باخبری ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے،اس کے لئے علماء کرام کی جانب سے کوششیں اور محنتیں بھی ہوتی ہیں ،خاص کر ہماری ریاست میں مجلس تحفظِ ختم نبوت تلنگانہ وآندھراپردیش کی جانب سے شہر واضلاع میں ایک روزہ ’’تفہیم ِ شریعت‘‘ پروگرامس کا انعقاد بھی کیاجاتا ہے۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی شہر کریم نگر میں ان شاء اللہ ۲۰ جنوری کی عصر سے ۲۱ جنوری ۲۰۲۴ کی عشاء تک بروز ہفتہ واتوار ’’ایک روزہ تفہیم ختم نبوت ورکشاپ‘‘مسجد نعیم حسینی پورہ میں منعقد ہونے والا ہے۔حضرت مولانا محمد ارشدعلی قاسمی صاحب جنرل سکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ وآندھرا کی صدارت اور حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ ناظم اشرف العلوم حیدر آباد کی سرپرستی میں منعقد ہوگا،اس تربیتی ورکشاپ کے کنوینر مفتی محمد غیاث محی الدین صاحب صدر مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع کریم نگر ہیں۔عوام وخواص کے لئے یہ ایک زرین موقع ہے کہ اس سے استفادہ کریں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×